سائے سائے سے باندازِ دگر لے ڈوبے
مجھے منزل سے بھی آگے کے سفر لے ڈوبے
وہ جو پھرتے تھے خبر تیرگیوں کی لیتے
اِدھر آئے تو کئی چاند اِدھر لے ڈوبے
ابنِ آدم کی تو بو تک نہ رہی گلیوں میں
میری بستی کو خداؤں کے یہ گھر لے ڈوبے
کیسے خاموش اندھیروں میں چھپے بیٹھے ہیں
ایسے اندھیر کہ امیدِ سحر لے ڈوبے
میرے ہم راز نے کیا خوب کہا تھا راحیلؔ
تجھے ممکن ہے یہی ذوقِ نظر لے ڈوبے
پس نوشت: اس غزل کو نظرِ ثانی کے بعد اردو گاہ پر دوبارہ پیش کیا جا چکا ہے۔