دیباچہ
ہندوستانیوں کا مزاج ہمیشہ سے مزاح پسند ہے، خاص کر لکھنؤ میں یہ عادت طبیعت ثانی بن گئی ہے۔ اور حقیقت میں مذاق کلام کا نمک ہے۔ جس طرح کھانا بغیر نمک بے مزا رہتا ہے اسی طرح گفتگو میں اگر مزاح کی نمک پاشی نہ ہو تو مزا نہیں آتا۔ اس پر بھی مذاق خاص و عام میں فرق ہے اور مذاق صحیح وہی ہے جس میں تہذیب ہاتھ سے نہ گئی ہو۔ یہ ایک فن خاص ہے۔ شاہی میں تو اُمرا اور رؤسا کے مصاحبین اس کو فن شریف سمجھ کر حاصل کرتے تھے اور اسی کا نام علم مجلس تھا۔ ہر چیز کا اعتدال اچھا ہوتا ہے۔ ہنسنا ضرور باعث تفریح طبع ہے لیکن خندۂ بیجا باعث انقباض خاطر ہوتا ہے۔ عقلا نے ہنسی کے بھی مراتب قائم کیے ہیں۔ مذاق، تمسخر، ظرافت، مزاح، دل لگی میں فرق ہے۔ زمانۂ شاہی میں شرفا زادے طوائفانِ شہر سے علم مجلس حاصل کرتے تھے اور طوائفوں کو ظرافت میں ایسا کمال حاصل ہوتا تھا کہ اچھے اچھے شہزادوں پر آوازے کستی تھیں اور وہ ان کو شربت کے گھونٹ کی طرح پی جاتے تھے اور ان کی شیریں زبانی کی داد دیتے تھے۔ کوئی لفظ بھی بار خاطر نہ ہوتا تھا۔ ایسی گفتگو کے تحت میں چند نکات پوشیدہ ہوتے ہیں جن کو اُردو کے صنائع بدائع میں شمار کرنا چاہیے۔ ضلع، جگت، پھبتی، اوکھی، طعن، کنایہ، ذو معنی، رعایت لفظی اردو ظرافت کے جزوِ اعظم ہیں اور ان کے لیے بھی استعداد و علمیت کی ضرورت ہے۔ پھر محاورے اور روزمرہ سے کوئی فقرہ الگ نہ ہونے پائے۔ ظرافت با مزہ وہی ہے جو برجستہ اور بروقت ادا ہو جائے۔ روتے ہوئے آدمی کو ہنسا دے۔ ایسے لطیفے اتفاق سے ادا ہو جاتے ہیں۔ عوام الناس انھیں لطیفوں کو “چھٹیاں اور اُڑان” کہتے ہیں۔ ایسے لطیف لطیفے جو طبیعت کو سرور بخشیں، کبھی کبھی شعرا کے قلم سے نکل جاتے ہیں جن کی تاثیر قلب و جگر پر تیر و نشتر کا کام کرتی ہے۔ یہ بات ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتی۔ خاص خاص لوگ اس کے اہل ہیں۔
میں جس وقت خواجہ محمد عبد الرؤف عشرت لکھنوی کے ادبی، تاریخی اور اخلاقی مضامین کتابی صورت میں جمع کرنے کی فکر میں تھا اور ایک ایک رسالے ایک ایک اخبار کی تلاش میں شہر شہر پھرتا تھا، ایک ایک پرچے کی چوگنی چوگنی قیمت ادا کرتا تھا۔ کبھی دوست احباب کی خوشامد تھی، کبھی غیر شناسا کا احسان اُٹھانا پڑتا تھا اور سبب بھی یہی تھا کہ برسوں کے پُرانے رسالے جس کے پاس تھے خاص کر جن میں خواجہ صاحب کے مضامین تھے، لوگ ان کو جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے اور بحفاظت تمام رکھتے تھے۔ اُن کے دینے میں بخل کرتے تھے اور حقیقت حال بھی یہی ہے۔ کتاب عاریت دینے کا رواج اس زمانے میں متروک ہو گیا ہے۔ لیکن خدا نے مجھے اس تلاش میں کامیاب کیا، خاص کر کلکتہ، الہ آباد، کان پور اور لکھنؤ سے اکثر پرچے دستیاب ہو گئے۔ بعض مضامین میں نے لائبریریوں سے اخبارات اور رسالجات کے فائل نکلوا کر نقل کیے۔ کچھ پرچے خواجہ صاحب سے بھی ملے، پھر بھی بہت سے مضامین کی اب تک مجھے تلاش ہے اور ان کے ملنے کی فکر ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اس تلاش میں بعض پنچ اخباروں مثلاً اودھ پنچ لکھنؤ، جنرل پنچ لکھنؤ، الپنچ بانکی پور، پنچ بہادر بمبئی، فتنہ گورکھپور، ظریف لکھنؤ وغیرہ وغیرہ میں ظرافت کے مضامین نظر آ گئے۔ جو دلچسپی اور تفریح طبع سے خالی نہ تھے۔ اگر کل مضامین جمع کیے جاتے تو ایک ضخیم کتاب ہو جاتی۔ میں نے اس مجموعے کا عطر نکال لیا اور خاص خاص مضامین چن کر ایک کتابی صورت میں مرتب کر لیے۔
یہ دیکھ کر ناظرین متعجب ہوں گے کہ جو شخص اتنا متین، اتنا بڑا ادیب، اتنا مہذب نگار ہو، اس کے قلم سے ظرافت ایسی برجستہ ادا ہوتی ہے جیسے کڑی کمان سے تیر۔ ایک ایک فقرہ لٹائے دیتا ہے، پیٹ میں بل پڑ پڑ جاتے ہیں۔ نظم دیوار قہقہہ ہے تو نثر کشت زعفران۔ یہ بات عموماً دیکھی گئی ہے کہ ظرافت میں ناظم شاعرانہ قواعد و ضوابط کا لحاظ نہیں رکھتے۔ عامیانہ الفاظ استعمال کر جاتے ہیں۔ متروکات کی پابندی کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ اکثر تو ردیف قافیے کی بھی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ لیکن خواجہ صاحب کی نظم ان رکاکتوں سے پاک ہے۔ ان کی ظرافت آمیز نظمیں بھی شاعرانہ خود داریوں کو لیے ہوئے ہوتی ہیں۔
تفریح طبع کے لیے اس کتاب کا کتب خانے میں موجود ہونا اور مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ آپ کسی رنج کسی فکر میں ہوں، اس نقش ظرافت کو عمل کے طریق پر ایک دفعہ پڑھ جائیے، سارے غم، ساری فکریں دل سے کوسوں دور ہو جائیں گی۔
امید ہے کہ یہ کتاب دماغی محنت کرنے والوں کی تفریح طبع میں معجون مرکب اور تسخیر ہمزاد کا کام دے گی۔ اور طبیعتوں میں شگفتگی پیدا کرے گی۔ دیکھنے اور سننے والے ہمیشہ ہنستے اور ظرافت کے مزے لیتے رہیں گے۔
یہی وہ کتاب ہے جو ایک مرتبہ پڑھ چکنے کے بعد بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی۔
سرائے میوہ، لکھنؤ احقر نشترؔ عفی عنہ
یکم مارچ 1918ء
پری زادوں کا جلسہ
اس میں شک نہیں کہ لکھنؤ باعتبار تماش بینی و حُسن پرستی “رنڈیوں کا دار السلطنت” ہے۔ صورت، شکل، رعنائی، دل ربائی، طرح داری، عیاری، مکاری، ستم شعاری، عشوہ، غمزہ، چالاکی، بے حیائی کے لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ حسن کی دیوی نے یہاں گومتی ماتا کی گود میں جنم لیا ہے۔ اسی ادائے دلکش کو یاد کر کے ناسخ مرحوم کہتے ہیں ؎
گُل سے رنگین تر ہیں خارِ لکھنؤ
نشہ سے بہتر خمار لکھنؤ
ابھی تک اس شہر میں یہ بات حاصل ہے کہ دیہات سے جو سیدھا سادہ حسین مہ جبین آ جاتا ہے، کچھ دنوں کی نشست برخاست کے بعد شوخی، طراری، غمزہ جاں ستاں سیکھ کر دل ربائی کا مدرس اول بن جاتا ہے۔
اسی وجہ سے ہندوستان بھر کی طوائفوں کا تخت گاہ لکھنؤ قرار پایا۔ سرپرستی کے لحاظ سے اس تخت گاہ پر والیِ سلطنت یا رئیسۂ ریاست ہونا ضرور تھا۔ پھر حسینوں کا سردار بھی لازمی حسین و مہ جبین بلکہ چندے آفتاب چندے مہتاب ہونا چاہیے۔ رنڈیوں کے انتخابی ووٹ سے اس گدی کی جانشین یا چودھرائن ماہ منیر اور بدر منیر قرار پائیں۔ ان “خاتونان یغما” کے حسن سیاسی سے کل امور کا فیصلہ جو اچھی اچھی عدالتوں سے برسوں میں طے نہ پائے، ان کی ایک ادائے مستانہ سے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔
یوں تو شہر کی تمام طوائفیں دیرینہ حوصلے نکالنے کی غرض سے کبھی کبھی محفل رقص و سرود اور جلسۂ عیش و نشاط قرار دیا کرتی ہیں، لیکن چونکہ کوئی اصولی قوّت ان کو حاصل نہیں، لہذا اکثر بازیچۂ طفلاں بن کر ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتا ہے۔
چودھرائن کے جلسے میں معلم الملکوت کے انتظام سے کسی قدر لطف جسمانی و شفاے روحانی حاصل ہوتی ہے۔ رشک منیر کی چھٹی کے دیکھنے والے تو اس عظیم الشان جلسہ کے مزے اب تک لوٹ رہے ہیں اور کہنے والے کہتے ہیں کہ اب ایسا دلکش سین اس عالم اسباب میں نظر آنا مشکل ہے۔ چھٹی کے بعد سے ان پریوں کا خاموشی کے ساتھ سناٹا کھینچنا تعجب خیز امر تھا۔ خدا خدا کر کے پھر سردی کے زمانہ میں طبیعتوں میں گرمی پیدا ہو گئی اور جھٹ رشک منیر کی روزہ کشائی کے جلسہ کی ٹھہرا دی۔
تورے کی تقسیم باقاعدہ سیر چشمی سے مع ارتن برتن کے ہوئی۔ شہر کے تمام رئیس از کہ تا مہ مدعو کیے گئے، رنڈیوں کو بلاوے دیے گئے، گویا عید میں دوسری عید کا سامان ہونے لگا۔ جلسہ کا دار القیامہ آغائی صاحب کا باغ تجویز ہوا جو ایک غیر آباد جگہ تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ حسین مہ جبین لولیوں کے واسطے یہی مقام مناسب اور موزوں تھا۔ کیونکہ بقول داغ ؎
بتان ماہوش اُجری ہوئی منزل میں رہتے ہیں
کہ جس کی جان جاتی ہے اسی کے دل میں رہتے ہیں
قیاس اقترانی کے لحاظ سے بعض کوتہ اندیش حکم لگا بیٹھے تھے کہ ڈاکہ ضرور پڑے گا۔ اس خیال سے پولیس کو ایک نگاہ دلفریب سے اشارہ کر دیا گیا۔ مکان کے اردگرد پہرہ مقرر ہو گیا۔
جلسہ کا سین قابل دید تھا۔ 1907ء میں 5 تاریخ عید کی منگل کے روز آغائی صاحب کے باغ میں شام سے چہل پہل ہے۔ شاہراہ پر روشنی کے ٹھاٹھر لگائے گئے ہیں۔ گلاس روشن کیے جاتے ہیں۔ بگھیوں کے متواتر آمد و رفت سے خاک اُڑ رہی ہے۔ بگھیوں میں کسی میں کچھ رئیس ہیں، کچھ ارباب نشاط بیٹھے ہوئے باغ کی طرف آ رہے ہیں۔ بگھی ایک وسیع پھاٹک کے قریب آ کر ٹھہر جاتی ہے۔ میزبان مہمانوں کے خیر مقدم کے لیے مستعد ہیں۔ باغ میں جا بجا گیس کی روشنی آنکھوں میں خنکی اور فرحت پیدا کر رہی ہے۔ اسی باغ کے پہلو میں ایک وسیع بارہ دری ہے جس میں گیس کی روشنی بافراط ہے۔ دو وسیع نمگیرے صحن میں کسی معشوق کے مزاج کی طرح کھینچے ہوئے ہیں۔ صحن کے وسط میں سفید چاندنی کا فرش بچھا ہے۔ جس پر تمام میراثی ڈہاڑی گویے بیٹھے ہوئے ہیں۔ گردا گرد چوکہ لگا ہے جس پر تماشائیوں کی وہ کثرت ہے کہ خدا کی پناہ۔ آدمی پر آدمی ٹوٹا پڑتا ہے۔ چوکے کے بعد اور ایک وسیع اور بلند تختہ بندی ہے جس پر اُونی غالیچوں کا مکلف فرش بچھا ہوا ہے جہاں تمام پری زادانِ عالم کا ہجوم ہے۔ حسین حسین رنڈیاں یکے بعد دیگرے آتی جاتی ہیں اور بیٹھتی جاتی ہیں۔
محمدی جانؔ اودی ساری سنہری بیل بوٹے کی بنارسی زیب جسم کیے عجب تبسم آمیز ادا سے گلوریاں تقسیم کر رہی ہیں۔ حسین کمسن رنڈیاں ؎
برس پندرہ یا کہ سولہ کا سِن
جوانی کی راتیں مرادوں کے دن
نکیلی سجیلی، رسیلی، زیور مرصع سے آراستہ پیراستہ، لولیِ فلک کی خالہ بنی ہوئی ؎
پڑ گئی آنکھ جو اُن چاند سے رخساروں پر
لوٹتے کبک نظر آ گئے انگاروں پر
صورت شکل میں حور کی بچیاں، زاہد صد سالہ دیکھ پائے تو منہ میں پانی بھر آئے، بے ساختہ کہہ اُٹھے ؎
حاضر ہیں ہم تو دینے کو دل بلکہ جان تک
لینے کا نام بھی کہیں آوے زبان تک
جس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ لیں، فوراً کلیجہ تھام لے۔ اور سکتہ کی حالت ہو ؎
دل می رود زد ستم صاحبدلاں خدا را | دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا |
صاحب خانہ بدر منیر کریب کا ڈوپٹہ، سرخ پھولدار گرنٹ کا پائجامہ اور سیاہ مخملی باڈی، گلے میں موتیوں کا مالا۔ ماہ منیر گلابی کریب کی باڈی کارچوبی زیب جسم کیے ہوئے۔ گلابی ساری ریشمی، کانوں میں ہیرے کے ایئرنگ سر پر اسٹار لگائے ہوئے، گلے میں موتی اور ہیرے کا مالا۔ ایک انجمن آرا، دوسری ملکہ مہر نگار بنی ہوئی، ایک میم صاحب تو دوسری ہندوستان کی پری کا پاٹ کیے ہوئے ایک پاؤں سے ٹہل رہی ہیں۔ کبھی اس کی مزاج پرسی ہو رہی ہے کبھی اُس کی پیشوائی ہو رہی ہے۔ اور اپنے مزاج ہی نہیں ملتے۔ گویا چھلاوہ بنی ہوئی، ادھر آئیں اور اُدھر چلی گئیں۔ تمام رنڈیوں کا جتھے کا جتھا ایک ہی مقام پر جلوہ گر ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پرستان کی پریاں اتر آئی ہیں۔
ان کی پشت پر کچھ کرسیاں بچھی ہوئی ہیں۔ اس پر کچھ لوگ مؤدب تر دماغ دست بستہ اے توبہ صف بستہ بیٹھے ہوئے ہیں جن کے زمرہ میں محمدی والے داروغہ محمد خاں خشوک خوش غلافی کے زخمۂ ستار بنے ہوئے فالج زدہ ٹیڑھا منہ کیے ہوئے سب کا مُنہ چڑہا رہے ہیں اور حق خواجہ تاشی ادا کر رہے ہیں۔
خاص بارہ دری کے اندر کچھ لوگ بیٹھے ہیں، کچھ ٹہل رہے ہیں۔ رؤساے شہر کوٹھوں پر با لباس مکلف جلوہ گر ہیں۔ اتنے میں ارباب نشاط میں سے ایک کمسن پری مع سازندوں کے مستعد ہو کر ناچنے لگی۔ ابھی کچھ تھوڑا ناچنے گانے پائی تھی کہ دوسری تیر جاں سِتاں کی طرح آ موجود ہوئی۔ اس کے بعد ایک کم سن مگر کھیلی کھائی ہوئی دلربا جدّو کچھ ناچی گائی۔ اس کے اُٹھتے ہی حسن جان آئی۔ پھر مہر منیر بھی خوب گائی۔ پھر مہراج بندادین کے روشن چراغ اچھن نے گت میں وہ وہ توڑے لیے کہ پرگاسؔ کی روح شاد ہو گئی۔ خاص کر گھنگرو بجانے میں سپوت نکلا۔ پھر اسی قافیہ اور حروف تہجی کی قید سے بمبئی والی اچھن بھی اچھا گائی۔ ان سے بار بار بھاؤ بتانے کو کہا گیا لیکن گرانی کے زمانہ میں بھاؤ بتانا ان کو مناسب نہ معلوم ہوا۔
پھر کشمیریوں میں ظفر کی باری آئی۔ اس نے فسانۂ عجائب کا ناٹک بہت کچھ ساز و سامان سے دکھانا چاہا، لیکن قلت وقت کے سبب سے تماشا نامکمل ختم کر دیا گیا۔
پھر کانپور والی بے نظیر جو کسی قدر عاشق مزاج معلوم ہوتی ہے، اچھے اچھے گرہ بند گائی۔ اس کے بعد وزیر جان لکھنوی، محبوب جان کانپوری، ماہ منیر کانپوری، لاڈلی پیلی بھیت والی گائیں اور خوب گائیں۔
پھر فضل حسین کشمیری کی باری آئی۔ اس کے ساتھی نقال بیوی قدر نے اچھی اچھی نقلیں کیں۔ پھر وارث حسین بھی خوب گایا۔ اس کے بعد سیتا پور کی کلو، پھر محمدی جان نے قابل تعریف گانا گایا۔
پھر گویوں کی باری آئی۔ احمد خان، خورشید علی، بڑے منے خاں خوب خوب بلیاں لڑایا کیے۔ سو روپیہ مبارکباد کا دیا گیا۔
ان کے علاوہ شیدا، زہرہ، چندہ، پنّا، ہیرا، بسم اللہ، فیروزہ، مشتری، بگن، کالکا پرشاد والی شہزادی، بلاقن، ممولا، ہیرا، شہزادی سلیم اللہ والی، حیدر جان چونے والی، بندادین اس جلسہ میں گانے ناچنے کی نعمت عظمیٰ سے محروم رہ گئے۔ خود بدر منیر اور ماہ منیر کو بھی یہ دولت نصیب نہ ہوئی۔ کیونکہ وقت قلیل تھا۔ حقیقت میں اگر یہ محفل دو روز میں ختم ہوتی تو شاید مشہور طوائفوں کو ناچنے گانے کا موقع ملتا۔ تمام محفل رنڈیوں سے بھری ہوئی تھی۔ رنڈیاں دور دور سے آئی تھیں۔ بعض مع انڈے بچوں کے موجود تھیں۔ جن کے لیے چودھرائن کے یہاں آنا فرض تھا۔ کم سے کم ڈیڑھ سو کے قریب رنڈیاں ہوں گی۔ اگر کوئی رئیس لاکھ دو لاکھ روپیہ صرف کرتا، جب بھی یہ کیفیت بعنوان شائستہ دیکھنا نصیب نہ ہوتی ؏
آنچہ می بینم بہ بیداری ست یا رب یا بخواب
رات بھر کے جاگے ہوئے معشوقوں کو نیند کا سخت غلبہ ہو گیا۔ اور مجبوراً گیارہ بجے دن کو جلسہ کا اختتام کرنا پڑا اور وہ پیاری پیاری دلربا صورتیں چشم زدن میں نظروں سے غائب ہو گئیں ؏
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سُنا افسانہ تھا
وہ سماں اب تک آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے اور عاشق مزاج دل ہی دل میں مزے لے رہے ہیں ؎
کوئی نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا!!
تخلص داغ ہے وہ عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں
بلبلِ ہند
بلبل ہند لکھنؤ میں ایک مشہور میر شکار تھا، ہندوستان کی ہر ایک رنڈی اس کے نام سے آشنا ہے۔ پرندوں کے ایک ایک عضو کی تشریح جس عنوان شائستہ سے وہ بیان کرتا تھا، آج تک ویسی شرح گلستان کی بھی کسی نے نہیں لکھی۔ ایک بلبل چہک رہا تھا۔ سامعین کے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے۔ رنڈیوں کا سراپا کھینچنے میں تو بہزاد و مانی کے کان کاٹے تھے۔ دُبلا پتلا منحنی آدمی، مگر چٹک مٹک غضب کی۔ ممکن نہ تھا کہ اُس کی زبان سے دو جملے سُنو اور توسنِ طبع دولتیاں نہ اُچھالنے لگے۔ مے کشی کی لت اس غضب کی تھی کہ جس دن میسر نہ ہو فاقہ سمجھے۔ شراب خانہ خراب کی بدولت ہزاروں مرتبہ کیچڑ میں لت پت ہوا، جوتیاں کھائیں، تھانے میں کھنچے کھنچے پھرے، کچہری میں جرمانے بھگتے، کس و ناکس کی گالیاں کھائیں، مگر شراب نہ چھوٹی ؏
چھٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافر لگی ہوئی
آخر ہمیشہ کی ذلت سے چھڑانے کو گربۂ اجل نے دبوچ لیا اور چند روزہ مرض الموت کے بعد رات ہی رات دار الشفاءِ شاہی میں ٹھنڈے ٹھنڈے عدم کو سدھارے۔ دو چار جگت آشنا یہ کہہ کر آبدیدہ ہوئے ؎
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد
روے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد
امید تو تھی کہ غریب بیکس کے مرنے کا سوگ تمام ہندوستان کی رنڈیاں منائیں گی اور سال بھر تک سیاہ پوش رہیں گی؛ مگر صدائے برنخواست۔ کسی معشوق مزاج کے تیور بھی میلے نہ ہوئے۔ اتنی توفیق بھی نہ ہوئی کہ غریب کے نام پر کسی بھوکے تماش بین کو کوئی چیز دے دی جاتی۔
شاگردوں نے بہت کچھ ہاتھ پاؤں مارے۔ مگر مفلسی کا برا ہو کہ فاتحہ بھی نہ دلا سکے۔ آخر اسی وبال کے ہاتھوں قحط سالی کے آثار نمودار ہوئے اور سب کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا لیکن قسمت میں حرام کے پیسہ سے فاتحہ لکھوا چکا تھا۔ بلبل ہند کا چہلم نہ ہو اس کے کیا معنی۔
اس قحط اور گرانی کے پر آشوب زمانہ میں جب کسی کی دعا اور نماز سے پانی نہ برسا تو رنڈیوں کو یہ خیال ہوا کہ ہم بھی کوئی نیک کام کریں۔ شاید تیر نشانہ پر بیٹھ جائے۔ زمانہ نے بی ادّھا بگن کو ابھارنا شروع کیا۔ کیونکہ نو دولتوں میں قضا و قدر نے اس کا نمبر پہلے چپکا دیا تھا ؏
قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند
شاہی زمانہ میں ممولا جان بائی تھی جس کو نوچیوں کا بہت شوق تھا۔ تین چھوکریاں تھیں، شیریں جان، محبوب جان، جھمن جان۔ آخر الذکر عبد اللہ ڈہاڑی کی آشنا تھی اور وہی ان کو قصائیوں کے پھندے سے چھڑا لایا تھا اور تعلیم دے کر رنڈیوں میں شامل کرا دیا۔ ان کے بھائی محمد حسین بھی دم چھلے کی طرح ہمراہ رکاب تھے جن کی ذات سے ادھا بگن اور سجاد کی صورت عالم ایجاد میں آئی۔ ادھا بگن کی روزی کا دروازہ جب کشادہ ہو گیا تو محمد علی سے صاحب سلامت رہی۔ آخر گنیش پرشاد کوتوال کی اردلی میں پیش ہو گئیں۔ یہ امید کہاں تھی کہ اب زندگی بھر کوتوال کے پھندے سے چھٹنا نصیب ہوگا۔ لیکن کمائی کھانے والوں کی قسمت رسا تھی۔ کوتوال جیل خانہ ہوا کھانے چلے گئے اور یہ قید سے رہا ہو گئیں۔ تقدیر کا پتّہ جبلپور جا کر الٹ گیا۔ اب کیا تھا خوشامد خورے، چاپلوسی فوج در فوج گھسنے لگے اور تعمیر عمارت کا شوق بڑھتا گیا۔ سجاد کے دو لڑکے تھے۔ رنڈیوں کے خاندان میں تو لڑکیوں کی چاہ ہوتی ہے۔ مگر ان کی خوش نصیبی سے لڑکے بھی کچھ لڑکیوں سے کم نہیں کماتے ہیں۔ ہاں فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کو پیچھے سے سمجھ آتی ہے کوئی آگے سے فہمیدہ ہوتا ہے۔
آخر صلاح یہ ٹھہری کہ دونوں کی بسم اللہ کا دھوم دھامی جلسہ ہونا چاہیے۔ زندگی میں کچھ دل کے ارمان نکلیں۔ کھانا کمانا روز کا ہے۔ یہ چکی تو قسمت میں ہمیشہ سے لکھی ہے۔ مگر جلسہ ہو تو کیونکر۔ اس واسطے کہ چودھرائن، بدر منیر، ماہ منیر کی برادری سے تو خارج ہو چکی تھیں۔ کسی مجرے میں ادھا بگن اور کامنی کو مبارکباد ملی، یہ اکیلی لے کر چلتی ہوئی۔ اس کی پنجایت ہوئی۔ یہ کچھ کنمنائیں، برادری سے نکال دی گئیں۔ دل نے صلاح دی کہ اس کا مشورہ اللہ باندی سے کرنا چاہیے۔ وہ یہ پاپڑ بیل چکی ہے۔ یہ اب اللہ سے چاہتی تھی کہ کوئی پُھٹ رنڈی ہتھے چڑھے۔ ایک تو چاول والی نظیر اسے خارج کر چکی تھی۔ دوسرے کربلا میں ذلت ہوئی۔ آخر تو تو میں میں کے بعد یہ بات قرار پائی کہ ہم تم دونوں چودھرائن بن جائیں۔ کچھ گنڈوں کو دینے لینے کا وعدہ کر کے ابھار دو۔ وہ رنڈیاں اکھیڑ لائیں۔ خدا کے فضل سے یہ بات تم کو آسان ہے۔ تمھارا بھائی سجاد بڑے بڑے نوابوں کی دولت گھسیٹا کرتا ہے۔ دوسرے ایک شیطان صورت چنڈو باز مُرزقی مشہور مرثیہ گو طبل شاگردی بجاتا ہے۔ کچھ خکاکوں سے کہو یہ بھی سارنگیوں میں شامل ہیں۔ دن بھر گز پکڑے ہوئے تنا ریں ریں کیا کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک کو عروج دو جو سب رنڈیوں کو بہکاتا پھرے کہ تمھیں چودھرائن گالیاں دیتی ہیں، حقیر سمجھتی ہیں۔ شہروں شہروں گاؤں گاؤں جاؤ ایک ایک ڈیرہ دار کو ملاؤ۔ آخر جابجا خفیہ کاروائیاں شروع ہو گئیں اور رنڈیوں میں چودھرائن کی طرف سے برہمی پیدا ہو چلی تھی کہ بدر منیر چودھرائن کو حیدر آباد دکن میں یہ خبر ملی۔ وہ پیٹ پکڑے ہوئے فوراً لکھنؤ آ دھمکیں۔ رنڈیوں کو بلا کر پنچایت کی۔ ملکہ اور لطیفاً کے شکوے دفع کیے۔ سب رنڈیوں کو تسلی اور تشفی دی۔ بمبئی، کلکتہ، حیدر آباد، عظیم آباد، میرٹھ، بنارس، الہ آباد، کانپور، آگرہ، باندہ، رامپور تار دیے کہ ہم نے اس اس وجہ سے ادھا بگن کو خارج کر دیا ہے۔ اب کوئی رنڈی ان کے جلسہ میں شریک نہ ہو۔ جب لکھنؤ میں کام نہ نکلا تو بریلی اور رامپور گئیں۔ انھوں نے کہا ہم کو چودھرائن کا تار آ چکا ہے۔ ہم نہیں شریک ہو سکتے۔ پھر دیہات کا قصد کیا وہاں بھی چودھرائن کے خطوط روانہ ہو چکے تھے لہذا بے نیل مرام واپس آئیں۔ بہت سے گنڈوں نے زور لگایا اور دھمکایا مگر کچھ پیش نہ گئی۔ تین رنڈیاں خارج شدہ ننھی، کلو، دنی وٹمو اور نیوتنی کی شریک ہوئیں۔
جلسہ کا سامان شروع ہو گیا۔ مکان میں اندر باہر استر کاری ہوئی، کھانا پکا، حصہ تقسیم ہوا مگر نیت بخیر نہ تھی۔ کھانے نے روغنی طباقوں کے ساتھ ساز کر لیا اور سب کھانا کڑوا ہو گیا۔ دوسرے بلبل ہند کی روح بھوکی تڑپ رہی تھی۔ بھلا وہ کب کسی کو ٹھنڈے پیٹوں کھانے دیتی۔ قہر درویش بر جان درویش۔ دوبارہ کھانا تقسیم کیا گیا۔ ملیح آباد کی مہندی پر بہت زور لگائے گئے۔ وہ اس اقرار پر راضی ہوئی کہ اگر ننھی شریک نہ ہوگی تو میں آؤں گی۔ جلسہ میں آئی، ننھی کو دیکھ کر نہ حقہ پیا نہ پان کھایا۔ سیدھی اٹھی چلی گئی۔ تقن گونڈہ کی طوائف کے کپڑے کسی عاشق مزاج نے تیزاب ڈال کر جلا دیے۔ بیچاری کا بہت نقصان ہوا۔ دو شنبہ کے دن ٹھاٹ سے ٹھاٹھ بندی ہوئی، روشنی شروع ہوئی۔ رئیسوں کو داخلہ کے کارڈ بھیجے تھے۔ بغیر کارڈ کے کوئی آنے نہیں پاتا تھا۔ بجلی کی روشنی، نور کا عالم۔ کوٹھوں پر کرسیاں میزیں بچھی تھیں۔ پان سگریٹ موجود۔ محفل بہت اچھی سجی تھی۔ رات کا دن تھا۔ مسلمان و ہندو علاحدہ علاحدہ کرسیوں پر جلوہ گر۔ جو آتا تھا دس روپیہ سے تین روپیہ تک نیوتہ دیتا تھا۔ نوکری سے برطرف تھیں۔ یہ تحصیل اس واسطے کی گئی کہ کچھ دنوں تک بیٹھ کر کھائیں۔ شہر کے بہت سے رئیس شریک جلسہ تھے۔ تعجب تو یہ تھا کہ ایک مقدس مقام کے مولوی مفتی بھی شریک جلسہ تھے۔ حیدرآباد کے ایک وکیل جن کے نام کے ساتھ مولویت کی دم لگی ہوئی ہے، ڈٹے ہوئے تھے اور بہت سے اللہ کے ولی موجود تھے۔ شہر کے نامی گرامی حکیم صاحب الفربہ خواہ مخواہ مرد آدمی سفتہ گوش بنے ہوئے سجاد کی شاگردی کا حق ادا کر رہے تھے۔ رنڈیوں کی طرف سے صفر تھا۔ کچھ گڑھے والی سرائے کی ٹکاہیاں کچھ نئے گاؤں کی خانگیاں شریک حال۔ کوئی صورت ایسی نہ تھی جو دل کو لبھاتی، کوئی آواز ایسی نہ تھی جو فرحت بخش ہوتی۔ گانے والیوں کا قحط تھا۔ پہلے خود ناچیں پھر رئیس بھانڈ پھر باندے والی محمدی ناچنے کھڑی ہوئی تھی کہ پائجامہ کھل گیا۔ ایک تاریکی اور سناٹا چھا گیا اور ایک قہقہہ پڑا۔ پھر اللہ باندی کی لڑکی ننھی پھر محمد بھانڈ اور مردانی ناچا۔ جوان بڑھیاں لنگڑی لولی سب ملا کر سترہ رنڈیاں جن کے واسطے دو مہینہ تک دوڑ دھوپ رہی۔ دو چار مصنوعی رنڈیاں بھی شریک حال تھیں۔ بی اللہ باندی نے بھی مجرا کیا اور پھر سجاد نے باجا بجایا۔ باقی رات بھر بھیروں ناچا کیا۔ گویا پہلی بسم اللہ غلط ہوئی۔ اس خوشامد پر بھی رنڈیاں شریک نہ ہو سکیں۔
صبح ہوتے ہوتے جلسہ برخاست ہوا۔ پہلے ایک مقدس مولوی منہ چھپائے ہوئے نکلے۔ جانا ہی چاہتے تھے پھاٹک سے قدم باہر رکھتے ہی بلبل ہند منمناتا ہوا قدموں پر جا گر پڑا۔ خدا سلامت رکھے۔ غلام نے جس دن سے انتقال کیا روح ایک ٹکڑے روٹی کو ترس رہی ہے۔ شراب تو کہاں ممکن اب کوئی کھانے کو بھی پوچھنے والا نہیں۔ آج چالیسواں دن ہے جوڑہ دینا کیسا کسی نے ایک چلو بھر پانی بھی نہ دیا۔ روح پر فشارِ قبر کیا کم تھا جو بھوک کا عذاب سہتی۔ کارکنان قضا و قدر کو دم دلاسا دے کر یہاں تک آیا ہوں۔ حضور سے ایک گزارش ہے ادھا بگن نے جو پہلے حصہ بانٹا تھا اور خوش نیتی سے کڑواہٹ اس میں مل گئی تھی جس کے جرم میں دوبارہ گنہگاری دینی پڑی تھی، وہ فاضل رقم ہاتھ اٹھا کر میرے نام بخش دیجیے۔ آپ کو بھی ثواب ہو اور میرے چالیسویں کا کام بھی ہو جائے گا۔ جوڑے کی فکر کبھی اور کر لوں گا۔ فی الحال چار رئیسوں کو تو معلوم ہو جائے گا کہ بلبل ہند کا چالیسواں اس دھوم دھام سے ہو گیا۔ مولوی صاحب نے ہر چند جان چھڑانا چاہی۔ بہت کچھ لاحول پڑھا۔ مگر وہ کب کھسکنے والا تھا۔ دوسرے چالیس روز کے فاقہ سے صورت سوال ہو گئی تھی۔ ملا کو رحم آ گیا۔ ہاتھ اٹھا کر فاتحہ دے دیا اور ثواب بلبل ہند کی نذر کر دیا۔ وہ یہ کہتا ہوا اپنے مقام پر واپس ہو گیا ؎
میرا مرنا ان کے گھر شادی ہوئی
خون کے چھاپے لگے دیوار میں
رنگ میں بھنگ
خدا آباد رکھے لکھنؤ کو پھر غنیمت ہے
نظر اُبسی سڑی رنڈی کی صورت آ ہی جاتی ہے
واللہ غنیمت ہے۔ لاکھ لکھنؤ مٹ گیا، پس گیا، قحط سالی سے تباہ ہو گیا، کھد گیا، طاعون نے نورا لگا کر صفا چٹ میدان بنا دیا۔ مگر ماشاء اللہ اس بڈھے شہر کے وہی دم خم ہیں۔ اس میں کوئی مہینہ عید سے خالی نہیں جاتا اور پھر یہ خوشی دن دونی رات چوگنی ہوتی جاتی ہے ؎
آسماں کی کب ہے طاقت جو چھڑائے لکھنؤ
لکھنؤ مجھ پر فدا ہے میں فداے لکھنؤ
ہندوستان میں جہاں ملکی بہی خواہوں کے دو گروہ ہیں اور اپنی قوم کے پولٹیکل معاملات کے کیل کانٹے کے درست کرنے میں سرگرم پائے جاتے ہیں جن کو کانگریس اور کانفرنس کے معزز خطاب سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ وہاں خدا رکھے لکھنؤ میں ارباب نشاط کی بھی دو پارٹیاں ہیں یا یوں کہیے کہ طوائفانِ شہر کی دو ٹکڑیاں ہیں۔ بڑے جہاز کی ناخدا تو بی بدر منیر و ماہ منیر عرف ننھوا، بچوا ہیں اور چھوٹی کشتی جو ڈبکوں ڈبکوں می کند ہے اس کی ملاحی زمانہ کج رفتار کے ہاتھوں ؏
آدمیاں گم شدند ملک خدا خر گرفت
کے مصداق ہو کر چاول والی نظیر کے حصہ میں آئی ہے۔ اول الذکر چودھرائن کے یہاں تو خدا کے فضل سے سال بھر میں ایک آدھ دھوم دھامی جلسہ ہو جاتا ہے۔ ابھی دو چار دن کی بات ہے رشک منیر کی چھٹی میں وہ قیامت کی پری زاد نورانی محفل تھی کہ سبحان اللہ، چشم فلک نے بھی نہ دیکھی ہوگی۔ ہندوستان کی مشہور اور حسین طوائفوں کا جمگھٹا تھا۔ جو دیکھ چکا ہے اس کی نظر سے ساری دنیا کے جلسے اتر گئے اور جس نے نہیں دیکھا وہ آج تک کف افسوس ملتا ہے۔ اس جلسہ کا رشک مخالف پارٹی کو بہت کچھ ہوا اور ایک مدت سے یہ خیال گدگدا رہا تھا کہ کوئی موقع ملے تو اس کا جواب دیا جائے۔ خدا خدا کر کے بی اللہ باندی کے یہاں نواسی تو نہ ہوئی نواسا پیدا ہوا۔ چار نا چار خوشی کا صیغہ گرداننا پڑا۔ اگرچہ زمانۂ سلف میں مدت حمل نو مہینہ تھی مگر زمانہ نے ہر نہج میں ترقی کی ہے۔ برسوں کا سفر ریل کے ذریعہ سے دنوں میں طے ہوتا ہے۔ تار پر چشم زدن میں صدہا کوس خبر پہنچ جاتی ہے۔ مرغی کے بچے 21 دن کی جگہ چشم زدن میں کل کے ذریعہ سے اچھلتے کودتے نکل آتے ہیں۔ پھر مدت حمل کا گھٹنا کچھ تعجب خیز امر نہیں۔ ننھی تو فرزند پیدا ہونے سے باچھوں تک کھل گئی۔ بڑے بڑے ساہ جی مارے خوشی کے کپّا ہو گئے۔ نانی کے اگلے پچھلے آشناؤں میں مسرت کی ہنڈیا گرم ہونے لگی۔ شیخ، سید، مغل، پٹھان، اسٹر مسٹر ایرا غیرا ملو تیلیا ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔ خواجہ بدیع الزماں تو مارے خوشی کے منہ سے طبلہ بجا رہے تھے۔ اور ہمارے خان صاحب جن کا عاشقی میں نمبر حد جنون تک پہنچ چکا تھا ریشہ خطمی ہوئے جاتے تھے، یہ معلوم ہوتا تھا کہ پختہ انناس پھٹ کر رہ گیا ہے۔ ادھر اچھن اپنی بہادری جتا رہا تھا۔ عجب بم چخ تھی۔ کوئی کس کی سنے اور کس کی نہ سنے۔ غرض کہ پرانے برتنوں پر نئی قلعی اور نئے برتنوں پر جدید پوڈر ہونے لگا۔ گھر کی ذرا ذرا سی چیز مانجی گئی، صاف کی گئی۔ زر کی طرف سے مالدارے را حکایت کنند۔
اب دوسرا پہلو بھی نواسہ کی تشریف آوری سے قوی ہو گیا۔ ایک میراثی بھی گھر کا ہو گیا۔ اس خوشی کا کیا پوچھنا۔ مثل مشہور ہے جیسی روح ویسے فرشتے۔ اللہ باندی کی چودھرائن چاول والی نظیر تھی۔ لیکن ان کو ان سے کسی قدر نفرت تھی۔ وجہ یہ تھی کہ پارہ کی ممتا کی لونڈی وزیرن اور وزیرن کی پروردہ نظیر۔ گو در گو۔ نجیب الطرفین۔ پھر ان کی صاحبزادی بچوا جو رضا حسین ڈیرہ دار سے ہے، جس کی خدمت میں امراؤ کا لڑکا ظہور ہر وقت پیش رہتا ہے۔ اس سبب سے چاول والی اس مسند نشینی کی مستحق تصور نہ کی جاتی تھی اور چودھرائن کا یہ خیال کہ آبادی جان گوری بی بی کی لونڈی ایک گورے سے پیدا ہوئی۔ اللہ باندی کھلونہ بھانڈ سے پیدا ہے۔ امانی کی ماں ماما حسینی موجود ہے۔ یہ سب تحقیقی ہے۔ ان کی ذات میں کون بٹا لگا سکتا ہے۔ آخر نا اتفاقی کی بم پھوٹ نکلی۔ چار رنڈیوں کی چودھراہٹ کتے کے منہ کی ہڈی ہو گئی۔ دلوں میں نزاع پڑ گئی۔ آپس میں کھٹ پٹ شروع ہو گئی۔ ظاہر میں تو کچھ ڈہاڑیوں کے بارے میں چہ میگوئیاں بڑھ گئیں۔ ایک ڈہاڑی خان کی رائے کچھ خلاف تھی۔ یہ چودھراہٹ کی گدّی بھی ٹھکانے سے نہ تھی۔ کوئی کہتا تھا کہ کالی امراؤ کا حق ہے۔ کوئی کہتا تھا کہ گوہر کے دم تک چودھراہٹ کا منصب ختم ہو گیا۔ چونکہ چاول والی نظیر اپنی دال گلا چکی تھی ؎
صفت الو کی الو جانتا ہے
ہما کو چغد کب پہچانتا ہے
چودھراہٹ کی بدّھی ان کو پہنائی جا چکی تھی؏
ہر کسے را بہر کارے ساختند
کہیں لونڈیوں سے یہ کام چلے ہیں۔ آخر شیطان کی مدد سے تکا فضیحتی، گالی گلوچ، جوتی پیزار کے بعد اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ کی ٹھہری۔ ادھر چودھرائن کو یہ خیال کہ اب نواسہ پیدا ہوا ہے۔ “اللہ باندی” دل کا بخار نکالنے کو جلسہ ضرور کرے گی۔ چھٹی قریب ہے۔ رنڈیاں میری بال باندھی لونڈی ہیں۔ اپنی غرض کو آپ ہاتھ جوڑیں گی۔ منتیں کریں گی۔ قدموں پر سر رکھیں گی۔ ایسے موقع پر نہ دیں تو کب دیں گی۔ ادھر اللہ باندی کا یہ دماغ کہ مُبلغ علیہ السلام کی بھرمار ہے۔ درجنوں نوکر ہیں۔ دوپہر کے الگ، شام کے الگ، رات کے الگ، صبح کے الگ۔ چودھرائن تو مجھ کو ہونا چاہیے تھا۔
اصل جھگڑا یہ تھا کہ چند ڈہاڑی اس بات پر کھنچے ہوئے تھے کہ رنڈیاں ہمارے یہاں حصہ بھیجا کریں۔ نظیر کو یہ عذر کہ جس طرح یہ لوگ ہمیشہ سے اپنا حصہ لے جاتے تھے بدستور سابق وہی طریقہ رکھیں۔ کیونکہ یہ ہمارے ہاتھ کی دیکھنے والی قوم ہے۔ اللہ باندی یہ کہتی تھی کہ جیسے سر پڑے اس وقت منت خوشامد چاپلوسی سے اپنا کام نکالو۔ دوسرے چونکہ خود ڈومنی تھی، اس کی کور بھی خود ڈہاڑیوں کی طرف دبتی تھی۔ جھٹ عاشق علی والے سارنگیوں سے گٹھ گئی۔ مگر نجو خاں والے سازندے مبارکباد کے جھگڑے کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔ گویا طبلیہ سوائے نبی خاں کے ایک بھی نہ تھا۔ تمام تن تن زی خاں خلاف تھے۔ جب ادھر سے پکی پوڑھی ہو چکی تو مُنہ چھونے کے طریق سے نظیر جان کے پاس گئیں اور بہت کچھ رد و قدح ہوئی۔ یہاں تو پہلے ہی کھچڑی پک چکی تھی۔ نظیر کے قانونی دلائل نے کچھ اثر نہ کیا اور اس کا منصوبہ اس کے ذہن کے بیچوں بیچ میں اچھی طرح نہ جما۔ کچھ پہلو تہی کی۔ کچھ کہن کہنائیں۔ اُس نے کہا مانو تو مانو۔ نہ مانو تو اپنے گوبند کو یاد کرو۔ تم اسی طرح پسڑ جاؤ گی۔تو میرا دفتر کیونکر قائم رہے گا۔ مثل ہے کہ اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ۔ یہ کھٹ سے علاحدہ ہو گئیں۔
چھٹی کی بارات کا انتظام ایک پُرانے چھتے کی طرف سے ہونے والا تھا۔ 9 فروری 1907ء کی سہ پہر کو چھٹی کا جلوس سر چوک بیک بینی و دو گوش نکلا۔ بکر منڈی سے بقر عید کی بچی کھچی راسیں خرید لیں۔ گلے میں رسی اور رسی میں گلا۔ بکریوں کا گلہ جا چکا تھا تو مرغیوں کا ڈربہ کھل گیا۔ کچھ پٹھیل اور کچھ بڑھیل، کچھ سبزوار، کچھ اصیل۔ کچھ ٹینی کچھ کرک ناتھ۔ اس میں نخاس کی رعایت کا خیال ملحوظ خاطر رہے۔ اس کے بعد کرایہ کی کُھلی ہوئی گاڑیوں پر دو چار رنڈیاں بھیگی بلی بنی ہوئیں بطور نمونہ پیش کی گئیں۔ لیکن اچھی صورتوں کے ساتھ گھٹیل بدشکل بڑھیوں نے بیٹھ کر دیکھنے والوں کے گناہوں کا کفارہ کر دیا تھا۔ کبھی مُنہ سے صل علیٰ نکلا، تو معاً لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہنے کی ضرورت ہوئی۔
9، 10 فروری کی شب کو جلسہ قرار دیا۔ نظیر نے شیطانی حد جاری کر کے رنڈیوں کی ہڑتال کر دی تھی۔ اُن کی بائکاٹ سے روسی جاپانی جنگ کا مزہ آ گیا۔ لاکھ جوڑ توڑ کیے، ہاتھ پاؤں مارے، مگر ایک اللہ کی بندی نہ مٹکی۔ استعمالی چودھرائن کو پانی پی کے کوسنے دیے گئے۔ سارا جلسہ غتربود ہو گیا۔ چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔ کانپور، فرخ آباد تک دُہائی تہائی مچائی۔ خبرے نباشد ادہر سے زور ڈالا۔ پکڑے دھکڑے، دو تین بسر خندیاں نچنیاں مرتبہ رنڈیت سے گری ہوئی بمشکل تمام دستیاب ہوئیں وہ بھی وحشت میں آ کر ہتھے پر سے اُکھڑی جاتی تھیں ؏
گندم اگر بہم نرسد بھس غنیمت است
عالیہ والی ننھی لالو کھلونہ کے خدمت گار کے دباؤ سے مجبوراً ادھر لُنڈھک آئی تھی۔ باندے والی محمدی یہ سب گنتی کی چار رنڈیاں چوسر کی گوٹوں کی طرح ایک خانہ میں بٹھا دی گئی تھیں۔
پہلے خود لڑکے کی اماں بی ننھی ناچیں گائیں۔ اس کے بعد عالیہ خانم والی ننھی و محمدی نے دفع الوقتی کی۔ سارنگیے بے شک پانسے کی طرح لنڈھکتے پھرتے تھے۔ پھر صادقؔ علی خاں، بڑے مُنے خاں بلیاں لڑایا کیے۔ اس کہنہ گدڑی میں میل ملانے کے واسطے ممولا بائی کی کنیز کی بھتیجی ادھا بگن بھی اسی طرف ٹوٹ کر آ رہی۔ گدیا ٹاٹ کی انگیا پر مونجھ کی بخیا ہو گئی۔ ان کے برادر ہمزاد سجاد بھی اپنا باجا نیچے سروں میں الاپا کیے۔ اس کے بعد عطائیوں میں خواجہ بدیع نے بھیرویں میں میلاد شریف خوب پڑھا۔ ؏
بریں عقل و دانش بباید گریست
باقی رات بھر بھیروں ناچا کیا۔ صبح کچہری برخواس دانہ نہ گھاس۔
فلک کج رفتار نے اس اصلی خوش نودی اور مسرت کے نشہ کو اتارنے کے واسطے جس چاشنی کا استعمال کیا وہ دونوں کے حق میں زہر سے کچھ کم نہ تھی۔ نظیر جان کو یہ غم کیا کم تھا کہ چودھراہٹ میں بٹہ لگا۔ ڈہاڑیوں میں خفت ہوئی۔ کچھ رنڈیوں سے چشمک ہوئی۔ رقابت کا بازار گرم۔ چوروں نے تاڑ لیا۔ ہو نہ ہو یہ دولت کا نشہ ہے۔ اس کے پاس ضرور اگلی کُھرچن ہے۔ کیونکہ بہت سے گھر گھایل کر چکی ہے۔ پُرانی خرانٹ ہے۔ آخر رات کو سات طبق زمین کے توڑ کر کارکنان قضا و قدر سیند لگا کر کلیجے کے ٹکڑے زر و جواہر نکال لے گئے۔ صبح اُٹھتے ہی دھک سے کلیجہ ہو گیا۔ زمین پاؤں تلے سے نکل گئی۔ اپنی ضعیفی۔ لڑکی کی بد قسمتی یاد کر کے زار و قطار رونے لگی۔ پولیس سرگرم تحقیقات رہی۔ مگر مال کھانے والے ٹھاکر مہراج کا پتہ لگانا کچھ دل لگی بازی تو تھا ہی نہیں۔ قسمت میں دولت ہوتی تو گھر سے کیوں جاتی۔ ایک حبہ نہ ملا اور ڈنڈوت کرنا پڑی۔
اللہ باندی کو جلسہ کی تباہی، روپیہ کی بربادی، محفل کی بے رونقی کا داغ نہ بھولا تھا کہ زمانہ نے ؏
یک داغ نیک ناشدہ داغ دگر نہد
عشرۂ محرم میں ماتمی لباس پہنے ہوئے سوگواروں کی شکل بنائے ہوئے تال کٹورے کی کربلا کے پھاٹک کے سامنے والے کمرے سے ماتم داران حسین کا دلکش نظارہ دیکھ کر اشک شوئی کر رہی تھی۔ یکایک کسی تیر نگہ کے گھائل کو یہ ادا ناگوار خاطر معلوم ہوئی اور جوڑ توڑ کر کے بڑی بے عزتی سے پا بدست دگرے، دست بدست دگرے کر کے نکلوا دیا۔ بیچاری بڑی یاس و نا امیدی سے وہاں سے یہ کہتی ہوئی نکل آئی ؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچہ سے ہم نکلے
اب یہ غریب دن رات فریاد کیا کرتی ہے اور نظیر جان فریاد رس الٰہی والی مناجات پڑھ کر دل کو تسکین دے لیتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ملال مفتی میں پہنچا۔
ضرورت ہے
آج کل “ضرورت ہے” کی سرخی نے زیادہ پاؤں پھیلائے ہیں۔ جس کو دیکھیے ضرورت ہے، ضرورت ہے۔ مگر فی نفسہ خیال کیجیے تو بے ضرورت اخبار کے کالم سیاہ کیے جاتے ہیں۔
“ضرورت ہے” ایک ایسے خریدار کی جو دونی چوگنی قیمت دے کر مال منگوا لے۔ اسی طرح ضرورت ہے کی بیماری عالمگیر ہو گئی اور کوئی اخبار اس سے خالی نہیں جاتا۔ اس کشمکش سے مجھ کو شک ہوا کہ شاید میری ضرورتیں دب کر نہ رہ جائیں۔ لہذا اس کا اعلان بذریعہ اخبار مناسب سمجھتا ہوں۔ جواب دفتر میں آنا چاہیے۔
“ضرورت ہے” ایک ایسی ماما کی جو گھر سے مالدار ہو، اپنا کھائے ہمارا راگ گائے۔ کھانا پکائے، چکی پیسے، برتن مانجے، جھاڑو دے، مُنہ دھلائے، نہلائے، دل بہلائے، رات کو پاؤں دبائے۔ صورت شکل اچھی، نہ چڑیل ہو، نہ حور کی بچی ہو۔ امانت دار ہو، خِسّت شعار۔ کم خرچ بالا نشین، انجام بین۔ اکیلی ہو، کنبہ میں کوئی دوسرا نہ رکھتی ہو۔ تنخواہ مانگتے ہوئے شرماتی ہو۔
“ضرورت ہے” ایک ملازم کی۔ پڑھا لکھا شریف گھر سے خوش حال ہو، بغیر کوڑی پیسہ سودا خرید لائے۔ دن کو مزدوری کرے، جو دو چار پیسہ لائے اس میں نصف مالک کا حصہ الگ نکالے۔ شام کو بھیک مانگے۔ اچھے ٹکڑے اینجانب کو دے اور سوکھے آپ کھائے۔ نمک حلال ہو۔ گھوڑے کی گھاس چھیل لائے۔ اونٹ کا چارہ لائے۔ بیل کو سانی کھلائے۔ پانسو روپیہ نقد ضمانت کا ہمارے پاس جمع کر دے۔ تنخواہ دیدہ خواہد شد۔
“ضرورت ہے” ایک سوداگر کی، منافع کم، مال چوکھا دکھائے۔ ایماندار ہو، بیوقوف ہو، حلیم ہو، با ادب ہو۔ اشیائے ضروری مہیا کر سکے۔ دیوالیہ نہ ہو۔ مال دے کر دام مانگنے کی ہوس نہ رکھتا ہو۔ چھچھورا نہ ہو۔ قرض دینے میں حاتم ہو، گھر میں قارون کا خزانہ رکھتا ہو۔ ٹٹ پونجیا نہ ہو۔ عدالت سے ناواقف ہو۔ صاحب مروت ہو۔
“ضرورت ہے” ایک اخبار کی ہفتہ وار شائع ہوتا ہو۔ پولٹیکل سوشل مضامین نمک مرچ لگا کر لکھتا ہو۔ مذاقیہ آرٹیکل میں ید طولیٰ رکھتا ہو۔ ایک ایک فقرہ پر لوٹن کبوتر بنا دے۔ لوکل کے اہم واقعات پر دلچسپی سے بحث کرتا ہو۔ نامہ نگار اچھے رکھتا ہو۔ مضامین چٹ پٹے ہوں۔ ضخیم ہو۔ تعدادِ اشاعت قیاس سے باہر ہو۔ ایڈیٹر وثیقہ دار ہو۔ پریس ذاتی رکھتا ہو۔ دست غیب ہو، منیجر فتوحات کے وظائف پڑھا کرتا ہو۔ نہیں تو گھر بیچ کر اخبار کی اشاعت کو باقاعدہ رکھتا ہو۔ نمونہ کا پرچہ مفت بھیجتا ہو۔ پیشگی قیمت طلب کرنا غیر مفید سمجھتا ہو۔ لمبے چوڑے نام والوں سے دس دس برس تقاضا نہ کرتا ہو۔ قارون کی دامادی کا فخر رکھتا ہو۔ خزانۂ شاہی کا مالک ہو۔ نادہند خریدار کی شکایت نہ کرتا ہو۔ دامے دِرمے امداد کا طالب نہ ہو۔ درخواست خریداری مع نمونۂ اخبار کے آنا چاہیے۔
افلاس فنڈ کی سالانہ رپورٹ
پھر پیٹ ہمارا خالی ہے
ڈِیر پنچ! قومی دریوزہ گر ملکی ٹُکرگَدے مفت کے ٹکڑے کھا کھا کے اس قدر موٹے ہو گئے ہیں کہ قابل بیان نہیں۔ ملک و قوم سے طرح طرح کی آمدنیاں وصول کر کے چٹ کر گئے اور پھر بھی ان کا دوزخ بھرنے کا نام نہیں لیتا۔ برابر صدائیں لگائے جاتے ہیں۔ ڈھائی چھوٹے صاحب کی، تہائی منجھلے صاحب کی، چوتھائی بڑے صاحب کی۔ ہم بھوکوں مرے جاتے ہیں۔ اصل یوں ہے کہ ون روپی فنڈ، قحط فنڈ، زلزلہ فنڈ، آٹا فنڈ، روٹی فنڈ، دال فنڈ، حرام فنڈ، سود فنڈ، بکر کود فنڈ، روس فنڈ، جاپان فنڈ، جاڑا فنڈ، گرمی فنڈ، برسات فنڈ، مرغی انڈا توس فنڈ، الّم فنڈ، غلم فنڈ میں چندہ دیتے دیتے اب ہم مفلس ہو گئے۔ گھر میں چوہے قلابازیاں کھاتے ہیں۔ پیٹ پر پتھر باندھے پھرتے ہیں۔ پھر ایسی صورت میں ان ہٹے کٹے فقیروں کو جنھوں نے ہزاروں امیروں کو فقیر کر دیا، کہاں سے دیں۔ لہذا افلاس فنڈ کی سالانہ رپورٹ مرسل خدمت ہے۔ ملاحظہ فرما کر حکم مناسب صادر فرمائیے۔ وھو ہذا:
بدنام خلق میں ہے کیوں نام مفلسی کا
کرتے ہیں ہم تو خود ہی سب کام مفلسی کا
دولت لٹا رہے ہیں اپنی شراب پی کر
گویا چڑھا رہے ہیں یہ جام مفلسی کا
شادی میں رنڈیوں کا جلسہ تمام شب ہے
کیوں صبح کو نہ آئے پیغام مفلسی کا
ذلت پسند ہیں ہم محنت سے بھاگتے ہیں
بے جا نہیں ہے ہم پر الزام مفلسی کا
کھیلا جوا تو ایسا کوڑی نہ پاس رکھی
احسان مفلسی کا اکرام مفلسی کا
اس مفلسی کے ہاتھوں بدظن ہیں سب مہاجن
ناراض سیٹھ جی ہیں انعام مفلسی کا
سر خط لکھا لیا ہے اس بے زری نے ہم سے
کاتب ہے فاقہ مستی اسٹام([1]) مفلسی کا
افلاس کے سبب ہیں حاصل فروغ مجھ کو
مشہور ہوں جہاں میں گلفام مفلسی کا
اے مفلسی اٹھا لے اب تو جہاں سے مجھ کو
اے بے زری مٹا دے الزام مفلسی کا
ہر ایک کا تقاضا ہر ایک کا تقاضا
آغاز میں نہ سوچے انجام مفلسی کا
ہیں گورخر مہاجن جو بھاگتے ہیں ہم سے
ہم کو سمجھ رہے ہیں بہرام مفلسی کا
قومی برادروں نے کس کس طرح سے لوٹا
ان بھک منگوں نے بھیجا پیغام مفلسی کا
کیا اَبخرات زر کے سر میں سما رہے ہیں
گھیرے ہوئے ہے ہم کو سرسام مفلسی کا
افلاس مجھ کو باتیں سنوا رہا ہے صدہا
گویا غلام ہوں میں بے دام مفلسی کا
ایمان ہو جو قائم تو مفلسی نہ آئے
دشمن قوی ہے گویا اسلام مفلسی کا
آخر تماش بینی ہم کو چڑھا کے لائی
تھا عرش سے بھی اونچا کچھ بام مفلسی کا
اخبار کی بھی قیمت دینے سے منہ چرایا
پبلک میں ہم پہ آیا الزام مفلسی کا
آنکھیں چرا رہے ہیں خوش چشم آج ہم سے
تلخی یہ مارتا ہے بادام مفلسی کا
افسوس اب بگڑ کر بننے کا دھیان آیا
آغاز میں نہ سوچے انجام مفلسی کا
چونچ ٹوٹا اُلّو
چونچ ٹوٹا ایک الو ہے کہو کیسی کہی
دوسرا بھی ابن ہشو ہے کہو کیسی کہی
جھنجھائی محلے میں طرح طرح کے جانور چڑی مار لاتے تھے۔ اتفاق سے ایک عجیب غریب قسم کا جانور ساکھو کے ایک سوکھے ٹھونٹ پر بیٹھا ہوا کلیلیں کر رہا تھا۔ چودھری ہیرامن بھی اپنے کندھے پر جال ڈالے اور لاسہ لیے ہوئے جا رہے تھے۔ جھٹ کمپا لگا دیا۔ جانور ہشیار تھا۔ مگر قسمت میں کچھ دنوں قفس کی سیر لکھی تھی۔ اوندھے سیدھے گھسٹتے ہوئے چلے آئے۔ اب جو غور سے دیکھتے ہیں تو الو ہے۔ مگر چونچ ندارد۔ ہیرامن تو صورت دیکھتے ہی مایوس ہو گیا اور اس کے فروخت ہونے کی امید سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
کیونکہ اس کے پاس دو چار الو کرنجی آنکھ چپٹی ناک سرخ سفید مہینوں سے چھیچھڑے کھا کھا کے موٹے ہو رہے تھے اور کوئی پوچھتا نہ تھا مگر چار ناچار نخاس دکھایا گیا۔
ادھر دوالی قریب تھی۔ ایک سفلی کے عامل کو بھوانی کی بھینٹ چڑھانا تھی اور عمل کو جگانا تھا۔ وہ بھی ڈھونڈتے ہوئے سویرے سویرے نخاس پہنچے اور ان کو اونے پونے مول لے لیا۔
رات کو عمل شروع کرنے کے واسطے بھینٹ چڑھانے کے لیے چھری اٹھائی تو الو بھی کچھ ٹوٹی پھوٹی اردو بولنے لگا۔ مگر الفاظ بے ربط، بے تکے۔ وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے۔ جیسے حَمْل کو حمَل، لَہر کو لہَر، آنی تھی، جانی تھی، کھانی تھی، ناچنی تھی، گانی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ چونچ کے نہ ہونے سے الفاظ اکھڑے ہوئے ادا ہوتے تھے۔
عامل صاحب نے جب یہ دیکھا، عمل کو درگذر کیا، چھری پھینک دی اور اس الو کو اردو الفاظ رٹانا شروع کیے۔ کچھ مدت میں مار پیٹ کر رواں کر دیا۔ رفتہ رفتہ قسمت کی یاوری اور چند بے وقوفوں کی مہربانی سے ایک اخبار کا اڈیٹر ہو گیا۔ مگر تہذیب اور آدمیت آنا تو دشوار تھی، وہی گدھے پن کی باتیں اور بے وقوفی موروثی حصے میں آئی۔ شیطان کی مدد سے کچھ شہدا پن آ گیا۔ دوسرے سئیاں شہدے نے اپنا شاگرد کیا تھا۔ اس کی تربیت کا اثر اور سونے میں سہاگے کا کام دینے لگا۔ ہر ایک کو گالیاں دیا کرتا تھا۔ دو چار اسی منش کے شریک ہو گئے اور وہی ہانک بولنے لگے۔ اتفاقاً ایک مرتبہ ایک مولوی صاحب سے الجھ پڑا، انھوں نے جو غصے میں دو انچھر پڑھ کر پھونکے تو چڈا کی زبان بند ہو گئی۔ لاکھ پکارو منہ سے نہیں بولتا۔ بات چیت کو محتاج ہے۔ مہربانی فرما کر کسی صاحب کے پاس زبان بندی کا اُتارا ہو تو اس چونچ ٹوٹے الو کی جان پر رحم فرما کر دریغ نہ فرمائیے۔ اگر منہ سے حرف پھوٹنے لگا تو آپ کو دے دیا جائے گا۔
کندۂ ناتراش
غالباً آپ لوگ مجھ کو نہیں جانتے۔ میں شاعر ہوں۔ میں نے اپنا تخلص اب تک نہیں رکھا۔ کیونکہ اس میں ایک آسانی ہے۔ جس شاعر کی غزل اچھی ہوتی ہے مقطع خارج کر کے میں اپنے نام سے شائع کر دیتا ہوں۔ مقطع کہنے کی بھی تکلیف نہیں اٹھاتا ہوں۔ میری قوم فخر کے مارے کُپا ہوئی جاتی ہے۔ خاص کر ایک درزن یا دریں چہ شک میری بہت مداح ہے۔ سب “لیڈر” ہیں۔ میں “نڈر” ہوں کیونکہ میں ہندو مسلمانوں میں کھنڈت ڈالنا چاہتا ہوں۔ مشہور ہے ؏
ازل سے دشمنی طاؤس و مار آپس میں رکھتے ہیں
میں بھی مولویوں کا اور پنڈتوں کا جانی دشمن ہوں۔ بس چلے تو خون پی جاؤں۔ سفید سیاہ میں کچھ تمیز نہیں کرتا۔
میں مدرسین کی خارجی توجہ سے بی اے ہوں۔ میں اپنی شہرت چاہتا ہوں اگرچہ وہ گالیوں اور ذلتوں سے حاصل ہو۔ مثنوی والے قصہ میں مَیں نے کچھ شیطان سے کم کام نہیں کیا۔ ادھر پنچ کو گدھا بنایا۔ ادھر اپنی قوم کے احمقوں کو برانگیختہ کیا۔
میرے نزدیک مثنوی پر تمام اعتراض بے جا ہیں۔ آتش، ناسخ اور تمام اردو کے شاعر زبان نہیں جانتے تھے، کیونکہ ان میں مطعون ہونے والی زبان دانی کا حصہ موجود نہ تھا۔ زبان مصنفِ مثنوی جانتے تھے یا میں جانتا ہوں۔ زبان درازی میرے حصے میں ہے چاہے بعد کو بخوبی مرمت ہو جائے۔ مثنوی پر جتنے اعتراض ہوئے سب غلط۔ جتنے شاعر ہیں سب جھوٹے۔ جتنے لغت ہیں سب غلط۔ میرے نزدیک تمام مطبع غلط، خود غلط، املا غلط، انشا غلط۔ مثنوی ہر طرح صحیح۔ اس کو میری آنکھوں سے دیکھو وہ پھوٹی آنکھ کا دیدہ ہے۔ اگر اس کی شاعری نہ رہی تو تمام دنیا سے شاعری کی دولت نکل جائے گی۔
میرے پاس ایک کتاب اینٹ الپزادہ کاکوری کے گدھے پر لد کر آئی تھی۔ حضرت آدم سے پیشتر کی چھپی ہوئی۔ مصنف کی خاص مہر لگی ہوئی۔ اس کو سواے میرے اور کاکوری والے گدھے کے کسی نے نہیں دیکھا۔ اب بھلا میری تحقیقات کو کوئی کیا پا سکتا ہے؟
حمل پر اعتراض بے جا ہے۔ بہ حرکت میم بہت صحیح ہے۔ کیونکہ یہ اصل میں جَمل تھا۔ جیم کے پیٹ کا نقطہ گر گیا حمل رہ گیا۔
بعضے می گویند کہ اصل اس کی مہمل تھی۔ میم کو فارسی والوں نے کھا لیا اور اس کا پیش فتح سے بدل کر دوسرے میم کے سر پر پھینک دیا۔ ہاے ہوز بالکل ساکن تھا اس کو بھی زبردستی فتح دے دی۔ اس میں کسی کا کیا اجارہ ہے۔ تو اب ہمل ہاے ہوز سے بفتح میم ہے۔ میرے پاس کتاب موجود ہے۔ دوسرے سجادی بیگم کی دو ورقی میں بھی چاروں صفحوں پر یہی لکھا ہے۔ اب میں کسی شاعر اور کسی لغت اور کسی اہل زبان کو نہیں مانوں گا۔
میں کچھ مکتب خانہ کا پڑھا ہوا تو ہوں نہیں۔ نہ یہ غلط کتابیں میں نے پڑھی ہیں۔ ماسٹر صاحب نے زیر زبر کی حرکت مجھ کو سمجھا دی ہے۔ کوئی لاکھ کہے میں ہرگز نہ مانوں گا کہ حمل میں حرکت نہیں ہے۔ میں نے خود حرکت کی تھی۔ دوسرے ماسٹر صاحب کی بے جا حرکتوں نے مجھ کو بخوبی سمجھا دیا ہے کہ کوئی لفظ بغیر حرکت کے ہوتا ہی نہیں۔ کوئی جانور حرکت سے خالی نہیں۔
روٹی تو کما کھائے کسی طور مُچھندر
ایک نائی کی سرگذشت
حجام نے اپنی آبائی پیشے کو بہت کچھ چھپایا۔ مگر جب کوئی صورت روٹیوں کی نہ نکلی تو پھر رفتہ رفتہ اپنے قرینے پر آ رہا۔ آخر مجبوراً استرا پکڑنا پڑا اور اقرار لسانی بھی کرنا پڑا۔ در حقیقت یہ عرب کے اونٹوں کے ساتھ دھوکے سے بندھا ہوا چلا آیا تھا۔ باپ کی طرف سے حجام ہے اور ماں کی طرف سے دائی والا ہے۔ ختّان الجواری کا مسئلہ اس نے اپنی والدہ سے حاصل کیا اور گھر ہی میں مشق بہم پہنچائی۔ رفتہ رفتہ مسلمانی پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ حجامت کی ابتدا احمق الذین سے شروع کی۔ پہلے پہلے انھیں کو مونڈا پھر اپنے ہادی پر ہاتھ صاف کیا۔ اب تو ماشاء اللہ سے خط کی ایک ایک کھونٹی اکھیڑ لیتا ہے۔ یہ کوئی گھس کُھدا نائی نہیں ہے۔ کوئی صاحب یہ خیال نہ فرمائیں کہ جس طرح بندر کے ہاتھ استرا لگ گیا تھا یہ بھی اسی قسم سے ہو۔ نہیں نہیں بالتحقیق معلوم ہو چکا ہے کہ یہ قدیمی حجام ہے۔ بعض لوگ دھوکا کھاتے تھے کہ شاید یہ اناڑی نہ ہو تو وہی مثل صادق آئے کہ “کٹے ججمان کا سیکھے نائی کا” اگر استرا پکڑنے کی تمیز نہ ہوتی تو پنچ میں کبھی اشتہار نہ دیتا۔ لُترا بھی ایسا ہے کہ جس کی یہ روایت مشہور ہے کسی نے کہا مٹھو نائی نے کہا راجا کے بڑے بڑے کان۔ بے چارے نے سب حال تو اپنا آئینہ کر دیا اب بھی ججمان لوگ متوجہ نہ ہوں تو جاے تاسف ہے۔ ایک رئیس نے کہا تھا آگے کا اٹھا ہوا کھانا ملے گا اور پانچ روپیہ مہینہ۔ روز چھوٹے بھیا کا سر مونڈنا ہوگا۔ ستیا پور لیے جاتے تھے۔ ریل پر کسی نے کہہ دیا کہ کہاں لیے جاتے ہو۔ وہاں روز مسلمانی کی ریل پیل ہوگی۔ خوفزدہ ہو کر بھاگ آیا۔ لاکھ لاکھ سمجھایا کہ تم کو اس کا حق علاحدہ سے ملے گا مگر یہ کب ماننے والے تھے۔ ختنے کے نام سے فوراً جھجکتا ہے۔ کیونکہ اپنے گھر میں تو اس کو ختان الجواری سے سابقہ پڑا تھا اور یہاں ایک بھاری کام کا مقابلہ ہو جاتا ہے تو مارے شرم کے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ ہاں حجامت میں استاد ہے۔ ایک دفتر کو تو الٹے استرے سے مونڈ چکا ہے۔ اور حجامت کی رعایت سے جونیر کا خطاب حاصل کیا ہے۔ اس واسطے کہ جون کا قطعی دشمن ہے۔ اب کِسوَت الدولہ کا لقب دیکھیے کس مونڈے کسیرو سے ملتا ہے۔ مگر کسوت کی صفائی کا اس کو خیال نہیں۔ کٹوری بدقلعی لاتا ہے۔ کنگھی کے دندانوں میں میل بھرا رہتا ہے۔ استرے بال کم لیتے ہیں۔ چموٹا نان خطائی سمجھ کر خود کھا گیا۔ آئینہ اندھا رکھتا ہے۔ قینچی کے خالی گھیرے دکھاتا ہے۔ پلڑ کا پتہ نہیں۔ سلّی گھسی ہوئی لاتا ہے۔ ناخن گیری تو ہے ہی نہیں۔ کسی چھاپے خانے سے حرف تلاش چُرا لایا ہے۔ موچنے کی ضرورت نہیں۔ اکا دکا بال ہاتھ سے پکڑ کے اکھیڑ لیتا ہے۔ کسوت چمڑے کی ہے مگر پھٹی ہوئی۔ دن بھر حجامت بناتا ہے، رات کو بدن بھی داب لیا کرتا ہے۔ اس میں بھی دو چار پیسے مل جاتے ہیں۔ اس حالت پر دماغ عظیم اللہ خانی رکھتا ہے۔ بات بات میں استرے پر ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ جب پوچھو یہی کہتا ہے خداوند نائی اگر غریب سے غریب بھی ہوگا تو دو چار اشرفیاں ضرور ہوں گی۔ ضرورت کے وقت منکسر المزاج بھی ایسا کہ باید و شاید۔ عید بقر عید کو مٹی کا پیالہ ہاتھ میں روٹیوں کا تھیلا بغل میں لٹکا ہوا ہے اور آپ دروازے دروازے پکار رہے ہیں: “خدا سلامت رکھے نائی کی تہواری اور روٹی مل جائے”۔ کسی نے چار پیسے چار چپاتیاں دو آلو پکڑا دیے تو اب ان کی خوشی کا کہنا۔
حمام اس کا بالکل ٹھنڈا رہتا ہے۔ جو کوئی اندر جاتا ہے بہت پچھتاتا ہے۔ ہاں پانی چھوڑنے میں حاتم ہے۔ کھیسا اور بیسن دانی لیے ہوئے ہر وقت موجود رہتا ہے۔ کوئی زبردست خان گھس آتا ہے تو کھیسے نکال دیتا ہے۔ ناتواں اتنا ہے کہ سر ملنے میں حوض ہو کے رہ جاتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ہر وقت رومال لیے کھڑا رہتا ہے۔ پہلے تولیے سے بدن پوچھتا ہے پھر لنگی دیتا ہے۔ نہانے کے بعد خراب پانی اس کی مہری سے بہ جاتا ہے۔ شرمیلا اتنا ہے کہ کسی کو استرا لیتے ہوئے دیکھتا ہے تو منہ پھیر لیتا ہے۔
منشی۔۔۔۔۔ صاحب کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ ابھی تھوڑا عرصہ ہوا کہ ایک نائی کے لڑکے نے چوک کے ایک عطر والے حافظ جی صاحب کو عیش باغ کے میدان میں دھوکا دیا تھا۔ بے چارے کو مشکوک حالت میں بڑا گھر دیکھنا پڑا۔ یہ معاملہ سب پر روشن ہے۔ العاقل تکفیہ الاشارۃ۔ سننے میں آیا ہے کہ ان کی بدولت اس کے گھر میں عطر تیل کی ریل پیل رہتی ہے۔ مال مفت دل بے رحم۔ دال میں کچھ کالا معلوم ہوتا ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
مُنّے حجّام کی مرمّت
مولانا ظریف! بے شک میں سوختہ بخت سیاہ نصیب ہوں کہ میری اولاد ناخلف، بے کس کا لگا، دم کٹا لنگور، کنکر کوٹنے کا دُرمُٹ، لاسے کی چھڑ، عوج بن عنق کا تیسرا پاؤں، بے دال کا بودم، شتر بے مہار، عینک باز بدمانس، وحشی کتا، لمبو بے ڈول، جلے پاؤں کی چھچھوندر، خدا کی شان اپنے باپ کی تعریف میں کسوت عبادی سے یوں اعتراف کرے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ اور اس خفگی کا باعث یہ ہے کہ حکیم نے اپنے بھتیجے کی مسلمانی کا جوڑا اس کو نہیں دیا تھا۔ بس اب کیا تھا۔ کٹے ہوئے کنکوّے کی طرح کنّوں سے اکھڑ گئے۔ لاکھ ڈور کنکوا دکھاؤ مانتے ہی نہیں۔ کچھ تو اپنے ہادی کا زور اور کچھ چودھراہٹ کا بل۔ خفا ہوئے تو آپ کے منہ کا تھوتھن لٹک آیا۔ اب جمعہ جمعہ خط بنانے کے واسطے بلاؤ دماغ ہی نہیں ملتے۔ جی حضور استرے باڑھیے کے یہاں پڑے ہوئے ہیں۔ خداوند قینچیاں اتر گئی ہیں۔ ناخن گیری کی باڑھ نہیں۔ مرزا صاحب کے بال کاٹ آئے تو غلام حاضر ہوتا ہے۔ خانہ زاد کو آج کل قیصر باغ کے رجواڑوں سے چھٹی نہیں ہے۔ تابعدار سہ پہر کو حاضر ہوگا۔ ایک مرتبہ بعد دخل در معقولات کے صبح کو احتیاج نہانے کی ہوئی۔ حمام میں گیا تو کیا کہتا ہے حضور یہ کل کا پانی ایسا ٹھنڈا ہے، لاکھ آنچ کرو گرم نہیں ہوتا۔ دیکھیے پھر رات سے پھونکتے پھونکتے آنکھیں پھوٹ گئیں۔ لیکن پانی برف کی طرح جما ہوا ہے۔ کسی طرح پگھلتا ہی نہیں ہے۔ اسی وقت خط بنوا لیجیے کل مجھ کو چھٹی نہ ہوگی۔ بڑی چودھرائن کے یہاں جلسہ ہے۔ نیوتہ دینے جاؤں گا۔ علاوہ ازیں انانیت اور ہمہ دانی کے دعوے نے اس کو اور بھی مٹا دیا ہے۔ اپنے دل میں سمجھتا ہے کہ میں شاعر ہوں نثّار ہوں، حکیم، جراح ہوں، چودھری ہوں، اور۔۔۔۔۔ نائی تو ضرور ہی ہوں۔ اس میں کوئی ایسا نہیں جو میرے نام سے ایک قصیدہ کہہ دے تو دو چار پیسے بھیک مانگ کھاؤں۔
حجامت کے چار پیسوں میں کیا ہوتا ہے۔ سفید پوشی کا شوق ہے۔ مارے شرم کے کسوت شالی رومال میں چھپائے رہتا ہوں۔ مولوی صاحب سے اس واسطے جلتا ہوں کہ کالے کے آگے چراغ نہیں جلتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رؤسا میں دال نہیں گلتی۔ کئی مرتبہ خیال کیا کہ مرزا صاحب کی خدمت میں فیض یاب ہوں لیکن مبارک علی اور مولوی کے خوف سے ہمت نہیں پڑتی۔ ورنہ چغل خوری کی عادت تو مجھ میں ایسی ہے کہ شاید و باید۔
غرض کہ اوصاف احاطۂ تحریر سے باہر ہیں۔ فی الحال چند اشعار آبدار اس کی تعریف میں نظم کیے ہیں:
عین ذلت کو سمجھتا ہے یہ عزت اپنی
کھول دیتا ہے جو ہر وقت حقیقت اپنی
گھر سے جس وقت نکلتا ہے یہ احمق جاہل
تو جتاتا ہے رئیسوں سے شرافت اپنی
خود ستائی کا مرض اس میں سوا ہے سب سے
جاہلوں میں یہ بگھارا کرے حکمت اپنی
چودھری آپ کو کہتا ہے یہ حجاموں کا
اس لیے خود ہی جتاتا ہے حماقت اپنی
ظرف جو اوچھے ہیں از خود وہ چھلک جاتے ہیں
کہہ دو رہنے دے لیاقت کو ہدایت اپنی
مذہبی اس کو تعصب ہے تو ہو ہم کو کیا
کم نہ ہوگی کبھی واللہ ظرافت اپنی
غاد کو میں نے چپت دی تو اسے چھینک آئی
اندرونی وہ دکھاتا تھا لیاقت اپنی
ہم بھی موجود ہیں نائی کی مرمت کے لیے
اور کھلوائے گا کیا ہم سے حقیقت اپنی
بی سجادی کا شکایت نامہ مولانا کے نام
پیارے مولانا! قسم ہے اپنے سر کی اگر میں جانتی کہ تم اس معاملہ میں اس طرح بگڑ کھڑے ہو گے، ایسا جھاڑ کا کانٹا بن کے میرے پیچھے چمٹ جاؤ گے تو کوئی ایک نہیں ہزار کہتا میں نوج ایسے مردوے کے بیچ میں نہ پڑتی۔ اے میں تم سے کہتی ہوں اللہ رکھے میں تو ہمیشہ سے تمھارے منہ چڑھی تھی۔ تم وہی مولانا ہو۔ ابھی چار دن کی بات ہے تم نے پردۂ عصمت نکالا تھا۔ مجال کیا تھی کہ کوئی تمھاری مخالفت کر جاتا۔ مگر میں نے کیسا کیسا مسخرہ پن کیا۔ کیسی کیسی دل لگیاں کیں۔ تم ہمیشہ ہنس کر ٹال دیا کیے۔ پنچ کا کوئی پرچہ خالی نہیں جاتا جو میں تم کو نہ سناتی ہوں۔ تمھارے نام سے میری دو ورقی کی رونق تھی۔ لوگ اس اخبار کو نہیں دیکھتے تھے جس میں سلامتی سے کچھ تم سے چھیڑ خانی نہ ہو۔ مضمون میں گرما گرمی نہیں آتی تھی جب تک تم سے نوک جھونک نہ ہو۔
میں نے تمھاری ذاتیات پر بہت سے ایسے حملے کیے جس سے تم کو برا ماننے کا حق تھا۔ میرے منہ سے میرے ہوا خواہوں نے جو کچھ تم کو کہا تم نے شربت کے گھونٹ کی طرح پی لیا۔ یہاں تک کہ بعض بعض تاڑنے والے بھانپنے لگے۔ کسی کسی کو تو یقین ہو گیا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کبھی ایک آدھ منہ پھٹ میرے منہ در منہ کہہ گزرا کہ اچھا موٹا یار پھانسا۔
میں نے کہاں ہاں خوب کیا۔ کسی ایسے تیسے کا اجارا ہے۔ جس کو رشک ہوتا ہو اپنی۔۔۔۔۔۔۔۔ کو بھیج دے۔ کیا کسی بھڑوے کی چوری ہے۔ ہم تو ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں۔ ایک ادبی پرچے کے ساتھ بھی میری چھیڑی خانی برابر چلا کی۔ کچھ میری عادت ہو گئی تھی کہ ناحق بے ناحق تم کو جان جان کے ستاتی اور تمھارا منہ چڑھا دیا کرتی تھی۔
دوسرا پرچہ تو ادھر تم نے نکالا اور میں نے آوازے توازے شروع کیے۔ ایسی ایسی اوکھیاں سنائیں۔ وہ وہ ملاحی گالیاں دیں کہ بعض وقت تو میں اپنے جی میں خود شرمندہ ہوتی تھی۔ دوسرا ہوتا تو خدا جانے کیا کچھ کر ڈالتا اور کیسی کچھ میری بے عزتی نہ کرتا۔ مگر اللہ رکھے تم ہمیشہ خندہ پیشانی سے ٹالا کیے۔ کبھی تیور پر میل تک نہ آیا۔ مگر اب تو میں دیکھتی ہوں کہ تم سے مجھ سے علی کافر کا بیر پڑ گیا ہے۔ مجھ کو پاتے ہو تو چھری کو نہیں پاتے ہو۔ چھری کو پاتے ہو تو مجھ کو نہیں پاتے اور یہ سب موئے جلنے والے خوش ہو رہے ہیں۔
دم بھر کے واسطے تم غصہ کو تھوک دو تو خطا معاف ایک بات کہوں نہ تم نگوڑ مارا نیا پرچہ نکالتے نہ مجھ کو یہ دن دیکھنا نصیب ہوتا۔
آپ ہی تو پرچہ نکالا۔ اس کے واسطے کیسی کیسی سر توڑ کوششیں کیں کہ کسی طرح ہندو مسلمان گھل مل کر ایک ہو جائیں۔ ہندو کی لڑکی مسلمان کے گھر آئے۔ مسلمان کی لڑکی ہندو کے گھر جائے تو کوئی مضائقہ کی بات نہیں۔ آپس میں مصالحت اور موافقت بغیر مناکحت کے نہیں ہو سکتی۔ مجھ۔۔۔۔۔۔ پیٹی کی جو شامت آئی تو جھٹ تمھاری نصیحت پر عمل شروع کر دیا۔ جہاں کچھ لوگوں کے لڑکے نکلے بلا بلا کر دو دو کھٹیاں سب کو پکڑا دیں۔ میل جول پیدا کیا۔ آمد و رفت کی راہ نکالی۔ دانت کاٹی روٹی ہو گئی۔ وہی روش وہی چال وہی چلن میں نے اختیار کیا جو تم نے بتایا تھا۔ آخر کو وہیں چائے پانی ہو گیا اور ایسی گھل مل گئی کہ لوگ مجھ کو ان میں سے ایک سمجھنے لگے۔ کچھ دنوں اور چپ رہتے تو میری اولاد بھی انھیں میں مشہور ہو جاتی اور دو چار جھول میں بھی نکال لیتی۔ بس فقط نام بدلنے کی کسر رہ جاتی۔
مگر تم نے تو عین کویال میں غلُہ لگا دیا۔ ابھی اچھی طرح سے قارورہ آمیز نہ ہونے پایا تھا کہ تم نے زن سے مثنوی پر اعتراض جڑ دیا۔ محلے بھر کے لونڈے روتے پیٹتے بھنبھیری کی طرح میرے آس پاس چکر لگانے لگے اور زبان کے متعلق مجھ سے آ آ کے پوچھنے لگے۔ جھوٹ کیوں بولتی میں نے جان صاحب کے منہ سے حمل سنا تھا۔ دوسرے میں خود حمل بولتی ہوں۔ ایک مرتبہ میرا خود حمل گر چکا ہے۔ شاید تم کو یاد ہو تمھاری ہی تو شرارت تھی۔ نگوڑا حمل ہے ہی کیا چیز۔ جب ذرا کسی سے گھان میل ہو گیا، حمل موجود۔ مگر زیر زبر کی تحقیقات اور چھان بنان کے ساتھ میں نے تمھارے ہی منہ سے سنا۔ میں ایسی ہندی کی چندی نکالنا تو جانتی نہیں یہ تمھیں کو مبارک رہے۔
اسی طرح میں ہمیشہ لَہَر کہا کی، وہی میں جانتی ہوں۔ میری کاکوری میں بھی لوگ یہی بولتے ہیں۔ اب تم مردوں نے ایک ساکن اپنی طرف سے زبردستی اس میں لگا دیا تو لگایا کرو۔ مجھ سے پیش نہیں پاؤ گے۔ وہ اور ہوتی ہوں گی جو زیر ہو جاتی ہوں۔ خدا جانے کیا آفت ہے۔ نگوڑ مارے مردوں کو ہمیشہ اسی کی پڑی رہتی ہے۔ ذری ذری سی باتوں کے واسطے کٹے مرتے ہیں۔
غرض کہ میں تو اس گمان میں تھی کہ میں جو کچھ کہوں گی، تم مروت میں مان لو گے اور ہنس کر ٹال دو گے۔ مگر تمھاری غصے کی آگ ایسی نہیں بھڑکی تھی کہ میری شیریں زبانی کے آب سے دھیمی پڑ جاتی۔ تم پہلے سے بھرے بیٹھے تھے کہ ناحق مجھ پر برس پڑے اور وہ وہ بنایا، ایسا ایسا نمک چھڑکا کہ میرا ہی پتھر کا کلیجہ تھا جو آج تک سنتی رہی۔ دوسری ہوتی تو کب کا زہر کھا لیتی۔ اے میں کہتی ہوں یہ اب کی تم کو کیا ہو گیا ہے جو اس طرح بگڑ گئے۔ آنکھیں نیلی پیلی کرتے ہو۔ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ وہی شاعر گھرانے کی ناک ہے۔ اللہ اللہ کر کے بڑی منتوں سے، بڑی مرادوں سے ایک یہی تو ایسا پیدا ہوا جو موزوں ناموزوں میں تمیز کرتا تھا۔ نظم نثر میں فرق کر لیتا تھا۔ جھوٹ کہتی ہوں تو دوسرا کوئی بتا دو۔ مثنوی اس نے صحیح کہی یا غلط، موزوں کہی یا ناموزوں آپ کون تھے۔ اس کے ناز تو آتشؔ نے اٹھائے، ناسخ نے اٹھائے، صباؔ نے اٹھائے، رندؔ نے اٹھائے۔ ایک نہ اُٹھ سکے تو تم سے؟ زبان وہ نہیں جانتا تو کوئی دوسرا بتا دو جو زبان جانتا ہو۔ میرا تو قول ہے کہ مردوے ایک سرے سے زبان جانتے ہی نہیں۔ مجھ کو جو اس خاندان سے واسطہ ہے تم کو بخوبی معلوم ہے۔ پھر جان بوجھ کر انجان بنتے ہو۔ ہے ہے کچھ تم کو میرا خیال بھی نہ آیا۔ کہ وہ اُجڑ گئی، کیا کہے گی۔ خدا ہی سمجھے کہ جیسا تم میرے بچوں کو ستاتے اور کلپاتے ہو۔ بیچاروں نے مارے غم کے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ چار چار اُنگل شیروانی ڈھیلی ہو گئی۔ دن بھر میں دس دس دفعہ میرے پاس فریادی آتے ہیں۔ تم کو چاہیے تھا کہ میرے مُنہ سے ان کی سرپرستی کرتے۔ جو کوئی دوسرا ان کو آنکھیں دکھاتا، اس کی آنکھیں نکال لیتے۔ مجھ کو مرنے کے بعد تم سے کیا امید رکھنا چاہیے جب کہ جیتے جی تم نے میرے بچوں کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ بھلا مجھ عورت ذات سے کیا لڑتے ہو۔ کسی مردوے سے بولتے تو وہ تم کو مزا بھی چکھا دیتا۔ مجھ پر جو چاہو زبردستی کر لو۔ کیا کبھی اب مجھے منہ نہ دکھاؤ گے۔
اے تو سہی جو سب کے سامنے تم سے چھیڑ خانی نہ کروں۔ آخر تو ساری دنیا میں میری ناک کٹ گئی۔ نہ معلوم کس کم بخت مونڈی کاٹے نے بھڑکا بھڑکا کر تمھارا دل میری طرف سے پھیر دیا۔ نہیں تو تم اپنی ذات سے ایسے نہ تھے۔ میرا تمھارا مدت کا سابقہ ہے اور نہ میں ہی کچھ بدل گئی ہوں۔
لیکن اب نگوڑی باتیں سنتے سنتے میرا دل تم سے کھٹا پڑ گیا۔ آگ لگ جائے ان بھڑکانے والوں کو کیا خاک فائدہ ہوتا ہے۔ ہم تم پھر ایک ہو جائیں گے اور یہ مُوئےجلتے کے جلتے رہیں گے۔
میں تو تمھیں اپنا شوہر سمجھتی ہوں۔ یہ مُوئے تمھارے کوئی ہیں۔ ان کی بات کا بُرا ماننا ہی کیا۔ تم اتنا نہیں سمجھتے۔ مُوئے مثنوی والے سے مجھے کیا علاقہ۔ صرف لونڈوں کی خوشی کی ایک بات میرے مُنہ سے نکل گئی تو اُس پر تم اتنا آگ بگولا ہو گئے۔
شیطان کے نام سے جو خط بھیجے تھے، وہ درحقیقت شیطان نہیں ہے بلکہ شیطانی حرکت سے جو بچے پیدا ہوئے ان کا نام میں نے شیطان رکھ دیا ہے۔ یہ سب خط اُنھیں کے تھے۔ لے اب غصہ تھوک دو اور مجھے اپنی صورت دکھاؤ۔ مہینوں سے اسی ارمان میں ترستی ہوں۔ دل میں نزاع اچھی نہیں۔ دیکھو ابھی تک میرے دل میں تمھاری طرف سے کوئی بُرائی نہیں آئی۔ میں نے تمھاری خاطر سے۔۔۔۔۔۔۔ پرچے میں ایک کارٹون کے ذریعہ سے مثنوی والے شاعر کی خاندانی زبان سُنا دی۔ سچ کہنا اب تو خوش ہوئے اور بکاؤلی کے باغ میں طرف داروں کو کیسا ٹہلایا۔ اس پر بھی تمھاری خفگی کم نہ ہو تو میں کیا کروں۔
طاعون والا خط دراصل تمھارے محلے والوں کے ڈرانے دھمکانے کے واسطے خود میں نے لکھا تھا اور مجھے حق بھی تھا۔ کیونکہ جب شیطان کی خالہ ہوں، ہیضہ کی خالہ ہوں تو طاعون کی بھی خالہ ہوں۔
مرزا غاد والا خمسہ بھی تم شاید جانتے ہو، اُسی بڈھی گابھن بکری خضابو کا ہے۔ جو مرزا مستاؔ کے گھر میں پلی تھی۔ تم ذرا ان سب کی چندیا گرما دو تو مزہ آ جائے۔
حجام کی خوب مرمت کی۔ یقین تو ہے کہ آئندہ حکمت کی نہ بگھارے۔ اسی طرح دوسیتوں کی وجہ تسمیہ نے لٹا لٹا دیا۔ مانتی ہوں اُستاد کیوں نہ ہو یہ سیاں شہدے کا خط اور ہمارے نام! اچھا یاد رکھنا۔
رقیمۂ سجادی
ابلیس کا خط خالہ سجادی کے نام
کیوں خالہ اماں! تم اپنے ہتھکنڈوں سے باز نہ آؤ گی۔ تمھارے ہاتھوں سے ہماری گردن میں طوق لعنت کا پڑا۔ مگر تم ہمیشہ اپنی ناجائز حرکتوں سے ہم کو بدنام ہی کرتی رہیں۔
میں دیکھتا ہوں کہ تم کو مولوی اور مقدس گروہ اور عالموں سے سخت دشمنی ہے اور ہمیشہ سے تم میرے نام سے ٹٹی کی اُوٹ میں شکار کھیلا کرتی ہو۔ میری کیفیت یہ ہے کہ جہاں کسی عالم کا نام آیا، میرا رونگٹا رونگٹا کانپتا ہے۔ جس طرح بکری قصائی سے کانپتی ہے۔ مجھ کو اس گروہ سے ہمیشہ زک ملا کی اور یہ گروہ تمھارے وجہ سے میرا دشمن ہو گیا۔
یہاں تک کہ سر سید کو تو کامل یقین تھا کہ ابلیس کوئی چیز نہیں۔ یہ سب سجادی کی دوسری حرکتوں کا نام ہے۔ تم اگر عمدہ اخلاق، اتفاق، اتحاد، اعلیٰ تعلیم، تہذیب تمدن پیدا کرتیں اور ترقیِ معکوس کی آتش نفاق کو خوب مشتعل کر کے اپنے کلیجے کی آگ نہ بجھاتیں تو اچھا ہوتا۔
خدا کو بہت بہتر کرنا منظور تھا اور ابھی بزرگوں کا نام چند عرصہ تک پردۂ دنیا پر قائم رکھنا تھا، جو اُس نے محض اپنی شان کبریائی سے تمھارے ہاتھ پاؤں، دل و دماغ اور زبان کی قوت سلب کر لی۔ اب تمھاری توبہ بھی قبول نہ ہوگی۔ کیونکہ تمھارے واسطے قیامت کا وہی دن تھا جس دن تمھاری زبان بند ہوئی۔
میں جانتا ہوں کہ خدا کے یہاں سے مجھ کو ابلیس کا لقب تمھاری زبان درازی سے ملا۔ جہاں مجھ میں ہزاروں بُرائیاں ہیں وہاں ایک اچھائی یہ بھی ہے کہ میں اکابرین و مذہب سے ہمیشہ خائف رہتا ہوں۔ تم نے میرے نام سے سر سید کو خط لکھا اور خدا جانے کس کس کو خط لکھے اور جب میں نے تم سے شکایت کی، تم نے یہی جواب دے دیا، کیا تم ہی شیطان ہو۔ اللہ رکھے میری برادری میں شیطان پیدا ہوا ہے جس کی حرکتیں تم سے بھی زیادہ ہیں۔
بلکہ ایک دن اپنے دعوے کے ثبوت میں ایک مُرزقی مردۂ گور دُبلے پتلے افیونی کو پیش کر دیا۔ میں دیکھتا ہوں کہ تمھارے کرتوت اب اور بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ دوسرے سئیاں شہدے کی صحبت میں تم اور بھی خراب ہو گئیں۔ تم نے بھیک مانگنے کا یہ طریقہ اچھا نہیں اختیار کیا ہے۔ تم بڑے بڑے رئیسوں کی عزت اتار لیتی ہو۔ گو ہیضہ اور طاعون تمھارے پُرانے آشنا ہیں، مگر آج کل تم نے لقوے اور فالج کو گلے کا ہار بنا رکھا ہے۔
جب تمھارے دل و دماغ کام نہیں دیتے، ہاتھ پاؤں ساتھ نہیں دیتے، زبان قابو سے باہر عقل رخصت ہو گئی ہے تو تم ہر ایک کے بہکانے سے مشاہیر استادوں پر کیوں منہ کی آتی ہو؟ تم نہیں جانتی ہو کہ ہمیشہ یہی لوگ قدامت کے خیال سے تمھاری عیب پوشی کرتے ہیں اور تمھارے بدنما دھبے کو مٹاتے ہیں۔ ورنہ ان کے ایک قلم کے اشارے میں تم تہس نہس ہو سکتی ہو۔ انھیں نے تم کو یہ عزت دی ہے۔ اس نیکی کا بدلہ تم نے اُن سے خوب نکالا۔
غضب تو یہ کیا کہ الم غلم نتھو خیرا کے نام سے تم نے شاعرانہ اعتراض کا جب کوئی جواب نہ دیکھا تو تعصب اور حماقت نے تم کو اس پر مجبور کیا کہ تم مولانا ایسے غیر متعصب اور ہر دل عزیز انشا پرداز کو مذہبی حملے سے زیر کرو۔ تم نہیں جاتی ہو اُنھیں کی جانکاہ کوشش سے لوگوں میں اتفاق پیدا ہوا۔ افسوس تم قوم اور ملک کے بہی خواہ پر محض اپنی حماقت اور نادانی سے ایک غیر واجبی لم لگانا چاہتی ہو۔ ہانیان اتحاد میں آج مولانا کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ تم ہرگز اس میں کامیاب نہ ہوگی اور تمھاری رائے بالکل لغو اور بے بنیاد ہے۔ تم اپنے گریبان میں منہ ڈالو اور شرمندہ ہو۔ تم سے ہندو اور مسلمان کوئی خوش نہیں۔ کانگرس کا ساتھ تم نے نادان دوست بن کر دیا اور کانفرنس کی مخالفت تم نے نادان دوست بن کر کی۔ دُگھدا میں دونوں گئے۔ مایا ملی نہ رام۔ تم اپنے کرتوت اور اپنے کردار سے مسلمانوں اور ہندؤں کی نظر میں حقیر ہو۔ معلوم نہیں کہ مرنے کے بعد تم جلائی جاؤ یا دفن کی جاؤ۔ کیونکہ مسلمان تم کو ہندو سمجھتے ہیں اور ہندو مسلمان جانتے ہیں۔
غریب شاعر کی روح تم کو پانی پی پی کر کوستی ہے۔ تمھاری دریدہ دہنی سے اس غریب کے سارے عقدے کھولے گئے اور وہ اعترض کیے گئے جن کو اب آتش بھی زندہ ہوں تو نہیں مٹا سکتے۔ تم کو جب شاعری سے تعلق نہ تھا تو دخل در معقولات دینے سے کیا فائدہ ہوا۔ رفتہ رفتہ تمھارے نامہ نگار بھی اب ٹھنڈے پڑتے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کو کوئی معقول بات نہیں ملتی۔ پہاڑ سے رائی کا مقابلہ کہاں ہو سکتا ہے۔
جوانی میں ان لوگوں نے تمھارے ناز اور نخرے اُٹھائے اور نازنین پری جمال سمجھ کر طرح دے دی۔ ہمیشہ کسی کے دن ایک سے نہیں رہتے۔ اب تمھارے بوڑھے غمزے اچھے بھی نہیں معلوم ہوتے۔ تمھارے چمن حُسن و جوانی میں خزاں کا دور دورہ ہے۔ وہ پھول سے گال مرجھا گئے۔ کوئی تم سے پاؤں دبانے کی بھی خدمت نہیں لینا چاہتا۔ اس پر تم سمجھتی ہو کہ میں پونے بارہ برس کی ہوں۔ خالہ اماں خدا کو مان کے اب اپنے بوڑھے چونچلے اُٹھا رکھو۔ ہر با ت سِن پر اچھی معلوم ہوتی ہے۔ایک دن وہ تھا کہ تم پور پور چھلے ہاتھ پاؤں میں مہندی لگائے ہوئے چھمی جان بنی ہوئی بیٹھی رہتی تھیں، اب بند بند تمھارے جُدا ہو گئے۔ وسمہ کی ضرورت۔ ساٹھ برس کی پُرانی ڈھڈّو۔ جو دیکھتا ہے، مُنہ پھیر لیتا ہے۔ ہاتھ سے بیر بھی کھانے کو جی نہیں چاہتا۔ گو سچ ہے کہ تم نے جوانی میں بہت سے جوانوں کو گھائل کیا ہوگا۔ مگر اب خلیل خاں فاختہ اُڑا چکے، ایاز قدر خویش بشناس۔ ایسے نخرے کرو گی تو بھیک بھی میسر نہ ہوگی۔ پھٹے پُرانے حال میں جو بسر ہو جائے غنیمت جانو۔ تم سے اچھی اچھی مال زادیاں دانے دانے کو محتاج ہیں۔ کوئی بھول کے نہیں پوچھتا۔
نعوذ باللہ اگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے لوگ تعصب برتتے تو شاہی زمانے میں ایک پڑھا لکھا نہ ملتا۔ مگر کیا معلوم تھا کہ ؎
کس نیا موخت تیر از من
کہ مرا عاقبت نشانہ نہ کرد
اب بھی جن لوگوں کے گھر میں اُردو فارسی کا قدم آیا ہے ایسے ہی لوگوں کے قدوم میمنت لزوم سے دیکھو سب نے ان کو مانا اور ان کے احسانات کو نہیں بھلایا۔ وہ اب بھی فیض کو پہنچ رہے ہیں۔ اور جو لوگ احسان فراموش ہیں، مٹتے جاتے ہیں۔ مجھی کو دیکھ لو کہ ایک نافرمانی سے کس قدر وبال میں پڑا ہوا ہوں۔ احسان فراموشی بہت بُرا مرض ہے۔
سب سے بڑی تم احسان فراموش ہو کہ تم کو ان لوگوں نے خاک سے پاک کر دیا اور پھر تم ہمیشہ ان کی بیخ کنی میں سرگرم رہیں۔
عرصہ ہوا ہوا مسٹر ٹیپو نے بھی اسی کاوش میں اپنی جان دی تھی جن کی خبر تم نے لوکل مسٹر ٹیپو کی وفات کی سرخی سے لکھی تھی۔ یہی مولانا تھا جن کو کاٹنے دوڑا تھا۔ آخر ایک لاٹھی میں خاتمہ ہو گیا۔ مولوی صاحب کا نام تم نے شرمندگی سے نہیں لکھا تھا۔
ابھی تم ان کی گردش قلم سے اچھی طرح واقف نہیں ہو۔ ایک نکتہ میں تمھاری ہستی اور نیستی کا انقلاب دکھا سکتے ہیں۔ تمھاری بساط کیا ہے۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔
اب تمھارے مرنے کا وقت قریب ہے۔ اللہ اللہ کرو۔ چرخہ کاتنا تو تمھاری تقدیر میں ہمیشہ سے لکھا تھا۔ مگر نکتہ سنجوں کی بدولت تم اس چرخے سے بچ گئیں۔ ایک برا چرخہ تمھارے گلے پڑا۔ اب بڑھاپے میں اٹھتی جوانی دکھاتی ہو۔ یہ اجوائن کی تھیلیاں کس کو پسند آئیں گی۔
زندوں کو تو تم ہمیشہ ستاتی رہی ہو۔ اب تم نے مردوں کو ستانا شروع کیا۔ مرگھٹ سے مردے دہائی دے رہے ہیں کہ اس مردار نے ہم کو ذلیل و رسوا کیا اور ہماری خاک کو بھی برباد کیا۔ آتش کی روح قبر میں بے چین ہے کہ کم بخت گوشۂ مرقد میں بھی چین سے نہیں سونے دیتی۔ مفت میں یاروں کو بدنام کرتی ہے۔
ابھی کیا ہے۔ بہت بدتر تمھاری حالت ہوگی اور دانے دانے کو محتاج ہو جاؤ گی۔ یہ اہل قلم کی دشمنی ہے۔ کچھ ہنسی ٹھٹھا نہیں ہے۔
یاد رکھو کہ تم کبھی ان کو ماہران فن میں شامل نہیں کر سکتی ہو۔ صباؔ اور رندؔ ایک تیز رفتار گھوڑے پر سوار جا رہے ہیں اور وہ ایک کاکوری کے گدھے پر مع اینٹ الپزادہ کے لدے ہوئے ہیں۔ تم گلے میں رسی باندھ کر کھینچتی ہو اور تمھارے ہوا خواہ ڈنڈے مارتے ہیں۔ مگر گدھا گدھا ہے اور گھوڑا گھوڑا۔
کھوسٹ مرزا اگر اب بھی نہ مانیں گے اور درپردہ تمھاری طرف داری کریں گے تو بڑھاپے میں ذلیل ہوں گے اور خضاب کے ساتھ ساتھ تمام سیاہی منہ پر دوڑ جائے گی۔
تمھارے لونڈوں کی ٹائیں ٹائیں فش کوئی اثر نہیں دکھا سکتی۔ یہ چوراہے کے کتے ہیں۔ بھونکتے ہیں۔ بھونکنے دو۔ اس کا اثر علمی مذاق والوں پر کوئی صورت نہیں پیدا کر سکتا اور یہ غل غپاڑہ گوزِ شتر سے زائد وقعت نہیں رکھتا۔ مسٹر ظریف کے قلم کی ذرا سی ششکار ان کے واویلا کے واسطے برسوں کافی ہے۔
آج کل منے حجام کو تم نے خوب اپنے گھر کا چودھری بنا رکھا ہے۔ یہ کسوت تو انھوں نے پھینک دی، اب شیروانی کی جیب میں چند استرے اور ناخن گیریاں اور قینچیاں اور ایک ڈبیا مرہم کی لیے پھرتے ہیں۔ سنا ہے بد گوشت خوب کاٹتا ہے۔ اس شائستہ نائی کی روزی کا دروازہ کھلنے والا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے عید کا دن ہے۔ گھر گھر خوشیاں ہیں۔ سوئیاں پک رہی ہیں۔ شادیانے بج رہے ہیں۔ یہ آئینہ لیے ہوئے خدمت میں حاضر ہیں۔ آپ بھی شرما شرمی ضرور چار ٹکے ان کے کیسے میں ڈالیے نہیں تو ہونٹ لٹک آئیں گے اور بہت مایوسی اور نا امیدی کے ساتھ عرض کریں گے: خداوند! غلام اسی امید پر سال بھر حضور کی جوتیاں اٹھایا کرتا ہے۔ خدا سلامت رکھے ہمیشہ سے ہماری عید بقر عید کو پرورش ہوا کرتی ہے۔ ہماری تہواری میں رخنہ نہ ڈالیے۔
ایک ڈرامے پر ایک روباہ خصلت نے اعتراض کیا “چہ داند بوذنہ لذات ادرک”، کیوں صاحب یہ دھجیاں کیسی۔ کیا کسی درزی صاحب نے اپنا گدڑی بازار دکھایا تھا۔ اس سے تو پھٹا پرانا گودڑ کڑوا تیل کی صدا لگائی ہوتی تو مزا آتا۔ اب یہ کتر بیونت کام نہیں دے گی۔ درزی اور حجاموں کی حمایت کیا۔ مگر بقولے تم کیا کرو مزاج ہی پاجی پرست ہے۔ تمھاری صحبت میں ہمیشہ ایسے لوگ زیادہ رہتے ہیں۔
دیکھو خالہ اماں! اب بھی کہنا مانو اور ان افعال قبیحہ سے باز آؤ ورنہ مسٹر ٹیپو کی طرح مولانا کے قلم کی لٹھ بازی سے تمھارا بھی خاتمہ ہوگا۔
راقم تمھارا بھانجا
ابلیس
تاج الملوک کا نوازش نامہ لَکّھا بیسوا کے نام
کیوں قحبۂ زمانہ، حرافۂ روزگار! تو نے پہلے بکاؤلی کے راستے میں تمام عالم کو اپنے دام تزویر میں قید کیا تھا اور ابلہ فریبی سے ہزارہا شرفا کو اپنا غلام بنایا تھا۔ ہمارے چھ بھائی قید کیے اور ہزاروں کا مال و متاع لوٹا۔ چوسر کے بہانے سے بڑے بڑے رئیسوں کا رنگ روغن اڑایا۔ جس کو آنکھ کا اندھا گانٹھ کا پورا پایا خوب مال کھایا۔ اب پھر کایا پلٹ ہو گئی۔ مرغی کی طرح خاک چاٹ کر الٹ گئی۔ لنڈھکتی ہوئی چودھویں صدی میں پھر اپنی اصلی حالت کے ساتھ جنم لیا اور بربادی اپنا نام رکھ لیا۔ پنچ کی چوسر بچھا کر کالے سر کا ایک نہ چھوڑا۔ پہلے تیرے پاس بلی تھی، اب کتیا سے مطلب براری کرتی ہے۔ رنگ بد رنگ سب مار لیتی ہے۔ بہت کچھ پو بارہ ہوتے ہیں۔ مال مردم خوری کا مزہ ہے۔ پانسہ کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر لنڈھکتی پھرتی ہے۔ ہر ایک سے ٹیڑھی بات بولتی ہے۔ اگرچہ میں نے تیری بہت کچھ گوشمالی کر دی تھی اور امید تھی کہ تو ہزار پلٹے کھا کر بھی اس کو یاد رکھے گی، افسوس تو نے بالکل بھلا دیا۔ کیا تجھ کو اپنی پوسی (بلی) اور میرا نیولا یاد نہیں ہے۔ دل کھول کے بازی بد چکی ہے اور ہار چکی ہے۔ میری لونڈی ہو چکی۔ میں نے تجھ سے عقد کرنے سے انکار کیا تھا مگر پھر بھی تو اپنی میاؤں پر قائم ہو گئی اور اس جنم کی ساری باتیں بھول گئی۔ اری چرخہ! کیوں دیوانی ہوئی ہے۔ کچھ شامت آئی ہے۔ بڑھاپے میں اپنا منہ کالا کرائے گی۔ پانسے کی طرح ماری ماری پھرے گی۔ کوئی نہ پوچھے گا۔ ہر گھر سے ٹکا سا جواب ملے گا۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا اور نہ تجھ میں حسن جوانی ہے۔ زبان کی لنجی ہے۔ منہ میں گھنگھنیاں بھری ہیں مگر اس پر شیطانی حرکت کی خواستگار ہے۔ کاکوری کا نام ہنسواتی ہے۔ بہت سے رئیسوں کو لوٹ چکی ہے مگر ؎
نہ ہر جاے مرکب تواں تاختن
کہ جاہا سپر باید انداختن
خدا کو تیرے افعال بد کی سزا دینا منظور تھی جو تجھ سے مولانا ظریف سے سابقہ پڑا۔ سمجھی تھی کہ پہلے میرے ساتھ بلی تھی اب کتیا ہے۔ کچھ کام چل جائے گا۔ لیکن یہ نہ معلوم تھا کہ تیری قسمت سے یہ بھی تاج الملوک نکل آئیں گے اور قلم کے ڈنڈے سے کتیا کو ختم کر دیں گے۔ جان و مال ہار جائے گی۔ کوئی شریک نہ ہوگا۔ کردنی خویش آمدنی پیش سچ ہے۔ ہر کمالے را زوالے، ہر زوالے را کمال۔ افسوس ایک دن وہ تھا کہ تو اپنی بساط شطرنج یعنی صفحات اخباری میں ہر ایک کو شہ مات کر دیا کرتی تھی اور شیطان کی مدد سے بڑے بڑے مدبران ملک کی توہین پر کمر بستہ تھی۔ دو چار لونڈے لاڑیے ساتھ تھے۔ انھیں فوج سمجھتی تھی اور کوس لمن الملك الیوم بجاتی تھی، یا ایسی گنی سادھی ہے کہ نہ منہ سے بولتی ہے نہ سر سے کھیلتی ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
یاد رکھ یہ مولانا ظریف ہیں، تیرے ساتھ بہت کچھ رعایت کی، ہر طرح کے ناز اٹھائے، ہر طرح کے نخرے اٹھائے اور ہنسی خوشی سے ٹال دیا۔ کیا تو نہیں جانتی ہے کہ ہر فرعونے را موسیٰ۔ تو نے حجام اور دھوبی کے بھروسے پر اخبار نکالا اور مولانا کے مراتب اعلیٰ کا خیال نہ کیا۔ ان کے ایک قلم کی گردش میں تو کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور تیری بساط الٹ پلٹ ہو گئی۔ اب وہ تیرے گہرے یار پیلتن تیری طرف رخ نہیں کرتے۔ گھر گھر ماری ماری پھرتی ہے۔ کوئی پوچھتا نہیں۔ آہ تیرا کیا نمکدان ظرافت ٹوٹ گیا۔ ہم کہہ چکے تھے کہ نائیوں کی بات کا اعتبار نہیں ہے۔ ان کے بہکانے میں نہ آنا۔ مگر تو نے نہ مانا۔ مگر تجھ کو کیا معلوم تھا کہ ظریف سے تیری بازی اس طرح ہار جائے گی۔ جُگ ٹوٹ جائے گا۔ گھر میں آرام سے سونا نصیب نہ ہوگا۔ ہر داؤں وہی تین کانے ہوں گے۔ کیا تجھ کو یہ شک ہوتا ہے کہ اگر مولانا مثنوی کو مٹا دیں گے تو میرا نام صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا اور پھر لکھا بیسوا کا کوئی پوچھنے والا نہ رہے گا۔ یہ ایک غلط خیال ہے۔ نثر کا قصہ گل بکاؤلی بہت اچھی عبارت سے قدیم اردو زبان میں موجود ہے جس سے تمام عالم فیض یاب ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ خود مولانا ایسے نامنصف نہیں ہیں وہ اس مثنوی کو اصلاح دے کر اردو کا سلیس اور مزیّب جامہ پہنا کر اس کو اور چمکا دیں گے اور زبان کی خرابی کا بد نما دھبہ اس کی پیشانی سے مٹا دیں گے جو اس کے نا سمجھ ضدی مصنف کی کج فہمی سے آج تک چلا آتا تھا اور باوجود اصلاح کے بھی اس پر عمل نہ کیا گیا۔ کیا تو چاہتی ہے کہ مثنوی اسی خرابی میں پڑی رہے اور اس کو کوئی سخن سنج نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے اور قدر داناں سخن اپنی میز تک اس کو نہ آنے دیں۔
در حقیقت مثنوی میں بوے کچوری می آید۔ اور نظم کے دیکھنے والے زبانداں اس کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ دکھا سانپ والا کیسا مہمل جملہ بیان کیا گیا۔ اس لہنگا پھریا پر مونج کی بخیا بالکل بدنما اور خراب معلوم ہوتی ہے۔
شاہوں کے مراتب کا خیال وہ شخص کیا کر سکتا ہے جس نے آنکھ کھول کر کہار کی زبان سیکھی ہو۔ کجا راجا مہرا اور کجا تاج الملوک۔ ہاں اگر کسی لائق شاعر نے ایسی جرات کی ہوتی تو مثنوی کا نفس قصہ بہت نفیس تھا اور وہ قابل داد ہوتا۔ اسی طرح مطالب بہت سے خبط ہو گئے اور نفس قصہ کو بھی گویا مٹا دیا۔ مثنوی کا پڑھنے والا جب قصے کا مطلب نہیں سمجھتا تو اس کو خاک مزا نہیں آتا اور وہ اٹھا کر کوڑے میں پھینک دیتا ہے۔ اس پر زبان بھونڈی، محاورات غیر فصیح، عبارت خبط، ایک مصرعے کو دوسرے سے ربط نہیں۔ رعایت کی بھرمار، خراب پہلو۔ استاد سخن فہم تھا۔ اس نے شاگرد کے جب ناز بیجا دیکھے، سمجھ گیا کہ یہ شیطان یوں نہ مانے گا جب تک کوئی اس کی اچھی طرح مرمت نہ کرے اور میری اصلاح کی قدر نہ کرے گا جب تک یہ اچھی طرح ٹھوکر نہ کھائے۔ اسی واسطے استاد کی زندگی میں ان کے شاگردوں نے بھی استاد کا منظور نظر سمجھ کر مثنوی پر ہاتھ صاف نہیں کیا۔ بعض نے اشارۃً کنایۃً سمجھایا مگر مصنف ماشاء اللہ سے ایسے سمجھ دار نہ تھے جن کو اشارہ کافی ہوتا۔ اب مولانا کے چابک نے بیدار کر دیا اور تم کو تینوں تلوک نظر آنے لگے۔ مثنوی کی غلطیوں کا خود اقرار ہونے لگا۔ مگر پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔ دراصل مولانا کا احسان تمام طرف داران کو ماننا چاہیے اور ان کا مشکور ہونا چاہیے کہ عفونت آمیز گندی زبان کو اصلاح سے مزین فرما کر دیکھنے کے قابل بنا دیا۔ وگرنہ آئندہ ردیوں میں پھینک دی جاتی۔ سوا اس کے پنساری کی پوڑیاں باندھی جاتیں اور کسی کام کی نہ تھی اور اب بھی اگر کوئی ان کی بیش بہا رائے کی ناقدری کرے گا اور موتیوں میں تولنے والے اعتراضات کو نہ مانے گا تو ایک دن یہی حال ہونا ہے۔ تم سے ایک طرح کی مجھ کو امید تھی کہ تم زمانے کی ٹھوکر اٹھا چکی ہو، کچھ دھوپ میں بال نہیں سفید کیے ہیں، بڑے بڑے استادوں کی زیر مشق رہی ہو اور اس آخری جنم میں بھی آ کر تم نے اپنا وہی جال پھیلا دیا تھا اور اخبار کے صفحوں کو بساط چوسر بنا رکھا تھا۔ بجائے نقارے کے پریسوں کی کھٹا کھٹ برابر چلی جاتی تھی۔ بلی کے معاوضے میں کتیا پال رکھی تھی اور بجائے کالا منہ کرانے کے پریسوں کی سیاہی پر گذر تھا، اس جال میں ایک نہ ایک انیلا رئیس پھنس جاتا تھا اور تم گالیاں سنا کر اس کا روپیہ ٹھگ لیتی تھیں، وہ بھی کچھ یہ سمجھ کر کہ ؏ معشوق کی گالی سے تو عزت نہیں جاتی۔
تم کو طرح دے جاتا تھا اور کچھ بھینٹ چرھا کر اپنی جان چھڑا لیتا تھا۔ تم کو یہ لت ایسی پڑ گئی تھی جیسے بلی کے منہ کو خون کا چسکا۔ تم سمجھ لیتی تھیں کہ میں میدان مار لیتی ہوں اور بازی جیت جاتی ہوں۔ اسی بخیہ پر مولانا کے ساتھ بھی بازی کھیلنا چاہی۔ وہ ایک پرانے کھلاڑی تھے، تمھاری چال سمجھ گئے کہ تم جب بازی کھیلنے بیٹھتی ہو کتیا بھونکتی ہے، کھلاڑی ہار جاتا ہے تو پہلے انھوں نے اپنے لٹھ سے کتیا کا سر بھرتا کر دیا اور مسٹر ٹیپو کے ساتھ اس کو بھی کالعدم کر دیا۔ اعتراض کی گرمی نے سب کو ٹھنڈا کر دیا اور تمھاری چوسر کی ساری گوٹیں ماری گئیں۔ پہلے تو کلموہے، بدھیے، بکرے، مرزا مستا والے کا سر کچل دیا۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ نائی والی گوٹ مار لی۔ پھر درزن کی حالت چیتھڑے چیتھڑے ہو گئی۔ رنگ بد رنگ، الم غلم، نتھو خیرا سب کو رو سیاہی نصیب ہوئی۔ اب تم جان کی بازی لگائے ہوئے کھیل رہی ہو اور سوائے تین کانے کے کچھ نہیں آتا۔ ہار جاؤ گی اور یقینی ہار جاؤ گی۔ اس جنم میں تمھاری جان کو یہی تاج الملوک تھے اور یہ سہرا انھیں کے سر ازل سے لکھا ہوا تھا۔ اب اپنی روانگی کا سامان کرو ؏
ہر روز عید نیست کہ حلوا خورد کسے
راقم شہزادہ تاج الملوک
مولانا ظریف کے نام تاج الملوک کا شُقہ
مسٹر ظریف! درحقیقت تمھارا وجود منکران اعتراضات کے واسطے مشفق ناصح کا کام دے رہا ہے۔ جب خاقانی اور غالب کے پیچ در پیچ مضامین خیز اشعار بعض بعض ماہواری رسالے اور ہفتہ وار اخبار حل کر دیا کرتے ہیں اور اکثر ملکی ہمہ دان مفہوم سمجھ کے مزا اٹھاتے ہیں تو یہ صریحی اور بدیہی اعتراضات کس گنتی اور شمار میں تھے جو ہر شخص نہ سمجھ جاتا۔ لیکن اس میں ذرا سی کسر تھی۔ وہ یہ کہ مولانا کا انداز تحریر مہذب اور ثقہ تھا۔ اس کو سمجھنے والے صرف وہی لوگ ہو سکتے تھے جو اس پایہ اور اس مرتبہ کے تھے۔ چنانچہ نامی نامی اخباروں نے ان عالی مضامین اور قابل قدر اعتراضات کو تسلیم کر کے اس کی غلطیوں کا اعتراف کیا۔ چند ان کوتہ نظروں نے جن کے دلوں میں تعصب اور موروثی کاوش اور دلی بخارات اور بد خیالات بھرے ہوئے تھے، ان اعتراضات کو بھی تعصب کا جامہ پہنانا چاہا اور ان کے ہم نوا وہ پرانے گیدڑ جو اندرونی آتش تعصب روشن کر رہے تھے چِل پوں مچانے لگے۔ مگر اس واویلا اور دہائی کا مطلب سخن فہم سمجھ گئے ؏
مہ فشاند نور و سگ عف عف کند
اور اس لیے کوئی الزام مولانا کی کامل تحقیق، وسیع نظری پر نہیں آیا اور ان کے معنی خیز اور گہرے اعتراضات کی وقعت اور ترقی پذیر ہوتی گئی ؎
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
فہم اور دانش سے بہرہ رکھنے والے تو قدر افزائی کرنے لگے اور حقیقی اور واقعی اعتراض کو دیکھ کر اس کتاب کی اصلاح کرنے لگے۔ لیکن بیجا طرف دار اور ہٹ دھرم حمایتی مرغے کی ایک ہی ٹانگ بتانے والے اور اپنی قدیمی جبلی عادت سے باز نہ آئے۔ یہاں تک کہ بعض مفسدہ پرداز طبیعتوں نے کھینچ کھانچ اس کو مذہبی تعصب سے تاویلیں کر کے قومی غیرت دلائی اور ہم نوا بنا کر زبردستی میدان کارزار بنا لیا جس میں اصل اعتراضات چھپ جائیں ورنہ ساری قلعی کھل جائے گی اور اس منشا کو بد ترین پہلو کے ساتھ پنچ میں رٹنا شروع کیا۔ اس سے غرض یہ تھی کہ تمام مہذب دنیا اس سے کنارہ کش ہو جائے اور ہم بیجا اور سخت الفاظ سے اپنا کام نکال لے جائیں۔ مسٹر ظریف! تمھارا درد ان پھکڑ بازوں کے واسطے غنیمت ہو گیا اور ان کو جیسی کچھ امید تھی وہ زاویۂ گمنامی میں پڑ گئی۔ بے شک تم نے انھی کی زبان میں ان کو سمجھایا۔ اب نائی، درزی، غاد وغیرہ وغیرہ اپنی اپنی زبان میں مطلب سمجھ گئے۔ میں امید کرتا ہوں کہ تم اس میدان میں کامیاب ہو کے رہو گے۔ کیونکہ تم بھی میری طرح مستقل مزاج اور بردبار ہو۔ یہی علامت کامیابی کے ہے اور یہی بات مجھ میں تھی جس سے میں اپنے ارادے میں کامیاب ہوا۔ گھر سے نکلتے ہی حرامی حلالی دونوں سے کام پڑا۔ جب میرے چاروں بھائی گل بکاؤلی کی تلاش میں نکلے ہیں تو میں بھی خدا کا نام لے کر اور اپنی زر قسمت کو محکّ امتحان پر کسنے کے لیے چل کھڑا ہوا۔ جس طرح تمھارے راستہ میں سجادی ملی ہے مجھ کو بھی لکھا بیسوا سے سامنا کرنا پڑا تھا۔ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ شاید یہ وہی لکھا بیسوا ہے۔ تمام حرکات و سکنات اس سے ملتے ہیں۔ چاروں بھائی تو میرے غلام بن چکے تھے۔ میں سردار سعید کی خدمت میں فیضیاب ہوا جس طرح تم منشی کی سرپرستی میں ہو۔ پہلے تو لکھا بیسوا کا حال دریافت کیا۔ چوہے بلی کا قصہ سنا۔ چوسر کا حال معلوم کیا۔ اس کے ہتھکنڈے، چالبازیاں سیکھیں، نیولا پالا، چوسر کھیلی۔ وہ بازی ہار گئی۔ یہاں تک تو میرا تمھارا قصہ قریب قریب ہے۔
پھر وہاں سے میں نے فقیری ٹھاٹھ اختیار کیا اور گوہر مقصود کی تلاش میں صحرائے پر خار میں جا نکلا جس کی تاریکی میں ہرگز دن اور رات میں فرق نہیں معلوم ہوتا تھا۔ سفیدی اور سیاہی میں کچھ بھی امتیاز نہ کیا جاتا تھا۔ اژدہے بھوکے منہ کھولے پڑے تھے، خارستان میں تمام جسم لہو لہان ہو گیا۔ سامنے سے ایک دیو پہاڑ سا بیٹھا نظر آنے لگا، میں سمجھا یہ پہاڑ ہے۔ جیسے ہی میں نے قدم بڑھایا فوراً اس دراز قد نے سر اٹھایا اور خوشی سے بولا: خدا کی شان جس نے مجھے لقمۂ لذیذ بعد مدت کے دے دیا۔ غرض کہ ہزاروں تدبیروں اور سیکڑوں عقل آرائیوں سے اس کو بھی تابع دار کیا اور آخر وہی باعث ہوا باغ گل بکاؤلی تک پہنچنے کا۔
میں دیکھتا ہوں تو تمھارے سیکڑوں بھتنے چمٹے ہوئے ہیں۔ اور ہزاروں چڑیلیں تم پر حملے کر رہی ہیں اور کالے دیو، سفید دیو یہاں تک کہ بعض شیاطین تر نوالہ سمجھ کر بغلیں بجا رہے ہیں اور بجائے خود بہت خوش نظر آتے ہیں۔ مگر تم استقلال اور مردانگی کے ساتھ نظر بہ خدا رکھو۔ یہ سب آپ ہی آپ دفع ہو جائیں گے۔ کیونکہ تمھارے دوستوں کو وہ عملی فلیتہ یاد ہیں جن سے سیکڑوں بلائیں پناہ مانگتی ہیں۔ بڑے بڑے جن جلا کر خاک کر دیے اور بہت سی چڑیلیں پھونک دیں تو یہ چند شیاطین کس شمار و قطار میں ہیں۔ دو چار عمل تو تم نے ایسے کیے جن سے بہت سی بلائیں دفع ہو گئیں جیسے سئیاں شہدے والا فلیتہ، سجادی والے خط کا نقش، غاد کی خرابی، غزل کی دھونی۔ اللہ اللہ ان کے صدمے سے اب تک بعض مردے دہائی دے رہے ہیں اور بعض توبہ کر رہے ہیں۔ دہائی ہے مولانا ظریف کی، اب کبھی سجادی کے بہکانے سے پنچ کے صفوں پر قدم نہ رکھیں گے اور بعض جل کر خاک ہوگئے۔ ان کی راکھ بھی برباد ہو گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ تم سب مرحلے طے کر لائےاور اب منزل مقصود پر قدم رکھ کر کوس لمن الملک بجانے والے ہو اور بہت جلد تمھارا تسخیر کا عمل کارگر ہو جائے گا۔ سارے بھتنے مسخر ہو جائیں گے اور اس باغ کی بکاؤلی کی شادی کا سہرا تمھارے سر باندھا جائے گا اور بہت دھوم سے شادی ہوگی اور سجادی لونڈی جہیز میں ملے گی۔ غالباً یہ پیشین گوئی ہماری عنقریب پوری ہو جائے کیونکہ ہر مصیبت کے بعد راحت ہے۔
راقم تاج الملوک
حضور سالِ رواں کی آخری اسپیچ
یور ہائنس اینڈ جنٹلمین! قبل اس کے کہ پردۂ دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جاؤں اور اپنا جانشین نعم البدل اپنا جائز وارث اپنا مجاور یعنی 1907ء کو چارج دے کر دنیا کے اسٹیج پر چھوڑ جاؤں، بہتر معلوم ہوتا ہے کہ آج آپ سب صاحبوں کو تکلیف دہی پر تشریف لانے اور میری دائمی رخصت پر افسوس کرنے کا شکریہ ادا کرنے کے بعد خیر مقدم کہہ کر دل خوش کن الفاظ سے کام نکالوں۔
درحقیقت آپ سب شرفا، مختلف ریاستوں کے وزرا، بڑے بڑے زمیندار، چھوٹے چھوٹے تعلقہ دار، قانون پیشہ، تاجر، دستکار، کمیشن ایجنٹ، خوردہ فروش، دلال، چودھری، تھوک فروش، ہوٹل والے، ٹھیکہ دار اور دیگر ہندو مسلمان، عیسائی، یہودی، بودھ 365 دن کچھ گھنٹہ اور اتنی ہی راتیں میرے تحت و تصرف میں رہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جو جدید قانون میں نے آپ صاحبوں پر بغرض اقتدار و اعزاز سلطنت قائم کی ہے، اس کا اصل ماخذ قائم مقام جماعت کے وہ اصول ہیں، جن کی بنیاد موجودہ پولٹیکل واقعات عالم پر کامل تدبر کے بعد ڈالی گئی ہے اور جس کا تمام تعلق ایک گروہ کی پولٹیکل ہمدردی یا ناراضی پر ہے جس کا اثر مختلف مقامات پر مختلف صورتوں میں واقع ہونے کا اندیشہ ہے۔ میں آپ صاحبان کا مشکور ہوں کہ آپ نے اس امر کا مجھے موقع دیا کہ میں تمام عالم کے ان ناجائز خیالات کی اور اُن کے اس غیر وقیع عزم کی کہ وہ پولٹیکل تاریخ میں تبدیل و تحرف کرنے کے اُمیدوار ہیں، ایک تردید کر کے زبردست غلط فہمی کو ہمیشہ کے لیے مٹا دوں۔ بحیثیت حاکم میرے لیے یہ امر باعث مسرت ہے کہ میں آپ کی ایک غیر متوقع آرزو کا رفع شک کر دوں۔ آپ لوگ جو فی نفسہ ایک فاتح اور حکمران قوم کی ناخلف اولاد یا تقویم پارینہ ہیں، انگلستان کی حیرت اور آزادی اور تلی پھاڑ ڈالنے والی کارروائی اور امن و عافیت پر حسد کر کے اپنا دلی بخار نکالنے کے واسطے اپنی دائمی قید کی میعاد کم کرنے کی جو آرزو کی ہے، وہ بظاہر ایک دل خوش کن جملہ ضرور ہے اور میں نے بھی بمصلحت دروغ مصلحت آمیز بہ از راستیِ فتنہ انگیز پر عمل کر کے اس دور از عقل جملے کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا تھا۔ مگر اب کہ میں چند روز کا مہمان ہوں، اس امر کو ذہن نشین کرنے کی کوشش میں کامل حصہ لے کر کہتا ہوں کہ ؏
ایں خیال است و محال است و جنوں
آپ سے پیشتر جو قومیں اس جنون میں مبتلا ہیں وہ سب ایک دن کانجی ہوس میں داخل کی جائیں گی اور خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ایک دن آپ کو بھی اس خیال پر ایسا ہی دن نصیب ہوگا۔
انگلستان ہمیشہ مصائب دنیاوی سے پاک اور مُبرا ہے۔ مسٹر مارلے وزیر ہند روشن خیال جلوہ گر ہیں۔ تجارتی کشمکش سے اور ریل کی کھینچ کھانچ سے غلہ کا نرغ ہندوستان اور انگلستان میں برابر کا ہو جائے گا اور ہر شخص آزادی کا تمغا گلے میں لٹکائے گا۔ میرے زمانۂ حکومت میں اس قدر اندھیر نہیں ہوا۔ ابھی جن لیڈیوں نے ممبری کے سودادی مادہ کو پکایا تھا، ان کو جیل خانہ بھیج دیا۔ ہاں دو واقعے دل شکن ہوئے۔ ایک لیڈی کرزن کی رحلت، دوسرے مسٹر طیب جی کی وفات۔ اسی طرح ٹرکش کے ساتھ میرے سلوک مابہ الامتیاز رہے۔ حجاز ریلوے کی تبوک تک تکمیل، مصر و عدن کے کے سرحدی معاملات کا بخیر و خوبی فیصلہ ہونا، سرحد ایران کا باہمی سمجھوتہ، کربلا و بغداد کا تصفیہ، سلطان کا بعد علالت صحت یاب ہونا یہ ہماری کامل تدبیر اور دانش مندی کی ایک کامل دلیل ہے۔ کیونکہ مابدولت کو ہمیشہ اس امر کا خیال رہا کہ عالم کون و فساد ہمارے قدوم سے مسلح قصاب نہ بنے۔ روس کی عنان حکومت گو ہمارے ہاتھ میں رہی مگر مُنہ زور گھوڑے ہمیشہ مار کھایا کرتے ہیں۔ اس سبب سے وہاں بغاوت کا بم پھوٹ نکلا اور عام بلوے اور قتل و غارت کی شکایت، وزرا کا مستعفی ہونا، رعایا کا ہڑتال کرنا سیاسی مطلع کا ایک سخت انقلاب ہوا اور یہ سب ہماری مرضی کے خلاف ہوا۔ ایران میں آزادی اور حریت کے جوش کو دیکھ کر آخر ہم نے پارلیمنٹ قائم کر دی جس کے اراکین اگر انجام بینی سے کام لیں تو آنے والے خطرے کی بہت کچھ پیش بندی کر سکتے ہیں۔ ایران کو 4 لاکھ پونڈ کی ضرورت ہے جس کو روس اور انگلستان پورا کریں گے۔ ان باتوں سے تو اُنھی لوگوں کی تسلی ہو سکتی ہے جو دُوَلِ یورپ کی چالوں اور اُن کی قدیم عادات سے واقف نہ ہوں۔ ہمیں تو قوی اندیشہ ہے کہ روس و انگلستان کا اتفاق ایران کے حق میں اہم انقلاب اور پریشانیوں کا موجب ہوگا۔
مراکش کا زائچہ تقدیر منجمان اسپین و فرانس کے تحت و تصرف میں آ چکا مگر معلوم نہیں کہ اس بدنصیب سلطنت کے مقدر میں کیا لکھا ہے۔ اب بھی گھڑی گھڑی اس کی بدامنی، ابتری اور فساد کی عام خبریں رو با صلاح نہیں ہوتیں۔ جرمن اور فرانس خدا سے چاہتے ہیں کہ مراکش لڑے مرے تو ہمیں تسلط کا موقع ملے۔ لہذا ہم نے اپنے دوران حکومت میں جو طرز عمل اختیار کیا ہے، وہ بلا خیال مذہب و ملت تمام موجودہ اور آئندہ آبادی، حقوق جائز و ناجائز کے لیے من حیث المجوع نہایت مفید اور کارآمد ہے۔ پس تمام حیوانان ناطق کو چاہیے کہ بکری بندر کی طرح کان دبائے ہوئے اینجانب کے انصاف پر اعتماد واثق مثل سابق رکھو تاکہ تمھاری وفاداری کو ہمارے دل میں جگہ ملے۔
اب ہم آپ لوگوں کو اپنے وہ حالات دکھانا چاہتے ہیں جو ایک بھان متی کے تماشے سے کم دلچسپی نہ رکھتے ہوں گے یعنی ہندوستان جنت نشان کی اندرونی و بیرونی حالت۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا وجود ہندوستان کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا اور ہم مشکور ہیں کہ ہندوستان نے ہم کو میٹھی نگاہوں سے دیکھا اور ہمارے احکام کو بسر و چشم منظور کیا۔
پہلا موقع خوشی کا ہندوؤں کے واسطے سریندر ناتھ بنر جی راجا کی تاجپوشی کا جلسہ تھا جس سے سودیشی تحریک کی دنیا میں ایک تازہ روح پیدا ہو گئی اور بائیکاٹ کے جھگڑوں نے ترقی اختیار کی۔ گو مالی حالت کیسی ہی رہی ہو لیکن لال شکر کے کھانے والوں نے سفید شکر کی طرف رُخ نہیں کیا اور گزی گاڑھے کے پہننے والے اپنی سادہ پوشاک میں خوش رہے۔ نان پاؤ کے کھانے والے سوکھی روٹیاں کھانے لگے اور مٹن چاپ اُڑانے والے چٹنی پر قانع رہے۔ تقسیم بنگالہ کی سالگرہ بھی ہوئی اور برسی بھی کی گئی۔ اسلامی ڈیپوٹیشن کی کامیابی پر بنگالی پیچ و تاب کھایا کیے اور آریہ مہاتما غل مچایا کیے۔ اور تعجب کی جگہ یہ ہے کہ کانگریسی احباب جو ہمیشہ مسلمانوں کو پولٹیکل تحریک میں شریک ہونے کی دعوت دیتے تھے، وہ بھی مسلمانوں کے خلاف ہو گئے۔
ملا عبد القیوم کا انتقال ہو گیا جس کا صدمہ ہندو مسلمانوں کو برابر ہوا۔ حیدرآباد سندھ کے سرکاری خزانہ میں آگ لگ گئی۔ نواب صاحب بہاولپور بذریعہ اسپیشل ٹرین بمبئی کو اور وہاں سے بذریعہ جہاز بارادۂ حج مکہ معظمہ کو تشریف لے گئے۔ حیدرآبادی جشن جوبلی کی خوشی میں دن عید رات شب برات تھی۔ ریاست حیدرآباد بے قاعدہ فوج میں 4 ہزار کی تخفیف کرنا چاہتی ہے۔ مشرقی بنگال میں حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان عہدے دار کسی سیاسی جلسے میں خواہ وہ تقسیم بنگالہ کے خلاف ہو شرکت نہ کریں۔ ہندوستان میں امیر صاحب کی تشریف آوری بعزمِ سیاحت نہایت مسرت کا باعث ہے۔ آگرہ میں دربار کی سجاوٹ اور زیبائش کے لیے 4 لاکھ خرچ منظور کیا گیا۔ سر فلر کا مستعفی ہو کر تشریف لے جانا مسلمانان بنگال کے واسطے مزید رنجدہ ثابت ہوا۔ ناٹوش صاحب کی رخصت صوبہ متحدہ میں باعث رنج ثابت ہوئی۔ مولوی عبد الغفور خاں صاحب مدار المہام کا انتقال اسکندریہ میں ہوا، صد افسوس۔ لیکن چونکہ آپ حضرات کو ہماری حکمرانی، انصاف پسندی، نیک نیتی پر اعتماد کلّی ہے، میں مشکور ہوں کہ آپ نے ان تمام واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سُنا اور صبر کیا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کو آپ حضرات بھی تسلیم کریں گے کہ میں نے اس وقت آپ کی تمام موجودہ جزئیات میں جو تبدل و تحرف کیا، وہ مبنی تھا میری نیک نیتی پر اور میں ایسا کرنے پر مجبور تھا۔ تاریخ بتا رہی ہے کہ مجھ سے پیشتر جتنے حاکم آئے، سب نے بڑے بڑے ظلم اور چھوٹے چھوٹے رحم کیے ہیں جن کی تفصیل بیان کرنے سے میں قاصر ہوں۔ وہ تمام مراتب جن کی حسرت آپ کے دلوں میں ہے، آپ کے آئندہ حاکم کے ذہن نشین کر دوں گا۔ آپ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اکثر حالتوں میں موجودہ انتظاموں کے رو سے جیسا کہ آج کل ہے بہت سی قوموں کو بجائے نفع پہنچنے کے ایک سخت نقصان کا اندیشہ ہے۔ حضرات! مجھے آپ سے اس امر میں اتفاق کلی ہے۔ (نعرہائے تحسین)
بہرحال اس وقت میں صرف آپ سے چپکے سے اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ آپ لوگوں کو یقین کامل رکھنا چاہیے کہ جیسی آسائش تمام ہندو مسلمانوں کو میرے وقت میں حاصل ہوئی ہے وہ تو میسر نہ آئے گی مگر پھر بھی زائد گول مال نہ ہوگا۔ آپ کے حقوق و اغراض کی کامل نگہداشت کی جائے گی اور آپ کو اور نیز تمام رعایائے گورنمنٹ کو اعتماد کامل رکھنا چاہیے کہ وہ تمام اقوام کے قوام روایات کی ویسی ہی عزت کرتی رہے گی جیسا کہ اُسے فخر ہے کہ اس وقت تک ہوا ہے۔ اور میں آپ کو یہ بھی یقین دلانے کی کوشش کرنا چاہتا ہوں کہ آئندہ آپ مرنے بھرنے کے بعد تمام ہندو مسلمان الگ الگ ہو جائیں گے (نعرہائے نفرین)۔ مہربانی فرما کر میرے اس بیان سے آپ لوگ مزید غلط فہمی کی دلدل میں پھنسنے کی کوشش نہ فرمائیے۔ میں وہ اسباب بیان کرنا نہیں چاہتا کہ جن سے ہر دو اقوام میں اتحاد و ملت قائم ہو جائے، لیکن مجھے اطمینان ہے کہ وہ اصول جن سے دونوں قوموں میں یکجہتی اور میل جول پیدا ہو وہ ہندوستان جیسے وسیع ملک کے لیے مناسب اور موزوں نہیں ہے اور اس سے سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ قحط سالی اور افلاس نے آپ کو بھوکوں مار کر اور ننگا پھرا کر کسی تہذیب کا مادہ قبول کرنے کا نہیں رکھا اور فاقہ مستی نے آپ سب صاحبوں کو خود غرض اور اپنا پیٹ پالنے والا حیوان بنا دیا ہے۔ قحط سالی نے بھوکوں مارا تو افلاس نے ننگا پھرایا۔ اب کوئی شک ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں میں آدمیت کا مادہ باقی رہ گیا۔ ہر شخص نفسی نفسی میں پڑا ہے۔ مثل ہے کہ بھوکے شریف سے ڈرنا چاہیے۔ پھر کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ فاقہ کشی میں جبکہ آپ لوگ نان شبینہ تک کو محتاج رہیں اتحاد اور اتفاق کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ طاعون اور ہیضہ نے ایک دم سے سب کو چٹ کرنا شروع کیا۔ کبھی یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں بھاگتے پھرے۔ اس میں جانیں بھی تلف ہوئیں اور مایۂ بساط بھی زوال پذیر ہوتا رہا۔ چھوٹی مچھلیوں کو بڑی مچھلیاں کھا گئیں۔ تعصب کی آتش نے دونوں کو ازکار رفتہ کر دیا۔ اب آپ لوگوں پر ایک مچھر بغیر توپ بندوق کے حکومت کر سکتا ہے اور آپ کی نکیل ایک چھوٹے سے مدبر کے ہاتھ میں دی جا سکتی ہے۔
آخر میں نہایت صدق دلی سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ کی بدولت چند روزہ حکومت کر لی اور جہاں تک مجھ سے ممکن ہوا میں اس بات کی کوشش کروں گا کہ آئندہ مسٹر 1907ء آپ کے ساتھ زیادہ کانٹ چھانٹ نہ کریں۔ چاہے بھوکے مریں، ننگے رہیں، لیکن جانیں سلامت رہیں۔
لال بجھکڑ کا لکچر
گذشتہ ہفتہ میں ایک چو مغزا لکچر جو مسٹر لال بجھکڑ نے دنیا کی جوتی پیزار پر مقام اجاڑ نگر ضلع نیست و نابود میں دیا تھا اور جس میں عالمگر بیوقوفی پر ایک سخت حملہ کیا تھا، جنگلی زبان سے ترجمہ کر کے ہدیۂ ناشناسان کیا جاتا ہے۔ وھو ھذا:
صاحبو! آپ نے وحشت آباد کی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور مجھے فخر ہے کہ یہ ایسی قابل درس گاہ ہے جہاں مسٹر بوکھلاہٹ و مولوی شیخ چلّی جیسے آزاد خیال فلاسفر نے زانوئے ادب تہ کیا ہے۔ مجھے شروع سے اجاڑ نگر ضلع نیست و نابود کی زیارت کا شوق تھا اور یہ شوق اس مقصد پر مبنی تھا کہ میں غیر مہذب صاحبوں کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جب میں افریقہ کے کوہستان میں تھا تو میرا یہ خیال تھا کہ اجاڑ نگر کا مستقبل بڑا وسیع ہے۔ چنانچہ آج مشاہدہ سے میں اپنے خیال کی تائید پاتا ہوں۔ میرا مقصد خاص یہ ہے کہ دنیا کے معاملات میں دلچسپی حاصل کروں اور اس کی حالت یہ ہے کہ ؎
اہل دنیا کافران مطلق اند
روز و شب در ذق ذق ودر بق بق اند
خاص کر ہندوستان جنت نشان کے ہندو مسلمان کی حالت غور طلب ہے۔ طرز تعلیم کا مسئلہ عملی طور پر حل کرنے میں مَیں اس پر بحث کروں گا کہ آج جو طرز تعلیم جاری ہے وہ ہندوستانیوں کو بہتر بنانے کے قابل نہیں ہے۔ کیونکہ میں ایک سرے سے تعلیم کو ہندوستان کے دل و دماغ خلاف سمجھتا ہوں۔ جوں جوں یہ تعلیم حاصل کرتے جاتے ہیں اور پستی کی طرف نزول ہوتا جاتا ہے ؏
لاکھ طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
اینجانب علیہ الکھوپڑی کے بیان کی شہادت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ عموماً جاہل اور ان پڑھ خدا ترس اور نیک دل معلوم ہوتے ہیں اور ان میں ایثار نفس کا مادہ موجود ہے۔ دیکھیے بوجھا اٹھانے والے مزدور سب جاہل ہیں، بھیک مانگنے والے خدا کے نیک بندے سب اجہل ہیں۔ کاشت کار جاہل، لوہار بڑھئی چمار سُنار دھوبی سقے سب جہالت کے دریا میں غوطے لگا رہے ہیں اور ان میں ایثار نفس کا مادہ موجود ہے۔ ایثار نفس اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ ان کو کسی مشقت میں عار نہیں ہے۔ (نعرہ تعریف) اگر خدا نخواستہ یہ تعلیم کے جواہر سے آراستہ و پیراستہ ہو گئے اور ان کے دل و دماغ میں ہوائے حکومت سما گئی تو تمام شرفائے شہر کی مٹی خاک میں مل جائے گی اور ان کو سوائے پھیک یا افیون کھا کر سو رہنے کے اور کچھ نہ بن پڑے گا۔ میرے نزدیک تعلیم کا دروازہ یکلخت بند کر دیا جائے اور انگلش ڈریس میں سب کو آراستہ و پیراستہ کر کے گدھوں کی طرح بوجھا لادا جائے اور ٹھیل کھینچنے کی ڈگری دے دی جائے۔ ورنہ صاحب لوگوں کی طرح ٹفن کھانے کے عادی ہوگئے تو یہ تر نوالہ ان سے چھوٹنا محال ہے۔ بہرحال کچھ ہو، تعلیم کے میں سراسر خلاف ہوں ؎
پڑھو گے لکھو گے تو ہو گے خراب
جو کھیلو گے کودو گے ہو گے نواب
اس اثر کو طلباے علی گڑھ کالج نےاچھی طرح محسوس کر لیا اور آئندہ پرنسپل صاحب کی عنایت سے امید ہے کہ وہ تعلیمی دربہ کو پھونک دیں گے اور اس الماغوچی کشمکش سے نجات حاصل کر کے مزے اڑائیں گے اور ٹرسٹی صاحبان اس خیال کی تائید کر کے مدد دیں گے۔ بلکہ اس کے معاوضے میں تعلیم نسواں فائدہ دہ ثابت ہوگی۔ بشرطیکہ آزادی کے ساتھ حاصل کرنے کا کھلا کھلا موقع دے دیا جائے۔ ہر شہرمیں نارمل اسکول جاری ہوں، پردے کی قید اُٹھا دی جائے۔ زنانہ کانگریس اور زنانہ کانفرنس منعقد ہو۔ زنانہ ڈیپوٹیشن ترقی بیگم کی خدمت میں روانہ کیا جائے۔ زنانہ نمائش گاہ کھولی جائے جس میں منتخب روزگار لیڈیاں شریک ہو کر مردوں کی دلچسپی کا پورا پورا سامان مہیا کر دیں۔ زنانہ پولیس مقرر ہو جو رات کو پہرہ دیا کرے۔ زنانی کچہریاں ہوں۔ زنانہ پارلیمنٹ مقرر ہو۔ زنانہ فوج باقاعدہ ہو جن کے پاس بجائے کرچ تلوار بندوق کے تیر مژگاں اور تیغ نگاہ کے قدرتی ہتھیار موجود ہوں اور یہ زنانہ عملہ رات کو حکومت کیا کرے۔ (چیرز)
صاحبو! تعلیم کے فوائد سے تو ہندوستان کے تمام لوگ آگاہ ہیں-کیونکہ اس مقدس سرزمین پر ایک قوم پہلے حکمرانی کر چکی ہے جس کی زبان سنسکرت تھی۔
سب کو معلوم ہے کہ اس زبان میں نہایت عمدہ و نفیس کتابیں فلسفہ اور لاجک کی موجود تھیں۔اس کے بعد ایک زمانہ وہ آیا کہ جب ہم لوگ یہاں آکر آباد ہوئے جنھوں نے علم کو بہت ترقی دی۔ بغداد، قرطبہ، غرناطہ کے دار العلوم کیا یادداشت کے صفحہ سے مٹ سکتے ہیں۔ ہمارے ہی اسلاف تھے جنھوں نے پرانے یونانی علوم کو ایسی ترقی دی گویا ذرہ سے آفتاب بنا دیا۔ پھر نتیجہ کیا ہوا ٹائیں ٹائیں فش۔ آج غیر ملکوں کی جاہل قومیں بھی ہماری نسبت بہت اچھی حالت میں ہیں۔ یورپ اگرچہ فی زماننا علوم و فنون میں ضرب المثل ہے مگر پرُانی کتاب سے معلوم ہوتا ہے اس کو یہ نعمت اسپین کے دار العلوم نے دی۔ پھر نتیجہ یہ ہوا کہ گُرو گڑ ہی رہے، شاگرد شکر ہو گئے۔ ہندوستان کے ہندو مسلمان کو تعلیم راس نہیں۔ نزلہ بر عضو ضعیف می ریزد۔ یہ لوگ جتنا پڑھتے جائیں گے اتنا ہی گدھے ہوتے جائیں گے۔ چنانچہ فی الحال ایک ہیڈ کلرک بنگلور میں غبن کے جرم میں ۶ سال کی قید اور آٹھ ہزار روپیہ جرمانہ کا سزا یاب ہوا۔ ساری آفت بے چارے کو علم کی بدولت بھگتنا پڑی۔
ایک اور اہم مسئلہ اتحاد اور اتفاق کا ہے۔ اس کی نسبت میری رائے خلاف ہے۔ در حقیقت ہندوستان میں اتحاد اور اتفاق نہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ بات مشہور ہے کہ زیادہ مٹھاس میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ ہندو مسلمان کا آپس میں کٹ کٹ کر مرنا بہت اچھا ہے۔ ملک کی آمدنی برقرار رہتی ہے۔ وکلا کی جیب بھری پری رہتی ہے۔ جیل خانہ کا بازار گرم رہتا ہے۔ سر پھٹول ہولی کا مزا دے جاتی ہے۔ پولیس کی مٹھی گرم ہوتی ہے۔ جھوٹے گواہوں کو رقمِ کثیر حاصل کرنے کا مو قع ملتا ہے۔ اہل عملہ کو گرہ کاٹنے کا موقع ملتا ہے۔ اخباروں کی اشاعت میں ترقی ہوتی ہے۔ تعصب اور ہٹ دہرمی کا درخت بار آور ہوتا ہے۔ ایک بیوقوف کبھی اپنی چکنی چپڑی باتیں کر کے چند متنفس کو اپنا ہم خیال بنا لینا چاہتا ہے اور خود لیڈر بننا چاہتا ہے تو دوسرا عقل مند اسے توڑ تاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ مزا تو اِس میں ہے کہ ایک لارڈ کرزن کو کوستا ہے تو دوسرا دعاؤں کا مینہ برساتا ہے۔ اک سر فلر کو بے نقط سناتا ہے تو دوسرا ان کی ستائش میں بے حد مبالغہ سے کام لیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دونوں نا اہل جھوٹے کہلاتے ہیں، سمجھ دار چندیا سہلاتے اور بھیجا کھاتے ہیں۔ غرضکہ اس گپ شپ سے لوگوں کا بھلا ہو جاتا ہے۔
چونکہ بنگال کے متعلق سوشل ریفارم سے خاص دلچسپی رکھتا ہوں اور میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے کسی حد تک تمام الم غلم سوسائٹیوں کے قواعد کو عام طور پر اصلاح دی ہے۔ اس وجہ سے اس کے ضروریات کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ آئندہ اتفاق کی امید رکھنا بیوقوفی اور سفلہ پن ہی نہیں ہے بلکہ حماقت در حماقت ہے۔
الغرض میں وہی کہنا چاہتا ہوں جو شیخ چلی، مرزا مستا اور لالہ بوکھل نے کہا ہے۔ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علاحدہ بنانا چاہیے۔ اپنی ہنڈیا اپنی ڈوئی۔ درحقیقت یہ بڑا وسیع اور نازک مسئلہ ہے۔ لیکن صاحبان آپ سب جانتے ہیں کہ اب وہ پرانا دقیانوسی زمانہ رخصت ہو گیا اور اب زندگی کےتمام مشاغل میں عام بیداری پیدا ہوتی جاتی ہے اور نئے ترقی یافتہ خیالات اپنا قدم آگے بڑھاتے جاتے ہیں اور یہ مشرق اور مغرب کی نزدیکی تعلق کا نتیجہ ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ قوم میں حد درجہ کی خوشامد اور سیان پن اور ہمچو من دیگرے نیست کا مادہ سما رہا ہے۔ صاحبو! مجھ کو اب یاد دہانی کی کوئی ضرورت نہیں کہ اگلے زمانے میں ہر قوم میں ایک چوہدری یا میر محلہ یا بزرگ ہوتا تھا جس کا لحاظ اور پاس تمام قوم پر واجب تھا مگر فی زماننا وہ شخصی حکومت اُٹھ گئی اور ہر محلہ میں پارلیمنٹ قائم ہونے لگی اور ایک عام ہڑبونگ مچ گئی ہے۔ جس کو دیکھو بجائے خود شیخ چلی بنا ہوا ہے اور یہ احمق الذین کبھی کاشت کار لوگوں کی مصیبت پر روتے ہیں، کبھی ٹکس کے بار گراں کی شکایت کرتے ہیں۔ غرض وہ غل غپاڑہ مچا رکھا ہے جس سے ہمارے ہند میں خلل پڑ گیا ہے۔ اِن بیہودہ خیالات کی طرف ہم توجہ نہیں کرنا چاہتے، رونا پیٹنا عورتوں کا کام ہے ؏
نامردی و مردی قدمے فاصلہ دارد
چلتے چلاتے اینجانب کی توجہ میں ایک بات آتی ہے کہ جب تک قوم اپنی اصلی حالات پر واپس نہ آئے گی اس کی بہبودی نہ ہوگی کیا معنی کہ پرانی چکیاں ہوں، وہی کچے مکان ہوں، وہی پونی چرخہ ہو۔ کاغذ کے بدلے بھوج پتر ہو۔ سیدھی سادی غذا ہو، وہی کتونی وہی بنونی۔ وہی گزی گاڑھا ہو۔ ریل بند کر دی جائے۔ بیل بھینسے ہوں۔ ستو باندھ کر بیس کوسی سفر پیدل کرتے ہوں۔ کالی کملی، انگوچھا دھوتی، ایک مرزئی دیسی سوت کی جو باپ بنائے بیٹا پہنے۔ چمڑودھا جوتا۔ وہی لہنگا وہی ساڑی۔ آٹے کے بدلے نمک کھایا جائے کیونکہ یہ کسی قدر سستا ہے۔ شکر کے بدلے شیرہ ہو تو آج ملک سنبھل سکتا ہے۔ مگر بلّی کے منہ سے لہو کا مزا چھوٹنا مشکل ہے ؏
اب تو چسکا پڑ گیا کمبخت پی کاہے کو تھی
راقم لال بجھکڑ
ملکی ریفارمروں کی خدمت میں اپیل
کیوں حضرات! آپ لوگوں نے باوجود جامہ مردی کے زنانی طرف داری کا بیڑا اٹھا لیا اور پردہ کے غیر ضروری ہونے میں مسئلے ڈھال ڈھال کر ملک میں زنانہ جوش پھیلانا شروع کیا۔
حالی صاحب کو کچھ معلوم نہ ہوا تو نکاحِ بیوگان پر بہت دھواں دھار نظمیں لکھیں۔ عورتوں کی بے کسی، بے بسی دکھائی۔ اُن کی معصومیت ثابت کی۔
مولوی نذیر احمد صاحب نے ایامی لکھ کر ملک کو متوجہ کیا کہ بیوہ عورتوں کی شادی کی جائے۔ اس بارے میں قرآن وحدیث سب ایک کر دیا، عقلی اور نقلی دلائل سے پایۂ ثبوت کو پہنچا دیا کہ ملک کی اندرونی حالت کا مطلع مدت مدید سے مکدر ہو رہا ہے، اس کی خاص وجہ بیوہ کی آہ سحری ہے۔
دنیا کا کوئی ٹکڑا ایسے عجیب اور دہشت ناک انقلابات کی نظیر نہیں پیش کر سکتا جیسی کہ ہندوستان کی تاریک حالت ہے۔ اس کی عام وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کے تاریخی اوراق بے کس بیوہ کی نامراد آہوں سے لپے ہوئے ہیں اور مزا یہ ہے کہ اس مسئلہ میں نئی اور پرانی روشنی والے دونوں شریک ہندو مسلمان سب ایک، تمام ہندوستان اس دہائی میں شریک بلکہ قدیم تاریخ کی آنکھ تو ان کی پردرد حالت پر اور بھی خون کے آنسو بہاتی ہے۔
اس خفیف الحرکتی کے اسباب کی بدولت ہندوستان کے غافل ہندو مسلمانوں نے ایک کروٹ بدلی اور بیداری کے کچھ کچھ آثار نظر آنے لگے۔ لیکن ابھی تک اصلاحی اثر بہت کم قبول کیے گئے۔ صرف اخباروں میں غل غپاڑہ مچایا گیا اور بے وقوف ہندوستان کی دولت لوٹنے والوں شاطروں نے اس میں بھی اپنا کام کر لیا۔ ہماری یاد میں بد قسمت ہندوستانی کبھی کسی امر میں اتفاق سے کام نہیں لیتے۔ لیکن بخلاف اپنی جبلی عادت کے شادیِ بیوگان میں سب خود غرض، تنزل طلب اور مدبر نیک دل جھوٹے سچے بڈھے جوان سب ایک زبان ہو کر ہمہ تن کوشش میں مشغول ہوئے اور ان کی آزادی اور حریت کے دعوے کو جلی حرفوں میں لکھ کر ملک میں پیش کرنے لگے۔
لیکن اس کے ساتھ مردوں کی خواہش کا پہلو نہایت تاریکی میں ڈال دیا اور ان کی اشتہا کی طرف سے بالکل انکھیں بند کر لیں اور ان کی آزادی کے سامنے ایک آہنی دیوار کھری کر دی۔ اس واسطے کہ شریعت کا عام حکم مردوں کے واسطے چار نکاح تک کرنے کا ہے اور درحقیقت دنیاوی لحاظ سے اس کی ضرورت بھی تھی کہ اگر پہلی بیگم صاحب سے کچھ کھٹ پٹ ہو جائے تو پریشان خاطری سے سو رہنے کی حاجت نہ رہے۔ بلکہ دوسرے محل میں آرام سے بسر ہو اور جو وہاں بھی رنج کا سامان رہتا ہو تو تیسری راحتِ دل بغل میں ہو۔ ان کے بھی ناز و غمزہ کا تھرمامیٹر حد اعتدال سے زائد ترقی کر جائے تو چوتھی ماہ وش پری پیکر حور جنت چوتھی کی دلہن بن کر بستر استراحت کو بغل کو گرم کرے۔
مگر مدبرانِ ملک نے اس دروازے ہی کو بند کر دیا اور ایک شادی سے زیادہ ناجائز قرار دیا۔ مولانا نذیر احمد تو دو بی بیوں سے بھی انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کبھی محبت کے دو حصے نہیں ہو سکتے ؎
ہم معتقد دعوی باطل نہیں ہوتے
پہلو میں کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے
پھر کہتے ہیں اور صلاح دیتے ہیں کہ زینہار ہرگز دو بیبیاں نہ کی جائیں۔ ورنہ مبتلا کی طرح جان آفت میں ہو جائے گی ؎
میری سنو اگر نہیں گوش قبول کر
دو بیبیاں نہ کیجیو زنہار بھول کر
اب بتائیے کہ ایک بیوی کو جب یقین کامل ہو گیا کہ میاں آگے قدم نہیں اٹھا سکتے تو وہ بھلا کہاں سیدھی رہنے والی ہے۔ اس کا دماغ عرش معلیٰ پر کیوں کر نہ پہنچ جائے۔ وہ جانتی ہے کہ میاں کی معراج ترقی کی حد مجھ ہی تک قرار دے دی گئی ہے۔ حرام کی شریعت نے اجازت نہیں دی اور دو بیبیوں سے ملّا نے پرہیز لکھ دیا، اب جو کچھ ہوں میں ہی ہوں۔ اس سے تمام مردوں کے اقتدار میں بٹّہ لگ جائے گا اور ان سے محبت و اتحاد کا ایک لمحہ بھر بھی ان کے دماغ میں گزر نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ آزادی اور حریت کے خیال نے اس فرقے کے کان میں کچھ اور ہی پھونک دیا ہے۔ بہرکیف عورتوں کی چِل پوں کو اب عام نگاہوں سے مردوں کو نہ دیکھنا چاہیے اور اس زنانہ بغاوت کی آتش کو مردانہ بہادری سے بجھانا چاہیے۔ کیونکہ ہمارے اقتدار کے واسطے یہ شورش سخت مضر ہے۔ جاپان اور روس کی حکایتیں سن کر عورتوں کا آزادی کے واسطے غل غپاڑہ مچانا کچھ بیجا ہنسی ہے۔ بہرحال گو ملکی مدبر اس امر کو دنیا کی ترقی کے واسطے نیک فال سمجھتے ہوں لیکن ہماری ذاتی رائے اس کے خلاف ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرفہ ڈگری دینے والے حضرات اگر ہماری اپیل پر غور نہ کریں گے تو مردانے تمام مقدمے ڈس مس ہو جائیں گے اور انگلستان کی طرح ہندوستان بھی اس امر میں بکھر کر رہ جائے گا۔
ملکی بہروپیے
ان کی تصویر کو سو رنگ بدلتے دیکھا
جس طرح بعض بہروپیے چار پیسے کمانے کے واسطے اپنی وضع قطع مردمی، انسانیت سے ہاتھ دھو کر لہنگا، ساری یا پائجامہ، دوپٹہ، محرم کرتی پہن کر ناک میں نتھ، کانوں میں بالیاں، پور پور چھلّے، گلے میں طوق، دھدھکی، طرح طرح کے زیورات پاؤں میں مہندی مل کر عام خلقت کو تماشائی بنا کر زنانہ لباس میں بھیک مانگ لیتے ہیں۔ اسی طرح بعض عزت فروش ہندو مسلمان ہیں جو محض بے جا خوشامد اور معکوس ترقی اور تنفر آمیز تہذیب کی دھن میں اپنی آبائی طرز و روش کو چھوڑ کر مرزئی، انگرکھا، کرتہ، دھوتی، پائجامہ، گھٹنّا، عبا، قبا، چوغہ، چپکن دو پلی ٹوپی، چوگوشیہ، پگڑی، شملہ، دیسی لباس پوشاک کو خیرباد کہہ کر مجازی جنٹلمین بننے کی فکر میں ڈاڑھی مونچھوں کا صفایا بول کر افلاس اور مصیبت کو اپنے گلے کا ہار بنا لیتے ہیں جو ملک کی تباہی اور بربادی کا ایک پیش خیمہ ہے۔
اس مبارک زمانے میں جبکہ گورنمنٹ کے عالی شان اور بے نظیر اقبال کی وجہ سے اعلیٰ درجے کا امن و اطمینان حاصل ہے، افسوس ہے کہ ان برکات سے ہم کو فائدہ اٹھانے کی مطلق لیاقت نہیں بلکہ روز بروز قعرِ مذلت میں گرتے جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ادبار و بد نصیبی کیا ہو سکتی ہے۔ ہندوستان کی قحط سالی جس وضعداری سے اپنا قدم آہستہ آہستی ترقی کے میدان میں بڑھاتی جاتی ہے اور جس سلامت روی کی چال سے دل میں گھر کرتی جاتی ہے وہ قابل تقلید ہے۔ لاکھ پیداوار ہو مگر یہ نیک بخت اپنی جگہ سے ٹسکتی ہی نہیں۔ بلکہ روز بروز گرانی کا پلہ تحت الثریٰ کو چلا جاتا ہے۔
اکثر بندگان خدا آٹھ پہر کی مزدوری کے بعد چار پانچ دم سے ٹکڑا ٹکڑا کھا کر بسر کرتے ہیں اور فاقے اور سردی کے مارے مُرنڈا ہو رہے ہیں۔ ایک طرف افلاس اور مصیبت کا یہ رونا، دوسری طرف ہمارے جدید تعلیم یافتہ بھائی نیم وحشی ہندوستانی مہذب انگلستان کی تقلید میں انگریزی چال ڈھال، خور و نوش، وضع قطع کا چربہ اتار رہے ہیں۔ کوٹ اور کوٹ پتلون، کالر، ہاتھ میں ٹیڑھا ڈنڈا، ڈاسن کا بوٹ رپ رپ کرتے ہوئے ترقی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ جدید تہذیب کا جامہ پہن لیا ہے۔ پُرانا اسباب پھینکا جاتا ہے۔ موجودہ فیشن کے مطابق کمرہ آراستہ کیا جاتا ہے۔ تصاویر، مختلف مقامات کے نقشے، گلدستے، فوٹو، ہر قسم کی شراب، چھری، کانٹا، میز، کہاں تو دال روٹی روکھی سوکھی بانٹ کر کھانے والے، کہاں یہ اسراف بے جا۔ آئے تو کہاں سے، نتیجہ یہ ہوا کہ قومی ہمدردی اور بہی خواہی اٹھتی جاتی ہے۔ ہر شخص اپنے اخراجات کافی طور سے مہیا نہیں کر سکتا۔ سرکاری ملازمت عنقا، مصیبت اور افلاس دامن گیر۔ ایسی حالت میں اپنے متعلقین کی معیشت کی فکر کیا خاک کرے جبکہ اپنا ہی بھلا نہیں ہوتا۔ طُرہ یہ کہ اُن کی دیکھا دیکھی اُن کے اور ہم صحبت چاہے انگریزی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، اسی پوشاک اور اسی لباس میں کھسکتے آتے ہیں۔
پچاس روپیہ کی تنخواہ اس میں گرمی سردی جاڑا، برسات کوٹ پتلون ملازم بہرا، پچاس روپیہ تو اکیلے صاحب بہادر کے فیشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس مہنگی کے زمانے میں کھانے کو کہاں سے آئے۔ رفتہ رفتہ اگلی ہڈیوں کی گاڑھی محنت کی پس اندوختہ رقم انگلستان کی اس بے جا تقلید میں تشریف لیے جاتی ہے اور یہی قومی بہروپیے اپنے ساتھ اور ملکی بھائیوں کا بھی ستیاناس کرتے جاتے ہیں۔ زبان سے سُدیشی سدیشی پکار کر ترقی اور آزادی آزادی کا غل مچا کر قوم کی دولت مٹا رہے ہیں۔ آج ایک صاحب جاپان جاتے ہیں، قوم کی بہبودی اور خیر خواہی کے واسطے صنعت و حرفت سیکھ کر آئیں گے اور قوم کو تعلیم کریں گے۔ ان کی مدد کرو۔ کل کیا ہے دوسرے صاحب یورپ جاتے ہیں، صنعت و حرفت، سائنس دیگر تجربات حاصل کرنے ان کی گاڑی کا جُوا کندھے پر رکھ کر کھینچو۔ یہ تمام قوم کی فلاکت کے جیل خانہ سے نکال کر عرش اعلی پر بٹھا دیں گے۔ خیر صاحب یہاں تک غنیمت ہے، پھر واپس آنے کے بعد کیا ہوتا ہے۔ ایک طول طویل لکچر جس میں تمام ہندوستانیوں کی کوئی فضیحتی باقی نہیں رہتی اور ان غریبوں کو دل کھول کر جاہل بیوقوف احمق بنایا جاتا ہے اور لکچرار کا عنوان اس وسیع معلومات سے ہوتا ہے: “اے محبانِ قوم! آج ہم اپنے اُس فرض کو ادا کرتے ہیں جس کا ہم نے چلتے وقت تم سے وعدہ کیا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ابھی تم نے ترقی کے اس زینے پر قدم نہیں رکھا جس کے کوٹھے پر دُوَل یورپ براج رہے ہیں۔ تم لوگ خود غرض دغاباز ہو۔ تم کو قومی ہمدردی نہیں آتی۔ تم ملکی خیر خواہی نہیں جانتے۔ مہذب قوم اور غیر مہذب قوم میں بھی فرق ہے کہ تم لوگ اپنا پیٹ بھر کھانا مانگتے ہو، اپنی ذات کو افلاس سے بچانا چاہتے ہو۔ اپنی آئندہ نسلوں کے واسطے کچھ نہیں کرتے ہو۔ تم کو چاہیے کہ ہندوستان سے نکل کر اطراف یورپ میں پھیل جاؤ اور اُن کے عادات اطوار اوضاع اختیار کرو۔ آج دنیا میں جو قومیں سرسبز ہیں ان کا اصلی سبب یہ ہے کہ وہاں کی عورتیں آزاد اور تعلیم یافتہ ہیں۔ تم نے اپنی مظلوم پردہ نشین عورتوں کو کمزور اور بزدل کر دیا ہے۔ اُن کی عصمت کے بہانے سے ان کو قید کر رکھا ہے۔ عصمت جائے پیزار سے جان تو سلامت رہے گی۔ تم پر یہ عورتوں ہی کی مار پڑی ہے جو تم ورطۂ افلاس میں غوطے کھا رہے ہو۔ تم ہندوستانیو! بہت خراب آدمی ہو۔ میلا کچیلا کپڑا پہننے والے تم کو صفائی کا مطلق خیال نہیں، ہندوستان کے لوگ تمام دنیا میں گندے مشہور ہیں۔ تم ہندوستانیوں قلیوں کی قوم نجس ناپاک میلے ہو۔ تمھارے پاس کھڑے ہونے کو جی نہیں چاہتا۔ تم دقیانوسی عربی فارسی رٹتے ہو۔ تم کو شرم نہیں آتی کہ اس پُرانی بڑھیا کی عاشقی کا دم بھرتے ہو۔ تم اپنی بھلائی چاہتے ہو تو یورپ کی تقلید کرو۔ میم صاحب کو دیکھو اور صاحب کو دیکھو اور پھر اپنا اور اپنی بیوی کا موازنہ کرو۔ اُس وقت ہماری فرد قرارداد جرم کو صحیح پاؤ گے”۔
چلو چھٹی ہو گئی۔ گئے تھے روزے بخشوانے اُلٹی نماز گلے پڑی۔ اب کیا تھا، تمام ملک کے خیالات پلٹ گئے۔ صاحب بہادر بننے کی فکر میں اپنا اثاث البیت ٹھکانے سے لگا کر کوٹ پتلون بنوا لیا۔ اور گٹ پٹ اُڑانے لگے۔ یورپین لوگوں کو بھی ہماری اس بے جا تقلید سے نفرت ہو گئی اور وہ ہم کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگے۔ اخراجات کی زیادتی نے جان عذاب میں ڈال دی۔ دغا بازی اور مکر سے روٹی کمانے کے عادی ہو گئے۔ ہندوستانیوں کا سر سہلایا اور بھیجا کھایا۔ غرض کہ ہماری ترقی کی شاہرہ میں اُن ملکی بہروپیوں نے رُکاوٹ پیدا کر دی۔ اس پر بھی یہ ہندوستان کے جانی دشمن اور ملکی بدخواہ چین سے بیٹھنے نہیں دیتے اور ملک میں بے چینی کے اسباب پیدا کرنے کو پیسے والے بغ چوں چوں کی طرح ترقی کرو، ترقی کروا!! کی رٹ لگا کر ملک کو تباہ اور برباد کر رہے ہیں۔ افسوس ؎
ہر کسے ناصح برائے دیگراں
ناصح خود یافتم کم در جہاں
بس حضرت! ہم باز آئے آپ کی جدید ترقی اور آزادی سے۔ آپ پہلے تعصب کی عینک اور آزادی کا کوٹ اور حماقت کا پتلون اُتاریے جس کے پہنتے ہی چودہ طبق زمین اور آسمان کے کھل جاتے ہیں اور آزادی کے سبز باغ دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس نئے بہروپ سے پاگل خانے کی سیر دیکھنے کے بعد افلاس اور مصیبت کی دیمک لباس ظاہری کو بھی چاٹ جائے، پھر جامۂ اصلی کے سوا کچھ نہ رہے گا۔ بقول شاعر ؎
تن کی عریانی سے بہتر نہیں دنیا میں لباس
یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا اُلٹا
تعلیم کا چرخہ
نواب محسن الملک سکرٹری مدرسۃ العلوم علی گڑھ اس وقت تعلیم نسواں کا ذوق و شوق بڑھانے کی غرض سے بمبئی میں مقیم ہیں۔ نواب صاحب اپنی تقریر میں بڑا زور لگا رہے ہیں تاکہ آئندہ مدرسۃ المعلمات کا افتتاح کامیابی سے ہو۔
اڈیٹر انسٹی ٹیوٹ گزٹ اس کی تائید کرتے ہوئے تعلیم نسواں کے فضائل ارشاد کرتے ہیں (بے شک جب تک مستورات پڑھی لکھی نہ ہوں کسی ملک کے باشندے تعلیم یافتہ قوم نہیں بن سکتے)۔ یہ سب سچ ہے، مگر یاد رہے عورتوں کی تعلیم وہی بہت کافی ہے جیسی آج کل خاندان شرفا میں مروج ہے۔ عورتوں کا شد بد پڑھ لینا اپنے اپنے مذہب کی واقفیت اور امور خانہ داری کے واسطے کافی ہے۔ زیادہ آزادی اور مدرسوں کی آمد و رفت میں اپنی عمر کا حصہ ضائع کرنے سے امور خانہ داری میں عدم واقفیت کا اندیشہ ہے اور یہی رائے عام مدبرین کی ہے اور علی گڑھ گرو سرسید مرحوم کی تھی۔
دوسرے اولاد اسی وقت تک تعلیم یافتہ پیدا ہو سکتی ہے کہ جس وقت تک بی گھر بسی یعنی لڑکوں کی اماں اپنا دماغ تعلیم کے خلفشار سے کمزور نہیں کرتی ہیں اور اگر یہ مادہ عورتوں کا خرچ ہو گیا تو اولاد جاہل، ضعیف الدماغ کودن پیدا ہوگی اور آئندہ مردوں کا بھی تعلیمی دروازہ بند ہو جائے گا۔ لاکھ پڑھاؤ گے سوائے ٹیں ٹیں کے کچھ نہ آئے گا۔ کیونکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے اور تاریخ بھی بتا رہی ہے کہ جاہل اور غیر تعلیم یافتہ عورتوں کے بچے علمی دنیا میں نام آور ہوئے ہیں، کسی پیغمبر کی والدہ پڑھی لکھی نہ تھیں۔
خود سرسید کی والدہ اسی قدر پڑھی ہوئی تھیں جس قدر اس وقت شریف خاندانوں میں مروج ہے۔ شمس العلماء مولوی حافظ ڈپٹی نذیر احمد صاحب مرآۃ العروس میں لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں کی عورتیں شُدبُد لکھنا پڑھنا جانتی ہیں۔ قوم میں جس قدر رفارمر آج موجود ہیں، ان میں سے اکثر اس امر کا اعتراف کریں گے کہ والدہ کی طرف سے ان کو تعلیم یافتہ ہونے کا فخر حاصل نہیں۔ چنانچہ مسٹر دادا بھائی نوروجی کی والدہ بالکل جاہل تو ہیں۔ خوف ہوتا ہے کہ جس طرح مردوں نے اپنا علمی مادہ اپنی غلط کاریوں سے دماغ کو ضعیف اور برباد کر کے ایک طرفہ ڈگری حاصل کر لی ہے، اسی طرح عورتیں بھی تعلیمی مار کاٹ سے اپنا مادہ علمی نہ کھو بیٹھیں تو آئندہ سر سید اور محسن الملک اور شمس العلماء جیسے لائق ہونہار بچے پیدا ہونا یک قلم موقوف ہو جائیں گے اور قوم میں کوئی رفارمر نہ رہے گا۔ اب تک جو ذہین بچے پیدا ہو رہے ہیں، یہ صرف ماؤں کی دماغی قوت کا اثر ہے۔
اس خطرناک اندیشے کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور عورتوں کی تعلیم کی طرف زائد سختی سے توجہ نہ کرنا چاہیے۔ ورنہ آئندہ ٹھس اور غبی کند ذہن بچے اور کم شوق پود پیدا ہوگی۔
ادھر عورتیں تحصیل علم کے بعد سرکاری ملازمت کی تلاش میں پردہ کو سلام کر کے نو دو گیارہ ہو جائیں گی۔ مردوں کو گھر کا خانساماں یا بچوں کی کھلائی بننا پڑے گا۔ عورتوں کے ہوتے ہوئے مردوں کو سرکاری ملازمت ملنا دشوار ہوگی۔
معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ پردۂ عصمت کو اپنی آزادی میں کامیابی نہ ہوئی اور ہندوستان کے مہذب شہروں میں حیدرآباد کی ناگوار تقلید نہیں کی گئی، اسلامی دنیا نے مضحکہ اُڑایا، اب اس کی تلافی کے واسطے اور اس کمی کے پورا کرنے کی غرض سے تعلیم نسواں کا بہانہ کر کے عورتوں کے دماغوں میں مادۂ فاسد اور اوہام باطلہ بھرنے کی غرض سے نارمل اسکول کی تجویز پر زور دیا جاتا ہے۔ فلہذا اس کو بھی پردے کی مخالفت کا مؤید سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ جب عورتیں تعلیم کے جنگل کی ہوا کھائیں گی اور پرائمر کے سخت الفاظ زبان پر ٹوٹنے لگیں گے اور کچھ گٹ پٹ یس، نو آ جائے گا، پرانی پوشاک سے دل ہاتھوں بیزار ہو جائے گا۔ زیور سے قطعی انکار ہو جائے گا۔ سایا سایہ کی طرح لپٹ جائے گا۔ میم صاحب بننے کا شوق سوار ہوگا۔ پردہ آپ سے آپ تشریف لے جائے گا۔
ابھی ہماری قوم کے بچوں پر کفر و الحاد کے فتوے دلوا رہے ہو۔ آئندہ عورتوں کی بھی یہی گت ہونا ہے ؏
مرا بخیر تو امید نیست شر مرساں
بگڑ جائے گی ساری آبرو تعلیم نسواں سے بنے ہیں مرد صاحب، عورتیں بھی میم بن جائیں حمیت اور غیرت نام کو جو ہم میں باقی ہے پھریں گی بگھیوں میں دشمن تہذیب بے پردا ابھی کچھ عورتوں میں شرم اور ایمان باقی ہے پڑھاؤ عورتوں کو گھر میں اسکولوں میں مت بھیجو ابھی تو کچھ ادب کرتی ہیں اپنا عورتیں گھر میں کبھی تو آپ تھے اب تم بنے ہیں آپ سے گھٹ کر کبھی یہ نارمل اسکول رنگ اپنا نہ دکھلائے پڑھیں گی یہ تو ہنڈیا تم پکانا بیٹھ کر گھر میں مہذب بیبیاں ہو جائیں گی پڑھ کر پرائمر کو ادائیں بانکپن کی نارمل سکھلا نہ دے ان کو زن و شو میں کسی دن سر پھٹول علم کی ہوگی علاج اے بخیہ گر بیکار ہے ہم درد مندوں کا پڑھانا چھوڑ دو صنعت انھیں گھر میں سکھا دو تم |
نہ بر آئے گی دل کی آرزو تعلیم نسواں سے یہی کیا دل میں ہے اب آرزو تعلیم نسواں سے کرو گے اس کی بھی شست و شو تعلیم نسواں سے بُری ہو جائے گی آخر کو خُو تعلیم نسواں سے چھلک جائے گا آخر یہ سبو تعلیم نسواں سے حقارت ہوگی ورنہ چار سو تعلیم نسواں سے بگڑ جائے گی بالکل گفتگو تعلیم نسواں سے نہ ہو جائے کہیں اب تم سے تو تعلیم نسواں سے بگڑ جائے گی اے سُسرے بہو تعلیم نسواں سے یہ ہوگی ایک سنت در گلو تعلیم نسواں سے کہ آ جائے گا بس نو اور ٹو تعلیم نسواں سے یہ خوش رو ہو نہ جائیں ترش رو تعلیم نسواں سے بہے گا ندیوں آخر لہو تعلیم نسواں سے نہ ہوگا چاک دامن کا رفو تعلیم نسواں سے وگرنہ ٹوٹ جائے گا وضو تعلیم نسواں سے |
ظرافت الدولہ بہادر کے نوٹ
بد عہد کو گاجر جو دکھائی ہم نے کہنے لگی پھر دل میں غنیمت ہے یہی |
اور اوڑھنے کو دی جو رزائی ہم نے مُنہ مانگی مُراد اپنی پائی ہم نے |
یہ روز سر شام کہاں جاتی ہے ننھی ہے سمجھتی نہیں نادان ہے ایسی |
یاروں کو فقط کوٹھے پہ بلواتی ہے گڑ پھوڑ کے مٹکی میں ابھی کھاتی ہے |
کچھ طنز سے میں نے جو کہا یہ ہنس کر سمجھی کہ اشارے سے بلاتے ہیں مجھے |
جاتی ہے کہاں رات کو خیلا رانی مُنہ میں وہیں قحبہ کے بھر آیا پانی |
شیطان سے لکھوا کے ہمیں خط بھیجا اب ایسوں سے مطلب کے لیے ملتی ہے |
یہ کون طریقہ تھا بتا او بد راہ لا حول ولا قوۃ اِلا باللہ |
نالۂ میم
یہ نہ معلوم تھا مٹ جائے گی شہرت میری
بن کے اس طرح بگڑ جائے گی قسمت میری
حاجی بغلول نے کیوں ساتھ دیا ہے میرا
اور کُھلوائے گا یہ شخص حقیقت میری
ناچ کر بھاؤ بتانے لگی کیوں میرے لیے
ہوئی مُردار کے ہاتھوں سے بڑی گت میری
شوق سے مثنوی پامال کریں سب احباب
مجھ کو منظور ہے اس میں بھی ہے شہرت میری
مُنے حجام نے سر مونڈ لیا خود میرا
مٹ گئی آہ صد افسوس مشقت میری
رند کے سامنے دعواے سخن میں کرتا
اتنی ہمت نہ مری تھی نہ تھی جرات میری
غاد بھی اب نہیں آتے ہیں مدد کو میری
داغ دیتی ہے انھیں گرد کدورت میری
کرکرا پاؤ گے چھانو گے اسے جتنا تم
مثنوی سے تو ہے پوشیدہ لیاقت میری
مٹ گئی آہ بہار رُخ گلزار ادب
بوئے گل سی ہوئی برباد ہے نگہت میری
ملولہ
کسی کے نام سے جلتی ہوں میں مجھ کو عداوت ہے
دوہا جو ہے نگوڑا اس سبب سے سخت نفرت ہے
کبھی مردار کہتا ہے کبھی بغلول کہتا ہے
خدا کی شان ہے لو آج یہ میری حقیقت ہے
نہیں ہیں جان صاحب کس سے میں تحقیق کرواؤں
حمل کہتے تھے وہ معلوم مجھ کو یہ حقیقت ہے
حکیموں کو کہا حجام یہ کیا دھینگا مشتی ہے
نگوڑا چودھری ہے آج اس ہادی کی عزت ہے
بنایا بڈھے بکرے مرزا مستا کو یہ کیا معنے
وہ بٹیا داغ کا ہے غاد اس کی آج شہرت ہے
مٹے یہ مثنوی جس کے عوض مجھ کو مٹاتے ہیں
اُڑیں وہ کلموہے جن کی بدولت میری یہ گت ہے
غضب کرتے ہو فالج کب گرا تھا مجھ پہ سچ کہنا
ارے میں جان کر بنتی ہوں یہ میری نزاکت ہے
بڑھاپا کب مجھے آیا ہے کیوں تہمت لگاتے ہو
ابھی بچہ ہوں میں اس واسطے لونڈوں کی اُلفت ہے
میں رستم جنگ سے ہرگز نہ بحثوں گی نہ بحثوں گی
ارے میں جانتی ہوں یہ اُسی کی سب شرارت ہے
تم کس لیے ہو؟
دانت ہاتھی کو خدا دیتا ہے کھانے کے لیے
اور لمبی سونڈ ہوتی ہے دکھانے کے لیے
مثنوی میں بھی اسی صنعت سے صدہا عیب ہیں
کچھ دکھانے کے لیے ہیں کچھ بنانے کے لیے
اُڑ گئی ساری ہوائے باغ گلزار عمل
اس چمن میں اب خزاں کہتی ہے آنے کے لیے
ہم صفیرو! تم خس و خاشاک لاؤ ڈھونڈ کر
ہم بھی اپنا آشیاں اب ہیں بنانے کے لیے
رو رہے ہیں مثنوی کو اب طرف دار قدیم
اک بہانہ ہو گیا آنسو بہانے کے لیے
منے حجام اپنی کسوت لے کے جاتا کیوں نہیں
منتظر سر کار ہوں گے خط بنانے کے لیے
اب تو نائی اور درزی جمع ہیں اخبار میں
کوئی مہتر ڈھونڈ لو کھڈّی کمانے کے لیے
بات کرنے میں بھی جس کی لڑکھڑاتی ہے زبان
ہم سے اب آیا ہے وہ باتیں بنانے کے لیے
اس بڑھاپے میں یہ نخرے کیسے گستاخی معاف
کوئی نوکر ڈھونڈ لو غمزے اٹھانے کے لیے
آہ فالج تو کہیں جانے نہیں دیتا اسے
آئے ہیں طاعون خاں بھی اب بلانے کے لیے
پنچ سبھا
نمبر ١
(آمد منے حجام کی بیچ سبھا کے)
سبھا میں دوستو نائی کی آمد آمد ہے
حرام زادے کے بھائی کی آمد آمد ہے
خوشی سے چہچہے لازم خزاں کو ہوں گے اب
کہ اس چمن میں صفائی کی آمد آمد ہے
ہمیشہ رکھتا ہے پاکٹ میں استرے قینچی
کہ آج کل تو کمائی کی آمد آمد ہے
یہ خط بناتے میں قسمت کو اپنی روتا ہے
حمل سے مائی ہے بھائی کی آمد آمد ہے
اگرچہ پاس یہ رکھتا نہیں ہے کسوت تک
پہ رنڈیوں سے تہائی کی آمد آمد ہے
وہ مکھیوں کی طرح دوڑ کر پہنچتا ہے
سنا کہیں جو مٹھائی کی آمد آمد ہے
جو خاکروب ہے ابا تو ماں بھی دھوبن ہے
کمائی اور دھلائی کی آمد آمد ہے
سنا ہے ہونے کو حجام کی ہے اب شادی
خدا کے فضل سے دائی کی آمد آمد ہے
(چوبولہ نائی کا اپنے حسب حال)
پرجا ہوں میں قوم کا منے میرا نام
پریوں کی بن دید کے نہیں مجھے آرام
سن رے مستا دیو رے دل کو نہیں قرار
پنچ سبھا جلدی سے ہو جائے تیار
گوبر سے لیپو چوترہ لمبا اک میدان
مجھ کو اس پر بیٹھنا بدمانس کے درمیان
میرے سیتا پور میں راجہ اور مہراج
دھوبی نائی دونوں میری قوم کے سرتاج
لاؤ پریوں کو میری جلدی جا کر یاں
باری باری آن کر روئیں پیٹیں میاں
(آمد برباد پری کی بیچ سبھا کے)
بزم مہراج میں برباد پری آتی ہے
اور پھر آپ ہی گھر اپنے چلی جاتی ہے
لقوے فالج سے محبت ہے ہمیشہ سے اسے
منہ بھی ٹیڑھا ہے زبان تھوڑی سی لنگڑاتی ہے
منہ پہ پھٹکار برستی ہے پھٹا پھٹ اس کے
رونا آتا ہے یہ جب راگ نیا لاتی ہے!
جب کوئی اس کو ستاتا ہے تو رو دیتی ہے
غل مچاتی ہوئی سر پیٹ کے چلاتی ہے!
نائی اور دھوبی سے رہتی ہے محبت اس کو
ایرے غیروں میں سدا عمر کٹی جاتی ہے
سئیاں شہدے سے جو تعلیم ہے پائی اس نے
نخرے ہر ایک سے کرتی ہے یہ اتراتی ہے
(شعر خوانی زبانی برباد پری کے)
پیپل پہ رہا کرتی ہوں یہ کام ہے میرا
بھتنی ہوں پہ برباد پری نام ہے میرا
میں ساتھ میاں پنچ کے رکھتی ہوں دو ورقی
ردی جسے کہتے ہیں وہ گودام ہے میرا
کوڑی پہ سدا جان دیا کرتی ہوں اپنی
گوبر میں جو پیسہ ہو وہ انعام ہے میرا
کہتے ہیں جسے لوگ جہاں میں شبِ تاریک
پر نور وہ رخسار سیاہ فام ہے میرا
خرسند مجھے دیکھ کے ہوتی ہے خدائی
مادہ ہوں میں نر مُوردِ الزام ہے میرا
کرتی ہوں دل و جاں سے میں لونڈوں کی پرستش
کہتے ہیں جسے کفر وہ اسلام ہے میرا
قسمت نے مجھے رتبۂ اعلیٰ سے گرایا
ہر بمپولس شہر نیا بام ہے میرا
کچھ اہل ظرافت سے میرا بس نہیں چلتا
میں نیک تھی اب شہر میں بد نام ہے میرا
(چھند زبانی بربادی پری کے سبھا میں)
نائی منے دیس میں رہے سدا برباد
شہر میں ایسا کوئی نہیں ہے دوسر فصّاد
کاکوری سے بلایا مجھ کو سبھا میں اپنی آج
دولت مال خزانے کے سدا رہو محتاج
ہیرا پنّا چاہیے سدا مجھ کو ڈھیر
پانسہ اپنا پلٹ گیا ریوڑی کا ہے پھیر
(ٹھمری زبانی برباد پری)
اب چین کہاں ہے آٹھ پہر
ساتھی کی نہیں بالکل ہے خبر
لو ہاتھ میں جوڑوں آٹھ پہر
ہو جائے دَیا کی اب تو نَجَر
جوتوں کا گلے میں ہار رہے
ذلت کے تخت پر بیٹھ نڈر
اے رستم جنگ اپنی ہے دعا
اک ہاتھ لگاؤ بار دگر
(بسنت زبانی برباد پری کے)
رت آئی بسنت عجب بہار
ہو جائے غریبوں پر بوچھار
روئیں پیٹیں بھاری بھرکم
جیویں نائی دھوبی جم جم
لونڈے جا کر گھر میں چھپیں
چیخیں نائی اور کہار
رت آئی بسنت عجب بہار
(غزل زبانی برباد پری کے)
دوستوں سے بے وفائی کا گلہ کچھ بھی نہیں
ہم خطا پر تھے ان کی تھی خطا کچھ بھی نہیں
لونڈے سارے دم دبا کر چھپ گئے کونے میں اب
اس زمانے میں یہ سچ ہے آشنا کچھ بھی نہیں
مورد الزام ہم کو لوگ کرتے ہیں عبث
بے دہائی کہتی ہے ہم نے کہا کچھ بھی نہیں
بے تکی سی بات پر کیوں اس قدر اتراتے ہیں
بد نصیبوں کو مگر آتی حیا کچھ بھی نہیں
ایک تو ہیں سیکڑوں اغلاط اس پر یہ غرور
رند تو کچھ بھی نہیں تھے اور صبا کچھ بھی نہیں
لات ماری اور گھونسوں سے بھی مارا اے ظریف
ہاتھ کی تقصیر پاؤں کی خطا کچھ بھی نہیں
میں نے ان لونڈوں کے ہاتھوں جھیل لیں بد نامیاں
اب ہجوم نا امیدی کے سوا کچھ بھی نہیں
ہولی زبانی برباد پری کے
ساری عزت بوری شیام موسے کھیلو نہ ہوری
کاکوری سے میں بھاگ کے آئی مائے باپ کی چوری
شیام موسے کھیلو نہ ہوری
الٹی سیاہی منہ پہ لگی ہے سارے جگ میں اپنی ہنسی ہے
ماتا چمارن اپنی ملی ہے ذات کا باوا کوری
شیام موسے کھیلو نہ ہوری
تم سے بگاڑی ہم نے موہن چھوٹ گیا سب اپنا بھوجن
باندھ لیا ہے ہم کو پتا نے ڈھیلی کر دیں ڈوری
شیام موسے کھیلو نہ ہوری
(غزل زبانی برباد پری کے)
جھیپ جاتی ہوں بہت اب تم نہ شرماؤ مجھے
عیب جتنے دشمنی میں ہیں نہ دکھلاؤ مجھے
میں حَمَل کہتی ہوں میری بہنیں کہتی ہیں حَمْل
حمل گر باندھا کسی نے ہو تو دکھلاؤ مجھے
ناچنی گانی بہت اچھی تھی میں نے کب کہا
اپنی تاویلیں بنا کر اب نہ شرماؤ مجھے
میں تو سردی میں ٹھٹھر کر رہ گئی ہوں آج کل
ظالمو! بہر خدا اتنا نہ گرماؤ مجھے
بے زباں ہوں گاؤں مَیں کس طرح سے کوئی غزل
ناچتی ہوں اور آتے ہیں فقط بھاؤ مجھے
(غزل دوسری زبانی برباد پری کے )
سر پھوڑ کر میں جان نہ دے دوں تو کیا کروں
اب کب تک اعتراض کے صدمے سہا کروں
جی چاہتا ہے اپنے پیا پر میں ہوں نثار
دن رات ان کے نام کا مالا چپا کروں
ہر چند چاہتی ہوں نہ بولوں ظریف سے
قابو میں اپنے دل کو نہ پاؤں تو کیا کروں
اب لونڈوں کے سوا نہیں کونین کی ہوس
اللہ سے کروں تو یہی التجا کروں
اب مثنوی کو دیکھ کے دل ہے یہ چاہتا
لونڈے بٹھا کے سامنے اس کو پڑھا کروں
مردوں کو بھی بلا کے میں لکھواؤں ان سے خط
جنت میں جا کے رند سے اس کا گلہ کروں
آتش کو بھی بلا کے کہوں ہاتھ جوڑ کر
کب تک کسی کے ہاتھ سے بیٹھی جلا کروں
مرجاؤں گی تو آپ کہیں گے ضرور یہ
کس کو سناؤں گالیاں، کس پر جفا کروں
یہ عرض ہاتھ جوڑ کے کرتی ہوں آپ سے
پھر خوب ٹھوکنا اگر اب کی خطا کروں
اعتراف حماقت
اگر اس پری سے محبت نہ ہوتی
تو ظاہر ہماری حماقت نہ ہوتی
سمجھتے نہ تھے ہم بگڑ جائیں گے وہ
جو یہ جانتے اتنی حجت نہ ہوتی
گدھی اس کو اور مجھ کو کہتے ہیں کتیا
یہ اینٹ الپزادہ کی درگت نہ ہوتی
لکھے بن کے شیطان خط ہم نے ان کو
جو وہ کچھ بھی کہتے تو ذلت نہ ہوتی
وہ دھولیں لگاتے تو عزت تھی اپنی
شکایت نہ ہوتی شکایت نہ ہوتی
غضب ہو گیا ناچنی گانی کہنا
وہ کیوں نظم کرتے جو عادت نہ ہوتی
یو ہیں عیب رہ جاتے اس مثنوی میں
اگر شاعروں کی عنایت نہ ہوتی
دکھا سانپ کیا نظم کرنا تھا اس میں
بھلا اس میں ظاہر لیاقت نہ ہوتی
جو اصلاح آتش کی سب مان لیتے
تو اس وقت ہم کو ندامت نہ ہوتی
چُٹپٹی غزل
مولانا ظریف! واللہ ذرا غور سے اس غزل کو ملاحظہ فرمائیے۔ مابدولت نے ایسی پامال طرح میں حریف کی پامالی کا وہ فوٹو کھینچا ہے کہ سنتے ہی جل کر کوئلہ نہ ہو جائے تو ہمارا ذمہ۔
جب جہالت نے بہت گردن دبائی آپ کی
ہو گئی پھر آپ کے لائق دوائی آپ کی
رطب و یابس مثنوی کی خوب وقعت کھل گئی
جاہلوں کے کچھ نہ کام آئی بھلائی آپ کی
پڑ گئے سر پر تو بولے ہنس کے یہ کس پر پڑے
دیکھ لی ہم نے یہ دیدے کی صفائی آپ کی
لہر کو لہرا کے آخر کیوں لَہَر کہنے لگے
اس لیے گردن ظریفوں نے دبائی آپ کی
اب حمل گر جائے یا رہ جائے اس کا غم نہیں
مشکل آتی ہے نظر لیکن رہائی آپ کی
منے حجام اپنی کِسوت بھول آیا ہے کہیں
آبرو کیوں کر بچائے گا یہ نائی آپ کی
اب کوئی مردہ بھی چلاتا نہیں اخبار سے
مر گھٹے تک کیا نہیں ہوتی رسائی آپ کی
بے نقط ایسی سناتا ہوں کہ کٹ جاتی ہے وہ
جھیپ کے رہ جاتی ہے گھر میں لگائی آپ کی
مثنوی کیا مٹ گئی سردی سے سنّانے لگے
چھن گئی جاڑے میں یہ گویا رزائی آپ کی
پنچ سبھا
نمبر ٢
درخواست کتیا پری کی زبانی راجا نائی کے
خوب رلایا بھاؤ بتا کے
دور ہو بڑھیا دم کو دبا کے
زخم دیا اک دل پر کاری
اب ہے کتیا پری کی باری
(آمد کتیا پری کی سبھا میں)
سبھا میں آمد کتیا پری ہے
دل و جاں سے جو ٹیپو پر مری ہے
ستاتے ہیں اسے ناحق کو کتے
یہ دیوانی جوانی میں بھری ہے
عجب لَے دار اس کا بھونکنا ہے
گلے میں اس کے گویا گٹکری ہے
نہ دیکھا ہوگا ناچ ایسا کسی نے
غضب کی ناچنی گانی پری ہے
زمانہ اس کی شوخی پر فنا ہے
شرارت کوٹ کر اس میں بھری ہے
(شعر حسب حال کتیا پری کے)
مرتی ہوں میں تو اپنی فقط آن بان پر
جوں رینگتی نہیں ہے کبھی میرے کان پر
گاتی نہیں ہوں بھونکتی ہوں اپنے حسب حال
کتیا پری ہے نام میرا ہر زبان پر
اللہ کے کرم سے زمانے میں ہے عروج
ٹکڑا وہیں ملا میں گئی جس دکان پر
کھانے کو چھیچھڑے مجھے ملتے ہیں رات دن
رہتا ہے اب دماغ مرا آسمان پر
کھانا کسی کا ہو مری نیت خراب ہے
گرتی ہوں مکھیوں کی طرح جا کے خوان پر
تابع ہوں اس کے میں جو زبردست مل گیا
بڈھے پہ کچھ ہوں بند نہ میں ہوں جوان پر
تدبیریں سوچتی ہوں میں کھانے کے واسطے
روٹی اگر رکھی ہو کسی کے مچان پر
(چھند کتیا پری کا سبھا میں)
میں چیری شیطان کی تم دکھیا ناؤ
گانا مجھ معشوق کا سنو چاچا تاؤ
سنو غور سے آج پِتا ہمارا گانا
ماں ہماری اندھی اور باپ تمھارا کانا
ہوا ہے میرا تب سے اس محفل میں آنا
جب سے سارا دیس ہمارے کھاتر تم نے چھانا
(چھند دوسرا زبانی کتیا پری کے)
آئی ہوں میں دور سے چھیڑ کی کرکے یاد
مجھ کو بھی رلوائے کے کرو اپنا دل شاد
باسی ٹکڑے دو مجھے دل کھول کے گاؤں
گانا ایسا گاؤں تم کو بھی نچواؤں
تم کو بھی نچوا کر داد اپنی پاؤں
داد اپنی پا کر گھر اپنے جاؤں
(ٹھمری زبانی کتیا پری کے)
ناؤ بھی کرو موسے بتیاں
دم پھرکت ہے دن رتیاں
جی کانپت تمھری صورت سے
دھڑکت ہیں موری چھتیاں
دُم چاٹت ہو بھونکن لاگوں
ماروں دونوں لتیاں
ناؤ جی کرو موسے بتیاں
(ہولی کتیا پری کی سبھا میں)
ناؤ کو سمجھاوے کوئی انگیا رنگ میں بھجوئی
بحث کی ناحک اس نے سب سےعزت مفت میں کھوئی
ناؤ کو سمجھاوے کوئی
(غزل زبانی کتیا پری کے)
چالیے نے میٹ دی عزت ہماری ان دنوں ہائے یہ میرا چمن اور اس طرح برباد ہو نظم سے ہم کو نہ مطلق تھا علاقہ کیا کہیں اعتراضوں سے ہوا ہے ناک میں دم اس قدر ہم تو سمجھے تھے کہ چپ ہو جائیں گے آخر کو سب منہ دکھانے کے نہیں قابل رہے دنیا میں ہم گر ذرا اعزاز کا اظہار ہم کرنے لگیں |
ہو رہا ہے گریہ بے اختیاری ان دنوں سمٹ رہی ہے آہ یہ باد بہاری ان دنوں ہو نہیں سکتی ہے اب مطلب بر آری ان دنوں شکل پہچانی نہیں جاتی ہماری ان دنوں کفش کاری ہو رہی ہے پھر کراری ان دنوں منہ چڑھاتی ہے ہمارا ہر کہاری ان دنوں ٹکس ہو جائے گا پھر ہم سب پہ جاری ان دنوں |
(غزل دوسری زبانی کتیا پری کے)
دل نہ گلدستہ اردو سے ہوا شاد کبھی
ہم نہ مانیں گے اس بحث میں استاد کبھی
زندہ جب تک رہی ایک جان پہ لاکھوں صدمے
بعد مرنے کے ہوئی کم نہ یہ بیداد کبھی
منے حجام کا احسان نہیں ہے ہم پر
کام آتا نہ ہمارے کوئی فصاد کبھی
اب تو اردو میں بھی منہ کھول نہیں سکتے ہیں
ہم بھی اس باغ میں تھے قید سے آزاد کبھی
اب تو خط بھی نہیں آتا ہے میاں آتش کا
بھول کر بھی نہیں کرتے ہیں صبا یاد کبھی
نام رکھنے لگے سب اہل زباں ہنس ہنس کر
آہ تقدیر سے کی ہم نے جو ایجاد کبھی
میری تقدیر کا فوٹو تو وہی کھینچیں گے
مل گئے راہ میں بھولے سے جو بہزاد کبھی
اس قدر ان کی مرمت ہوئی اللہ اللہ
ساتھ دیتے نہیں اب پنچ میں بھی غاد کبھی
(غزل حسب حال)
انی ہیں یہ اعتراض برچھی کہ سب کے دل میں کھٹک رہے ہیں
خران خرگاہ رو رہے ہیں سگان احمق بھڑک رہے ہیں
بگڑ کے حجام منہ پھلائے ہیں ہونٹ اس کے لٹک رہے ہیں
خفا ہیں مستا یہ ضد نئی ہے تھرک رہے ہیں مٹک رہے ہیں
خزاں یہ آئی ہے مثنوی پر بہار ہے اب نہ ہے وہ گلشن
بجائے بلبل غریب الو اچک رہے ہیں پھدک رہے ہیں
نہ عقل ان کو کہ بات سمجھیں نہ ذہن ایسا کہ تہ کو پہنچیں
اٹھے نہ جب اعتراض ان سے تو منہ ہر ایک کا یہ تک رہے ہیں
کبھی یہ کہتے ہیں مذہبی جنگ ہو رہی ہے چچا سے ہم سے
کبھی تعصب میں اپنے آ کر جو منہ میں آتا ہے بک رہے ہیں
جو بات معقول تھی سناؤ تو اس میں حیلے حوالے لاکھوں
جہالتوں سے بھرے ہوئے ہیں حماقتوں سے بہک رہے ہیں
مثال دیں گے تو الٹی دیں گے سمجھ سے خالی ہے ذہن عالی
نہ فہم سے مس نہ عقل سے حس جہالتوں سے سنک رہے ہیں
غضب یہ ہے طاہرہ کو دیکھو کہ بے تکا راگ گا رہی ہے
تو منے نائی مٹک رہا ہے تمام لونڈے تھرک رہے ہیں
زبان قابو میں اب نہیں ہے تو یہ اشاروں میں رو رہی ہے
سمجھ میں آتا نہیں کسی کے تو لوگ حسرت سے تک رہے ہیں
یہ منقلب غاد کیوں پڑے ہیں سبب نہیں اس کا ہم کو کھلتا
کسی نے پینے کو دی نہ افیوں تو مر رہے ہیں سسک رہے ہیں
نہ کام شیطان تیرے آیا نہ سئیاں شہدے نے منہ لگایا
کیے تھے جو اعتراض ہم نے وہ برق بن کر چمک رہے ہیں
اٹھا نہیں اعتراض کوئی تو غصہ بھی آرہا ہے ان کو
یہ ظرف چھوٹے جو بھر گئے ہیں تو سب طرف سے چھلک رہے ہیں
یہ ضد لگی ہے یہ ہٹ پڑی ہے غلط بھی دیکھو تو کچھ نہ بولو
غریب بچے یہ نا سمجھ ہیں شریر ناداں بلک رہے ہیں
کمال تحقیق میں ہمارے کبھی نہ آئے گا فرق اس سے
عروج دیکھا ہے احمقوں نے تو بن کے کولا دہک رہے ہیں
(فقرے غاد پری کی درخواست میں زبانی منی حجام)
دکھا چکی تو کرتب کتیا
کونے میں بیٹھ تو میا
کیا سبھا میں تو نے نام
اب ہے غاد پری کا کام
(لاؤ غاد پری کو)
سبھا میں غاد پری کی سواری آتی ہے
تمام پنچ کی اس وقت خواری آتی ہے
جو گول ٹوپی ہے سر پر تو ہاتھ میں رومال
پھلا کے توند یہ شامت کی باری آتی ہے
غضب بڑھاپے میں پھٹکار سی برستی ہے
گماں یہ ہوتا ہے گویا چماری آتی ہے
خضاب منہ سے چھٹا ہے خدا خدا کر کے
گراں یہ توند ہے گویا کہاری آتی ہے
کبھی جو ہنس کے کسی کی طرف لپکتی ہے
سمجھتے سب ہیں کہ کتیا شکاری آتی ہے
رقیب سے جو اسے خواب میں تلمذ ہے
اسی کے واسطے لڑنے گنواری آتی ہے
(شعر خوانی غاد پری کی)
شیطان کا کام حسن پہ میرے تمام ہے
گو سیتلا کے داغ ہیں پر غاد نام ہے
محفل میں سب کے سامنے رہتی ہوں منقلب
دن رات مجھ کو بس انہی باتوں سے کام ہے
سر پر لگائے دھپ جو اسی کی کنیز ہو
خاموش جو رہے وہ میرا خود غلام ہے
الٹی خدا نے دی ہے مجھے عقل اس قدر
ہوتی اگر سحر تو میں کہتی ہوں شام ہے
پوشاک تو سفید ہے چہرہ سیاہ ہے
گویا اودھ کی صبح میں یہ کالی شام ہے
یہ جھوٹ پر دیا ہے خدا نے مجھے فروغ
پایا اسی کی وجہ سے مال حرام ہے
الٹی ہے مت کے ہو گئی احمق کی میں شریک
بڑھیا ہو گو کہ میں پہ مری عقل خام ہے
(چھند زبانی غاد پری کی)
پڑی ہوئی تھی اوندھی میں اوپر تھے دلال
یہاں بلا کر آپ نے مچا دیا بھونچال
مچادیا بھونچال کہ یہاں مجھے بلوایا
بھوکی گھر سے آئی تھی کچھ نہ کھلوایا
روپ سروپ مہاراج کا میرے دل کو بھایا
لیکن تو احمق تھا جو اس پر اترایا
(ٹھمری زبانی غاد پری کے)
مجھ پر جوتے خوب پڑے
او حجام مجھ پر جوتے
جس کو دیکھو الٹی متا ہے
لڑن والے پر گاج پڑے
او حجام
چندیا موری ہو گئی ڈھیلی
بہت پڑے بھئی بہت پڑے
او حجام
جیسی مرمت موری بھئی ہے
کوئی گدھی کا کھبر کرے
او حجام
(ساون زبانی غاد پری کے)
بن پیا گھٹا نہیں بھاوے
قسمت پر اب رونا آوے
سر پھر نہ اٹھائیں ہم سب بہنیں
کوؤ ایسا جوتا برساوے
ہاتھ جوڑت ہوں منتی کرت ہوں
اب نہ مہکا بات سناوے
میں تو دکھیا جنم کی ماندی
کوؤ بید دیکھن نہ آوے
(غزل زبانی غاد پری کے)
پھنسے ناحق کو ہم اے پنچ تیرے دور ساغر میں
لکھی تھی اس قدر ذلت ہمارے بھی مقدر میں
کسی استاد کی بھی غلطیوں کے ہم نہیں قائل
کہ ہٹ دھرمی کا سودا بھر گیا ہے آج کل سر میں
شگوں کہنا نرالا اور دکھا سانپ اپنا مشرب ہے
کہ ایسا بولتی ہیں عورتیں بھی آج کل گھر میں
حمَل کہتی ہوں جب میں ان کو غصہ آ ہی جاتا ہے
حمل میرا گرا دیتے ہیں آخر ایک ٹھوکر میں
طبیعت چلبلی ہے اور لونڈوں سے محبت ہے
خدا کے سامنے بھی میں یہی کہہ دوں گی محشر میں
کوئی حجام مل جائے تو اپنا سر منڈا ڈالوں
یہی سودا بہت دن سے سمایا ہے مرے سر میں
(ہولی زبانی غاد پری کی)
لاج رکھ لے گدھیا ہماری میں چیری تمھاری
پھروں ہوں ماری ماری
پہلے میں کلکتے گئی تھی ساری دولت ماری
مال پرایا گھر میں رکھ لو ایسی کرو ہوشیاری
کہیں نہ ہوے عاری
جس کا پاؤ مال گھما دو کیا کوؤ تم کا ماری
آنکھ بچے گٹھری ٹہلے پھر بنو اناری
کوڑی کوڑی منہ سے اٹھاؤں ایسی ہوں کھلاری
اب جو بولے منہ سے کوئی جب ہی دنیا گاری
میں تو ہوں گھسیاری
(غزل زبانی غادپری کے)
مرحوم شاعروں سے بھی فریاد کیجیے
آتش کو ذوق و رند کو بھی یاد کیجیے
مارا ہے کیا ظریف نے یارو! دہائی ہے
اب کس سے جا کے شکوۂ بے داد کیجیے
توبہ ہے اب سے منہ نہ چڑھوں گی ظریف کے
میں ہوں کنیز آپ کی آزاد کیجیے
بوڑھی ہوں توند لے میں جاؤں کہاں کہاں
اک ہاتھ مار کر اسے برباد کیجیے
جی چاہتا ہے بولیاں پنڈت کی سیکھ لوں
مل جائے اک گنوار تو استاد کیجیے
گانی تھی اور ناچنی تھی وہ بڑی کمال
اس شاعری پہ آنکھ سے بس صاد کیجیے
الفاظ جو غلط ہوں انھیں لائیے ضرور
اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ ایجاد کیجیے
جب اعتراض ہوں تو بگڑ جائیے وہیں
اور منہ پھلا کے لوگوں سے فریاد کیجیے
اٹھیں نہ اعتراض دیے جائیں گالیاں
آخر کو ضد سے آپ ہی ایراد کیجیے
(غزل زبانی غاد پری کے)
کسی کے اعتراضوں نے عجب اندھیر ڈھایا ہے
زمیں کو زلزلہ ہے آسماں چکر میں آیا ہے
اٹھائے ہیں وہ صدمے مٹ نہیں سکتے کبھی دل سے
کسی کے ایک فقرے نے کیا سب کا صفایا ہے
گھٹا غلطی کی ہے مینہ اعتراضوں کا برستا ہے
کسی کی مثنوی کے باغ پر کیا ابر چھایا ہے
خضاب ایسا مزین عارض ناقص پہ ہوتا ہے
گماں ہوتا ہے بطخا منہ پہ گوبر مل کے آیا ہے
مٹانے سے مٹیں کیا اعتراضاتِ بجا ہم سے
دلائل ہیں قوی اس میں اڑنگا بھی لگایا ہے
حساب شاعری جب حشر میں ہوگا کہہ دوں گی
کہ میں نے مثنوی کے عیب کو بالکل چھپایا ہے
چھپاؤں منہ ندامت سے سر محفل نہ کیوں اپنا
کہ میں نے چالیوں کے نام پر دھبا لگایا ہے
ہوئی تھی تیز ایسے ویسوں کو میں گالیاں دے کر
نمازی کا ٹکا آخر بیان سے میں نے پایا ہے
وہ کہتا مثنوی کیا تم ذرا دیوان تو دیکھو
خوشامد سے درآمد سے کسی سے مانگ لایا ہے
(فقرے منہ بند پری کی درخواست میں)
کاٹی رات مزے میں سب
بیٹھ ری کٹنی نیچے اب
بہت کی تو نے میری خوشامد
منہ بند پری کی اب ہے آمد
(لاؤ منہ بند پری کو)
آتی عجب انداز سے منہ بند پری ہے
غیں غیں ہے زباں تک نہیں قابو میں ذری ہے
موٹی ہے زباں بات نہیں منہ سے نکلتی
گونگی کے اشاروں میں فقط جلوہ گری ہے
منہ شرم سے ہر ایک کا تکتی ہے ہمیشہ
کچھ بول نہیں سکتی یہ بے بال و پری ہے
امید خزاں اب اسے دے دیتی ہے جھونکے
کیا گلشن عالم میں چراغ سحری ہے
زیور نہیں درکار مخنث کی ہے صورت
یہ بھینس ہے چہلے کی جو کیچڑ میں بھری ہے
(شعر خوانی منہ بند پری کی)
معمور ہوں ذلت سے حماقت سے بھری ہوں
کچھ کہہ نہیں سکتی ہوں میں منہ بند پری ہوں
فاقے سے ہوں بھوکی ہوں غضب ہے مرا غصہ
ٹھنڈے ہوں ابھی لوگ جو میں گرم ذری ہوں
وہ شمع ہوں گل کرنے کو محفل جسے اٹھے
اس باغ جہاں میں نسیم سحری ہوں
زندہ نہ رکھے گا مجھے سن لے گا جو نائی
میں کفر کے شہزادے پہ سو جاں سے مری ہوں
(چو بولہ منہ بند پری کا)
راجہ اندر ناؤ سو گئے دیا نہ کچھ انعام
جاتی ہوں مرگھٹ میں یہاں مرا کیا کام
سن رے مستا دیو رے تو میری اک بات
آتی تھی گھر ناؤ کے میں آج کی رات
شہزادہ اک رو سیہ سوتا تھا نادان
اس بھتنے کو دیکھ کر نکلی میری جان
اتری اپنے تخت سے رنج بہت اٹھائے
سوتا تھا وہ مردہ سا ہاتھ پاؤں پھیلائے
کالی صورت دیکھ کر دل کا گیا قرار
بھونڈے نقشے پر کیا خوب سا پیار
دل میرا لگتا نہیں محفل میں اس آن
اب کوئی دم کی میں ہوں مہمان
اس کو گر تو لائے گا کھینچ کر مکار
لونڈی تیرے پاؤں کی بنوں گی بے تکرار
(جواب مستا دیو کا)
گھر میں منے ناؤ کے تو سب کی سردار
تجھ سے کر سکتا نہیں ہرگز میں انکار
پھوٹ تو منہ سے اپنے کچھ تو مجھے بتا
پتا دے ملعون کا لاؤں ابھی اٹھا
(جواب منہ بند پری کا)
جا تو بیچوں بیچ میں کیچڑ کے درمیان
سوتا ہے اک بد شکل مہری پر نادان
جوتا میں دے آئی ہوں اپنا اسے نشان
کالے چمڑے کے نشان سے تو اسے پہچان
(سوال مستا دیو کا)
لایا شہزادہ کو میں جا کر ہندوستان
معشوق اپنا او قحبہ جلدی سے پہچان
(جواب منہ بند پری کا)
یہی ہے میرا لخت دل یہی ہے میری جان
مائی باپ ہے یہی میرا میں اس پر قربان
(جگانا منہ بند پری کا شہزادے کو)
سوتے ہو کیا بے خبر چھوڑ کے تم کفار
آنکھیں کھولو اپنی پتا نیند سے ہو ہشیار
(جاگنا شہزادے کا اور گھبرا کر کہنا)
کھونٹا میرا کیا ہوا چھوٹا کدھر مکاں
سوتا تھا میں کیچڑ میں لایا ملچھ کہاں
نہ وہ کالی مہرے ہے نہ وہ میرا گھر
خواب یہ میں دیکھوں ہوں یا ہو گیا ہوں خر
(گانا شہزادے کا عالم حیرت میں)
کھینچ کر کون ملچھ آہ یہ لایا مجھ کو
کس ستم کیش نے سوتے سے جگایا مجھ کو
لا کے ناحق کو عبث آہ ستایا مجھ کو
یہ تکلف تو کسی طور نہ بھایا مجھ کو
بس میں قحبہ کے مجھے چھوڑ دیا ہائے غضب
ڈھونڈنے کوئی بھی دفتر میں نہ آیا مجھ کو
حیف صد حیف کسی نے نہ خبر لی میری
میرے پرجا نے عبث دل سے بھلایا مجھ کو
(گانا شہزادے کا)
مجھے آہ تقدیر لائی کہاں
کہ منہ بند بھتنی ہے گونگی جہاں
مجھے آہ تقدیر
گدھیا یہ باندھی گئی میرے سر
اسے چھوڑ کر اب میں جاؤں کہاں
مجھے آہ تقدیر
ترس آتا ہے مجھ کو حالت پہ اس کی
کہ مفلوج ہے اور ہے ناتواں
مجھے آہ تقدیر
زباں تک نہیں قابو میں اس کی ہے
پڑی کس مصیبت میں اب میری جاں
مجھے آہ تقدیر
(کہنا منہ بند پری کا اشاروں سے)
دیکھو تم میری طرف گھر کا لو مت نام
گھر میں میرے لاکھوں ہیں دھوبی اور حجام
جو ہونا تھا سو ہوا اب کیا پچھتانا
اب تو میرے جال میں آ گئے ہو نانا
نام اپنا بتا کر کرو دل کو شاد
میں خوشی میں آن کر بانٹوں گی پرشاد
(جواب شہزادۂ کفر کا)
اونچوں میں رہتا ہوں عیش ہے میرا کام
شہزادہ ہوں میں ہند کا کفر ہے میرا نام
(سوال شہزادہ کا منہ بند پری سے)
تو بھتنی کس قوم کی اپنا نام بتا
پھوڑا سا سینہ پر تیرے نکلا ہے یہ کیا
(جواب منہ بند پری کا)
قوم کی میں بھتنی ہوں منہ ہے میرا بند
اوندھی سیدھی لیٹ کر کروں تجھے خرسند
رہتی ہوں میں کاکوری گدھی ہے میرا نام
نفرت سے اس قوم کی ہوئی ہوں میں بدنام
(سوال شہزادہ کا)
جلدی بتلا اب مجھے اس دم اے مردار
لا کر تیرے پاس مجھے کس نے کیا خوار
(جواب پری کا)
تجھ پر میں عاشق ہوئی چلتے چلتے رستا
اٹھا منگایا یاں تجھے بھیج کے مرزا مستا
(شعر خوانی بہ اشارۂ منہ بند پری)
آ مرے پاس کہ پتھر پہ جماؤں تجھ کو
چھاپہ خانہ کی ذرا کل سے دباؤں تجھ کو
دل کو بھاتی ہیں جو بھونڈی سی ادائیں تیری
میں اشارے سے ذرا لے لوں بلائیں تیری
لیٹ پہلو میں تو گھر بھر کو میں برباد کروں
آگ دکھلا کے پریسوں کو میں دل شاد کروں
(جواب شہزادے کا)
قوم میں اپنی کوئی دے گا نہ کھانا مجھ کو
مار ڈالے گا ابھی جان سے نانا مجھ کو
مجھ کو احمق نہ سمجھ خوب سیانا ہوں میں
تو اگر گونگی ہے کمبخت تو کانا ہوں میں
بیسوا تجھ سی زمانے میں نہ ہوگی کم قوم
آپ بدنام ہوئی ہم سے چھڑائے ہم قوم
بھیج مستا کو مجھے کھینچ بلایا تو نے
کفر کو خوب ہی پھندے میں پھنسایا تو نے
(جواب منہ بند پری کا اشاروں سے)
موت کا لطف ہے ایسی ہی ملنساری میں
پھیکی پکتی ہے نمک جب نہ ہو ترکاری میں
دل میں تو خوش ہے کہ کیا لڑ گئی قسمت میری
مجھ سی منہ بند پری کو ہے محبت تیری
شرم تجھ کو نہیں اے کاٹھ کے الو آتی
ہے چھچھوندر کی بند سے ترے خوشبو آتی
دیکھ پچھتائے گا برباد اگر تل ہوگا
پھر نہ موقع تجھے کم بخت یہ حاصل ہوگا
(جواب شہزادے کا)
وصل کرنے پہ میں راضی ہوں مگر اس عہد کے ساتھ
اب کسی غیر کا ہرگز نہ پکڑنا تو ہاتھ
دوسرے یہ کہ سنی نائی کی ہے میں نے سبھا
ساتھ لے چل کے ابھی مجھ کو ذرا دکھلا لا
(جواب اشاروں میں منہ بند پری کا)
بے ہودہ بات زباں پر نہیں لاتا کوئی
گھر میں حجام کے اشراف ہے جاتا کوئی
دیتا حجام کی کسوت پہ عبث جان ہے تو
وہ تعصب میں بھرا ہے ارے نادان ہے تو
ایسی جا سیر کو اشراف نہیں جاتے ہیں
قوم پاجی کی ہے بے عقل یہ اتراتے ہیں
آفت آ جائے گی تجھ پر ارے دیوانہ ہے
ایک کمبخت ہے شیطان کا وہ نانا ہے
نام تیرا جو کوئی اس کو بتا دیوے گا
ٹھونک دے گا وہ مجھے تجھ کو مٹا دیوے گا
(جواب شہزادے کا)
جھوٹ ہے جھوٹ ہے واللہ یہ سب بات تری
میں سمجھتا ہوں کہ خیلا ہے یہ سب گھات تری
مرزا مستا کے یہاں رات کو تو جاتی ہے
ساتھ لیتے ہوئے اس سے مجھے شرماتی ہے
(جواب پری کا)
بات ایسی تو زباں سے نہ نکالو صاحب
چونچ کو بند کرو منہ کو سنبھالو صاحب
مجھ کو مستا سے برا کام جو کرنا ہوتا
آدمی زاد پہ کس واسطے مرنا ہوتا
میں پری ہو کے بنڈیلے پہ فدا جان کروں
ایڑی چوتی پہ موئے بھوت کو قربان کروں
(جواب شہزادے کا)
روز لونڈوں کو تو کوٹھے پہ بلاتی ہے تو
پھر مرے سامنے باتیں یہ بناتی ہے تو
صبح ہوتی ہے میری جان نہ پھسلا مجھ کو
بھیرویں جلد ذرا چل کے سنا لا مجھ کو
(جواب پری کا)
جان دی مفت میں او دشمن جانی تو نے
بات ہرگز مری کمبخت نہ مانی تو نے
تو بھی کم ظرف ہے کب تک تجھے سمجھاؤں میں
جھوپڑا چل تجھے نائی کا دکھا لاؤں میں
(جواب شہزادے کا)
ساتھ چلنے میں تو ہر طرح کی تیاری ہے
پر نہیں رکھتا ہوں اس وجہ سے لاچاری ہے
پر کٹی کوئی تو تدبیر بتا دے مجھ کو
یا کسی اُلو کے پر نوچ کے لا دے مجھ کو
(جواب پری کا)
بہکی باتیں نہ کرو ہوش میں آؤ بابا
دونوں ہاتھوں سے میرے تخت کا پکڑو پایا
یہ نہ ہوئے تو مری ٹانگ پکڑ لو جانی
تم نواسے ہو تو میں بھی ہوں تمھاری نانی
مجھ سے واں جا کے کوئی بات نہ کہنا بیٹا
پیچھے پیچھے مرے تم ناچ میں رہنا بیٹا
گا کے اور ناچ کے بت سب کو بنا دوں گی میں
تجھ کو مہری کے دریچے میں بٹھا دوں گی میں
(جانا دوبارہ مُنہ بند پری کا سبھا میں اور اشاروں سے باتیں کرنا)
نائی نے بلوا کر کیا مجھے آرام
آئی ہوں پھر یہاں کروانے اپنا کام
کروانے اپنا کام یہاں پھر آئی
ٹھمری چھند غزل کی مجھ میں دھن ہے سمائی
(شہزادی کی غیں غیں)
کرے جو شہزادی مُنہ سے غیں غیں تو نوحہ بن جائے راگ ہو کر
اٹک کے رہ جائے مُنہ کے اندر زبان بوتل کا کاگ ہو کر
کجا ہماری شرر فشانی کہاں گدھیوں کی سیپوں سیپوں
خدا کی قدرت کہ لینڈی بھی اب چکت لگاتے ہیں ڈاگ ہو کر
سیاہ پوشوں سے تم نہ بحثو بتائے دیتے ہیں مُنے نائی
کہیں نہ گھس جائیں بل کے اندر ہنسی ہنسی میں یہ ناگ ہو کر
ہماری شیوا بیانیوں سے ملا و مسٹر نہ اپنا پھکڑ
پلاؤ کے ساتھ مجھ کو کھاؤ کہے یہ بتھوے کا ساگ ہو کر
پڑے ہیں کچھ ہاتھ ایسے بے ڈھب کہ من منی جامہ سے ہے باہر
ٹپک پڑے کیوں نہ تھوک مُنہ کا کمال غصے سے جھاگ ہو کر
یہ غیرتیں اُٹھ گئی ہیں اب تو کہ پنچ ہو کر کے دُم دبائی
جو بھاگتے ہیں تو کہہ رہے ہیں کہ ہم تو آئے ہیں بھاگ ہو کر
کہے یہ دیتے ہیں تم سے ہم تو ظریف خاں سے عبث نہ بحثو
وگرنہ کھا جائے گا یہ ظالم تمام کُتیوں کو ناگ ہو کر
خجل یہ ہے غاد منقلب بھی کہ مُنہ دکھاتا نہیں ہے اب تو
کجا توقع کہ دُم دبا کر یہ بھاگ جائے گا گھاگ ہو کر
چٹختے ہیں کولہ کی طرح سے تمام احمق تمام بد بیں
جلائیں سب اعتراض ان کو نہ کیوں جہنم کی آگ ہو کر
(عیدی)
فضلِ خالق سے عید آئی ہے
یہ خوشی اپنے ساتھ لائی ہے
مُنے حجام کو ٹکا دے دو
یہ غریب اک قدیم نائی ہے
شیخ چلی کا لکچر
یہ بات صوبۂ بنگالہ اور صوبہ متحدہ، صوبۂ پنجاب، صوبۂ مدراس کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گی کہ آج ہم اُس بیداری کے خواب کو دیکھنے کی غرض سے کوٹھے پر چڑھے ہیں جس کے آثار ہم کو ابد سے نظر آ رہے تھے۔ درحقیقت سودیشی تحریک کا نمود ہندوستان میں کچھ آج سے نہیں ہے ہمیشہ سے ہے۔ زمانہ گذشتہ کے اہل الرائے ہندوستان کی مفلسی اور مغرب کی روز افزوں ترقی پر غل غپاڑہ مچایا کیے اور دہائی دیا کیے لیکن کوئی خبر نہ ہوا۔ یہاں کے اگلے بڈھے بخلاف ہمارے تجارت اور صنعت و حرفت میں زیادہ منہمک تھے۔ ایک ایک بڈھا اچھی طرح علم انساب کے رو سے بغیر غور و فکر کے بتا سکتا تھا کہ یہ دُنبہ ہے یا بھیڑ۔ بندر ہے یا بکری، گھوڑا ہے یا گدھا، چیل ہے یا کوا، بیل ہے یا گائے، اونٹ ہے یا بلی۔ تجارت اور تجربہ کا تو یہ حال تھا۔ اب لیجیے صنعت و حرفت عراق سے عرب تک، مشرق سے مغرب تک، ہندوستان کی صنعت کی دھوم تھی۔ کملیاں، چھنیاں، ڈفلیاں، خنجریاں، ڈھول تاشے گاڑھے دھوتر۔ افسوس ہے کہ ہندوستان یہ تمام آسائش کے ساز و سامان مٹا کر خاک میں مل گیا اور غیر ملکوں نے اس کے کھنڈروں پر قبضہ کر لیا۔ یہ خفیہ سودیشی تحریک چپکے چپکے اپنا کام کر رہی تھی اور ہنڈیا میں گڑ پھوڑ رہی تھی، لیکن تقسیم بنگالہ کے چابک نے اچھی طرح پیٹھ سہلا دی اور گرد جھاڑ دی۔ اب کیا تھا لگے دولتیاں اُچھالنے۔ یہاں تک کہ پُٹھے پر ہاتھ رکھنا ناگوار خاطر تھا۔ کبھی ہر کھائی کتیا کی طرح ادھر سے اُدھر دوڑتے تھے، کبھی دبی بلی کی طرح بھبکتے تھے۔ آخر ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں بندے ماترم کے سودائی گونجنے لگے۔ لہذا سودیشی تحریک کا قیام ہمارے لیے ابدی ہے اور اگر تقسیم بنگالہ مسترد کر دے، تو پھر یہ سارے چل پوں غائب غلہ ہو جائیں اور کل شکوے شکایت دفع ہو جائیں۔ اسی پردے میں مسلمانوں کا بھوکے مرنا مقصود ہے۔ بھائیو! اگرچہ میں خود ایک مسلمان ہوں لیکن جس طرح میرے ہم قوم بعض دانا لیڈر اپنا گلا آپ گھونٹ رہے ہیں اور اپنی قوم کی گردن پر آپ چُھری پھیر کر اپنی ہنڈیا گرم کر رہے ہیں۔ اس کو عام بیوقوف مسلمان نہیں سمجھ سکتے۔ یہ ایک تہ بہ تہ مسئلہ ہے جس کے سمجھنے کی کسی مہذب مسلمان کو لیاقت نہیں اور اس راز کے کھل جانے سے مدبران ملک کے واسطے خرابی کے آثار ہیں۔ ہم کو اس بات کا ضرور افسوس ہے کہ ہمارے بہت سے ہم خیال جیل خانہ کی سیر کر رہے ہیں اور بعض بعض جانے کو تیار ہو رہے ہیں۔ مگر سوراجی خفقان اور سودیشی سوداوی مادہ ایسا نہیں ہے جو دو چار مسہل میں تحلیل ہو جائے۔ اس کے واسطے ایک زبردست عمل کی ضرورت ہے جو تمام مادہ سوداویہ کو خارج کر دے۔ گورنمنٹ حکیم ہے اور ہم علیل۔ رائے علیل بھی علیل ہوتی ہے۔ حکیم جو کچھ حکمت عملی سے کام کرے گا مفید ہوگا۔ کیونکہ یہ ملکی جوش گذر جانے والا دھارا نہیں ہے۔ بلکہ یہ تحریک ایک سالم صورت میں نمودار ہوئی ہے اور اُمید کی جاتی ہے کہ بہت جلد قومی دیوتا بن کر ترقی کرتی جائے اور اُمید کی جاتی ہے کہ بہت جلد ملکی گوشمالی کی کنجی ثابت ہو۔ کیونکہ ہندوستان کی مفلسی ایک مسلمہ امر ہے اور ہندوستان کا خاص پیشہ زراعت ہے۔ زراعت کی حالت ایسی خراب ہے کہ فلک کے اجرام میں قوت جاذبہ ضعیف ہو گئی لہذا امساک کھانے کی ضرورت ہوئی۔ جس کا لازمی نتیجہ امساک باراں ہے، پھر پانی کیونکر برسے اور قحط سالی کیوں نہ ہو ضدین کا مجتمع ہونا عقل سے باہر ہے۔
گو کہ ہم لوگوں نے دائمی بند و بست کی درخواست کی مگر نا منظور و نا مطبوع ہوئی۔ سرکاری محصول روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قابل زراعت زمین میں اضافہ نہیں ہو سکتا اور زراعتی زمین بانجھ ہوتی جاتی ہے۔ پیداوار غلہ ضرورت سے بہت کم ہے۔ ہندوستان میں قحط بہت جلد جلد تشریف کا ٹوکرا لانے لگا جس سے رعایا کی مصبیت آسمان پر چڑھ گئی ہے۔
اب وہ وقت ہے کہ ہم لوگ کوئی مفید کام شروع کریں اور وہ ہندوستانی صنعت ہو۔ کملی بنیں، کرگھے بنیں، جاپان جائیں جولاہے بن کر آئیں۔ امریکہ جائیں قلعی گر بن جائیں، بڑھی بنیں، لُہار بنیں۔ غرض دھوبی کے کُتے گھر کے ہوئے نہ گھاٹ کے۔
پڑھنے لکھنے کے بعد ترقی معکوس کا خیال ہوا ؎
پڑھیں فارسی بیچیں تیل
یہ دیکھو قدرت کے کھیل
لیکن اگر ہم اپنے ملک کی ترقی کی کشتی ادبار کے سمندر سے نکالنا چاہتے ہیں تو ہم کو چاہیے کہ تجارت کے سمندر میں غوطے کھایا کریں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہندوستانی بھائیوں کا سرکاری اور غیر سرکاری نوکری کی طرف بہت کچھ خیال ہے۔ استغفر اللہ یہ ایک ذلیل بات ہے۔ اس کو محض لالہ لوگوں کے حوالے کر دو اور بنگالی بابوؤں کو دے دے۔ یہ پسونی اور کتونی اُنھیں سے خوب ہوگی۔ مسلمان لوگ بڑے بیوقوف ہیں جو ذرا سی نوکری کے لیے لڑے مرتے ہیں۔ جدید اصولوں پر کام کرو اور پُرانی صنعتوں کو زندہ رکھو۔ یہی ترقی کا بھید ہے۔ ابھی ہم کو بہت کچھ کام کرنا ہیں اور ہمارے راستے کانٹوں سے خالی نہیں۔ ہم کو بہادری سے مصیبتوں کا سامنا کرنا چاہیے اور ہوشیاری سے منزل مقصود تک پہنچنا چاہیے۔ ہم کو حب الوطنی کا اصول مدنظر رکھ کر اپنی ہنڈیا گرم کرنی چاہیے۔ یہ چال چل گئی تو چپڑی اور دو دو ہیں۔
یہ سچ ہے کہ تقسیم بنگالہ کے نشتر نے سودیشی کے میلان کو بائیکاٹ کے اسلحہ سے مزیب کر دیا۔ کیونکہ سودیشی کے دوسرے معنی غیر ملک کی چیز سے نفرت کرنے کے بھی ہیں۔ اس سبب سے بائیکاٹ لازم و ملزوم ہے۔ اور قاعدے کی بات ہے کہ کام میں جب تک شور و غل نہ کیا جائے جوش پیدا نہیں ہوتا۔ مار مار کرنا چاہیے اگرچہ نامردی خدا نے دی ہو۔
لیکن اگر واقعات کا دلجمعی سے مطالعہ کیا جائے کہ جس روز ہم تمام یورپ سے عمدہ اور نفیس مال بنا لیں گے، اسی روز ملکی تجارت کی بادشاہی کا تاج ہمارے سر پر رکھ دیا جائے گا۔ اس وقت ہم کو بائیکاٹ کی ضرورت نہ رہے گی۔ یہ غل غپاڑہ چند روزہ ہے۔ دراصل سودیشی تحریک کے آغاز پر گورنمنٹ کو کچھ غلط فہمی ہوئی جس کی بدولت دو چار غریب شکار ہو گئے اور آئندہ بھی نہ معلوم کتنے ہوں۔ کیونکہ اس کا راستہ جیل خانہ کے قریب ہے، لہذا بعض مدبران قوم ادھر سے اُدھر کھسک جاتے ہیں اور یہ قومی غلط فہمی ہے۔
آج ہم لوگ اس خوشی میں اچھل کود رہے ہیں کہ صوبہ متحدہ کے لفٹنٹ گورنر سر جان پرسکاٹ ہیویٹ صاحب نے سر اینٹی مکڈانل کی تقلید میں پہلا قدم اُٹھایا جس سے زمانہ کی روش بدل گئی اور ہماری جان میں جان آئی۔ نہایت خوشی کی بات ہے کہ ایک صنعتی کانفرنس نینی تال میں کی گئی جس سے کامل ہمدردی کا ثبوت ملتا ہے۔ خیر خدا خدا کر کے کچھ پکڑ دھکڑ کا خوف تو کم ہو گیا اور ملک کی سرسبزی کی بھولی بھولی صورت خواب میں دکھائی دی۔ مگر اس خوف کے مارے جان نکلی جاتی ہے کہ پلیگ ہر سال صفائی کا داروغہ بن کر آتا ہے اور ہندوستان کی لاکھوں بکریاں گرگِ اجل کے حوالے کر دیتا ہے۔
بات یہ ہے کہ ہم خود بھوکے ہوتے ہیں۔ قاعدے کی بات ہے کہ نزلہ بر عضو ضعیف می ریزد۔ کمزور سمجھ کر ہمیں کو دباتا ہے۔ وہ لوگ اس بیماری سے محفوظ ہیں جو مرغن کھانے کھاتے ہیں اور ہماری کمزوری ظاہر ہے کہ انسانی خوراک کا کوئی حصہ ہم کو میسر نہیں آتا۔ چوپایوں کی خوراک ملتی ہے۔ در حقیقت بغیر سرکاری امداد کے ہمارا چَو بردھا نہیں چل سکتا۔ ہماری نکیل گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ جب ذرا ہم سر اٹھاتے ہیں وہ ایک جھٹکا دیتی ہے کہ ہم ناک مل کے رہ جاتے ہیں۔ ورنہ ڈنمارک میں آج کل جو نمایاں ترقی قابل رشک ہو رہی ہے وہ گورنمنٹ کی اندرونی اور بیرونی مدد سے ہے۔ راتوں کو گورنمنٹی ہمزاد ان کی کاشتکاری کرتے ہیں اور ان کی خشک زمین میں نلوں کے ذریعے سے آب رسانی کرتے ہیں۔ کھیتوں کو سر سبز کرتے ہیں۔ اناج کاٹ کر غلہ کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ اگر ایسی رعایت اور مہربانی ہم ہندوستانیوں کے ساتھ کی جائے تو آج ہندوستان انگلستان سے وقعت اور منزلت میں کچھ کم نہ ہو۔ کیونکہ ما شاء اللہ ہندوستانی ان سوکھی ہڈیوں پر بھی محنت میں کچھ کسی سے کم نہیں ہیں۔ زراعت میں یہ حالت ہے۔ اور صنعت میں یہ حال ہے کہ اپنی بری اور بھدی چیز غیر ممالک کی نفیس اشیا سے اچھی معلوم ہوتی ہے۔ ہندوستان کا ٹاٹ یورپ کی زربفت سے عمدہ ہے۔ یہاں کی چڑیل وہاں کی پری سے بہتر ہے۔ ہم کو حب الوطنی کا حق ادا کرنا چاہیے اور ہم لوگوں کو غیر ملکی اشیا کی صفائی اور خوش نمائی کو بالکل فراموش کر دینا چاہیے۔ اس کی سفید دانہ دار شکر قند سیاہ سے بدتر ہے اور یہ نفرت جب تک دل میں قائم نہ ہوگی اور غیر ملکی چیزوں کی طرف سے آنکھ نہ بند کر لی جائے گی اس وقت تک دل کی آنکھیں روشن نہ ہوں گی۔ لیلیٰ را بچشم مجنوں باید دید ؎
کالے گورے پہ کچھ نہیں موقوف
دل کے آنے کے ڈھنگ ہیں کچھ اور
ہم کو اپنی نورانی گدڑی سنبھالنا چاہیے ؎
کہن خرقۂ خویش پیراستن
بہ از جامۂ عاریت خواستن
ہم کو لازم ہے کہ اپنی ڈفلی منڈھ کر بجائیں اور کچھ نہ ہو تو غل فش چل پوں مچا کر ملک میں ہل چل ڈال دیں جس سے گورنمنٹ کی نظروں میں ہماری وقعت ہو اور ہم کو بھی مرد سمجھے۔ بغیر اس کے عزت حاصل کرنا مشکل ہے۔
مسٹر سیون کا آخری چارج
اے والیان ملک! اے مہتران قوم! اے راجگان و نوابان! اے شریف قوم! اے رذیل قوم! اے دانا! اے نادان! میرا مدت مدید سے خیال ہے کہ دنیا کے کسی گوشے میں تمام شریف اور پاجیوں سے خفیہ ملاقات کروں اور باری باری سے اپنے دربار میں بلاؤں۔ افسوس وہ وقت تو نصیب نہ ہوا اور میری رخصت کا زمانہ قریب آ گیا ؎
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
میں جانتا ہوں کہ آج تمام دنیا کے ہال میں آپ لوگ میری ملاقات کو جمع ہوئے ہیں۔ دنیا کی اسٹیج پر اجلاس کرنے کا دستور قدیم الایام سے مروج ہے۔ چنانچہ آج تک دھوبی، مہتر، بھنگی، بہشتی، کبڑیے دن بھر کی چھوا چھو اور ہٹو بچو اور لہسن پیاز کی دھرمار اٹھا پٹخ کے بعد آٹھویں دسویں پنچایت کر کے ایک موٹے تازے احمق کو اپنا مکھیا بنا لیتے ہیں جو ان کی چندیا سہلاتا ہے اور بھیجا کھاتا ہے۔ اس طرح کی بے وقوفی میں اتفاق وقت سے آج میں بھی پھنس گیا ہوں۔ ایسے ایسے اجلاس کی بدولت بہت سے کام کی باتیں نکل آتی ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی قدر میری طرز حکومت میں کمی واقع ہوئی ہے تو اس کی اصلاح میں دوسرے دربار میں پہنچ کر کر دوں۔ مگر مجھ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ تمام دنیا کی رائے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھا ہے۔ میں ہمیشہ سے شہرت طلب واقع ہوا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے کارنامے آبِ زر سے لکھے جاویں، کیونکہ تاریخی واقعات اور قوم کے گرے پڑے آثار سے ماضیت اور کس مپرسی کا نقشہ ہو بہو کھنچ جاتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ میرے زمانۂ حکومت میں بہت سے واقعات ایسے ہوئے جن کو لوگ کبھی نہ بھولیں گے۔ جدید شاہ ایران کا ایرانی حکومت اپنے ہاتھ میں لینا اور ایران میں پارلیمنٹ کا قائم ہونا اور مالی معاملات کی نگرانی میں پورا اختیار حاصل کرنا۔ تجارت کے متعلق عہد و پیمان کی تکمیل پارلیمنٹ کے ہاتھ میں آ جانا۔ یہاں تک کہ وزیر کا تقرر پارلیمنٹ کے اذن سے ہونا۔ اس کے بعد سب سے زبردست واقعہ ہز میجسٹی امیر حبیب اللہ خاں والیِ کابل کا دورۂ ہندوستان ہے جو خاص کر تمام ہندو مسلمانوں کی خوشنودی کا باعث ہوا۔
پھر مشرقی بنگال اور پنجاب کی شورشیں اور بغاوتیں شروع ہوئیں اور اسی جھپٹ میں لالہ لاجپت رائے اور بگھو حلوائی بھی آ گئے کہ کرد کہ نیافت۔
لوگوں کی باغیانہ حرکتوں نے گورنمنٹ کو ان سے اس قدر بدظن کر دیا کہ مابدولت کی نگاہ میں ان کا ذرا بھی بھروسا نہ رہا اور آخر دو چار مڈھ پکڑ کر بھیج دیے گئے تو ان کا نشہ بغاوت ہرن ہو گیا۔ اور جب اندھادھند شکایتوں کی بھر مار کے بعد بھی مابدولت خاموشی اختیار کر بیٹھے تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا اور سمجھ گئے کہ سرکار کو دیوی کی بھینٹ چڑھانے کی ضرورت ہے۔ پھر آخر بغاوت وفاداری کے ساتھ بدل گئی اور خوشامد کی ٹٹوی دوڑنے لگی۔ گورنمنٹ ایسی ہے، ویسی ہے، ماں باپ سے زیادہ مہربان ہے۔ بزرگوں کا مقولہ ہے کہ مار کے آگے بھوت بھاگتا ہے۔ اخبار ۔۔۔۔۔۔ کے سابق اڈیٹر جو جیل خانہ کی نذر کر دیے گئے۔ شاہ مراکو کی عیش پرستی نے یہاں تک پاؤں پھیلائے کہ دار البیضاء میں ہزاروں لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔ ناعاقبت اندیش لوگ اب بھی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے۔ سخت افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اگر یہی نا اتفاقی رہی تو مراکو کی قدیم سلطنت کا آفتاب جلد غروب ہو جائے گا اور اس ہولناک منظر کو خاموشی اور حسرت کے ساتھ تمام لوگ دیکھیں گے۔ مابدولت کا غصہ اس سے اور زیادہ ہوتا جاتا ہے اور قریب ہے وہ زمانہ کہ ہم ناخوش ہو جائیں۔ مسلمان ایک سبب سے ہم کو زیادہ منحوس سمجھتے ہیں اور وہ نواب محسن الملک بہادر کی بے وقت موت ہے۔ افسوس صد افسوس!
ہندوستان میں ہماری یادگار
ہم ہندوستان میں اپنی چند یادگاریں قائم کیے جاتے ہیں جن میں خاص کر ذکر کے قابل صرف ایک قحط ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہماری اس انمول یادگار کے آثار تمام ہند پر ظاہر ہیں اور آئندہ اس مبارک آفت کا سامنا آنے والا ہے جس کی وجہ سے آئندہ مسٹر ایٹ کی گورنمنٹ کو اور ان کے عہدہ داروں کو اپنی ساری قوتیں اور قابلیتیں کام میں لانا ہوں گی اور بے چینی اور دوہائی تہائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ ایسی حالت میں ہمارا چارج دینا کسی طرح موزوں اور مناسب نہ تھا۔ مگر میرے خیال میں میری روانگی ذاتی حرکت کا نتیجہ نہیں ہے پس مجھ کو اپنا حسن انجام خدمت دکھا کر اپنا اعزاز قائم کرنا ہے۔
آج جو تکلیف پبلک کو دی گئی ہے اس میں زیادہ ضروری کام انجام پا سکتے ہیں۔ یہ بات زیادہ مضحکہ خیز ہے کہ میں اس کارروائی کو جو عام کی مصیبت کی سختی کم کرنے کی غرض سے میں نے تجویز کی ہے یا آئندہ کرنا چاہتا تھا، جس قدر زیادہ غل غپاڑہ کے ساتھ ممکن ہو گلا پھاڑ پھاڑ کر بیان کر دوں۔ کیونکہ آج بہت موٹے موٹے اشخاص، بڑے بڑے زمیندار قسمت ہند کے اپنی قسمت کو رو رہے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس واویلا سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ آپ سب آپس میں مل کر تمام مختلف اسباب مصیبت کی گٹھری اپنے سر پر اٹھا کر دقتوں اور پریشانیوں کی گلیوں میں گشت لگائیے۔
ان دنوں میں ایک ایسا خفیف امر ہے جس کے خیال و اندیشہ سے امیر و غریب سب کی روح پر پرواز کھولے ہوئے طاعون کی امداد کی منتظر ہے اور افلاس کا دیو ان کے پیچھے لٹھ لیے ہوئے گھوم رہا ہے۔ نا اتفاقی کی جوتی پیزار برابر مرمت کر رہی ہے۔ ان تمام مشکلات کا سامنا کرنے کو ملک کے ہونہار لوگ میٹھی نیند سو رہے ہیں اور خود غرض اپنے فائدہ کی غرض سے ان کی کملی کترنے اور جیب کترنے کو بھائی بنا رہے ہیں۔ یہ خود غرض لوگ سر مونڈن کرنے کی غرض سے دوست بننا چاہتے ہیں۔ ان کے دام فریب میں ایک مظلوم سرشار قوم آ جائے گی۔ پس چونکہ ہماری امیدوں پر پانی پھیرا جاتا تھا۔ یہ بہتر معلوم ہوا کہ خشک سالی کے وبال میں پھنسانے کی کوشش کی جائے اور کوئی حیلہ شرعی اختیار کیا جائے۔ شعر:
صوفی داند ہر آنکہ اہل درد است
کیں حادثہ جہاں ادیب مرد است
در زیر فلک سر کشی آغاز مکن
اے خوشۂ گندم آسیانہ کرد است
اس ڈبل کارروائی کی ابتدا میں تم سب لوگ بھڑکتے تھے۔ قحط سالی کے نام سے بخار چڑھتا تھا جب ہم نے سوچ سمجھ کر ذرا باگ ڈھیلی کر دی اور چمکارنا شروع کیا کہ تم گھبراؤ نہیں، دلجمعی اور اطمینان سے محنت اور جانفشانی کی تخم ریزی بے فصل خریف کے کاٹنے کے واسطے ہنسیا لیے ہوئے کھیت میں ڈنڑ پیلا کرو۔ جب وہ زمانہ بھی نکل گیا تو پھر ایک دوسری ہوا باندھی کہ اگرچہ فصل خریف نہ ہوئی مگر اس کی کسر ربیع میں بالکل نکل جائے گی۔ ایک دم سے اٹھارہ اناج بو دینا اور گنے کے کھیت میں گھیاں کی بیل پھیلا دینا۔ آلو خود بخود پیدا ہو جائے گا نہیں تو شکر قند، گاجر، مولی، گوبھی کے پتے غذائے لطیف کا کام دیں گے۔ بالآخر وہ دن بھی گذر گئے اور چنے کے کھیت گدھے چر گئے تو وہی پرانا راگ الاپنا شروع کیا۔
جب ستمبر کا مہینہ گذر گیا اور ہمارے جال کا ایک ایک تار کھلنا شروع ہو گیا۔ ستمبر ہی میں ایک بوند نہ برسی اکتوبر بھی اپنا توبڑا خشک لے کر چلا گیا۔ اگہنے کے دھان کے واسطے سینچائی کی ہوا بندھوائی مگر اوس چاٹے کبھی پیاس بجھتی ہے۔ آخر دوسری خریف بھی نہ ہوئی۔ دھان کا آٹھواں حصہ بھی پیدا نہ ہوا۔ اس پر مزید چوٹ یہ ہوئی کہ باجرا، جوار، مکئی جو غریب غربا کی خوراک ہیں وہ بھی نیست و نابود ہو گئے تو ہمارے چھکے چھوٹ گئے۔ اب یوں سمجھنا چاہیے کہ معمولی پیداوار کا چہارم حصہ بھی نہ پیدا ہوا۔
مجموعی کاشت ستر لاکھ ایکڑ زمین پر ہوتی ہے، وہ بھی اوسط درجہ کی ہوئی۔ اوکھ کی پیداوار اس سے بہت کم ہوئی جس کی دو مہینہ سے سیوا کی جاتی تھی اور سب کسان منہ میٹھا کرنے کو زبان چاٹ رہے تھے۔ حلوا خوردن را روئے باید۔ بعض ضلعوں میں چارہ ابھی سے کم یاب ہے اور بہت گراں ہے۔ آدمیوں تک کو گھانس کھانے کو نہیں ملتی۔ ستمبر اور اکتوبر میں پچھوا ہوا چلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین میں نمی کا نام بھی باقی نہ رہا اور اس کا بھی افسوس ہے کہ جن دریاؤں سے آب رسانی میں مدد لی جاتی ہے وہ خود ایک ایک قطرہ پانی کو محتاج ہیں۔ یہ موجودہ زمانہ کا افسوس ناک پہلو ہے۔ روئی نہ کپاس کولہو سے لٹھم لٹھا۔
تجارتی اجناس میں روئی نے پشم برابر بھی ساتھ نہ دیا۔ کپاس کی جنس ان مقامات میں آب سانی کے صیغہ کی گڑن برابر جاری ہے۔ کچھ تھوڑی بہت پیداوار کا وعدہ کیا ہے۔ سب گاؤں والے کھیتی میں سر کھپا رہے ہیں۔ لیکن موسم سرما نومبر کا مہینہ بھی جواب دے چکا۔ پانی برسنا کیسا، اوس تک نہ گری جو بیچ بویا جاتا۔ اب یہ حالت ہے کہ تمام ہندی کمزور اور دبلے ہو گئے ہیں۔ پھونک مارنے سے اڑے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں بھیک مانگنے والے معمول سے زیادہ سرگرمی اور مستعدی سے لپٹتے ہیں۔ اس پر بھی بعض حرام خور موٹے نظر آتے ہیں جن کی کسی موقع پر مومیائی نکالی جائے گی۔ زیادہ افسوس کی بات ہے کہ دبلے اور غریب آدمی اس گرسنگی اور گرانی کی مصیبت کو صبر و استقلال سے گزار رہے ہیں اور اپنی اپنی جان کی خیر منا رہے ہیں کیونکہ طاعونی خوف و خطر ان کو زیادہ جینے کی اجازت نہیں دیتا، اپنی اپنی جان کے لالے پڑے ہیں۔ چوہوں کی طرح اپنے اپنے بلوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ تاجروں کے بل پاس نہیں ہوتے۔ زندگی سے نا امید ادھر بخار آیا ادھر مرنے کی ڈگری حاصل کر لی۔ ذرا سا دانہ نکلا اور طاعون کی گلٹی کا خواب دیکھنے لگے۔ گو ابھی اس مرض کا زیادہ زور نہیں ہے مگر دسمبر کے ختم ہونے کے ساتھ ہی چہل پہل ہو جاوے گی اور ڈاکٹر، حکیموں، بیدوں کی خدائی کا زمانہ شروع ہو جائے گا اور دمڑی کی دوا کے سینکڑوں روپے ہو جائیں گے۔ دولت کے ساتھ توندیں بھی پھولتی جائیں گی اور پھر فربہ کی گردن پر احسان کا بوجھ رکھا جائے گا کہ ہم نے تمھاری جان بچائی۔ ورنہ سب ایک ساتھ سے چٹنی ہو جاتے۔ شعر:
جس نے کچھ احسان کیا اک بوجھ ہم پر رکھ دیا
سر سے تنکا کیا اتارا اور چھپر رکھ دیا
لاشے ٹیلوں پر پھینکے جائیں گے اور مردہ بدست زندہ کی مثل صادق آئے گی۔ جو کوشش طاعون کے دور کرنے کے عمل میں آ رہی ہے اس سے غرض یہ ہے کہ رعیت کی جان بچے اور امن و امان برقرار رہے۔
جان بچی لاکھوں پائے
لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنا چارج مسٹر ایٹ کو دے کر رخصت ہو جائیں اور آنے والی نیک ساعت میں ۳۱ دسمبر کی رات کے آخر حصہ میں تاروں کی چھاؤں میں ٹھنڈے ٹھنڈے ملک عدم کا بندوست کرنے کو جدید برقی ٹریموے میں سوار ہو کر ہوا کے رخ پر سر بصحرا نکل جائیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ تمامی ہند کی تکلیف اور مصیبت رفع کرنے کی غرض سے جو قانون عمل در آمد ہماری سرکار سے نافذ ہوا ہے اور جو کاروائیاں طاعون اور قحط کے رفع کرنے کی اختیار کی گئی ہیں وہ سب اس امر کے ثابت کرنے کو کافی ہیں کہ ہماری سرکار کو سب امور سے زیادہ رعایا کی امن و عافیت کا لحاظ ہے۔ مگر افسوس ہے کہ فی الحال لوگ اس مسئلہ کو اچھی طرح نہیں سمجھتے طوعاً و کرہاً عملی طور پر ہماری مدد کریں اور ہمارے کارنامے یاد رکھیں۔ لہٰذا ہم آپ ساری دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور مسٹر ایٹ کے سپرد کرتے ہیں جو آنے والی ٹرین میں آپ سے ملاقات کریں گے اور ان کے واسطے دو کار آزمودہ رفیق طاعون اور قحط سالی مذکر اور مؤنث کا جوڑا چھوڑے جاتے ہیں۔ امید ہے کہ ان کی مدد سے وہ بہت کچھ ملکی امور میں ترقی حاصل کریں گے۔ اور امید ہے کہ افلاس اور فلاکت کی تقاوی سے وہ تمام دنیا کو مالا مال کر دیں گے اور آئندہ جو کچھ آپ لوگ عرض معروض و تجویذ مناسب ان کے حضور میں پیش کریں، مناسب اور معقول الفاظ میں ہو۔ نہیں تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے اور روتے نہ بن پڑے گا۔ کیوں کہ آپ لوگ ڈھل مل یقین ہیں اور مستقل مزاجی پر وہی مکر و حیلہ کی پرانی سبیل نکالی جائے گی اور سب کبوتر ایک کابک میں بند کر دیے جائیں گے۔ آخر میں ایک نصیحت اور کرتا ہوں کہ تم سب لوگوں کو زمانے کی ہوا کا رخ دیکھنا چاہیے اور اس کی ٹائم پیس کی سوئی کی نوک کی رفتار کے ساتھ ساتھ گھومنا چاہیے۔ ایک سیکنڈ بھر کا فرق نہ ہونا چاہیے ؏
زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ بساز
اچھا رخصت رخصت رخصت!!
ہولی کی ڈکشنری
کیا منانے لگے اس سال رپوٹر ہولی
جھوٹی خبروں کی بنی ہے جو گرامر ہولی
عین تقریر میں تقریر کو کچھ طول ہوا
کانگریس میں ہوئی اب کی سر لکچر ہولی
رنگ چوکھا جبھی آئے گا شہ کابل کا
کھیلنے آئیں اگر ساتھ ہز آنر ہولی
جام صحت جو پیے جائیں گے باری باری
خالی کر دے گی مئے ناب کی کنٹر ہولی
ہز مجسٹی سے ہوئے ہند کے ہندو راضی
واہ کیا خوب مچائی ہے ڈیر سر ہولی
تم سودیشی کی نہ تحریک پہ چیخو بابو
کہ پکڑ لے نہ بغاوت کا کریکٹر ہولی
کانگریس کے ڈیلیگیٹوں نے پیے جام پہ جام
کھیلنے جاتے ہیں اجلاس پہ ممبر ہولی
ایسا نپٹو ہوں کہ کہتا ہے بلا کر صاحب
دل مرے ساتھ میں تم کھیلے گا مسٹر ہولی
میز پر ہوتی ہیں ٹانگیں تو زمیں پر گردن
اس طرح کھیلتے ہیں شام سے ٹیچر ہولی
پانی بھرتا ہے کبھی پھینکتا جاتا ہے کبھی
کھیلتا ہے یہ اسٹیشن پہ بوائلر ہولی
ڈاکٹر ہو کہ کوئی نرس کہ کمپوڈر ہو
نشہ میں بھر کے نہ کھیلا کرے جنجر ہولی
رنگ بھی کوئی نیا ہو جو نئی ہولی ہو
کھیلیں بھر بھر کے نہ بوتل میں وہ کیمفر ہولی
کبھی اسلام کی خبروں کو نہ صحت سے لکھا
نشہ میں روز مناتے رہے رپوٹر ہولی
نام تہذیب و ادب ہند سے اٹھ جائے گا
ساتھ بیٹے کے منائے گا جو فادر ہولی
آسماں اپنے ترشح سے نہیں باز آتا
کھیلتا جاتا ہے بھر بھر کے یہ واٹر ہولی
ووٹ دینے کو اگر جاتا ہے کوئی ووٹر
اپنی بک بک سے مچا دیتے ہیں ممبر ہولی
خون کی ندیاں بہ جاتی ہیں انجن سے کبھی
کھیلتا جاتا ہے کیا خوب ڈریور ہولی
نیلگوں ابر کبھی اور ترشح ہے کبھی
مَل کے آئی ہے نئے طرز کا پوڈر ہولی
آگ لگ جاتی ہے پیپے میں کراسن کی اگر
ہم سمجھتے ہیں مناتا ہے کنسٹر ہولی
گالیاں بکنے سے کیا فائدہ ہے نشہ میں
کہیں کِھلوائے تڑا تڑ نہ سلیپر ہولی
گالیاں بکنے سے یہ خوف ہمیں رہتا ہے
بند کر دیں نہ کہیں ڈپٹی کلکٹر ہولی
دورے پر رہتے ہیں صاحب تو اڑاتے ہیں یہ خاک
اہل عملہ کو تو ہے ماہ ڈسمبر ہولی
یہ کبیر اور تہذیب خدا خیر کرے
ایسی موقوف کریں قوم کے لیڈر ہولی
رنگ اُچھالیں گے مضامین کے ہم اے عشرتؔ
ہم سے کھیلیں گے اگر آج ادیٹر ہولی
پولٹیکل ہولی
اسلامی ڈیپوٹیشن خوب بنایا
ہولی میں کیا رنگ اُڑایا
(انترہ)
عبیر گلال پولٹیکل مل کر
اپنا دکھڑا گایا
ہولی میں کیا رنگ اُڑایا
ان سے تو کام نہ تھا کچھ
اپنا گھر کھوب بچایا
ہولی میں کیا رنگ اُڑایا
شملہ پر یہ پھاگ جو کھیلا
رنگ بھی چوکھا آیا
ہولی میں کیا رنگ اُڑایا
لارڈ منٹو کی جے جے ہوئی
جس نے سب کا رجھایا
ہولی میں کیا رنگ اُڑایا
کابلی ہولی
ہولی کے ہیں ٹھاٹھ نرالے
آئے بدیسی کھیلن والے
نام حبیب اللہ خاں ہے ان کا
رنگ شریعت ڈالے
ہولی کے ہیں ٹھاٹھ نرالے
جلسہ کے اڈریس لیے سب
نینن ہیں یا بھالے
ہندو مسلماں ایک کیے ہیں
کیسے کیسے رنگ نکالے
ہولی کے ہیں ٹھاٹھ نرالے
جامِ صحت نوش کریں سب
اس مے کے ہیں متوالے
ہولی کے ہیں ٹھاٹھ نرالے
لارڈ منٹو عبیر اڑائیں
وہ ہوں پچکاری والے
ہولی کے ہیں ٹھاٹھ نرالے
انگلش نیٹو الگ کیے سب
بن گئے گورے اور کالے
ہولی کے ہیں ٹھاٹھ نرالے
پھاگ یہ ایسا کھیلا تم نے
کہس بہیے دیکھن والے
ہولی کے ہیں ٹھاٹھ نرالے
ایک لیڈی کا سراپا
بھورے بھورے بال اس کے لطف سے خالی نہیں
زلفیں مشکیں بو نہیں ناگن نہیں کالی نہیں
چوٹی گوندھے کون خالی سر پہ جوڑا باندھ لو
ایک گلدستہ نما ٹوپی پہن لو زیب کو
اور اُس پر ٹانک لینا چاہیے مرغی کا پر
تاکہ وحشت میں نہ آئیں دیکھ کر کچھ جانور
کاسۂ سرگول ہے اور اس کے اندر ہے دماغ
دل ہوا جاتا ہے جس کے دیکھنے سے باغ باغ
ایک پیشانی بھویں دو نیچے لمبی ناک ہے
شامہ ہے باصرہ ہے قوتِ ادراک ہے
عارض زیبا پہ ہے کیاسرخ پوڈر کی بہار
ہونٹ ٹکڑا ناریل کا منہ ہے دل کا اشتہار
دانت سیپی کے بنے ہیں صاف یہ ہوتا ہے شک
اور زباں ایک گوشت کا ٹکڑا سمجھیے بے دھڑک
بات کرتی ہے ملائم کچھ عجب انداز سے
گربۂ مسکیں کوئی روتی ہے نرم آواز سے
صاف ٹھڈی ہے کہ ٹکڑا کیک کا ہے بیگماں
کان ہے یا ناک الٹی ہو کے چپکی ہے یہاں
پتلی گردن ہے کہ گویا ڈگڈگی بندر کی ہے
ایک پٹہ طوق ہے زینت یہی کالر کی ہے
شانے بازو اور ساعد نرم نازک گول گول
سینہ میں دل پھیپڑا اور دل کے اندر ایک خول
ہاتھ میں مہندی نہیں کف ہائے روشن صاف ہیں
انگلیاں مولی کی نوکیں از رہ انصاف ہیں
خوب قدرت نے بنائی ہیں وہ دونوں
مشتبہ اس سے نہیں ہو سکتی ہیں نارنگیاں
صاف ہیں ابھری ہوئی ہیں گول ہیں شفاف ہیں
سخت ہیں اونچی ہیں چکنی با ہمہ اوصاف ہیں
پیٹ بالکل نرم و نازک پیٹھ ساری سخت ہے
رحم دل ہے ایک مونس دوسرا کمبخت ہے
دور میں دس انچ سے زائد نہیں پتلی کمر
یہ غلط ہے ناف کو کہنے لگے کوئی بھنور
پنڈلیاں نازک ہیں رانیں گوشت سے لبریز ہیں
پاؤں نازک ہیں مگر رفتار میں کچھ تیز ہیں
بات کرتی ہے عجب انداز سے وہ سیم بر
مسکرا کر کہتی ہے گڈ مارننگ مائی ڈیر
ساری پیجامہ سے نفرت زیب تن اک سایا ہے
دیکھ کر کہتے صاحب دل یہ کس کا آیا ہے
مسٹر ساقی
ادھر آنا مرے مسٹر ساقی
ڈسٹرکٹ بورڈ کے ممبر ساقی
نشہ ہے مجھ کو ذرا ہاتھ لگا
کہیں اڑ جائے نا سوٹر ساقی
اور اک جام گلابی دینا
مہرباں یار ڈیر سر ساقی
دام دے دوں گا سمجھ جھوٹ نہ تو
کچھ نہیں ہوں میں رپوٹر ساقی
آمد سال ہے دخت رز کی
مل دے رخسار پہ پوڈر ساقی
دخت رز سے میری شادی کر دے
تو ہی اس مس کا ہے فادر ساقی
نشہ میں میں ہوں بلا سے تیری
لا کوئی اور بھی ساغر ساقی
تو نیا دور نیا سال نیا
بھر کے لا آج تو کنٹر ساقی
کانگریس میں چلے گدم گدا
نرم اور گرم ہو اکثر ساقی
ایک کی پگڑی ہو اور ایک کا ہاتھ
ایک سہلائے ذرا سر ساقی
ایسی صحبت میں تو آتا ہے مزہ
جبکہ ہوں چار وزیٹر ساقی
کوئی پگڑی کو اتارے سر سے
کوئی قدموں پہ رکھے سر ساقی
اور پولیس ہاتھ دیے گردن میں
کرے اجلاس سے باہر ساقی
ہو یہ ریفارمروں کی نوبت
پڑتی جاتی ہوں برابر ساقی
نشہ کی باد ہے پھر سب سے کہیں
بگڑیں گے اب کی چپت پر ساقی
گرمیاں اپنی دکھاتا ہے کسے
لا کہیں بادۂ احمر ساقی
کرکرا ہو گیا نشہ آخر
خیر جاتے ہیں برادر ساقی
ہمارا خیال
ہم سمجھتے تھے کہ لندن جائیں گے
اور وہاں سے لائیں گے موٹی سی میم
کالا نیٹو پر نہیں اس کو پسند
خود غلط بود انچہ ما پنداشتیم
دیسی بینڈ باجے کا گیت
سدا دیس کا راگ گایا کرو
مصیبت کو آنکھیں دکھایا کرو
مشقت سے روٹی کمایا کرو
بنا چاہتے ہو جو انسان تم
ترقی کرو مثل جاپان تم
مشقت سے روٹی کمایا کرو
زمانہ کی تم کو نہیں ہے خبر
تجارت میں جاتی ہے دولت کدھر
مشقت سے روٹی کمایا کرو
مسلسل جو محنت کیے جاؤگے
ترقی تجارت میں دکھلاؤ گے
مشقت سے روٹی کمایا کرو
ذرا دست کاری کے دکھلاؤ کام
ترقی ہو لونڈی تو زر ہو غلام
مشقت سے روٹی کمایا کرو
صنائع میں تم فرد ہو طاق ہو
مگر کاہلی میں بھی مشاق ہو
مشقت سے روٹی کمایا کرو
اگر دیسی شے پر کرو اکتفا
تو ہو جائے گا ہند کا کچھ بھلا
مشقت سے روٹی کمایا کرو
جو چاہو ضعیفی میں طاقت رہے
جو چاہو کہ دنیا میں عزت رہے
مشقت سے روٹی کمایا کرو
اگر چار پیسےکماؤ گے تم
تو ٹھوکر نہ در در کی کھاؤ گے تم
مشقت سے روٹی کمایا کرو
در شکایت ابنائے وقت گوید
کہا بی گھر بسی سے میں نے اک بار
خبر لے کچھ ذرا بیٹے کی مردار
اُسے آوارہ لونڈوں نے کیا ہے
قبیحوں میں رہا کرتا ہے بدکار
وہ نامعقول اس درجہ ہوا ہے
نہیں فعل شنیعہ سے اُسے عار
ادب اس کو بزرگوں کا نہیں ہے
ہوا ہے بادۂ غفلت سے سرشار
چڑھا کر اینٹ کی عینک کو احمق
مہذب سے کیا کرتا ہے تکرار
یہ سب کج بحثیاں بھی ہیں اسی کی
سمجھتا ہے وہ کانٹوں کو بھی گلزار
ہوا ہے اس قدر تہذیب سے دور
کہ بیہودہ کیا کرتا ہے گفتار
خراب اس کو کریں گے ملنے والے
بگڑ جائیں گے اُس کے سارے اطوار
نہیں ہے خوف میرا بھی اُسے کچھ
بڑے ہیں درحقیقت اس کے آثار
جو کرتا ہوں نصیحت نیک اُس کو
تو اُس بدکار کو ہوتا ہے انکار
گلی ڈنڈے میں رہتا ہے ہمیشہ
بگڑتے جاتے ہیں ہر روز کردار
شرارت پر کمر باندھی ہے کس کر
نہ ہوگا خواب غفلت سے وہ بیدار
سمجھتا ہے جسے اشراف ہے یہ
اُسی کو یہ دیا کرتا ہے آزار
کہیں ایسا نہ ہو پٹ جائے اک دن
کہیں ایسا نہ ہو ہو جائے تکرار
بہت یہ منہ کی آتا ہے سبھوں پر
بتا دے گا کوئی اک روز دھتکار
نہ اس کو اپنی عزت کا ہے کچھ پاس
نہ اس کو باپ کی ذلت سے انکار
میں کر دوں عاق اس کو دل میں یہ ہے
کہ رنج اس نے دیے ہیں مجھ کو بسیار
رہوں گا ساتھ ساتھ اس کے اگر میں
تو ہو جائے گی اک دن جوتی پیزار
وہ آنسو بھر کے آنکھوں میں یہ بولی
کروں کیا میں کہ میرے تم ہو مختار
مگر سچ کہہ گئے ہیں شیخ سعدی
زنان باردار اے مرد ہشیار
اگر وقتِ ولادت مار زایند
ازاں بہتر بہ نزدیک خردمند
کہ فرزندان ناہموار زایند
گوشمالی
کیوں بھتیجے ہم نہ تم سے کہتے تھے
بحث کرنا ہے بڑوں سے ناروا
باپ سے کچھ بڑھ کے ان کو جاننا
ہے مقدم ہر گھڑی ان کی رضا
فرق ان کی شان میں گر آئے گا
باپ ہو جائے گا تم سے پھر خفا
ذات ان کی مغتنم ہے دہر میں
تم کو گستاخی نہیں ان سے روا
بد زبانی سے نہ باز آیا مگر
تو یہ سمجھا جھوٹ کہتے ہیں چچا
باپ بھی ناخوش ہوا اوروں کو بھی
غصہ تیری گالیوں پر آ گیا!
پھر وہ سرکوبی ہوئی پاپوش سے
مادہ نزلہ کا غائب ہو گیا!
غل مچایا ماں نے ہے ہے میرا پوت
پٹ گیا لو پٹ گیا لو مر گیا
دوڑیو لو نا چماری دوڑیو
اس گھڑی فرمائیو ہم پر دَیا
شور مُردوں نے کیا مت ماریو
اور اک شیطان سر پیٹا کیا
زور مارا اور روحوں نے بہت
جنت اور دوزخ میں اک غل پڑ گیا
جب بزن ٹیپے کی گردان ہو چکی
پا چکا یہ بے حیا اس کی سزا
دستکاری سے جو بھیجا کھل گیا
دی یہ سعدی نے نوید جانفزا
ہر کہ با فولاد بازو پنجہ کرد
ساعد سیمین خود را رنجہ کرد
ظرافت الدولہ بہادر کا نصیحت نامہ
شرارت کی غبی نے یہ نہ سمجھا وائے نادانی
کہ یہ ہیں یکہ تاز و مرد میدان سخندانی
حسن کے سامنے روشن نہ ہوگا نام دنیا میں
کہاں شیر نیستانی کجا غول بیابانی
بناؤں کیا کہ ساری مثنوی اغلاط سے پُر ہے
غلط ہے مصرع اولیٰ تو ناقص مصرع ثانی
حمَل باندھا کہیں ہے حمل کو پھر یہ کاوش ہے
لہر کہتے ہیں ناداں لہْر کر از راہ نادانی
نہیں ہے سانس “اک دم کی” یہ ہے کس ملک کی بوٹی
“چکھے” چکھنےکو کہنا یہ کہاں کی ہے سخندانی
کبھی بینائی کے چہرے پر جاتی ہے نظر ان کی
کبھی کہتے ہیں سچ ہے وہ پری تھی ناچنی گانی
غرض اس طرح کے الفاظ مہمل اس میں موزوں ہیں
اور اس پر ہے ہوا خواہوں کی ہٹ دھرمی کی طغیانی
کبھی آتش کے خط آتے ہیں جنت سے دہائی کے
سفارش کر رہی ہیں جان صاحب بن کے دیوانی
کبھی سجادی بیگم کوستی ہیں ہاتھ پھیلا کر
الہی اس موئے کی خاک ہو جائے مسلمانی
بزن پیٹے کہ ہندوستاں بلرزد کا یہاں مضمون
ادھر فوج حمق پر پڑ گئی ہے اک پریشانی
کلوخ انداز کو پاداش مل جاتی ہے پتھر سے
چپت کھائی تو اب ہونے لگی کووں کو مہمانی
جواب آخر ملا ترکی بترکی تو نکل بھاگے
بنے سب اعتراض اس کے ہیں گویا خط پیشانی
سمجھ میں کچھ نہ کچھ آنے لگا ہے فرط وحشت سے
بدلتے جاتے ہیں یادش بخیر امراض نسیانی
اگر پہلے سمجھ جاتے تو کیوں دقت ہمیں ہوتی
چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
پس از سی سال ایں معنی محقق شد بخاقانی
کہ بورانی ست بادنجان و بادنجان ست بورانی
ضرب المنکرین
کہا میں نے اک دوست سے ایک بار
کہ ہیں آپ تو شاعر ذی وقار
دکھائی ہیں کیا غلطیاں آپ نے
مٹائی ہے کیا مثنوی کی بہار
کیے ہیں وہ کچھ اعتراض آپ نے
نکالے ہیں اس باغ سے چن کے خار
جو منصف ہیں وہ معترف اس کے ہیں
کہ اغلاط ہیں بے حد و بے شمار
جو نافہم ہیں خار کھاتے ہیں وہ
بھرا ہے بہت ان کے دل میں غبار
بُرا مانتے ہیں عبث آپ کیوں؟
نہیں ان کی بک بک کا کچھ اعتبار
مہذب سمجھتے نہیں ان کو کچھ
بجایا کریں ڈھولکی پر ستار
کہا تم نہیں جانتے ہو اسے
کسی کا نہیں دل پہ ہے اختیار
مجھے غصہ آتا ہے جس شعر پر
وہ اس شعر سے ہوتا ہے آشکار
اگر با پدر جنگ جوید کسے
پدر بے گماں خشم گیرد بسے
ظرافت الدولہ بہادر کے نوٹ
اُڑائے مثنوی کے جب پرخچے بُرا مانے کوئی جاہل تو مانے |
تو ڈر سے حاسدِ بدبیں نہ منکا مثل ہے چور کی ڈاڑھی میں تنکا |
ہوئی یاروں کی جب مرمت خوب اب چہکنے لگا ہے اک احمق |
بھائی بند ان کے ساتھ مل بیٹھے دیکھیں یہ اونٹ کون کل بیٹھے |
کسی سے بے سبب کج بحثیاں کیں چپت وہ دی کہ بھیجا منہ کو آیا |
ہوئے تھے بے پیے تم کس لیے مست کلوخ انداز را پاداش سنگ است |
خنجر ہے کسی کی نکتہ سنجی جو منہ چڑھے ان کے منہ کی کھائے |
حسّاد کے دل میں نیشتر ہے
خربوزے کا ہر طرح ضرر ہے |
ہوتا ہے وہ اخبار مقابل کس سے اب چونچ ذرا بند کرے یہ اپنی |
جو فرد ہے اس وقت میں اور یکتا ہے
زیبا نہیں اس کو یہ شتر غمزا ہے |
کچھ ظرافت میں کسی سے کم نہیں مسٹر ظریف ہر ورق اخبار کا گویا کہ اک آئینہ ہے |
جو مقابل ان سے ہوگا خوب ٹھونکا جائے گا ہمسری کی ایرے غیرے نے تو مُنہ کی کھائے گا |
میں نے اک دوست سے اک روز تبختر سے کہا آپ معمورۂ الفت میں عبث رہتے ہیں احتراز آپ کو لازم ہے ان احبابوں سے ہے رقیب آپ کا اک جاہل ناداں بے شک حرکت آپ کی دھچکا اسے دے دیتی ہے رحم فرمائیے اب حاجی بغلول پر آپ خر یہ کاکوری سے آیا ہے پے کانجی ہوس ہنس کے فرمایا کہ سچ کہتے ہو تم مشفق من دلربایانہ اداؤں پہ مرا دل ہے نثار |
آپ کو حُسن پرستی سے تعلق کیسا کہ حسینان ستم کیش کا ہے وہ ڈیرا کیونکہ ہے ظلم و ستم ماہ رخوں کا شیوہ آپ جو فعل کریں ہوتا ہے اس کو صدما ٹھیس لگتے ہی وہ ہو جاتا ہے چورا چورا ورنہ بے دال کا بودم ہے بگڑ جائے گا اس گدھے کے لیے درکار ہے باسی خشکا پر کروں کیا کہ نہیں دل پہ ہے قابو اپنا ہر برہمن پسرے لچھمن و رام است اینجا |
قطعۂ قاطع
دفتر میں اس طرح یہ گدھا ہے دھرا ہوا
گویا ہے عیش باغ میں بندر مرا ہوا
کیوں منہ سے بولتا نہیں یہ شخص بے زباں
مال حرام گویا ہے مُنہ تک بھرا ہوا
اک روز سو رہا تھا پڑا اپنی بنچ پر
سب کو ہوا یقین کہ گد ہے مرا ہوا
بولا پریس مین کو بلوا کے ایک شخص
دیکھو یہ ہے فریم کا چمڑا دھرا ہوا
اس نے کہا فریم نہیں ہے حضور یہ
ٹیپو ہے آج رات سے بھوکا پڑا ہوا
اتنے میں اس گدھے نے جو انگڑائی لی وہاں
ہنستا ہوا ہر ایک وہیں اُٹھ کھڑا ہوا
دیکھا ظریف کو تو وہ اخبار دب گیا
دل میں خجل کمال یہ چکنا گھڑا ہوا
اور لیتے جاؤ
جب حمل گر جائے گا تو سخت یہ شرمائے گی
سامنے مردوں کے بیچاری نہ ہرگز آئے گی
دیکھ یہ اچھی نہیں ہے دل لگی ہر ایک سے
پیٹ رہ جائے گا تجھ کو تو بہت پچھتائے گی
چھوڑ دیں گے ہاتھ ہلکا سا اگر مسٹر ظریف
مدتوں تک کھوپڑی چرخہ تری بھنائے گی
شاگرد اُستاد کے ناز و نیاز
آتشؔ سےکہا کسی نے ہنس کر
اُستاد مجھے ملا قصائی
آتا نہیں رحم تم کو مجھ پر
دیتا پھروں کب تلک دُہائی
شاعر ہو غزل نہیں بناتے
کچھ مجھ کو نہ شاعری سکھائی
کہتا ہوں جو شعر ہنستے ہیں سب
کہتے ہیں یہ نظم ہے ہوائی
صورت مری کم نہیں کسی سے
ہاتھوں سے خدا نے ہے بنائی
اُردو بھی وہ چیز ہے کہ مجھ کو
اب تک تو نہ آنا تھی نہ آئی
اک مثنوی میں نے نظم کی ہے
تم نے وہ بھی نہ خود بنائی
پہلے اُسے رندؔ نے بنایا
بعد اس کے صبا نے کچھ مٹائی
چھپر میں اُسے گُھڑس دیا پھر
پھر بہ کے وہ اولتی میں آئی
پھر کاٹ دیا اُسے بہت کچھ
کیا خوب یہ مثنوی بنائی
باز آیا میں ان عنایتوں سے
کی آپ نے خوب یہ بھلائی
اصلاح حضور نے جو دی ہے
مجھ کو وہ پسند کچھ نہ آئی
اچھا مجھے پھیر دو یونہی تم
میں آپ ہوں شاعر ہوائی
بلبل ہوں میں گلشن سخن کا
منقار ہزار کی ہے پائی
گو مثنوی میں برائیاں ہوں
صورت میں تو کچھ نہیں بُرائی
مُنہ دیکھے کی ہو رہی ہے تعریف
صادق ہے یہ بات مجھ پہ آئی
صورت میری جو دیکھتا ہے
دیتے نہیں عیب اُسے سجھائی
آتشؔ نے کہا قلم دکھا کر
ناخوش زمن اے حسیں چرائی
گر بر سر و چشم من نشینی
اے چشم و چراغ آشنائی
با این ہمہ کبر و خویش بینی
نازت بکشم کہ ناز نینی
قطعۂ عیدیہ
عید کے دن ز راہ مکاری
بولی آیا کہ میں ترے واری
آج کے دن کی ہے خوشی سب کو
کوئی نائن ہو یا کہ بھٹیاری
آشناؤں سے اپنے ملتی ہیں
ماہ وش شاہدان بازاری
اب نہیں میرے پوچھنے والے
درد کس سے کہوں میں دکھیاری
ہاں بڑھاپے میں کون پوچھے گا
ساری دنیا کو تو ہے بیزاری
مر گئے آہ میرے عاشق سب
اب کرے کون میری غم خواری
تم سلامت رہو ہزار برس
ملتجی ہوں بگریہ و زاری
آج کے دن ظریف خاں سے کہو
لے کے آئیں ضرور پچکاری
صاف کر دیں وہ کوٹھری دالان
سنتی ہوں آ رہی ہے بیماری
دوستاں را کجا کنی محروم
تو کہ با دشمناں نظر داری
طاعونی چوہے
توپ اور بندوق اپنے ساتھ لاتے ہیں چوہے
صاحب خانہ کو بھی گھر سے بھگاتے ہیں چوہے
جانتے ہیں یہ کہ ہم طاعون کے مختار ہیں
اس لیے ہر ایک کو آنکھیں دکھاتے ہیں چوہے
وہ بہادر شیر کو چو رنگ کر دیتے تھے جو
جائے عبرت ہے کہ اب ان کو ڈراتے ہیں چوہے
شیر سے کچھ کم نہیں ہوتا ہے ان کا رعب داب
سامنے پھولے ہوئے جس وقت آتے ہیں چوہے
ہے یقیں رستم بھی اپنی جان لے کر بھاگ جائے
جب سُنے طاعون اپنے ساتھ لاتے ہیں چوہے
چار آنکھیں کیا ہوئیں گویا قیامت آ گئی!
موت کا پیغام اپنے ساتھ لاتے ہیں چوہے
کوئی اپنا دخل دے اتنی کہاں اُس کی مجال
جس جگہ پر چاہتے ہیں گھر بناتے ہیں چوہے
بدگمانی سے کسی کی آنکھ جھپکے کس طرح
سیند نعمت خانہ میں شب کو لگاتے ہیں چوہے
وقت آخر بھاگ جاتے ہیں عزیز و اقربا
نزع میں بہر عیادت روز آتے ہیں چوہے
تمت
[1] ۔ اسٹامپ کی پ چندے میں دے ڈالی