Skip to content

مجھ ناتواں پہ کاش نہ بارِ غزل پڑے

غزل

زار

مجھ ناتواں پہ کاش نہ بارِ غزل پڑے
کوئی چراغ ہو کہ سرِ شام جل پڑے

صحرا کے تیوروں کی خبر خوب تھی مگر
بے اختیار ہو گئے، گھر سے نکل پڑے

کلیوں کا خون خاکِ گلستان پی گئی
بادل ہوا کے زور پہ چپ چاپ چل پڑے

پھر ناگہانیوں سے وہ بھونچال آ گیا
راوی کے پانیوں میں سے گوہر اچھل پڑے

بیٹھا گیا نہ راہ میں ذلت کے خوف سے
بھوکے، قدم بڑھائے تو رستوں میں بل پڑے

راحیلؔ آب دیدہ غزل کہ گیا ہے، دیکھ
کس کوہِ سنگلاخ سے چشمے ابل پڑے

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو شاعر۔

Prevپچھلا کلامبنوں میں شہرۂ انصاف و عدل جب پہنچا
اگلا کلامذوق محدود، شوق لامحدودNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

زار

اردو کتاب۔ راحیلؔ فاروق کا پہلا مجموعۂ کلام۔ ایک فارسی اور ساٹھ اردو غزلیات پر مشتمل مختصر دیوان۔ مطبوعہ ۲۰۱۰ء۔

آپ کے لیے

گم ہے محفل، فسانہ بھی گم ہے

10 جولائی 2010ء

نہ ہوئی چارہ گری دنیا میں

10 جولائی 2010ء

شعر بیچوں گا، زہر کھا لوں گا

10 جولائی 2010ء

اگر نالۂ من رسد تا بہ پرویں

10 جولائی 2010ء

نہ مجھے بھول سکے اور نہ اسے یاد رہے

10 جولائی 2010ء
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
Cleantalk Pixel