پہلا باب
دربار شاہجہانی
دولت مغلیہ کا پانچواں شہنشاہ شاہجہاں بادشاہ دیوان خاص میں اپنے عدیم النظیر سریرِ شہریاری یعنی تخت طاؤسی پر جلوہ فرما ہے۔ مرصع تخت کے سونے کی آب و تاب اور اُس کے جواہرات کی چمک دمک اہل دربار کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہے۔ اور ان کا عکس علی مردان خان کی نہر کے نزاکت سے بہنے والے پانی پر عجیب عجیب شوخیوں اور بے قراریوں کا انداز دکھا رہا ہے۔
سامنے اُمرائے دربار لمبے دامنوں کے جامے پہنے، چھجے دار پگڑیاں باندھے، کمروں میں تلواریں اور پٹکوں میں پیش قبض لگائے دست بستہ کھڑے ہیں جن میں زیادہ ممتاز سعد اللہ خان وزیر سلطنت، حکیم رُکنائے کاشی، سعید ائے گیلانی، حکیم مسیح الزمان علامی افضل خان جو بڑے عالم تھے اور مُلا علاء الملک تولی میر سامان ہیں۔
اتنے میں حکیم رکنائے کاشی بڑھ کے زمیں بوس ہوئے اور کمال خوش الحانی سے اپنا ایک نو تصنیف قصیدہ سُنانے لگے۔ حاضرین داد دیتے جاتے تھے اور بادشاہ جہاں پناہ جن میں دینداری نے نہایت سادگی اور بے نفسی پیدا کر دی تھی، اگرچہ اپنے چشم و ابرو سے اور آہستہ آہستہ زبان سے بھی شاعر کی طباعی و سخن آفرینی کی داد دے رہے تھے مگر ساتھ ہی اپنی تعریف سننے سے نادم بھی ہوتے جاتے تھے۔ فرشتۂ ہدایت اُن کے کان میں کہتا کہ تعریف کے قابل صرف خدائے واحد ذو الجلال کی ذات ہے، اَور زیادہ نادم ہو جاتے۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ ادھر رُکنائے کاشی نے قصیدہ ختم کیا، اُدھر شاہجہاں تخت ہی پر خدا کے سامنے سجدے میں گر پڑا اور درگاہِ خداوندی میں عرض کیا: الٰہ العالمین! میں کسی قابل نہیں ہوں مگر تیری رحمت و بندہ نوازی ہے کہ مجھے ایسی عزت و حکومت عطا کی کہ یہ شعرا میری مدح سرائی کر رہے ہیں۔
اب بادشاہ نے سجدے سے سر اُٹھا کے حکم فرمایا کہ رکنائے کاشی کو سونے میں تول کے سونا اُس کے حوالے کرو۔ وہ سونے میں تُل رہا تھا اور بادشاہ کہہ رہا تھا: “الحمد للہ کہ ہمارے دربار میں ایسے ایسے نازک طبع و خیال آفریں شاعر موجود ہیں جیسے اور کسی دربار میں نہیں ہیں”۔
اس پر علامی افضل خان نے جو اپنے زمانے کے علمائے بے بدل میں سے تھے، ہاتھ جوڑ کے عرض کیا: “ہندوستان میں اور دربار ہی کون ہے جو اس آستان فلک تواَمان کا مقابلہ کر سکے گا۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ آج ممالک فارس و خراسان میں بھی کوئی ایسا صاحب کمال شاعر نہیں موجود ہے جس کو ایران کی دولت صفویہ ہمارے سامنے پیش کر سکے۔ وہاں جو شاعر شہرت و نمود حاصل کرتا ہے، وطن چھوڑ کے یہاں چلا آتا ہے۔ اور اگرچہ ہمارے ملک کی عام زبان فارسی نہیں ہے مگر اس دربار گُہر بار کی اقبال مندی نے ہمیں شعر و سخن میں اہل زبان پر فوقیت عطا کر دی ہے”۔
حکیم مسیح الزمان: ہمارے دربار کے علم و فضل اور ہمارے شعرا کے کمالات نے ہند کو زمین عجم بنا دیا ہے۔ ایران کے آئے ہوئے شعرا اور ہندی مسلمانوں کی سخن سنجی درکنار، یہاں بعض ہندو ایسے خوش گو شاعر ہیں کہ دربار عجم کے شعرا پر فوقیت لے گئے ہیں۔ داتا رام جو برہمن تخلص کرتا ہے فی الحال دہلی میں موجود ہے، فارسی کا ایسا اچھا شاعر ہے کہ اُس کا کلام سُن کر کوئی بے داد دیے نہیں رہ سکتا، بے اختیار زبان سے واہ نکل جاتی ہے۔
یہ سنتے ہی بادشاہ جو تکیے سے پیٹھ لگائے بیٹھا تھا سیدھا ہوا اور کہا: “ہاں میں نے بھی برہمن کی بڑی تعریف سُنی ہے۔ کیا آج کل وہ یہیں ہے؟”
مسیح الزمان: حضور یہیں ہے۔ شہر بھر میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ لوگ بڑے ذوق و شوق سے اُس کا کلام سننے کو جانتے ہیں اور بعض لوگ دعوت کے بہانے اپنے یہاں بُلوا کے اُس کا کلام سنتےہیں۔
بادشاہ (ملا عطاء الملک میر سامان کی طرف دیکھ کر): تو اُسے اسی وقت بُلواؤ۔ مجھے اُس کے اشعار سننے کا بڑا شوق ہے۔
ملّا صاحب جو بالذات فرید زمانہ علمائے نامدار میں سے تھے اور میر سامانی و داروغگیِ محل کے عہدے پر سرفراز تھے “بہت خوب” کہہ کے باہر گئے اور داتاؔ رام کے لانے کے لیے ایک ہرکارے کو دوڑا کے واپس آئے۔
اب جہاں پناہ نے سعیدائے گیلانی کی طرف متوجہ ہو کر کہا: “جب تک یہ ہندو برہمن آئے، تم کچھ اپنا کلام سُناؤ۔ مگر قصیدہ خوانی کی ضرورت نہیں اپنی غزلیں پڑھو”۔
سعیدائے گیلانی نے اپنے اشعار سُنانا شروع کیے جن کو بادشاہ دلچسپی اور شوق سے سُن رہے تھے۔ اکثر اشعا پر داد دیتے اور پھر پڑھواتے۔ اس صحبت کو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گذرا ہوگا کہ معلوم ہوا داتاؔ رام آ گیا۔ ملا عطاء الملک اُسے جا کے باہر سے لے آئے۔ وہ تخت کے سامنے آیا ہی تھا کہ نقیب نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کڑک کے کہا “ادب سے ملاحظے سے!” اور ساتھ ہی دوسرے نے آواز لگائی “نگاہ روشن!” بادشاہ کی نظر اُس کی طرف اُٹھی اور وہ نذر دکھانے کے لیے بڑھا۔ چوبداروں نے بڑھ کر دونوں بازو پکڑ لیے۔ ایک نے بڑھ کے اپنا ہاتھ اُس کے دونوں ہاتھوں کے آگے اڑا دیا کہ زیادہ ہاتھ نہ بڑھا سکے۔ اس شان اور ہیئت سے داتاؔ رام تخت کے قریب پہنچا اور پانچ اشرفیاں پیش کیں۔ بادشاہ نے اُن پر ہاتھ رکھ دیا اور وہ پلٹ کے امرائے دربار کے آخر میں فاصلے پر جا کھڑا ہوا۔
اب بادشاہ نے خندہ جبینی سے اُس کی طرف متوجہ ہو کر کہا: “داتاؔ رام! میں بہت دنوں سے تمھارا نام سُن رہا ہوں اور تمھارے دیکھنےکا شوق تھا۔ میرے قریب آ کے کھڑے ہو اور اپنا کچھ کلام سُناؤ”۔
داتاؔ رام جھک کر آداب بجا لایا، حسب معمول زمین دوز ہو کے سات سلام کیے اور تخت کے قریب آ کے سعد اللہ خان کے برابر کھڑا ہوگیا۔ اب اُس نے اپنا کلام سنانا شروع کیا۔ اُس کی طبیعت میں عاشقانہ جوش تھا اور مذاق میں صوفیانہ رند مشربی، جس کو اُس زمانے کے قدر دانان سخن بے انتہا پسند کرتے تھے۔ بادشاہ اُس کے اشعار سُن کے خوش ہوتے۔ جن اشعار پر زیادہ لطف آتا، آہستہ سے داد دیتے۔ کبھی سعد اللہ خان وزیر کی طرف داد کی نگاہیں ڈال کے اُن سے بھی داد چاہتے اور سارے دربار میں واہ وا کا غلغلہ بلند ہو جاتا۔
بہت سے اشعار سُنانے کے بعد داتاؔ رام نے اپنا یہ شعر پڑھا
مرا دلی است بہ کُفر آشنا کہ چندیں بار
بہ کعبہ بُردم و بازش برہمن آوردم
رُکنائے کاشی نے چونک کے بے اختیار کہا “وہ! وہ! چہ خوش گفتی، بارش بخواں”، اُس نے دوبارہ پڑھا اور اب جو دیکھتے ہیں تو بادشاہ کا مزاج برہم ہے اور کبیدہ خاطری سے سعد اللہ خاں پر غیظ کی نگاہیں ڈال رہے ہیں۔ اس مذاق و خیال کو شعرائے سلف خصوصاً صوفیوں نے فارسی میں بہت عام کر دیا ہے۔ مولانائے روم ملاؔ جامی اور دیگر اساتذۂ سخن کے کلام میں یہ خیال بہ کثرت موجود ہے۔ مگر ایک دیندار بادشاہ کو ایسی مذہبی آزادی سخت ناگوار گذری۔ یہی شعر اگر کسی مسلمان شاعر کی زبان سے سنا جاتا تو اُسے بہت داد ملتی، مگر ایک ہندو شاعر کی زبان سے مسلمان تاجدار کو ناگوار گذرا۔
مزاج شناس و حاضر طبع وزیر سعد اللہ خان نے مسکرا کے دست بستہ عرض کیا: “جہاں پناہ! اس کا جواب تو حضرت مصلح الدین سعدی شیرازی پہلے ہی دے گئے ہیں”۔
بادشاہ: کیا جواب دے گئے ہیں؟
سعد اللہ خان: فرماتے ہیں
خرِ عیسیٰ اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر شد
یہ شعر سنتےہی بادشاہ پھڑک اُٹھے۔ وزیر کی حاضر جوابی کی داد دی اور سارے دربار نے قہقہہ لگایا۔ داتاؔ رام کو ایک مسلمان بادشاہ کے سامنے ایسا شعر پڑھنے پر بہت ندامت ہوئی اور سر جھکا کے خاموش کھڑا ہوگیا۔
بادشاہ (کمال شگفتگی کے ساتھ): رُک کیوں گئے۔ کوئی اور غزل پڑھو۔
اس نے سات سلام کرکے عفوِ تقصیر کی درخواست کی اور پھر اپنا کلام سنانے لگا۔ دیر تک سنتے رہنے کے بعد بادشاہ نے اُسے خلعت مرحمت کیا، ایک ہزار اشرفیاں عطا کیں۔ انعام و اکرام سے سرفراز ہو کر داتا رام شکریہ کا آداب بجا لایا اور اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا۔ اب علامی افضل خان نے جو ایک عہدہ دار درباری ہونے کے ساتھ فاضل گراں پایہ اور مقتدائے دین سمجھتے جاتے تھے بارگاہ شاہی میں عرض کیا: “داتاؔ رام حضرت عرش آشیانی (اکبر بادشاہ) کے عہد میں ہوتا تو بڑا شخص ہوتا”۔
بادشاہ (ہنس کر): بے شک وہ اس کے سچے قدردان ہوتے۔ مگر شریعت اسلامیہ کی ایسی توہین تو انھیں بھی گوارا نہ ہوتی اور ہندو عہدہ داروں اور بہادروں کی جیسی قدر و منزلت اُ ن کے زمانے میں ہوتی تھی اب بھی ہوتی ہے۔
افضل خان: بے شک بلکہ اُس سے زیادہ بڑے بڑے عہدوں پر ممتازہیں۔ اپنی جاگیروں اور ریاستوں پر نہایت عزت کے ساتھ قابض و متصرف ہیں۔ فوجی افسروں میں اُن کا مرتبہ اور شمار مسلمان سپہ سالاروں سے کم نہیں ہے۔ عرش آشیانی نے جو قرابت کے تعلقات ہندو راجاؤں کے ساتھ پیدا کیے تھے آج تک بڑھتے جاتے ہیں اور پہلے ہندو اگر دربار کے معزز سردار تھے تو آج ہمارے قرابت دار اور عزیز ہیں۔
بادشاہ: اور میں اِن تعلقات کو زیادہ بڑھانا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ سُن کر خوشی ہوتی ہے کہ راجستھان میں عام ہندو مسلمانوں میں شادی بیاہ کا طریقہ جاری ہوگیا جس کے باعث ہم ہندوؤں سے اور ہندو ہم سے زیادہ قریب ہوتے جاتے ہیں۔
سعد اللہ خان: عرش آشیانی کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں ہندوؤں سے زیادہ اُنس تھا۔ بے شک تھا اور صرف اس لیے کہ وہ ہندو مسلمانوں کو ملا کے ایک خیال اور ایک دین پر کر دینا چاہتے تھے۔
افضل خان: اور اس میں بہت اندرونی اور گہرا راز یہ تھا کہ کوئی مسلمان چاہے ہندوؤں کی کتنی ہی رسمیں اختیار کر لے اور اُن کے طریقوں پر چلنے لگے، ہندو نہیں ہو سکتا۔ بخلاف اس کے ہندو جب مسلمانوں سے ملے گا اور اُن کی وضع اختیار کرے گا خواہ مخواہ مسلمان ہو جائے گا۔ ہندو اپنے مذہب پر قائم ہیں مگر کسی غیر مذہب والے کو ہندو نہیں بنا سکتے اور مسلمان ہر فرد بشر کو اپنے دین میں شامل کرنے کو تیار ہیں۔ لہذا اس میں ذرا شک نہیں کہ دونوں گروہوں میں جتنا میل جول بڑھتا جائے گا، اُسی قدر مسلمانوں کا شمار زیادہ ہوتا جائے گا۔ لہذا میرے خیال میں ان باتوں میں حضرت آشیانی کا اصلی مقصد اشاعت اسلام تھا۔
بادشاہ: میرا بھی یہی خیال ہے۔ بعض ناسمجھ مؤرخین نے ان کے دین اور عقائد پر حملے کیے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے جو تم نے کہی کہ اپنے اس طرز عمل سے وہ سارے ہندوستان کو مسلمان کر لینا چاہتے تھے۔ اور یہ انھیں کی برکت ہے کہ ہندوستان میں آج اتنے اہل اسلام موجود ہیں۔
سعد اللہ خان: اسی پر موقوف نہیں، انھوں نے جتنے کام کیے سب کسی بڑی مصلحت پر مبنی تھے۔ مثلاً انھوں نے ایک مینا بازار قائم کیا۔ علمائے ظاہر خیال کرتے ہیں کہ اس میں مسلمان خاتونوں کی بے حُرمتی و رسوائی منظور تھی۔ لیکن حقیقت کا پتہ لگائیے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس میں اُن کا اصلی مقصد یہ تھا کہ پردے میں میں رہنے والی عورتیں جو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہیں اور قیدیوں کی طرح اپنے گھروں میں اکیلی پڑی رہتی ہیں ایک دوسرے سے ملیں جلیں، زمانے اور حالات زمانہ سے واقف ہوں۔ ہندو مسلمان عورتیں جو الگ تھلگ رہتی ہیں آپس میں مل جُل کے ایک دوسرے کے اوضاع و اطوار اختیار کریں۔ مسلمان خاتونیں ہندو عورتوں کی شوہر پرستی و خود فراموشی سیکھیں اور ہندو عورتیں مسلمان بیویوں سے شائستگی، خوش اخلاقی، وضعداری اور سلیقہ شعاری کا سبق لیں۔
افضل خان: اور میں کہتا ہوں کہ اس میں بھی تمام مصلحتوں کے دامن میں چھپی ہوئی سب سے بڑی مصلحت یہ تھی کہ ہندو عورتیں مسلمان عورتوں سے مل کے اُن کی دنیوی خوبیوں کے ساتھ اُن کا سچا دین اور اُن کی توحید و رسالت کو بھی سیکھ کے مسلمان ہو جائیں اور پھر اپنے اثر سے اپنے مردوں کو مسلمان بنا لیں۔
بادشاہ: یقیناً اس میں بھی عرش آشیانی کا یہی مقصد تھا کہ اسلام کو ترقی ہو۔ مگر یہ مینا بازار کیا تھا اور کیسا تھا؟ میں نے محل کی عورتوں میں بارہا اس کا ذکر سنا ہے اور تمام عورتوں کو اُس کا شائق پاتا ہوں۔
سعد اللہ خان: یہ ایک زنانہ بازار تھا، جس میں تمام اُمرا و معززین کی عورتیں دُکانیں رکھ کے اپنے جواہرات اور دوسری نادر چیزیں فروخت کرتی تھیں۔ خود حضرت عرش آشیانی، کُل شہزادے اور تمام امرائے دربار اُس بازار میں جا کے خریداری کرتے اور عورتیں جو دام مانگتیں دیتے۔ مردوں کے علاوہ عام عورتیں بھی سیر و تفریح کے لیے اُس بازار میں آتیں اور عجیب لطف کا مجمع ہوتا۔
بادشاہ: تو عورتیں خریدار امیروں سے پردہ نہ کرتی تھیں؟
سعد اللہ خان: قدیم الایام سے شرفائے ترک و تاجیک اور عرب و عجم کے معززین میں یہ رواج چلا آتا ہے کہ بادشاہ ظل اللہ سب کے پدر مشفق مانے جاتے ہیںاور کوئی عورت اُن سے پردہ نہیں کرتی۔ رہے شاہزادے اور اُمرائے دربار، اُن کے سامنے انھیں اختیار تھا کہ چاہیں تو چہرے پر زرتار نقاب ڈال لیں۔ لیکن سنا جاتا ہے کہ عرش آشیانی کے مینا بازار میں کسی مسلمان عورت کے چہرے پر نقاب نہ تھی۔
بادشاہ: تو کیا تمام اُمرا و شرفا کی عورتیں آنے پر مجبور کی گئی تھیں؟
سعد اللہ خان: مجبور کوئی نہیں کیا گیا تھا۔ مگر اس بازار کی شرکت میں بادشاہ کی خوشنودی کے علاوہ اس قدر زیادہ فائدے کی امید تھی کہ کوئی شریف گھرانا نہ تھا جس کی عورتیں نہ آئی ہوں اور سیر دیکھنے کو عوام و خواص کی سبھی عورتیں آتی تھیں۔
بادشاہ:اُس بازار کی وجہ سے لوگوں میں کوئی ناراضی اور شکایت تو نہیں پیدا ہوئی؟
سعد اللہ خان: مطلق نہیں۔ آج تک لوگ اس کو خوشی اور شکر گزاری کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
بادشاہ: جی چاہتاہے کہ میرے زمانے میں بھی ایک ایسا بازار ہو۔ تمھارا کیا خیال ہے؟
سعد اللہ خان: بہت مناسب ہے۔ تمام خاندانوں میں زندہ دلی پیدا ہو جائے گی اور چونکہ عورتوں میں اس کا بہت شوق ہے اور حضرت عرش آشیانی کے عہد والے مینا بازار کے حالات کہانیوں کی طرح بیان کیا کرتی ہیں، لہذا بہت خوش ہوں گی اور نہایت شوق سے آئیں گی۔
بادشاہ: میں اپنے عہد کے مینا بازار کے لیے اُس کے مناسب ایک خاص عمارت تعمیر کراؤں گا تاکہ مدتوں کے لیے اُس کی بنیاد قائم ہو جائے اور ہر سال مناسب وقت پر چند روز تک یہ لطف قائم رہا کرے، لیکن چونکہ عورتوں کا معاملہ ہے اس لیے پہلے بادشاہ بیگم سے مشورہ کر لوں۔ اگر انھوں نے پسند کیا تو کل ہی سے اس کی عمارت تعمیر کرانا شروع کر دوں گا۔
سعد اللہ خان: اس عالی شان کام کو انھیں کے مبارک ہاتھوں سے انجام پانا چاہیے۔ بلکہ یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس بازار کو وہی اپنے حکم سے قائم کریں۔ اُن کا حکم ہوا تو ساری عورتیں بغیر کسی خرخشے کے چلی آئیں گی۔
بادشاہ: میں انھیں آمادہ کروں گا کہ اس مینا بازار کا اعلان اپنے حکم سے کریں اور انھیں کے حکم سے اس کی عمارت بھی تعمیر ہو۔
سعد اللہ خان: نہایت مناسب ہے۔
اب چونکہ دیر ہو گئی تھی لہذا حضرت جہاں پناہ دربار برخاست کر کے محل میں تشریف لے گئے اور اُمرائے دولت نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔
دوسرا باب
مینا بازار کی تجویز
اُسی دن شام کو حضرت صاحب قرانِ ثانی شاہجہاں بادشاہ اپنے خاص محل میں ایک طلائی تخت پر بیٹھے تھے اور اُن کے برابر ملکہ جہاں تاج محل ممتاز الزمانی ارجمند بانو بیگم بیٹھی تھیں۔ خواصیں اِدھر اُدھر دروازوں کے پاس خاموش کھڑی تھیں اور گوش برآواز تھیں کہ کوئی حکم ہو اور دوڑ کے بجا لائیں۔
تاج محل نہایت متین و سنجیدہ ملکہ تھیں۔ اگرچہ عمر پچاس سال سے گذر گئی تھی مگر چہرے پر اگلے حُسن کی شوخیوں کی جگہ اب بلا کی متانت و سنجیدگی تھی۔ ہر امر میں اپنے صاحب طبل و علم شوہر کی مرضی پر چلتیں اور ممکن نہ تھا کہ کبھی کسی بات میں اُن کے حکم کے خلاف کریں۔ اسی طرح صاحب قران ثانی کی بھی یہ حالت تھی کہ کوئی بات بغیر اُن سے پوچھے نہ کرتے اور وجہ یہ تھی کہ نواب ممتاز محل صرف جوانانہ عشق و محبت کا کھلونا نہ تھیں، بلکہ بادشاہ کے چاروں نامور و جواں بخت فرزندوں کی ماں تھیں اور حضرت ظل اللہ کی محل کی زندگی پر پوری قابض و حکمران تھیں۔
بادشاہ کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بات کہنا چاہتے ہیں مگر کسی مصلحت سے نہیں ظاہر کرتے۔ بات مُنہ تک آتی اور رُک جاتی ہے اور اس گومگو میں ہیں کہ کہیں یا نہ کہیں۔ اس بات کو ممتاز الزمانی بیگم نے بھی محسوس کیا، مگر وہ بھی اس بلا کی عقلمند و ضابط تھیں کہ اپنی متانت میں فرق نہ آنے دیا۔ بلکہ حتی الامکان اس کو بادشاہ پر ظاہر بھی نہ ہونے دیا کہ میں نے صاحب تاج شوہر کے صفحۂ دل کی تحریر کا کچھ حصہ پڑھ لیا ہے۔
آخر بادشاہ دل کو مضبوط کر کے ملکہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: “بیگم! ایک بات کہنا چاہتا ہوں مگر دیر سے پس و پیش کر رہا ہوں کہ کہوں یا نہ کہوں؟
تاج محل (سنجیدگی کے ساتھ): وہ نگوڑی کون سی بات ہے کہ جہاں پناہ کو اُس کے ظاہر کرنے میں تردد ہے؟ کیا کوئی سلطنت کا راز ہے جس کا اگلوں کی نصیحت کے مطابق عورتوں پر ظاہر کرنا مناسب نہیں؟
جہاں پناہ (ہنس کر): سلطنت کا کون سا راز تم سے چھپا ہے، جو اب میں کسی بات کو پردے میں رکھوں گا؟ اور تم جانتی ہو میں اس پُرانی نصیحت کا قائل بھی نہیں ہوں کہ کسی بات کو اپنی ہمدم و ہم راز بیوی سے چھپانا چاہیے۔
تاج محل: بے شک مجھے اقرار ہے کہ حضرت کسی گہرے سے گہرے راز کو بھی مجھ سے نہیں چھپاتے مگر ممکن ہے کہ آج کل کسی نے اُس پُرانی حکمت و نصیحت کو ایسے الفاظ میں بیان کیا ہو کہ اب دل میں یہ خیال پیدا ہوگیا ہو کہ عورت کا اعتبار نہ کرنا چاہیے۔
یہ کہتے وقت باوجود فطری سنجیدگی کے ارجمند بانو بیگم کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
جہاں پناہ: اب مجھے کوئی کیا بہکائے گا۔ اور سچ یہ ہے کہ اس پُرانی حکمت پر میں زندگی بھر کبھی عمل نہ کر سکوں گا اور نہ مجھے یہ نصیحت صحیح معلوم ہوتی ہے۔ انسان کی سچی اور سب سے زیادہ محرم راز اُس کی باوفا و ہمدم بیوی ہوتی ہے۔ اُس سے اپنی باتوں کو وہ چھپا ہی کیسے سکتا ہے؟ اور میری تو یہ حالت ہے کہ اگر اپنی باتوں کو تم سے چھپانے لگوں تو گھر میں بیٹھنا دشوار ہو جائے۔ بلکہ کیا عجب کہ سڑی ہو جاؤں۔
بادشاہ کا یہ کلمہ سنتے ہی بے اختیار ارجمند بانو بیگم کی زبان سے نکلا “خدا نہ کرے، نصیب دشمناں!” پھر کہنے لگیں: “اور میں بھی آپ کی اسی وضع اور انھیں مہربانیوں سے اکثر اپنے دل میں کہا کرتی ہوں کہ دنیا کی کسی بادشاہ بیگم کو ایسا سچا اور سچی محبت والا شوہر نہ نصیب ہوا ہوگا جیسا کہ خوش قسمتی سے مجھے نصیب ہوا ہے۔ تو پھر آپ ہی فرمائیں کہ اس وقت جو بات آپ کے دل میں ہے اُس کے ظاہر کرنے میں کس بات کا تردد ہے”۔
جہاں پناہ: یہ کہ تمھیں بد گمانی نہ ہو؟
تاج محل (سراپا حیرت بن کر): تو وہ بد گمانی کی بات ہے؟
جہاں پناہ: ہونا تو نہ چاہیے۔ مگر ممکن ہے کہ تم بد گمان ہو اور اسی وجہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ خدا جانے تم اُسے منظور کرو گی یا نہیں؟
تاج محل: میری بد گمانی کا اندیشہ ہے اور پھر اس کی ضرورت بھی ہے کہ وہ بات مجھ سے کہی جائے۔ میں تو جانتی ہوں کہ ایسی بات کو مجھ سے نہ کہنا چاہیے۔
جہاں پناہ: یہ نہیں ہو سکتا۔ اول تو میں تم سے چھپا کے کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔ دوسرے وہ تو ایسا کام ہے کہ تمھارے ہی ہاتھ سے انجام پا سکتا ہے۔
تاج محل: اچھا تو آپ کہیں۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ بد گمان نہ ہوں گی۔
جہاں پناہ: بس میں یہی چاہتا تھا۔ تو اب سنو۔ جی چاہتاہے کہ دادا عرش آشیانی کی طرح ایک مینا بازار میں بھی قائم کروں اور اس کا سارا انتظام تمھارے ہاتھ سے ہو۔ تم ماشاء اللہ سے نہایت عقلمند اور میری سب سے بڑی مشیر سلطنت ہو۔ اس قسم کے بازار سے پردہ نشین عورتوں میں میل جول بڑھے گا، وہ دنیا اور اُس کے کاروبار سے فائدہ اُٹھائیں گی، ہند و مسلمان خاتونوں میں ربط و ضبط بڑھے گا اور پھر معزز بیویاں اس بازار سے فائدہ بھی بہت اُٹھائیں گی۔ بعض غریب گھرانوں کی عورتیں کیا عجب کہ اس بازار کے ذریعے سے دولت مند ہو جائیں۔پھر تمھیں بھی یہ بڑا فائدہ حاصل ہوگا کہ عام عورتوں کی وضع قطع مذاق و کردار سے خوب واقف ہو جاؤ گی جس کا تمھیں بے حد شوق ہے۔
تاج محل: بے شک مجھےشوق ہے اور عورتوں کے نفع کےلیے اس کو پسند بھی کرتی ہوں۔ مگر بہتر یہ ہوتا کہ یہ صرف زنانہ بازار ہوتا۔ دُکاندارنیں بھی عورتیں ہوتیں اور خریداری کرنے والی بھی عورتیں ہوتیں۔ عرش آشیانی کے زمانے کا مینا بازار مجھے پسند نہیں کہ پردے والی عورتوں میں بادشاہ اور اُن کے مصاحبین و اُمرا سب گھس پڑیں۔
جہاں پناہ: مگر حضرت عرش آشیانی نے اپنا مینا بازار بڑی مصلحت سے کھولا تھا۔ اگر خود وہ اور اُن کے ہمراہی اُس بازار میں جا کے خریداری نہ کرتے تو عورتوں کو اتنا فائدہ ہرگز نہ ہوتا اور عورتوں نے جس نفاست و سلیقہ شعاری سے اپنی دکانوں کو بادشاہ کے آنے کے شوق میں سنوارا اور آراستہ کیا تھا، یوں ہرگز نہ سنواریں گی۔
تاج محل: یہ سب فائدے ایک طرف اور یہ خرابی ایک طرف کہ عورتوں اور مردوں کے ملنے سے بدکاری بڑھے گی، صدہا فتنے پیدا ہوں گے۔ کوئی غیر مرد کسی کی جورو پر فریفتہ ہو کر اُس کے شوہر کا دشمن ہو جائے گا اور اُس کو اُس کے گھر سے نکالنا چاہے گا۔ کوئی عورت کسی غیر مرد کی شیفتہ ہو کر اپنے شوہر اور بچوں تک کے چھوڑنے پر آمادہ ہو جائے گی۔ ان باتوں سے جیسے جیسے فساد ہوں گے، وہ اُن ظاہری فائدوں سے بدرجہا زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے۔
جہاں پناہ: بیگم! تم نے برائیوں کی بہت ہی ناقابل برداشت تصویر میری آنکھوں کے سامنے بنا کے کھڑی کر دی لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت عرش آشیانی کے عہد میں اس بازار کی وجہ سے کوئی ایسی خرابی نہیں پیدا ہوئی تو اطمینان ہو جاتا ہے کہ ہمارے شریفوں اور امیروں کی بیویاں ایسی نفس پرست و بدکار نہیں ہیں جیسا تم انھیں بتاتی ہو۔
تاج محل: کون جانتا ہے کہ خرابی نہیں پیدا ہوئی۔ صدہا فساد ہوئے ہوں گے مگر ایسی باتوں کو شریف لوگ جہاں تک ممکن ہوتا ہے دباتے اور چھپاتے ہیں۔ اور اس مینا بازار کا سب سے بڑا فساد تو سب ہی جانتے ہیں کہ اُسی کی بدولت حضرت جنت مکانی کے دل میں مہر النسا کا شوق پیدا ہوا۔ اُن کا شوہر شیر افگن خان جان سے گیا اور وہ مہر النسا سے نور جہاں بیگم بن گئیں۔
جہاں پناہ (قہقہہ مار کے): یہ مینا بازار سے نہیں ہوا بلکہ جنت مکانی والد مرحوم کی رنگیلی طبیعت کا تقاضا تھا اور ایسی باتیں کسی نہ کسی طریقے سے سب ہی بادشاہوں کو پیش آ جاتی ہیں۔
تاج محل: ہاں پیش آ جاتی ہیں اور اس نئے مینا بازار سے آپ کو پیش آ جائیں تو۔
جہاں پناہ: دیکھو تم وعدہ کر چکی ہو کہ بد گمانی نہ کرو گی اور تمھیں مجھ سے ایسی بد گمانی ہرگز نہ کرنی چاہیے۔ تمھارے ہوتے ممکن نہیں کہ میں کسی عورت پر آنکھ ڈالوں۔ تم میرے دل و جان کی مالک ہو۔ سلطنت تمھارے اختیار میں ہے اور میرے بعد تمھارا ہی بیٹا ہندوستان کا تاجدار ہوگا۔
تاج محل: ایسی باتیں نہ کیجیے۔ میری زندگی آپ کے دم کے ساتھ ہے۔ خدا وہ دن نہ لائے کہ میں کسی بیٹے کا زمانہ دیکھوں۔ میری پانچوں وقت کی نماز کے بعد یہ دعا رہتی ہے کہ آپ کے سامنے مروں اور آپ کے ہاتھوں ٹھکانے لگوں۔
جہاں پناہ: تمھاری چاہے یہ تمنا ہو، مگر میری زندگی بغیرتمھارے بے مزہ ہو جائے گی۔ مجھے سلطنت کا لطف صرف تمھارے وجہ سے آتا ہے۔ اب ان باتوں کو چھوڑو جن کا خیال آنے سے دنیا بے کار اور جینا بے مزہ نظر آنے لگتا ہے اور خیر اگر تم مینا بازار کو نہیں پسند کرتیں تو میں اُس کے خیال سے باز آ جاتا ہوں۔
تاج محل (مُسکرا کے): میں فقط آپ کے چھیڑنے کے لیے کہتی تھی۔ ورنہ میرا تو یہ کام ہے کہ آپ کو جس چیز کا شوق ہو اُسے جس طرح بنے پورا کروں۔ جب اگلے دنوں جوانی میں آپ پر بد گمانی نہ ہوئی تو اب کیا ہوگی۔ اس مینا بازار کو شوق سے کھولیے، میں مانع نہیں ہوں۔
جہاں پناہ: مانع ہونا کیسا، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرے عہد کے مینا بازار کو تم ہی قائم کرو۔ تمھاری ہی طرف سے اس کا اعلان ہو۔ تمھارے ہی حکم سے شہر کے باہر اُس کی عمارت بنے اور تم ہی اپنے ہاتھ سے اس کا افتتاح کرو۔
تاج محل: آپ کی خوشی کے لیے میں ان سب کاموں کے کرنےکو تیار ہوں۔ مگر مجھ سے وعدہ کیجیے کہ کسی عورت پر آپ بُری نگاہ نہ ڈالیں گے۔ شیطان انسان کے پاس ہی رہتا ہے اور ذرا بھی کمزوری پاتا ہے تو بہکا دیتا ہے۔ بازار کو سجا کے دلہن بنا دینا اور ہر قسم کی دلچسپی کا سامان پیدا کر دینا میرا کام ہے۔ مگر آپ کا یہ کام ہے کہ کسی خوبصورت عورت کو دیکھیں، قدم کو لغزش نہ ہو۔ یہ وعدہ میں فقط اپنے لیے نہیں لیتی، میں تو جیسی ہوں ویسی ہی رہوں گی اور کوئی آئے گی بھی تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس لیے کہ میرے دل میں بہت کم ہوسیں رہ گئی ہیں۔ میں یہ وعدہ آپ ہی کے بھلے کے لیے لیتی ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ جو کہا جاتا ہے کہ بادشاہ سے کسی عورت کو پردہ نہ کرنا چاہیے۔ کس اطمینان پر کہا جاتا ہے؟ اس اطمینان پر کہ بادشاہ ساری رعایا کا محافظ اور سب کی آبرو بچانے والا ہے۔ آپ اس بازار میں آئیں تو دل میں یہ خیال جما لیں کہ ان عورتوں میں جتنی بڑھیاں ہیں آپ کی مائیں ہیں، جوانیں آپ کی بہنیں ہیں اور کنواری لڑکیاں آپ کی بیٹیاں ہیں۔
جہاں پناہ: میں اپنے ملک کی تمام عورتوں کو ہمیشہ ایسا ہی سمجھا کیا اور اس مینا بازار میں تمھارے کہنے سے خاص طور پر اس کا خیال رکھوں گا۔
تاج محل: تو پھر اس مینا بازار کے بعد ساری رعایا میں آپ کا اعتبار اور بڑھ جائے گا۔
جہاں پناہ: یہ تو پھر میری خواہش کے مطابق تم مینا بازار قائم کرنے کو تیار ہو؟
تاج محل: دل و جان سے، اور مجھے یقین ہے کہ یہ بازار عورتوں کے لیے ایک بڑی بھاری نعمت ہوگا۔ اُن کو اس سے بہت فائدے پہنچیں گے۔
جہاں پناہ: تو پھر کل ہی اُس کی عمارت تعمیر کرنے کا حکم جاری کر دو۔ میں چاہتا ہوں کہ اس بازار کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے جاری ہو جائے اور دنیا میں ہمیشہ کے لیے تمھاری یہ یادگار قائم رہے۔ یہ عمارت مستقل طور پر اسی کام کے لیے محفوظ رہے اور ہر سال کسی مناسب موسم میں اس میں زنانہ بازار لگا کرے۔
تاج محل: میں بھی ہر سال اس کے لیے خاص اہتمام کیا کروں گی۔ لیکن یہ بازار اُسی وقت تک ہے جب تک آپ سے یا آپ کے کسی شہزادے یا امیر سے کوئی بے اعتدالی نہ ظاہر ہو۔ اس لیے کہ اگر اس سے کوئی خرابی پیدا ہوئی تو پھر میں اُسے اچھا نہ کہوں گی اور ہرگز نہ پسند کروں گی کہ دنیا میں کوئی بد اخلاقی کی چیز میری یادگار سمجھی جائے۔
جہاں پناہ: ان شاء اللہ کوئی خرابی نہ ہوگی اور جب میں خود احتیاط کروں گا اور نگرانی رکھوں گا تو کسی کی مجال نہیں کہ کسی عورت پر بُری نگاہ ڈالے۔
تاج محل: تو بہتر ہے۔ کل ہی میری طرف سے میر عمارت کو حکم دے دیجیے کہ اس عمارت کے لیے ایک اچھا اور مناسب نقشہ تیار کر کے میرے سامنے پیش کریں۔ اور اس کے بعد اتنی جلدی اس عمارت کو تیار کر کے کھڑا کر دیں کہ اب کی فصل بہار میں یہ بازار کھول دیا جائے۔
جہاں پناہ: میں بہت جلد اس عمارت کو تعمیر کراؤں گا اور اُس کا نقشہ تین ہی چار روز میں بن جائے گا۔
حضرت صاحب قران ثانی کے دل میں مینا بازار کا خیال اس طرح جم کے بیٹھ گیا تھا کہ رات بھر بار بار نیند اُچٹ جاتی اور جب آنکھ کھلتی اُسی کا خیال ہوتا اور صبح کو نماز سے فارغ ہوتے ہی جب تک ممتاز الزمانی نواب تاج محل صاحبہ کی طرف سے اس عمارت کی تعمیر اور بہت جلد اُس کے نقشے کی تیاری کا حکم جاری کرا لیا، باہر دربار میں نہیں تشریف لائے۔
برآمد ہوتے ہی امرائے دولت کو بُلوا کے ملکۂ زمانہ کے حکم سے آگاہ کیا اور میر عمارت کو بلا کے حکم فرمایا کہ دو ہی تین دن کے اندر نقشہ بنا کے محتشم الیہا کے ملاحظے میں پیش کر دیں۔ ساتھ ہی اس کا بھی اعلان کرا دیا کہ “اب کی موسم بہار میں نواب ممتاز محل صاحبہ شہر کے باہر ایک نہایت عالیشان مینا بازار کھولیں گی۔ تمام ہندو مسلمان امرا و معززین کی بیویوں کو اُس میں شریک ہونا چاہیے۔ چند ماہ پیشتر سےاس لیے اعلان کر دیا گیا کہ ملک کی تمام سلیقہ والی بیویاں اس بازار میں لانے کے لیے قیمتی جواہرات اور اپنی دستکاری کی نادر چیزیں تیار کر لیں اور دوسرے شہروں اور صوبوں کی جو خاتونیں آنا چاہیں وہ سفر کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس بازار میں ملک کی ہنر والی عورتوں کو دولت حاصل کرنے کا بہت اچھا موقع ہے۔ اس لیے کہ مُنہ مانگے دام دیے جائیں گے۔ جس تاریخ بازار کھولا جائے گا، اُس سے بعد اطلاع دی جائے گی”۔
اس اعلان کے ہوتے ہی تمام گھروں میں ایک عجیب جوش و شوق پیدا ہو گیا اور ہر گھر میں اسی کا تذکرہ تھا۔ بہت سی عورتیں اپنے مذاق و شوق کے مطابق فروخت کرنے کی چیزیں تیار کرنے لگیں۔ امیر گھرانوں کی عورتیں اپنے وضع و لباس کے متعلق طرح طرح کی تراش خراش اور ایجادیں کرنے لگیں۔
تیسرا باب
اُس کی تعمیر و تزئین
تیسرے ہی روز مینا بازار کی عمارت کا نقشہ ملکۂ زمانہ نواب ارجمند بانو بیگم کے ملاحظہ میں پیش ہوا۔ بادشاہ اور بادشاہ بیگم نے اُس پر خوب غور کیا۔ محل کی معزز و نفیس مزاج عورتوں اور بعض وزرا و امرا کی بیگموں کو بھی دکھا کے مشورہ لیا۔ اور ایک ہی ہفتہ کے اندر مناسب ترمیموں کے بعد وہ نقشہ میر عمارت کو واپس دیا گیا کہ اسی کے مناسب عالیشان عمارت بہت جلد تعمیر کرا دیں۔
اب حضرت جہاں پناہ کا معمول تھا کہ ہر ہفتہ میں دو تین بار بذات خود تشریف لے جا کے ملاحظہ فرماتے کہ عمارت کتنی بنی اور کس عجلت کے ساتھ تعمیر کا کام جاری ہے۔ محل کے اندر ہوتے تو اکثر تاج محل صاحبہ سے اسی مینا بازار کا تذکرہ رہتا۔ اُس کی آراستگی اور زیب و زینت کی چیزوں پر غور کیا جاتا۔
تقریباً تین مہینے میں عمارت مکمل ہو گئی اور ساتھ ہی اُس کی سجاوٹ بھی ہو گئی۔ ڈیوڑھی کی جگہ ایک بہت بڑا وسیع احاطہ رکھا گیا تھا جس کے اندر ہاتھی، گھوڑے، رتھیں، بہلیں اور ہر قسم کی سواریاں بہت آسانی سے جا سکیں۔ احاطے کے گردا گرد تقریباً سو سوا سو کوٹھریاں تھیں، جو اس مقصد سے بنائی گئی تھیں کہ اُن میں رتھیں اور گاڑیاں رکھی جائیں، بیل یا گھوڑے باندھے جائیں۔ داخل ہونے کے دروازے کے پاس اندر کی طرف فیل خانہ کے طور پر بہت بلند مکانات تھے تاکہ ان میں ہاتھی باندھے جائیں۔ غرض جو عالی مرتبہ شاہزادیاں اور بیگمیں آئیں ان کی سواریوں کے ٹھہرانے اور رکھنے کے لیے یہ احاطہ کافی تھا۔
اس کے بعد دوسری ڈیوڑھی تھی جس میں پردے کا انتظام تھا کہ ہر خاتون اُس میں داخل ہو کے آرام و اطمینان سے اُتر کے بازار کے اندر چلی جائے اور اس کے اُترنے کے بعد سواری بیرونی احاطے میں آ کے ٹھہرے۔
اس کے بعد بازار کا خاص دروازہ تھا جو نہایت ہی خوبصورت اور دلکش تھا۔ اس پر چابکدست کاریگروں نے بڑی خوبی سے بیل بوٹے بنائے تھے۔ خوب خوب رنگ آمیزیاں کی تھیں۔ جابجا سونے کا پانی پھیر کے اس قدر چمکا دیا تھا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں دولت تیموریہ کا عروج و کمال دیکھ کے خیرہ ہونے لگتیں۔ اس دروازے میں داخل ہوتے ہی بازار ملتا جس پر نظر پڑتے ہی آنکھیں روشن ہو جاتیں۔ دو بڑی وسیع سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی چاروں طرف پھیلتی چلی گئی تھیں۔ چوراہے پر ایک وسیع میدان رکھا گیا تھا جس کے درمیان میں ایک نہایت ہی خوشنما و دلکش بُرج نُما کوشک تھی، اس کی چوٹی پر سنہرا کلس تھا اور اُس کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی کلس دار گنبدیوں کا سلسلہ چلا گیا تھا جن کے دائرے کے اندر مذکورہ درمیانی کلس مرکز کا کام دیتا اور چھوٹے کلسوں میں وہ ایسا نظر آتا تھا کہ گویا ماہتاب نے تاروں کو پاس سے ہٹا کے گردا گرد حلقہ میں قائم کر دیا ہے۔
اس کوشک میں بوٹے دار اطلس کے فرش پر سونے چاندی کے تخت اور پلنگ قرینے سے آراستہ تھے۔ تختوں پر اعلیٰ درجے کے ایرانی اور ترکی قالین بچھے تھے اور صدر میں زربفت کی مسند اور تکیے تھے۔ یہ مقام خاص ممتاز محل اور اُن کے دربار کی خاتونوں کے لیے مخصوص تھا۔
چاروں طرف جو سڑکیں گئی تھیں اُن میں ہر جانب ڈیڑھ ڈیڑھ سو دکانیں نہایت زیبائش سے آراستہ کی گئی تھیں۔ اس طرح ہر سڑک پر دونوں طرف ملا کے تین سو دکانیں اور سارے بازار میں کل بارہ سو دکانیں تھیں۔ دُکانوں کو بیل بوٹوں اور مینا کاری کی صنعتوں سے شداد کی جنت بنا دیا گیا تھا اور اُن کی پیشانی پر اِس سرے سے اُس سرے تک ایک چوڑی سنہری بیل چلی گئی تھی جو عجب بہار دکھاتی اور جس کی نظر پڑتی محو حیرت ہو جاتا۔ تمام دکانوں کے بازؤں پر گوٹے کے ہار لٹک رہے تھے اور کپڑے کے کٹاؤ سے کام لے کر نہایت شگفتہ خوش رنگ سدا بہار پھولوں سے ان کا سارا بیرونی رُخ آراستہ کر دیا گیا تھا۔ ان کے اندر دو جانب اطلس کے پردے لٹک رہے تھے جن میں عورتوں کے مذاق کے مطابق زربفت کی بیلوں اور سنہرے لچکوں کا حاشیہ تھا اور ان کے درمیان میں نقرۂ چٹکی کا جال بنا دیا گیا تھا۔ اور چونکہ سب دُکانیں دوہری تھیں، لہذا پشت کی طرف تین تین محرابیں تھیں جن کے چاروں طرف تو وہی کام تھا جو دونوں طرف تھا۔ مگر محرابوں کی پیشانیاں کپڑے کے سدا بہار پھولوں سے آراستہ تھیں جن کے نیچے مقیش کی جھالریں لٹک رہی تھیں اور دروں میں منقش چلمنیں پڑی ہوئی تھیں۔ دکانوں کے پشت کے کمروں کی زینت میں سادگی سے کام لیا گیاتھا۔ ان کمروں کے پیچھے مختصر مکانات تھے تاکہ جو بیویاں آئیں اپنے گھروں کی طرح آرام سے رہیں اور پشت کے کمرے اور ان کے متعلق مکانوں میں آزادی سے اٹھیں بیٹھیں۔
جب یہ بازار سج کے تیار ہوگیا تو ممتاز الزمانی بیگم مع اپنی خواصوں اور محل کی عورتو ں کے بڑے دھوم دھام سے اُس کے دیکھنے کو آئیں۔ پہلے اُس کوشک کو دیکھا جو خاص اُن کے لیے تھی، پھر ہر ہر دکان اور مکان کو جا کے اندر سے دیکھا اور بہت خوش ہوئیں۔ جہاں پناہ بھی اُسی وقت تشریف لائے اور ملاحظہ کے بعد بیگم سے کہا: “تم نے اس بازار کو دیکھا؟ اگر کسی چیز کی کمی ہو تو بتا دو”۔
تاج محل: جو چیز آپ کے اہتمام سے بنے بھلا اُس میں کوئی کمی رہ سکتی ہے؟ واقعی بہت خوب بنا ہے اور تعمیر سے زیادہ خوبی اس کی آراستگی و زینت میں ہے۔
جہاں پناہ: جہاں تک بنا عورتوں کے مذاق کا خیال رکھا گیا ہے۔
تاج محل: عمارت کے بنانے اور سجانے میں جو کمال خدا نے آپ کو دیا ہے کسی بادشاہ کو نہیں دیا تھا۔ میں نے سُنا ہے ولایت میں اور نیز اور بہت سے ملکوں میں بازار اُوپر سے پٹے ہوتے ہیں۔ اگر یہ چاروں سڑکیں وہاں کی طرح پاٹ دی جائیں اور ساری چھت میں نقش و نگار بنا دیے جائیں تو کیسا ہے؟
جہاں پناہ: پٹے ہوئے بازار ان ملکوں میں اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ برف باری اور برسات کی کیچڑ سے محفوظ رہیں۔ پھر وہاں سردی ایسی ہوتی ہے کہ ٹھنڈی ہوا سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں اگر ایسا بازار بنایا جائے تو ہوا کے رُکنے سے گھٹن ہو جائے گی اور پھر روشنی بھی کم رہے گی۔ روشندانوں کے رکھنےپر بھی اتنی روشنی نہ ہوگی کہ ہر چیز اپنی اصلی حالت میں نظر آ سکے۔ اور چونکہ یہاں زیادہ تر جواہرات کی خرید و فروخت منظور ہے اس لیے روشنی کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں نہ برف باری کا اندیشہ ہے اور نہ بہار کے موسم میں بارش کا خیال۔ اس لیے یہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ کھلا بازار رہے جس میں ہوا کے جھونکے چلتے ہوں۔ لیکن اگر تمھیں وہی پسند ہے تو میں حکم دیے دیتا ہوں کہ چاروں سڑکوں کی چھتیں پٹوا دی جائیں۔
تاج محل: نہیں میں آپ کے بتانے سے سمجھ گئی۔ واقعی اگر چھتیں پاٹی گئیں تو لوگوں کو تکلیف ہوگی اور اندھیرا ہو جانے سے جو زیب و زینت کا سامان کیا گیا ہے ماند نظر آئے گا۔ مگر ان باتوں سے مجھے دو باتوں کا اور خیال آیا۔ اول تو یہاں کوئی حوض نہیں ہے، حالانکہ بہت سے حوٖضوں کی ضرورت ہے۔ جو لوگ یہاں آ کے رہیں گے پانی کہاں سے لائیں گے؟ اور بہشتیوں کے دور سے لانے میں پورا مطلب نہ نکلے گا۔ دوسرے یہ کہ جو عورتیں یہاں آ کے ٹھہریں اور رہیں گی اُن کی دلچسپی اور تفریح کے لیے ایک گلباغ بھی بنا دیا جائے تاکہ مختلف اوقات میں وہاں جا کے بیٹھیں اور ملیں جلیں۔ آپ کا جو مقصد ہے کہ عورتوں میں میل جول بڑھے وہ ایک پُر فضا باغ ہی سے پورا ہو سکتا ہے۔
جہاں پناہ: بے شک دونوں باتیں بہت ضروری ہیں۔ تو چلو ہر طرف چکر لگا کر غور کروں کہ حوض کہاں کہاں بنائے جائیں اور باغ کس جگہ ہو۔
اس کے بعد بادشاہ اور تاج محل درمیان والی کوشک کے پاس آئے اور جہاں پناہ نے چاروں طرف نظر دوڑا کے کہا: “اس کوشک کے گرد میدان کافی ہے اور سڑکیں بھی چوڑی ہیں۔ لہذا میری رائے میں کوشک کے گردا گرد ایک گول حلقہ چار ہاتھ چوڑی خوبصورت نہر کا بنا دیا جائے اور چاروں طرف ہر سڑک کے مقابل نازک اور خوبصورت پل تعمیر کر دیے جائیں۔ حوض کے کنارے کنارے دونوں جانب مصنوعی پھولوں کے گلدستے رکھ دیے جائیں اور پلوں کے دونوں طرف نہایت آبدار برنجی کٹہرے ہوں۔ اسی طرح چاروں سڑکوں کے بیچ میں بھی سو سو قدم کے فاصلے پر مُدوّر حوض جن کا قطر دو گز سے زیادہ نہ ہو سنگ مرمر کے بنا دیے جائیں اور اُن کے اوپر خوبصورت اور نفیس بُرج قائم کر دیے جائیں۔
تاج محل: ایسا ہوا تو کیا کہنا۔ بازار کی رونق دوبالا ہو جائے گی۔ یہ کوشک کے گرد والا حوض اور اس کے پُل عجب شان دکھائیں گے۔ پھر سڑکوں کے درمیان میں جو حوضوں کے بُرجوں کا سلسلہ قائم ہوگا، بازار میں نہایت اعلیٰ درجہ کا لطف پیدا کر دے گا۔
جہاں پناہ: مگر باغ کا معاملہ دشوار ہے۔ اول تو اس کا جلدی تیار ہو جانا مشکل ہے۔ دوسرے اس عمارت کے تعمیر ہونے سے پہلے اس کا خیال نہیں آیا۔ تاہم تمھاری خوشی کے لیے میں یہ کروں گا کہ چاروں سڑکوں میں ہر ایک سے دوسری تک جو مثلث میدان چھوٹا ہے اُس میں زمین کو مسطح کرا کے ہری دوب لگا دوں گا، تاکہ پُر فضا مرغزار بن جائے۔ جہاں جہاں بن پڑے پھولوں کے درخت بھی لگا دیے جائیں۔ جابجا اُس میں حوض بنا دیے جائیں جن میں فوارے چھوٹا کریں۔ اس طرح چار طرف چار پُر فضا سبزہ زار ہوں گے جو بہت اچھی تفرج گاہ کا کام دیں گے۔ ان میں بیٹھنے کے لیے متعدد وسیع چبوترے بنوا کے ان پر قالینوں کا فرش بچھوا دوں گا تاکہ وہاں عورتیں سیر کی غرض سے آ کے ایک دوسرے سے ملیں، باہم ربط و ضبط پیدا کریں۔
تاج محل: یہ باغ سے اچھا رہے گا۔ اور عورتیں اس کی سیر میں باغ سے زیادہ خوش ہوں گی مگر چار مرغزاروں کے مَیں خلاف ہوں۔ اس لیے کہ اُن کی وجہ سے صحبت منتشر ہو جائے گی اور میں چاہتی ہوں کہ سب ایک ہی جگہ جمع ہوں۔
جہاں پناہ: ایک ہی سہی مگر اس سے باغ کی عمارت کا نقشہ کانا رہے گا۔ کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ چار مرغزاروں کو چار گروہوں کی عورتوں میں تقسیم کر دیا جائے؟ دو مسلمان بیگموں کے لیے ہوں اور دو ہندو خاتونوں کے لیے۔ اور ہر ایک کی دو سیر گاہوں میں سے ایک معزز عورتوں کے لیے ہو اور ایک عام عورتوں کے لیے۔
تاج محل: اس تفریق کے میں خلاف ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہندو مسلمان اور ادنیٰ اعلیٰ کا امتیاز نہ رہے۔ ہندو عورتیں مسلمان عورتوں کے پاس اور غریب عورتیں امیر زادیوں کے پہلو میں بیٹھیں۔ یہ آپ کا دربار نہیں ہے بلکہ عام لوگوں کی محفل ہے جس میں کوئی اختلاف و امتیاز نہ ہونا چاہیے۔ تاکہ سب ایک دوسرے سے مانوس ہوں اور یہاں سے جاتے وقت باہمی محبت و ہمدردی کا جوش دل میں لے کے جائیں۔
جہاں پناہ: بہتر۔ ایک ہی تفرج گاہ رکھی جائے گی۔
تاج محل: اور میں روز دو گھڑی دن رہے خود اس میں آ کے بیٹھوں گی اور ہندو مسلمان بیویوں کی ان کے مذاق کے مطابق ضیافت کیا کروں گی، ادنیٰ و اعلیٰ سب سے ملوں گی۔ ایک ایک کے پاس جا کے اُس کی مزاج پُرسی کروں گی اور سب کو باہمی محبت کا سبق دوں گی۔
جہاں پناہ: اگر تمھارا یہ ارادہ ہے تو تمھارا یہ اخلاقی مدرسہ ملک کے لیے بہت ہی مفید ثابت ہوگا۔
اس بازار کی جوا بھی سنسان پڑا تھا خوب سیر کر کے اور ہر ہر چیز پر غور کر کے جہاں پناہ اور بادشاہ بیگم سوار ہو کر اپنے محل میں آئے اور جو امور طے ہوئے تھے اُن کا اُسی وقت حکم جاری کر دیا گیا۔ اور اس تاکید کے ساتھ کہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینے کے اندر حوض، اُن کے فوارے، پل، حوضوں کے بُرج اور مرغزار تیار ہو جائیں۔ کثرت سے مدد لگا دی جائے تاکہ سب کام اس مدت سے پہلے ہی انجام پا جائیں۔
ساتھ ہی اعلان کر دیا گیا کہ آج سے ڈیڑھ ماہ بعد عہد شاہجہانی کا مینا بازار کھل جائے گا۔ اسی اعلان میں اُس کے تفصیلی مراتب بیان کر دیے گئے اور ہر ادنیٰ و اعلیٰ کو امید دلائی گئی کہ ملکۂ زمانہ تاج محل ممتاز الزمانی نواب ارجمند بانو بیگم خاص اپنے ہاتھ سے اس بازار کا افتتاح کریں گی اور تمام اعلیٰ و ادنیٰ عورتیں جو شریک ہوں گی اُن سے روزانہ ملیں گی اور اپنی شفقتوں سے سرفراز فرمائیں گی۔ ہرکارے دُور دُور کے شہروں میں اس اعلان کے ساتھ دوڑا دیے گئے کہ شہری و دیہاتی سب کو اس شاہی بازار میں عزت و مساوات سے جگہ دی جائے گی اور غریب بیویوں کی امیر زادیوں سے زیادہ خاطر داشت کی جائے گی۔ اعلان کو پندرہ بیس ہی روز گذرے ہوں گے کہ ہزارہا رتھیں، محملیں، سکھ پالیں اور فنسیں دھوم دھام اور کر و فر سے دہلی کی طرف آنے لگیں اور دولت مغلیہ کے دار السلطنت میں عورتوں کا اتنا مجمع ہوگیا کہ کبھی نہیں دیکھا گیا تھا اور نہ تاریخ میں سُنا گیا تھا۔
چوتھا باب
مخالفتیں اور اعتراضات
بازار کی تکمیل کے لیے جو مدت مقرر کی گئی تھی پوری ہو گئی اور اس اثنا میں بعض معزز ہندو فرماں رواؤں کی طرف سے نواب تاج محل کی خدمت میں اس مضمون کی عرضداشتیں پیش ہوئیں کہ “ہندو رانیاں اور تمام معزز و شریف عورتوں کو شرکت میں مطلق تامل نہیں، اس لیے کہ مینا بازار کی شرکت اُن کے لیے باعث عزت و سرفرازی ہے اور حضرت عرش آشیانی اکبر بادشاہ انار اللہ برہانہ کے عہد سے اُنھیں محلات عصمت آیات سے ملنے میں کوئی تامل بھی نہیں رہا۔ چنانچہ اُس عہد دولت مہد کے مینا بازار میں انھیں شرکت کا فخر بھی حاصل ہو چکا ہے مگر یہ مینا بازار چونکہ بڑے اعلیٰ اور وسیع پیمانے پر کھولا جائے گا اور اس میں ہر درجے اور ہر طبقے کی مسلمان خاتونیں شریک ہوں گی، لہذا انھیں اندیشہ ہے کہ کوئی بات ان کی شان اور ان کے رتبے کے خلاف نہ ہو۔ اُن کے اور مسلمان خاتونوں کے مذاق میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اُن کی زبان جُدا، وضع جُدا، مذہب جُدا، مذاق جُدا اور معاشرت جُدا ہے۔ جس طرح وہ مسلمان بیویوں کے آداب و اخلاق سے واقف نہیں ہیں، اُسی طرح مسلمان بیگمیں اُن کے آداب و اخلاق سے ناآشنا ہیں۔ ممکن ہے کہ دونوں کے باہمی میل جول میں کوئی ایسی بات پیدا ہو جو انھیں یا اُن کی وجہ سےمسلمان خاتونوں کو ناگوار گذرے۔
اس کے جواب میں ملکہ جہاں تاج محل صاحبہ کی جانب سے پورا اطمینان دلایا گیا اور پھر عام طور پر اعلان کر دیا گیا کہ اس مینا بازار کا مقصد اصلی یہ ہے کہ ہندو مسلمان بیویوں اور اعلیٰ و ادنیٰ عورتوں میں خلوص و محبت کے تعلقات بڑھیں اور سب عورتیں باہمی الفت اور ایک دوسرے کے حفظ مراتب کا خیال کرنا سیکھیں۔ ہندو رانیوں اور معزز بیویوں کے ساتھ بالکل برابری اور بہناپے کا برتاؤ ہوگا۔ اُن کی بود و باش اور اُن کی ضیافت کا اہتمام خاص اُن کے مذاق و رواج کے مطابق کیا جائے گا اور اس میں پوری کوشش صرف کر دی جائے گی کہ دونوں مذہبوں کی خاتونوں کے ساتھ اُن کے درجے اور رتبے کے مطابق سلوک ہو اور امیر زادیاں غریب عورتوں سے اپنی بہنوں کی طرح ملیں۔ ان باتوں کا خود حضرت ملکۂ آفاق بہ نفس نفیس شریک ہو کر اندازہ فرمائیں گی۔ مگر ہاں ہندو رانیوں سے امید کی جاتی ہے کہ نہ اپنی قوم کی غریب بیویوں کو سُبکی و حقارت کی نگاہ سے دیکھیں نہ دوسری قوم کی عورتوں کو، اس لیے کہ ہمارا اصلی مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے سارے رہنے والوں کو جہاں تک بنے ایک قوم اور ایک درجے کا بنا دیں۔
اس اطمینان بخش جواب نے سارے ہندو مسلمانوں کو اطمینان دلا دیا۔ خصوصاً اُن قصباتی مسلمان گھرانوں کو جو اپنی عورتوں کے کسی غیر خاندان میں چلے جانے کو بھی اپنی سُبکی و بے عزتی تصور کرتے ہیں۔ اگرچہ ایسے خاندانوں کی بہت ہی کم عورتیں اس بازار میں آئیں مگر ان کے لیے بھی اعتراض کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
پھر بعض مذہبی لوگوں اور پُرانی وضع کے نباہنے والوں کی طرف سے اعتراض ہوا کہ “عہد اکبری کےمینا بازار کی طرح اس میں بھی عورتوں کی بے پردگی ہوگی۔ اگر بادشاہ اور اُمرا وغیرہ بازار کے اندر نہ جاتے تو مناسب تھا۔ اس کا جواب حضرت بادشاہ بیگم کی طرف سے یہ دیا گیا کہ “مینا بازار میں کسی کی پردہ دری ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ حضور شاہنشاہ کی رونق افروزی کے وقت جو بیویاں چاہیں اپنے چہروں پر نقاب ڈال لیں، کوئی انھیں نقاب اُلٹنے پر مجبور نہ کرے گا اور دین اسلام میں بس اتنا ہی پردہ ہے۔ حضرت رسول خدا صلعم کے عہدِ ہُمایوں میں معزز و شریف بیویاں مسجدوں میں جاتی تھیں، عید گاہوں میں پہنچتی تھیں، سودے سُلَف اور ضروری کاموں کے لیے باہر نکلتی تھیںا ور بعض بہادر بیویاں جہاد میں کفار سے مقابلہ کرتی تھیں۔ اگر مروجہ پردہ ہوتا تو ان میں سے کوئی کام بھی نہ ہو سکتا۔ اگرچہ حضرت ظل اللہ جہاں پناہ تمام عورتوں کے محرم سمجھے جاتے ہیں، ملک کی تمام عورتیں یا اُن کی مائیں ہیں یا بہنیں ہیں یا بیٹیاں؛ مگر مینا بازار چونکہ حضور رَس اہل دربار ہی کے لیے خاص نہیں ہے، اس لیے اس میں یہ قاعدہ اٹھا دیا گیا اور تمام شریک ہونے والیوں کو اختیار ہے کہ چاہیں اپنا چہرہ کھولیں چاہیں نہ کھولیں۔ مگر اتنی اصلاح کے ساتھ کہ انھیں برقع کی اجازت نہیں ہے۔ صرف نقاب چہرے پر ڈال لیں جو نہایت پُرتکلف اور زرتار ہوگی اور بازار ہی میں درخواست کرنے پر حضور ملکۂ جہاں کی سرکار سے اُن کو عطا ہوگی”۔
مگرعلما بھلا کب خاموش رہنے والے ہیں۔ انھوں نے پھر اعتراض کیا کہ “ایسی زرتار و پرتکلف نقابیں تو زیور یا زینت کا کام دیں گی اور قرآن مجید میں عورتوں کو اپنی زینت ہی کے چھپانے کا حکم ہے۔ اس نے سارے شہر میں پھر ایک جھگڑا پیدا کر دیا۔ گھروں میں مینا بازار میں جانے کے جائز یا ناجائز ہونے پر بحثیں ہونے لگیں۔ صاحب علم اور جاہل ہر طبقے کے مردوں میں مباحثے ہونے لگے اور انجام یہ ہوا کہ بہت سی عورتیں جو آنے پر آمادہ تھیں، اُن کے ارادے بھی متزلزل ہو گئے۔
محل کی ملازمہ عورتوں سے یہ خبر نواب تاج محل کے کانوں تک پہنچی اور انھوں نے جیسے ہی حضرت جہاں پناہ محل میں آئے اُن سے کہا “وہ جو میں نے کہا تھا کہ اس بازار میں عورتیں ہی بیچنے والی اور عورتیں ہی خریدار ہوں وہ آج سارے شہر کی عورتوں کی زبان پر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ علما کہتے ہیں زرتار نقاب بھی عورتوں کی زینت میں داخل ہے جس کو چھپانا چاہیے۔ اور اس کا اثر یہ ہوا کہ بہت سی پابند شرع عورتیں مینا بازار میں آنے کے خلاف ہو گئیں”۔
جہاں پناہ: یہ بُرا ہوا مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ علما کو باوجود ہر طرح کی بُری بھلی باتیں گوارا کر لینے کے اس پر اعتراض کرنے سے کیا ملا گیا؟
تاج محل: اس کو علما ہی سے بُلوا کے دریافت کیجیے۔ مگر میں بھی انھیں کے کہنے کو سچ جانتی ہوں اور فرض کیجیے انھوں نے کسی امر میں سُستی کی تو کیا ضرور ہے کہ اس میں بھی سُستی کریں۔
جہاں پناہ: میں تو اس معاملے میں اُن سے بحث کروں گا۔
تاج محل: تو اور عالموں کے بلانے سے پہلے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محل کے میر سامان علاء الملک تولی کو اندر بُلوا کے گفتگو کیجیے۔ وہ بہت بڑے عالم و فاضل اور علامہ دہر ہیں۔ میں بھی چلمن کی آڑ میں بیٹھ کے سنوں گی۔ دیکھوں وہ آپ کوقائل کرتےہیں یا آپ اُن کو۔
جہاں پناہ: بہتر، میں اُن سے گفتگو کرنے کو تیار ہوں۔ اگرچہ میں اُن کے برابر عالم و فاضل نہیں ہوں۔ مگر اس مسئلہ میں اکثر عالموں اور فقیہوں سے خوب خوب بحثیں کر کے خوب سمجھ گیا ہوں کہ شرع کا کیا منشا ہے؟
اُسی وقت بادشاہ بیگم کے حکم سے ایک خواص دوڑی کہ علاء الملک کو بُلا لائے۔ وہ محل کے مردانے حصے میں ہر وقت موجود رہتے تھے۔ حکم ہوتے ہی آ گئے۔ ایک صحنچی میں چلمن چھوڑ دی گئی۔ بادشاہ بیگم اُٹھ کے اُس کی آڑ میں ہو گئیں، محل میں مردانہ ہوگیا۔ دو چار خواصیں چلمن کے پاس اُدھر جا کے کھڑی ہوئیں کہ ملکۂ جہاں کے احکام بجا لانے کے لیے تیار رہیں۔
پردے کا بخوبی انتظام ہو جانے کے بعد مُلا علاء الملک اندر بُلائے گئے جنھوں نے سامنے آتے ہیں حسب آداب شاہی جھک کے سات سلام کیے اور ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو گئے۔ جہاں پناہ نے اپنے قریب ایک چوکی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا: “میں نے اس وقت تم کو ایک شرعی مسئلہ پوچھنےکےلیے بلایا ہے۔مگر شرط یہ ہے کہ آزادی سے گفتگو کرو اور جو سچ ہو صاف کہہ دو۔ اگر میں مخالفت کروں تو تم کو مروت یا ادب کے خیال سے موافقت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مُلا صاحب: حضرت جہاں پناہ کے حکم کے بموجب فدوی آزادی سے گفتگو کرے گا۔
جہاں پناہ: تم کو معلوم ہے کہ عنقریب ملکۂ زمانہ ایک مینا بازار کھولنے والی ہیں۔ اگرچہ اُس میں پردے کا یہ انتظام کر دیا ہے کہ جو عورت سامنے آنا پسند نہ کرے ایک زرتار نقاب چہرے پر ڈال لے۔ مگر سُنتا ہوں کہ علما اُس کے بھی خلاف ہیں اور اس کو ناجائز بتاتے ہیں۔
مُلا صاحب: میں اس اعتراض کو سُن چکا ہوں۔ اصلی فتوی دینے والے مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی ہیں۔ اُن کا دعوی ہے کہ زرتار نقاب بجائے خود زینت ہے اور قرآن مجید میں عورتوں کو اپنی زینت ہی کے چھپانے کا حکم ہے۔
جہاں پناہ: تمھارے زینت کے ساتھ ہی کہنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اور کسی چیز کے چھپانے کا حکم قرآن مجید میں نہیں ہے۔
مُلا صاحب: بے شک قرآن مجید میں اتنا ہی ہے۔
جہاں پناہ:تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ عورتیں اپنے کپڑوں اور اپنی نقابوں کو چھپائیں اور اپنے چہروں کو کھلا رکھیں۔ مولانا اس کا فتوی دیں گے؟ کیونکہ پھر عورتوں کو اختیار ہو جائے گا کہ آزادی سے ہر جگہ آیا جایا کریں۔
ملا صاحب: بے شک یہ نتیجہ نکلتا ہے اور اسی وجہ سے اگلے اور پچھلے تمام مفسرین اور فقہا و محدثین نے یہ رائے قرار دی ہے کہ قرآن پاک میں “زینت” کا جو لفظ آیا ہے، اُس سے مُراد “محل زینت” ہے یعنی وہ حصہ جسم چھپائیں جس کی زینت کی جاتی ہو۔
جہاں پناہ: کیا اس تاویل پر اگلے پچھلے تمام علما کو اتفاق ہے؟ اور اسی پر فقہا کا فتوی ہے؟
ملا صاحب: بے شک سب کا اتفاق ہے اور اسی پر سب کا عملدرآمد بھی ہے۔
جہاں پناہ (ذرا مسکرا کر): تو اس تاویل سے یہ نتیجہ نکلا کہ از روئے کلام اللہ عورتیں اپنے ان اعضا کو چھپائیں جن کی زینت کی جاتی ہے۔ یہی ہے نہ؟
مُلا صاحب: بالکل یہی۔
جہاں پناہ: تو پھر مولانا عبد الحکیم صاحب نقاب کی کیوں ممانعت کرتےہیں؟ جس آیت کی بنا پر وہ یہ حکم دیتے ہیں وہ تو اعضا سے متعلق ہو گئی۔ اب خود زینت کی چیز یا سامان زینت کا چھپانا وہ کس آیت سے ناجائز ثابت کرتے ہیں؟
ملا صاحب (ذرا پریشان و متردد ہو کر): حضرت ظل سبحانی کا اعتراض بالکل بجا و درست ہے۔ مگر اس مسئلے کی بنا صرف نص قرآنی پر نہیں ہے بلکہ احادیث، تصریحات سلف خصوصاً قرون اولیٰ، علمائے متاخرین کے فتووں اور رواج پر ہے۔
جہاں پناہ: تم نے اپنے لیے بڑی بھاری گنجائش نکال لی لیکن یاد رکھو کہ تمھاری سندوں کے اس ذخیرے میں اختلاف بھی بہت ہوگا جیسا کہ فتاووں اور اقوال سلف میں اکثر ہوا کرتا ہے۔
ملا صاحب: اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر طریقہ یہ ہے کہ علمائے زمانہ اُس ذخیرۂ اسناد پر غور کر کے جس نتیجے کو پہنچیں اور فتوی دیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔
جہاں پناہ: میں متفق علیہ مسائل میں اس اصول کو مان لوں گا۔ لیکن اگر باہم اختلاف پڑے تو اُس وقت اس سے مفر نہ ہوگا کہ قرآن و حدیث کی طرف رجوع کیا جائے۔ خود خدائے تعالیٰ فرماتا ہے فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ (اگر تم میں کسی معاملے میں نزاع پیدا ہو تو خدا و رسول کی طرف رجوع کرو)۔ اس مسئلہ میں چونکہ بعض اہل علم مولانا کے خلاف بھی ہیں لہذا اب تم کو یا ان کو قرآن و حدیث سے دلیل لانی پڑے گی۔ بغیر اس کے کچھ فرض نہیں ہے کہ ہر شخص آپ کے فتوے کو مانے اور آپ کے کہنے پر عمل کرے۔
ملا صاحب: مگر عوام الناس اپنے زمانے ہی کے علما کی پیروی پر مجبور ہیں۔ یہ فقہ کا اصولی مسئلہ ہے کہ “العامی لا مذہب لہ” (عام آدمی کا کوئی مذہب نہیں)۔
جہاں پناہ: اس صورت میں کہ کسی دوسرے عالم کو اختلاف نہ ہو۔ لیکن اگر علما میں اختلاف ہو تو عام لوگوں کے لیے جائز ہے کہ جس کی پیروی چاہیں اختیار کر لیں۔ اس معاملے میں علمائے دہلی نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ اُن میں سے کسی کو بھی اس مینا بازار کے جائز ہونے میں شک نہیں۔ صرف ملا عبد الحکیم صاحب اور چند اُن کے ہم خیالوں نے اعتراض کر دیا تو عام لوگوں کو حق حاصل ہے کہ چاہیں ملا صاحب کی پیروی کریں اور چاہیں دیگر علما کے کہنے پر عمل کریں۔
ملا صاحب: حضرت کا فرمانا بالکل درست اور شرعاً قابل تسلیم ہے۔ میں اس وقت مولانا عبد الحکیم صاحب کی نیابت کر رہا تھا اور دل میں کہتا تھا کہ جب ایک بزرگ عالم نے کوئی فتوی دے دیا تو اُس سے اختلاف کرنا خلاف مصلحت ہے۔ لیکن بندگان خسروی نے بحث کو کُرید کے یہاں تک پہنچا دیا تو اب اپنا اصلی مسلک بھی ظاہر کیے دیتا ہوں۔ مجھے خود اس مسئلہ میں مولانائے سیالکوٹی سے اختلاف ہے۔ اگر مینا بازار میں یہ ہوتا کہ عورتیں بے برقع و نقاب مردوں کے سامنے آئیں تو بے شک ناجائز ہوتا۔ نقاب کی اجازت دیے جانے کے بعد چاہے وہ کیسی اور کس قسم کی ہو اس بازار کے جواز میں کسی کو شک نہ کرناچاہیے۔
ملا علاء الملک کی یہ تقریر سُن کے جہاں پناہ کو بڑی مسرت ہوئی اور فرمایا: “اگرچہ اس مسئلہ میں بعض اہل علم کے ساتھ میں غور کر چکا ہوں مگر تم سے بحث کرنے کی لیاقت مجھ میں نہیں ہے۔ تم عالم و فاضل ہو، تمام علوم دینیہ کا مطالعہ کر چکے ہو، اور میں تمھارے مقابل جاہل بحت۔ سچ بتاؤ میں نے اس بحث میں کوئی بےجا بات تو نہیں کہی؟
ملا صاحب: حضور نے جو کچھ فرمایا بالکل بجا ارشاد ہوا اور ایسی معقول بحث کی کہ مجھے قائل کر کے اپنا اصلی مسلک ظاہر کرنے پر مجبور کر دیا۔
جہاں پناہ: تو پھر ایک کام کرو۔ اس مسئلہ کا ایک استفتا لکھ کر اس کا جواب اپنے فیصلے کے مطابق تم بھی لکھو اور دہلی کے تمام علما سے بھی اُس پر دستخط کراؤ۔ پھر اُسے عام طور پر شائع کر دو اور اس کی نقلیں جابجا شاہراہوں اور گلیوں میں لگا دی جائیں تاکہ عوام کے دلوں سے مینا بازار کی شرکت کے ناجائز ہونے کا خیال دور ہو۔
ملا صاحب: حضرت ظل السبحان کے حکم میں مجھے کوئی عذر نہیں ہے۔ تاہم اگرچہ کوئی عذر نہیں ہے لیکن اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوتی کہ علمائے اسلام میں تفرقہ نہ پڑے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
جہاں پناہ: وہ کون سی صورت ہے؟
ملا صاحب: ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ نقابیں زرتار یا رنگین ہوں۔ اعلان کر دیا جا سکتا ہے کہ عورتیں جس قسم کی سادی یا پُرتکلف نقابیں چہروں پر ڈال کے آئیں آ سکتی ہیں اور زرتار نقابوں کی جو قید لگائی گئی تھی اور اُن کی تیاری کے لیے جو خاص اہتمام ہونے والا تھا ملتوی کیا گیا۔
جہاں پناہ: ہے تو آسان اور معقول بات مگر میرا جی نہیں چاہتا کہ ملکۂ زمانہ جو حکم جاری کر چکیں اُس میں رد و بدل کیا جائے۔
قبل اس کے کہ ملا صاحب کچھ کہیں ایک خواص نے سامنے آ کے دست بستہ عرض کیا: “حضرت ملکہ زمانہ ارشاد فرماتی ہیں کہ مجھے ملا صاحب کی رائے سے اتفاق ہے۔ رعایا کے اطمینان کے لیے میں اپنے ہر حکم کے بدلنے کو تیار ہوں۔ اگر حضرت جہاں پناہ کی مرضی کے خلاف نہ ہوتو اعلان کر دیا جائے کہ کسی خاص قسم کی نقاب کی قید نہیں۔ عورتیں جیسی نقابیں چہروں پر ڈال کے چاہیں آئیں۔
یہ سُن کے جہاں پناہ نے فرمایا: “جب انھیں منظور ہے تو مجھے بھی کچھ عذر نہیں۔ لہذا جیسا وہ فرمائیں کل ہی سارے شہر میں شائع کر دیا جائے”۔
ملا صاحب: حضرت ملکہ عالم کی اس بے نفسی، رعایا نوازی و دینداری دیکھ کر میں حضرت خدائے عز و جل کا ہزار ہزار شکر کرتا ہوں۔ اگر جناب عالیہ پہلے حکم کے برقرار رکھنے اور حضرت ظل اللہ کے ارشاد کے مطابق مخالفانہ فتوی شائع کرنے پر اصرار فرماتیں تو انھیں اس کا حق تھا اور ان کے لیے جائز بھی تھا۔ مینا بازار کامیابی سے ہوتا، لوگوں کو اطمینان ہو جاتا اور عورتیں وہی خوبصورت نقاب چہروں پر ڈالتیں جو حضور کے شوق کے مطابق تھی۔ مگر علما میں تفرقہ پڑ جاتا اور آخر میں اس سے شرع شریف میں رخنہ پڑتا۔ الحمد للہ کہ اسلام سے یہ مصیبت دُور ہو گئی۔
اب ملا علاء الملک تولی خلعت و انعام دے کر رخصت کیے گئے اور ان کے جاتے ہی نواب ممتاز الزمانی پھر آ کے حضرت جہاں پناہ کے پاس بیٹھ گئیں ا ور اپنی عادت کے خلاف ہنس کے کہنے لگیں: “حضرت نے تو آج بڑے بڑے علم والوں کی طرح گفتگو کی اور بحث میں عالموں کے کان کاٹ لیے۔ میں آپ کو اتنا بڑا عالم نہ سمجھتی تھی۔”
جہاں پناہ: اور جو تم سمجھتی تھیں وہی صحیح بھی ہے۔ میں نے کم سنی میں عربی علموں کو بخوبی حاصل کیا تھا۔ تفسیر و حدیث و فقہ کی درسی کتابیں بھی پڑھی تھیں، اس لیے مسائل دینی کی بعض اصولی باتیں آج تک ذہن میں باقی ہیں۔ ان دینی علموں کو چھوڑ کے فنون جنگ میں ایسا پھنسا کہ جو کچھ سیکھا تھا بھول گیا۔ علما درسیات پڑھنے کے بعد بڑی بڑی کتابوں کا مطالعہ کر کے تبحر پیدا کرتے ہیں۔ مجھے اس کی کبھی فرصت نہیں ملی۔ اس لیے میں ان لوگوں سے کبھی کسی مسئلہ میں بحث نہیں کرتا کیونکہ ان کے مقابل طفل مکتب ہوں۔ لیکن اس مسئلہ میں محض تمھارے شوق کے خیال سے مدت کی چھوڑی ہوئی کتابوں کو منگوا کے پھر پڑھا، دربار کے ذی علم لوگوں سے بحثیں کیں اور خیال کیا کہ اب میں اس مسئلہ میں بحث کر لوں گا۔ اور اسی کا نتیجہ تھا کہ علاء الملک سے ایسی بحث کی کہ انھیں خاموش ہو جانا پڑا۔
تاج محل: خاموش ہونا کیسا، حضرت نے تو ایسا قائل کیا کہ انھیں جواب نہ بن پڑتا تھا اور آخرمیں آپ کا کلمہ پڑھنے لگے۔
جہاں پناہ: میرا یہ خیال تو نہیں ہے کہ وہ مجھ سے قائل ہو گئے اور میرے بحث کرنے سے ان کی راے بدل گئی۔ اصل میں وہ ملا عبد الحکیم صاحب کے فتوے کی مخالفت کرنا نہ چاہتے تھے اور ان کی یہ بات مجھے بہت پسند آئی کہ عالموں میں اختلاف ہونے کو دین کا رخنہ خیال کرتے ہیں۔ وہ اگرچہ اپنے ذاتی فیصلے میں ملا صاحب کے خلاف تھے مگر میرے سامنے انھیں کی جنبہ داری کر رہے تھے۔ پھر جب میں نے اصولی الزام دیے اور گفتگو کی گنجائش نہ باقی رکھی تو اپنا مذہب صاف ظاہر کر دیا۔ یہ نہ سمجھو کہ میں نے قائل کر کے ان کی رائے بدل دی۔
تاج محل: چاہے جو ہو مگر مجھے تو یہی نظر آیا کہ آپ نے قائل کر کے انھیں اپنے موافق بنا لیا۔
جہاں پناہ: اور تم نے بھی بہت اچھا کیا کہ سادی نقاب منظور کر کے جھگڑا مٹا دیا۔
تاج محل: جی تو چاہتا تھا کہ آپ ہی کے فتوےپر عمل کر کے پہلا اعلان قائم رکھوں مگر پھر دل نے یہ کہا کہ یہ دین و ایمان کا معاملہ ہے، اس میں ضد نہ کرنی چاہیے۔
جہاں پناہ: یہی کرنا چاہیے۔ میں نے بھی اگرچہ صرف تمھاری دلداری کے خیال سے تمھارے حکم میں ترمیم نہیں پسند کی تھی مگر جب خود تم کو اس معاملے میں بے نفس پایا تو فوراً اس خیال سے باز آ گیا۔ خیر اب کل سادی نقابوں کا اعلان کر دیا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی شائع کر دیا جائے کہ آئندہ جمعہ کو بعد نماز جمعہ مینا بازار کا افتتاح ہوگا۔ اس کے متعلق جو اصلاحیں کی گئی تھیں وہ بھی پوری ہو گئیں۔ میں پرسوں دیکھ آیا کہ سب چیزیں تمھاری مرضی کے موافق مکمل ہو گئیں اور کسی بات کی کسر نہیں ہے۔ کل تم بھی سوار ہو کے دیکھ آنا۔ جمعہ کو چھ دن باقی ہیں۔ اگر تم کوئی معمولی رد و بدل چاہوگی تو وہ بھی ہو سکتا ہے۔
تاج محل: کل میں ضرور جاؤں گی اور جہاں آرا و روشن آرا کو بھی لیتی جاؤں گی۔
جہاں پناہ: جہاں آرا کو ضرور لے جانا۔ وہ زہد و عبادت اور ریاضت و نفس کشی میں اس قدر منہمک ہو گئی ہے کہ دنیوی کاموں میں اس کا بہت کم دل لگتا ہے۔ مگر شاہزادیوں کو دین کے ساتھ دنیا کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔
تاج محل: بے شک خانوادۂ چشت میں مرید ہو کر اس میں بہت بے نفسی آ گئی ہےمگر اتنا نہیں کہ جائز سیر و تفریح سے بھی پرہیز کرے۔
اس گفتگو کے بعد بادشاہ نماز عشا کے لیے موتی مسجد میں تشریف لے گئے اور صحبت ختم ہوئی۔
پانچواں باب
مینا بازار کا افتتاح
موسم بہار کا درمیانی زمانہ ہے اور جمعہ کا دن، صاحب قران ثانی حضرت شاہجہاں بادشاہ غازی اپنی نئی تعمیر کی ہوئی عدیم المثا ل جامع مسجد سے نماز پڑھ کے ایوان شہر یاری یا قلعۂ سُرخ میں واپس تشریف لائے ہیں۔ آج مسجد میں خلقت کا اتنا ہجوم تھا کہ اس سے پیشتر نہیں دیکھا گیا تھا۔ اس لیے کہ دور دور کے صوبوں اور گرد کے قصبات و نواح سے تمام معزز خاندانوں کی خاتونیں مینا بازار کی شرکت کے لیے جو شہر میں آ گئی ہیں تو ان کے ساتھ مردوں کا بھی اتنا انبوہ کثیر جمع ہوگیا ہے کہ شہر کی آبادی دونی تگنی معلوم ہوتی ہے۔
اگرچہ پیشتر سے برابر اعلان ہوتا رہا تھا، مگر آج نماز جمعہ کے بعد پھر جامع مسجد میں ایک مؤذن نے بیرونی منبر اذا ن پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ آج ہی ہماری محذرۂ عظمیٰ ملکۂ زمانہ نواب ممتاز الزمانی بیگم صاحبہ اپنے مینا بازار کا افتتاح فرمائیں گی۔ تمام اعلیٰ و ادنیٰ خاندانوں کی عورتوں کو اُس میں شریک ہونا چاہیے۔ یہ زنانہ بازار عورتوں ہی کے فائدے اور اُن کی اخلاقی و معاشرتی اصلاح کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
نماز جمعہ کے بعد ہی باہر کے اور شہر کے تمام لوگ اُن سڑکوں پر جمع ہو گئے جدھر سے نواب ارجمند بانو بیگم اور اُن کی شاہزادیوں کی سواریاں بڑے شان و شکوہ اور کر و فر سے نکلنے والی تھیں۔ مینا بازار کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے آج سواری کے جلوس میں بھی بڑا اہتمام کیا گیا تھا۔ سواروں اور پیادوں نے نئی وردیاں پہنی تھیں اور خاص شاہی لشکر کے بعد صدہا زمیندار اپنی اپنی جمعیتوں اور اعزازی خصوصیتوں یعنی ہاتھیوں، میانوں اور ماہی مراتب وغیرہ کے ساتھ اپنے اپنے جھنڈے بلند کیے ہوئے جلو میں تھے۔
جس وقت تک وہ بازار میں پہنچی ہیں، سِوا خاص محل کی اہتمام کرنے والی عورتوں کے اور کوئی عورت سیر یا خریداری کے لیے اندر نہ جانے پائی۔ ہاں دکانیں سج گئی تھیں، اُن میں فروخت کے لیے مال تجارت مرتب ہوگیا تھا اور ماہ وَش بیچنے والیوں نے آ کے اس کو اپنے مذاق اور شوق کے مطابق آراستہ کر دیا تھا۔ پہر دن باقی ہوگا کہ ملکہ ممتاز الزمانی بیگم بازار میں داخل ہوئیں، تھوڑی دیر تک اپنی آراستہ و پیراستہ شاندار کوشک میں بیٹھ کے دم لیا۔ بلند اقبال دونوں شاہزادیاں بھی ان کے ساتھ تھیں۔ پھر اُٹھ کر انھوں نے کوشک کے گرد نہر کے حلقے اور پُلوں کو دیکھا۔ پھر بازار میں پھر کے ایک ایک دکان کی حالت و شان کو ملاحظہ کیا، حوضوں اور ان کے اوپر والے کلس دار بُرجوں کو دیکھا، بعد ازاں مرغزار میں تشریف لے گئیں اور متحیر تھیں کہ مہتممانِ تعمیر نے کتنی جلدی زمین کو مسطح کر کے اس پر ہری گھانس لگا دی اور اس تفرج گاہ کو کس خوش اسلوبی سے جنت اراضی بنا دیا ہے۔
خوبصورت و نازک اندام دکاندارنیوں میں سے اکثر ملکۂ زمانہ کے ہمراہِ رکاب تھیں۔ اسی تفرج گاہ کے ایک وسیع چبوترے پر صدر میں مسند بچھی تھی جس پر نواب ارجمند بانو بیگم بیٹھ گئیں اور ان کے داہنے بائیں دونوں شاہزادیاں جلوہ فرما ہوئیں۔ محتشم الیہا نے ان تمام عورتوں کو جو ساتھ تھیں بلا کے سامنے بٹھایا۔ بہت سی عورتوں نے ادب سے بڑھ کر نذریں دکھائیں مگر انھوں نے اُن بیویوں کی خوشی کے لیے نذر پر ہاتھ رکھ کے فرمایا: “خاتون یہ کوئی دربار نہیں، بلکہ ایک عام بازار ہے۔ یہاں ہم دکانداروں اور خریداروں کی حیثیت سے جمع ہوئے ہیں اور سب کا درجہ ایک ہے۔ محل میں آنا تو نذریں دکھانا، اس جگہ اس کی ضرورت نہیں۔ یہاں میں چاہتی ہوں کہ سب بیویاں آپس میں عزیزوں اور بہنوں کی طرح ملیں۔ درباروں میں یہ ہوتا ہے کہ امیروں کو غریبوں پر فوقیت ہوتی ہے مگر یہاں غریبوں کو امیروں پر فوقیت ہونی چاہیے۔ اس لیے یہاں امیر زادیوں کا فرض ہے کہ غریب بیویوں کا احترام کریں بجائے اس کے کہ اُن سے ادب و تعظیم کی امیدوار ہوں۔ میں روز دو گھڑی دن رہے یہاں آ کر بیٹھا کروں گی اور ادنیٰ و اعلیٰ عورتوں میں سے جو آئے گی اس سے بڑی خوشی اور مسرت سے ملوں گی اور اسی کی توقع آپ سب خاتونوں سے ہے کہ سب سے بہ لطف و محبت ملیں اور کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ میں نے اس بات کو خاص کر اس لیے بیان کیا کہ عورتوں خاص کر امیر زادیوں میں غرور و تبختر اور اِترا پن زیادہ ہوا کرتا ہے، تھوڑی عزت و دولت پر اترانے لگتی ہیں۔ یہ بہت بُری بات ہے اور اس بازار کا اصلی مقصد یہی ہے کہ یہ عیب عورتوں سے دور ہو اور بجائے اپنی عزت اپنے کپڑوں اور اپنے زیور پر اترانے کے دوسروں سے ملنا اور ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھیں۔ اب دیر ہوتی ہے اور ضرورت ہے کہ اسی وقت بازار کا افتتاح کیا جائے یعنی شہر کے خاص و عام کو اندر آنے کی اجازت دی جائے۔ میں اس رسم کے ادا کرنے کے لیے اپنے کوشک میں جاتی ہوں، اور آپ سب بیویاں اپنی اپنی دکانوں میں جا کے ٹھہریں اور جو عورتیں ان سے بہ اخلاق ملیں اپنا فروخت کا مال دکھائیں اور غریب و امیر کسی عورت کے ساتھ کوئی کج ادائی نہ کرے”۔
سب عورتوں نے ملکۂ جہاں کی عنایت کا شکریہ ادا کیا، وعدہ کیا کہ ان کے حکم کے خلاف نہ ہوگا اور وہ بازار کی تمام سیر کرنے والیوں سے بہ خندہ جبینی ملیں گی۔
اب ملکہ یہاں سے اُٹھ کر اپنی کوشک میں گئیں، تمام بیویاں جو موجود تھیں اپنی دکانوں میں گئیں اور فوراً حکم ہوا کہ بازار کا پھاٹک کھول دیا جائے اور جو خاتونیں آئیں ان کو آنے دیا جائے۔ پھاٹک پر ملکۂ جہاں کی بہت سی مصاحبیں اور وزرا و اُمرا کی بیویاں کھڑی ہو گئیں کہ جو عورتیں آئیں ان کو بہ اخلاق شاہی کوشک کی طرف سے لا کے بازار میں لے جائیں۔
دروازے پر ہزارہا عورتوں کا ہجوم تھا۔ مختلف سواریوں پر معزز اور امیر عورتیں منتظر کھڑی تھیں کہ پھاٹک کھلتے ہی اندر داخل ہوں۔ اگر مردوں کا آنا ہوتا تو یقیناً اتنی کشمکش اور بھیڑ ہوتی کہ گذرنا دشوار ہو جاتا۔ مگر عورتیں چونکہ سب سواریوں پر تھیں اس لیے ان کے اُتارنے کا انتظام ایسی خوش اسلوبی سے کیا گیا کہ تکلیف دہ بھیڑ نہ ہونے پائی۔ جو عورت اترتی اس کو کوئی نہ کوئی معزز بیوی اپنے ساتھ کوشک شاہی تک لے جاتی جہاں ملکۂ ممتاز الزمانی بیگم زینے کے پاس کھڑی تھیں اور خود اپنی زبان سے خیر مقدم ادا فرماتیں۔
اسی طرح شام تک برابر عورتوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہا اور غروب آفتاب کے ساتھ ہی بازار کے ہر حصے میں نہایت ہی نفیس روشنی ہو گئی۔ جدھر دیکھیے فانوس اور کنول روشن تھے۔ ہر ہر حوض کے پاس مشعلچنیں مشعلیں روشن کیے کھڑی تھیں جو اکثر گذرنے والیوں کے ساتھ ہو کے بازار کی سیر کراتیں۔ دکانوں کے نہایت قیمتی جھاڑوں میں شمعیں روشن تھیں۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ سارے بازار میں دن ہوگیا ہے اور جدھر نظر اُٹھائیے عالم نور نظر آتا ہے۔ خاص کر شاہی کوشک میں جھاڑوں کے کنولوں میں کافوری شمعیں روشن تھیں جن کا جلوہ سب سے زیادہ پرلطف تھا۔
سارا بازار پرستان بنا ہوا تھا۔ اگر خریداری اور سیر کرنے والیاں خوب خوب بن سنور کے آئی تھیں تو دکاندارنوں کا حُسن و جمال اور بانکپن و انداز ان سے بڑھا چڑھا تھا۔ بازار نہ تھا، معلوم ہوتا کہ حُسن کی عظیم الشان نمائش گاہ ہے جس میں ہندوستان نے اپنا سارا حُسن و جمال لا کے جمع کر دیا ہے۔ گُل اندام نازنینیں ایسا بناؤ چناؤ کر کے آئی تھیں کہ دیکھنے والیاں محو حیرت ہو جاتیں۔ مشاطۂ فلک نے شاہدانِ فلک کے نکھار میں اور مشاطۂ بہار نے عروسانِ چمن کی زیب و زینت میں کبھی وہ کمال نہ دکھایا ہوگا جو زمین کی ہنرمند مشاطاؤں نے انسانی مہ جبینوں کا حُسن چمکانے میں یہاں دکھا دیا۔
بازار تو جواہر کا تھا مگر اس میں پُرشوق نگاہوں کے سامنے ایسا حُسن فروشی کا بازار قائم ہوگیا جس نے بازار مصر کو بے مزہ کر دیا، خوبصورت چہروں کی آب و تاب کے آگے قیمتی جواہرات جو بکنے آئے تھے ماند پڑ گئے اور کافوری شمعوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ ایسا مجموعہ حسن آج تک کبھی نہیں دیکھا گیا تھا اور ایسی ایسی عدیم المثال مہ وَشیں خرام ناز میں مصروف تھیں یا دکانوں کے اندر جواہرات کو پیش کر رہی تھیں کہ ملکۂ جہاں اور شاہزادیاں عش عش کر رہی تھیں۔
جب بازار عورتوں سے خوب بھر گیا تو ملکۂ جہاں نے پھر ایک چکر لگایا۔ اس مرتبہ وہ ہر ہر دکان پر زیادہ ٹھہرتیں اور ماہ طلعت بیچنے والیوں، اُن کے فروخت کے مال اور پری جمال گاہکوں کو غور سے دیکھتیں اور دل میں حیران ہوتیں کہ ہندوستان دولت و حُسن دونوں چیزوں سے کس قدر مالا مال ہے۔بیچنے والیاں مسکرا کے موتی پیش کرتیں تو ملکہ اس پس و پیش میں پڑ جاتیں کہ اُن کے دُرِ دنداں کو دیکھیں یا دُرِ شاہوار کو۔ وہ لعل بے بہا کو دکھاتیں اور ملکہ کی متحیر نظر بجائے اس لعل کے اُن کے لعلِ لب پر جم جاتی۔ کوئی مرصع زیور نہ تھا جو ناز آفرینوں کے چہرے کی آب و تاب کے سامنے ماند نہ پڑ جاتا ہو۔
آخر ملکہ بازار کی خوب سیر کر کے اور ایک ایک دکاندار نازنین اور سیر کرنے والی پری وَش سے مل کے تھکی ہوئی اپنی کوشکِ ناز میں واپس آئیں۔ ساتھ والیوں نے دیکھا کہ کسی قدر خاموش ہیں مگر کسی کی مجال تھی کہ اس کا سبب پوچھتا۔ اُن کے دل پر اس بازار نے عجیب اثر ڈالا۔ وہ دل میں کہہ رہی تھیں کہ “اس بازار حُسن کو اُن کے صاحب تاج و سریر شوہر نے دیکھا تو خدا ہی ہے جو دل ہاتھ میں رہے اور نیت ڈانوا ڈول نہ ہو جائے۔ عورتیں جب ان خوبرو پری جمالوں کو دیکھ کے حیران ہیں تو مردوں کا دل کیسے قابو میں رہ سکتا ہے؟ پھر ان کے ساتھ تمام شاہزادے اور اُمرا اس جلوہ گاہ حُسن کی سیر کریں گے تو اُن کا کیا حال ہوگا۔ ایسا تو نہ ہوگا کہ یہ مینا بازار جس کو میں نے کھولا ہے، دنیا کے لیے ایک بڑا بھاری فتنہ و فساد بن جائے اور میں خواہ مخواہ کو گنہ گار ہوں۔ میرے باوفا شوہر نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ اُن کے قدم کو لغزش نہ ہوگی۔ ممکن ہے کہ وہ اپنے اس عہد و پیمان کا خیال کریں۔ مگر اُن کے ساتھ جو شاہزادے اور اُمرا آئیں گے اُن میں سے کس نے پاک نگاہی کا اقرار کیا ہے؟ ان میں سے اکثر کی یہ حالت ہو جائے گی کہ اس بازار حُسن کے دیکھتے ہی اپنی بیویوں کو بھول جائیں گے۔
سوچتے سوچتے دل میں کہا: “کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ میں ان سب دکاندارنیوں کو ایک ایک سے مل کر تاکیدی حکم دے دوں کہ جس وقت جہاں پناہ اور اُن کے رفقا آئیں چہروں پر خوب اچھی طرح نقاب ڈال لیں اور کسی کو اپنی صورت نہ دکھائیں؟ مگر میں ہزار حکم دوں، اس پر عمل کوئی نہ کرے گا۔ برقع کی اجازت عام طور پر دے ہی دی گئی ہے مگر عورتوں کی عجیب حالت ہے۔ حسین عورت کو اپنا حُسن دکھانے کا شوق ہوتا ہے۔ پردہ شرعی چیز ہے اور اس حکم کی وجہ سے عورتیں گھروں کے باہر نہیں نکلتی ہیں۔ مگر اس شرعی حکم کی پابندی اُسی وقت تک ہوتی ہے جب تک عورتیں گھر کے اندر بند ہیں۔ باہر نکلنے میں ہمیشہ یہ عجیب تماشا نظر آتا ہے کہ اس شرعی حکم کی وجہ سے بوٖڑھی عورتیں تو خوب گہرا پردہ کرتی ہیں اور ممکن نہیں کہ کوئی ان کی صورت دیکھ لے، مگر جوان عورتیں اور کم سن لڑکیاں اپنی شوخ مزاجی اور چلبلے پن سے بے تاب ہو ہو کے ہر طرف جھانکتی اور اپنی صورت دکھاتی رہتی ہیں، اور کسی سے چار آنکھیں ہو کے جو مُنہ چھپاتی ہیں تو وہ چھپنا صورت دکھانے سے زیادہ کرشمہ خیز اور خطرناک ہوتا ہے۔ لہذا اگر پردے کا تاکیدی حکم ہوا بھی تو بُڑھیاں جو یہاں بہت ہی کم ہیں بے شک پورا پردہ کریں گی مگر جوانوں سے ممکن نہیں کہ کسی نہ کسی انداز سے اپنی صورت نہ دکھا دیں اور وہ مُنہ دکھانا بے نقاب رہنے سے زیادہ اندیشہ ناک ہوگا۔ علاوہ بریں ایسا حکم جاری کرنا حضرت جہاں پناہ کے خلاف بھی ہو گا۔ چاہے میرے خیال سے ظاہر نہ کریں مگر دل میں ضرور بُرا مانیں گے۔ مینا بازار خاص ان کی تحریک اور ان کے شوق سے کھولا گیا ہے اور اس میں عورتوں کا مالی و اخلاقی جو کچھ فائدہ ظاہر کیا جاتا ہے فقط بات بنانے اور دھوکا دینے کے لیے ہے۔ اصلی منشا ان کا یہی ہے کہ حسن و جمال کا تماشا دیکھیں اور اندازہ کریں کہ ملک میں کیسی کیسی حسین و نازنین عورتیں موجود ہیں”۔
غرض ملکہ نے ہر پہلو پر نظر ڈالی مگر اس مضرت سے بچنے کی کوئی صورت نہ نظر آئی۔ اسی اُدھیڑبن میں انھوں نے محل میں واپس جانے کا ارادہ کیا اور روانگی سے پہلے حکم جاری کر دیا کہ غالباً کل یا پرسوں حضرت ظل اللہ جہاں پناہ اپنے شاہزادوں اور اہل دربار کے ساتھ مینا بازار کی سیر کو رونق افروز ہوں گے۔ لہذا اُن کے ورود سے پیشتر کوئی بیوی کسی کے ہاتھ کوئی چیز نہ فروخت کرے۔ اُس وقت دُکاندار بیویوں کو اور نیز سیر کے لیے آنے والیوں کو اختیار ہے کہ چاہیں تو اپنے چہرے پر نقاب ڈال لیں۔
یہ حکم جاری کرانے کے بعد نواب ممتاز الزمانی بیگم اور شاہزادیاں سوار ہو کر محل کو تشریف لے گئیں اور بازار میں آدھی رات تک بڑی چہل پہل رہی۔ جس کے بعد تمام سیر کو آنے والیاں اور بہت سے دکاندار خاتونیں بھی اپنی دکانوں کی حفاظت کا انتظام کر کے اپنے گھروں کو گئیں اور جن دکان والیوں نے چاہا، دکانوں ہی میں رات گذاری۔ سواری گھر میں پہنچی تو شاہزادیاں اپنی اپنی محل سراؤں میں تشریف لے گئیں اور تاج محل بادشاہ جہاں پناہ کے برابر تخت پر جا کے بیٹھ گئیں۔ وہ انتظار ہی کر رہے تھے۔ صورت دیکھتے ہی کہنے لگے: “کہو دیکھ آئیں؟ مینا بازار کا افتتاح خیر و خوبی سے ہوگیا؟ میں اسی شوق میں بیٹھا تھا کہ تم آؤ تو پوچھوں۔ بتاؤ افتتاح کس شان سے ہوا؟ کتنی عورتیں آئیں؟ کیسی اور کس درجے کی تھیں؟ دُکانداروں کا کیا حال ہے؟ مال کتنا اور کس کس قسم کا ہے؟ دکان رکھنے والیوں کی شکلیں اور صورتیں کیسی ہیں؟ جو عورتیں سیر کو آئی ہیں وہ کیسی ہیں؟ اور تفصیل سے بیان کرو کہ تم نے وہاں پہنچ کے اول سے آخر تک کیا کیا؟”
تاج محل: پناہ! حضرت نے تو اکٹھا اتنے سوال کر دیے کہ مجھے یاد بھی نہیں رہ سکتے۔ اپنی منشیہ کو بُلا کے لکھوا لوں تو جواب دوں۔
جہاں پناہ (ہنس کر): ہاں میرا دل اس قدر لگا تھا کہ جو جو باتیں پوچھنا تھیں، سب کو ایک ہی رَو میں کہہ گیا۔ کسی لکھنے والی کے بلانے کی ضرورت نہیں، تم بیان کرنا شروع کرو۔ جو بات رہ جائے گی میں دوبارہ پوچھ لوں گا۔
تاج محل: مجھے تو سوالوں کی بھر مار نے سب بُھلا دیا۔ یہ بھی نہیں یاد آتا کہ جہاں پناہ نے پہلے کون سی بات پوچھی تھی۔ ہاں یاد آ گیا۔ حضرت نے پوچھا تھا کہ افتتاح کس شان سے ہوا، تو سنیے۔ میں جس وقت گئی ہوں، بازار پوری طرح آراستہ و پیراستہ ہوگیا تھا۔ سب دکانوں والیاں اپنی اپنی دکان میں پہنچ گئی تھیں مگر کوئی سیر کرنے والی اندر نہیں جانے پائی تھی۔ میں جاتے ہی پہلے سیدھی اپنی شاہی کوشک میں گئی۔ پھر اُٹھ کر بازار کی سیر کی۔ ایک ایک دُکان کو غور سے دیکھا اور نظر آیا کہ عورتوں نے اپنی دکانوں کے سجنے میں بہت اچھا سلیقہ دکھایا ہے۔ دکانوں کو بنا چنا کے دلہن آپ ہی نے بنا دیا تھا، اب انھوں نے اُن کو ایسے زیور سے سنوارا ہے کہ دیکھ کے میں حیران رہ گئی۔ بازار اور اُس کے تفرّج گاہ کو دیکھ لینے کے بعد میں پھر اپنی کوشک میں چلی آئی اور حکم دیا کہ بازار کا پھاٹک کھول دیا جائے اور جو عورتیں باہر جمع ہیں انھیں اندر داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ میری مصاحب بیویاں اور وہ سب جو محل میں ملازم ہیں اور اُن کے ساتھ اکثر امیروں کی خاتونیں خاص کر تمھارے وزیر سعد اللہ خان کی بیوی اور بیٹیاں میرے حکم سے بازار کے دروازے پر جا کھڑی ہوئیں۔ اور جو عورتیں سواریوں سے اُتریں اُن سے بہ اخلاق مل کے میرے پاس لے آئیں۔ اس طرح عورتیں اُترنا شروع ہوئیں اور میں نے کوشک کے زینے کے پاس کھڑے ہو کر ہر آنے والی کا خیر مقدم کیا۔
جہاں پناہ: واقعی تم نے میرے خیال سے بڑی بے نفسی سے کام لیا۔ ورنہ معمول تو یہ ہے کہ تم اپنی مسند پر رونق افروز رہو اور جو عورتیں آئیں تو نقیبہ کے نگاہ روشن کہنے پر تم اُس کی طرف نگاہ اُٹھاؤ۔
تاج محل: یہ تو میں نے پہلے ہی ظاہر کر دیا تھا کہ یہ دربار نہیں بازار ہے۔ اس میں بڑے چھوٹے سب کو برابری کے طریقے سے اور نہایت اخلاق کے ساتھ ملنا چاہیے۔ عام عورتوں پر اثر ڈالنے کے لیے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا۔ ورنہ محل کے اندر بھلا یہ بات کیسے ممکن تھی؟
جہاں پناہ: اس پر مَیں تمھارا شکر گزار ہوں۔ خیر بتاؤ کہ پھر کیا ہوا؟
تاج محل: اور میرے اس طرح ملنے سے میں دیکھتی تھی کہ سب آنے والیاں نہایت خوش تھیں اور گو زبان سے بہت کم کسی کو بات کرنے کی جرأت ہوئی مگر اُن کے چشم و ابرو کہہ رہے تھےکہ نہایت شکر گزار ہیں۔
جہاں پناہ: ہونا ہی چاہیے۔ تمھیں کچھ اندازہ ہے کہ آج پہلے روز افتتاح میں کتنی عورتیں آئی ہوں گی؟
تاج محل: دکان رکھنے والیوں کی تعداد میرے نزدیک چار پانچ ہزار عورتوں کے درمیان ہوگی۔ بارہ سو دکانیں ہیں اور ہر معزز و دولت مند دکاندارنی دو تین عورتیں اپنے ساتھ ضرور لائی ہے، اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ پانچ ہزار کے قریب عورتیں ہوں گی۔ اور جو دیکھنے اور سیر کرنے والیاں آج آئیں، اُن کا شمار دو ہزار سے زیادہ نہ ہوگا۔ پھر میری طرف سے چار سو عورتیں اہتمام و انتظام کے لیے مقرر ہیں۔ غرض اچھا خاصا مجمع ہے اور بازار بڑی رونق پر ہے۔ شام ہوتے ہی روشنی ہوئی تو عجب عالم نور نظر آتا تھا اور ایسی بہار تھی کہ مجھ سے بیان نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد حضرت نے کیا پوچھا تھا؟ مجھے تو خاک نہیں یاد رہا۔
جہاں پناہ: میں نے شاید یہ پوچھا تھا کہ کیسی اور کس حیثیت اور درجے کی عورتیں تھیں۔
تاج محل: آج تو کوئی غریب اور کم درجے والی عورت وہاں نہیں دکھائی دی۔ بیچنے والیاں سب بڑے بڑے امیروں اور سرداروں کی بیویاں یا بیٹیاں ہیں۔ سیر کو آنے والیاں بھی آج سب بڑے بڑے مرتبے کی بیویاں اور اکثر اُنھیں دکاندارنیوں کی عزیز و قرابت دار تھیں۔ مجھے تو وہاں کوئی بھی معمولی عورت نہیں دکھائی دی۔
جہاں پناہ: اس کے بعد میرا یہ سوا ل تھا کہ دکاندارنوں کا کیا حال ہے اور اسی کے ساتھ یہ بھی پوچھا تھا کہ مال کتنا اور کس قسم کا ہے؟
تاج محل: دکاندارنوں کا حال کچھ تو میں بتا چکی۔ باقی یہ ہے کہ سب نہایت خوش ہیں اور اس طرح بن سنور کے اور ایسے بانکپن اور شانداری سے دکانوں میں بیٹھی ہیں کہ بجز ان کے چہروں کے کسی کی نظر ان کے مال یا دکان کی آرائش پر نہیں پڑتی۔ جی چاہتا ہے کہ انسان انھیں گھنٹوں کھڑا دیکھا کرے۔ پھر سیر کرنے والیاں بھی دیکھنے کے ساتھ اپنے دکھانے کا بھی شوق پورا کرنے کو آئی ہیں۔ دونوں نے مل کے بازار کو پرستان بنا دیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ کوہ قاف کی ساری پریاں لا کے یہاں جمع کر دی گئی ہیں۔ مگر دکانوں میں مال بہ ظاہر اتنا نہیں معلوم ہوتا ہے۔ زیادہ تر عورتیں جواہرت بیچنے کو آئی ہیں جن سے ایسا نہیں ہو سکتا کہ دکان مال سے بھر جائے۔ مگر جو عورتیں اپنی صنعت و دستکاری کی چیزیں لائی ہیں، ان کی دکانیں البتہ خوب بھری اور رونق پر نظر آتی ہیں۔
جہاں پناہ: مگر جواہرات والیوں کی دکانوں کو خاص طور پر سجنا چاہیے۔ تم کل وہاں جا کے خاص طور پر اس کا اہتمام کرنا۔
تاج محل: ہاں میں اس کا بھی بندوبست کروں گی۔ مگر بغیر اس کے بھی وہ دکانیں اس قدر آباد اور رونق پر ہیں کہ جو دیکھتا ہے، عش عش کر جاتا ہے۔
جہاں پناہ: اب بتاؤ میں نے کیا پوچھا تھا؟
تاج محل: اس کے بعد جو کچھ حضرت نے پوچھا اس کو میں کبھی نہ بھولوں گی۔ پوچھا تھا کہ دکانیں رکھنے والیوں کی شکلیں اور صورتیں کیسی ہیں؟ بھلا یہ بھی بھولنے والی بات تھی؟ اگرچہ اس میں گذشتہ باتوں کے سلسلے میں بھی بیان کر چکی ہوں۔ مگر آپ کا شوق پورا کرنے کے لیے پھر بتاؤں گی۔ ایک سے ایک بڑھ کر پری جمال و حور خصال ہے۔ اسے مینا بازار یا جواہرات کا بازار نہ کہنا چاہیے، اصل میں وہ حُسن کا بازار ہے اور پُرشوق آنکھیں خریدار ہیں۔ اور میں سمجھتی ہوں کہ یہی حضرت کا اصلی مقصد بھی تھا جو بہت ہی اچھی طرح اور امید سے زیادہ پورا ہوا۔ جہاں پناہ دیکھیں گے تو حیرت میں رہ جائیں گے۔
جہاں پناہ: لیکن اگر میری یہی نیت ہو تو کیا اس میں کچھ مضائقہ ہے؟ کیا اچھی صورتیں دیکھنا گناہ ہے؟
تاج محل: گناہ تو دیکھنے والے کی نگاہ اور اس کے دل خیالات سے تعلق رکھتا ہے۔ جو بُری نگاہ سے دیکھے گا اور بری نیت رکھے گا گنہگار ہوگا اور جس کی نیت پاک ہو اس کے لیے کوئی گناہ نہیں۔ مگر غور کرنے کی یہ بات ہے کہ ایسے حسینوں کے مجمع اور پری جمالوں کے جھرمٹ میں انسان کہاں تک اپنے دل پر قابو رکھ سکتا ہے۔
جہاں پناہ: تو کیا تم کو مجھ پر کسی قسم کی بد گمانی ہے؟
تاج محل: حضرت تو صاف لفظوں میں اقرار کر چکی ہوں کہ کسی عورت پر بُری نگاہ نہ ڈالیں گے اور یہ سب کے اطمینان کے لیے بخوبی کافی ہے۔ مگر یہ ارشاد ہو کہ حضور کے ساتھ جو نوجوان شاہزادے اور تمام اُمرا و امیر زادے اس بازار حُسن میں جائیں گے، اُن کا کیا حال ہوگا؟ ان سبھوں نے تو کوئی عہد و پیمان نہیں کیا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ حضرت کی پہلی ہی سیر خریداری میں سیکڑوں آفتیں اُٹھ کھڑی ہوں گی۔ میں نے اس بات کو خوب غور کر کے دیکھا کہ اُن آفت روزگار ماہ وَ شوں پر نگاہ پڑنے کے بعد بہت کم ایسے ہیں جن کی نیت ڈانوا ڈول نہ ہو جائے۔
جہاں پناہ: ان شاء اللہ نہ ہوگی۔ میں ان کی خوب نگرانی رکھوں گا اور جاتے وقت سب کو سمجھا دوں گا اور سب سے اقرار لے لوں گا کہ میرے ساتھ جو کوئی اندر جائے کسی عورت کو بُری نگاہ سے نہ دیکھے، اور جس کو اپنے نفس پر قدرت نہ ہو اندر قدم نہ رکھے۔ کیا تم سمجھتی ہو کہ میرے اس حکم اور اقرار لے لینے کا کوئی اثر نہ ہوگا؟
تاج محل: ضرور ہوگا۔ میں اس پر اطمینان کیے لیتی ہوں اور بجز اس کے اور ہو ہی کیا سکتا ہے؟ اگر خدانخواستہ اس بازار کی وجہ سے کوئی فتنہ اُٹھ کھڑا ہوا تو میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گی اور حضرت کو بھی لوگ پیٹھ پیچھے اچھا نہ کہیں گے۔ اسی لیے میری عرض ہے کہ حضرت اس کا خاص طور پر اطمینان کر لیں اور ہر وقت اس کی نگرانی فرماتے رہیں۔
جہاں پناہ: میں نگرانی میں کوئی بات اُٹھا نہ رکھوں گا۔ خیر تم نے سب حالات تو بیان کر دیے مگر ایک بار پھر کہو کہ تم نے آج وہاں جا کے اول سے آخر تک کیا کیا۔ اس طرح شاید کوئی بات رہ گئی ہو تو وہ بھی مجھے معلوم ہو جائے گی۔
تاج محل: مَیں جاتے ہی دم بھر کو اپنی کوشک میں ٹھہری۔ پھر ساتھ والیوں کو ہمرا ہ لے کر بازار کا چکر لگا کے دیکھا کہ دکانوں اور دکاندارنوں کی کیا حالت ہے۔ اکثر دکان والیاں جن کی دکان کو میں دیکھ چکتی میرے ساتھ ہو جاتیں۔ اس طرح عورتوں کا ایک بڑا بھاری گروہ میرے ہمراہ ہوگیا جس کو لے کر میں تفرج گاہ کے مرغزار میں پہنچی۔ وہاں جا کے مسند پر بیٹھ گئی، جہاں آرا و روشن آرا میرے داہنے بائیں بیٹھ گئیں اور جتنی عورتیں ساتھ تھیں ان سب کو بھی میں نے بلا کے پاس بٹھا لیا۔ بعض عورتوں نے بڑھ کے نذریں دکھائیں، میں نے اُن پر ہاتھ رکھ دیا اور سب سے کہا یہ دربار نہیں بازار ہے۔ یہاں ہم سب برابر کا درجہ رکھتے ہیں اور محبت و شفقت کے ساتھ ایک دوسرے سے ملنے کو آئے ہیں۔ درباروں میں امیروں کی عزت زیادہ ہوتی ہے مگر یہاں غریبوں کا مرتبہ بڑا ہے۔ اس لیے سب امیرزادیوں کو چاہیے کہ غریب بیویوں سے اپنے مرتبے کے موافق آداب و تعظیم کی امید رکھنے کے عوض خود اُن کی تعظیم و تکریم کریں اور کسی کی دل شکنی نہ ہونے پائے۔ میرے اس کہنے کا بڑا اثر ہوا۔ غریب عورتوں کے چہرے تو شکر گزاری کی جلا سے چمک اُٹھے ہی، معزز اور امیر عورتوں کو بھی میں دیکھتی تھی کہ خوش ہیں اور انھیں ناگوار نہیں ہوا۔
جہاں پناہ: ہاں اس وقت تو خوش ہو گئی ہوں گی اور دل سے خوش ہوں گی۔ مگر جب اس اصول پر عمل کرنا پڑے گا تو امیر زادیاں خوش نہیں رہ سکتیں۔ ان کو اس میں اپنی بے عزتی نظر آئے گی۔ لیکن انھیں چاہے جیسا نظر آئے تم نے آج وہاں پورا شاہی فن اور ملکۂ جہاں ہونے کا حق ادا کر دیا۔ سلطنت دنیا میں صرف اس لیے ہے کہ اُمرا ذی اثر اور دولتمند لوگ ماتحتوں اور غریبوں پر کوئی زیادتی نہ کرنے پائیں۔ یہ دنیا میں ممکن نہیں کہ سب لوگ ایک ہی مرتبے اور درجے کے رہیں۔ اپنی محنت، لیاقت، بہادری اور عہدوں اور خدمتوں کے لحاظ سے بعض لوگ بڑھ ہی جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے اقتدار اور اثر سے مغرور بن کے دوسروں پر زیادتی اور غریبوں کی توہین کرنے لگتے ہیں، اور تمام لوگوں پر ظلم ہونے لگتا ہے۔ انھیں مظلوموں کی داد رسی کے لیے خدا نے سلطنت کو بنایا ہے۔ خارجیوں اور بہت سے پُرانے گروہوں نے غلطی سے فرض کر لیا کہ سلطنت میں کوئی شخص بادشاہ بن کے سب سے بڑھ جاتا ہے اور یہ انسانی مساوات کے خلاف ہے۔ چنانچہ وہ سلطنت ہی کے دشمن بن گئے اور ہر بادشاہ سے بغاوت کرنے لگے، مگر یہ نہ خیال کیا کہ بادشاہ محض اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ نوع انسان میں مساوات پیدا کرے۔ اگر کوئی بادشاہ ظالم و مغرور ہو جائے اور اپنا اصلی فرض ادا نہ کرے تو رعایا کو شرعاً و اخلاقاً حق ہے کہ بغاوت کر کے اُسے تخت سے اتار دے اور دوسرا عادل و حق آگاہ بادشاہ منتخب کر لے۔ بہر حال تم نے آج جہاں بانی کا اصلی حق ادا کر دیا۔
تاج محل: میں حق اور فرض کیا جانوں اور نہ اتنی عقل ہے کہ حضرت کی طرح ایسی علمی باتیں میرے ذہن میں گذریں۔ مگر ہاں جو بات اچھی اور مصلحت کی معلوم ہوتی ہے اس پر عمل کرنے کو تیار ہو جاتی ہوں۔ خیر عورتوں کو یہ باتیں سمجھانے کے بعد میں نے اپنی کوشک میں آ کر مینا بازار کو کھولا اور جیسا کہہ چکی ہوں آنے والیوں کا خیر مقدم کیا۔ شام کو جب بہت سی سیر کرنے والیاں آ گئیں تو میں نے پھر بازار کا ایک چکر لگایا۔ دکانداروں اور آنے والیوں کے باہمی برتاؤ اور اُن کی حالت اور مال وغیرہ کو دیکھ کے کوشک میں واپس آئی۔ پھر اعلان کرا دیا کہ کل یا پرسوں حضرت جہاں پناہ مع اُمرا اور شاہزادوں کے اس بازار میں رونق افروز ہوں گے اور بہ نفس نفیس خریداری فرمائیں گے۔ پھر چلی آئی۔
جہاں پناہ: تو تم نے اس کی بھی لوگوں کو اطلاع دے دی۔ خیر تو کل تم جا کے دیکھنا کہ عام عورتوں پر اس کا کیا اثر ہوا اور تم نے جو کل یا پرسوں کہا، یہ بہت اچھا ہوا۔ سب کو خیال ہوگیا ہوگا کہ ممکن ہے میں کل ہی آ جاؤں۔ لہذا جو عورتیں اس کو بے پردگی سمجھیں گی، کل نہ آئیں گی۔ کل تم وہاں پہنچ کے سب سے پہلے اس کا اندازہ کرنا کہ آج عورتوں کا مجمع کم ہے یا زیادہ۔ زیادہ ہو تو جانو کہ سب کو میرا آنا خوشی سے منظور ہے اور اس میں اپنے بے پردگی یا بے حرمتی نہیں تصور کرتی ہیں، اور کم ہو تو سمجھ لو کہ وہ اپنے دل سے میرے آنے کے خلاف ہیں۔ تم اگر زیادہ مجمع دیکھنا تو بلا تامل اعلان کر دینا کہ میں آج کے چوتھے دن یعنی دو شنبہ کو مینا بازار کی سیر کروں گا، اور اگر کم دیکھنا تو کسی بات کا اعلان نہ کرنا۔ جب ہم تم مل کے بخوبی غور کر لیں گے کہ کیا کیا جائے اور کیونکر عورتوں کو اطمینان دلایا جائے، اس کے بعد میں اپنے جانے کے متعلق جو طرز عمل مناسب جانوں گا اختیار کروں گا۔
اسی قرارداد پر یہ کارروائی ختم ہوئی اور بادشاہ کو ان باتوں میں اس درجہ محویت تھی کہ روز کے مقابل آج دیر کو عشا کے لیے موتی مسجد میں تشریف لے گئے۔
چھٹا باب
بادشاہ مینا بازار میں
دوسرے دن نواب ممتاز الزمانی تاج محل صاحبہ پہر دن چڑھے ہی سوار ہو کے مینا بازار میں تشریف لے گئیں۔ پہنچتے ہی شاہزادیوں کو بُلوایا۔ شاہی خاندان کی اور جتنی خاتونیں تھیں، سب کی دعوت کی۔ مگر اُن کے تشریف لے جانے سے پہلے ہی شہر کی ہزارہا بیویاں پہنچ چکی تھیں اور دوپہر سے پہلے ہی بازار عورتوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ خاتونان خاندان شہر یاری کے علاوہ تمام دکاندار عورتوں کو بھی تاج محل صاحبہ کے باورچی خانے سے کھانا گیا اور بہت سی سیر کو آنے والیاں بھی جن کی محل میں رسائی تھی دسترخوان پر مدعو کی گئیں۔
تاج محل صاحبہ برابر اندازہ کرتی تھیں کہ آج سیر کرنے والیوں کی تعداد کتنی ہے۔ دروازے پر لکھنے والی کئی عورتیں بٹھا دی تھیں جو ہر آنے والی کا نام لکھتی جاتیں اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ملکۂ جہاں کو خبر ہوتی رہتی تھی کہ اس وقت تک اتنی عورتیں آئیں ہیں۔ تیسرا پہر تھا کہ معلوم ہوا آنے والیوں کی تعداد دس ہزار سے بڑھ گئی اور انھیں نہایت حیرت تھی کیونکہ اُن کے خیال میں تھا کہ حضور جہاں پناہ اور اُن کے ساتھ بہت سے غیر مردوں کے آنے کے اندیشے سے کم بیویاں آئیں گی۔
یہ سُن کر وہ اپنی کوشک سے اُٹھ کے بازار میں گئیں۔ اگرچہ آگے آگے خواصیں اور قلماقنیں ہٹو بچو کہہ کے راستہ نکالتی جاتی تھیں، مگر عورتوں کی اس قدر بھیڑ تھی کہ گذرنا دشوار تھا۔ اس سیر میں وہ ہر ہر دکان پر جا کے ٹھہرتیں اور دیکھتیں کہ دکاندارنیوں کا تماشائیوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہے اور کوئی کسی کے ساتھ بداخلاقی تو نہیں کرتا۔ بازار میں پھر کے مرغزار میں رونق افروز ہوئیں اور اعلان کرا دیا کہ تمام عورتیں جو بازار میں موجود ہیں، وہ تمام دکاندارنیں بھی اور سیر کو آنے والیاں بھی تفرج گاہ میں حاضر ہوں۔ حضرت ملکۂ جہاں ان سے کچھ فرمانا چاہتی ہیں۔
تھوڑی ہی دیر میں سارا میدان عورتوں سے بھر گیا اور چونکہ چبوترے پر اتنی جگہ نہ تھی کہ سب اُس پر آ سکیں لہذا ان کے بیٹھنے کے لیے نیچے زمین پر فرش بچھوا دیا گیا۔ سب عورتوں کے جمع ہو جانے کے بعد نواب ممتاز محل نے ان تمام بیویوں کی نسبت اپنی خوشنودی ظاہر کی جو آج کے دن مینا بازار کی سیر کو آئی تھیں۔ پھر فرمایا: “کل بازار کے افتتاح کے دن جتنی بیویاں آئیں ان سے میر ا خیال تھا کہ بعد والے دنوں میں سیر کرنے والیوں کی تعداد کم رہے گی، مگر آج آپ کی کثرت دیکھ کر مجھے بڑا اطمینان ہوا اور یقین ہوگیا کہ خاتونان ملک کی فلاح بہبود اور اخلاقی فائدہ رسانی کے لیے جو یہ بازار کھولا گیا تو اسے آپ بھی پسند کرتی ہیں اور اس کی ترقی میں سچے دلی ذوق و شوق سے حصہ لیتی ہیں۔ حضرت شاہنشاہ جہاں پناہ کو آپ ہی کے فائدے کے خیال سے اس مینا بازار میں بڑی دلچسپی ہے۔ وہ روز روز کے حالات دریافت کرتے اور آپ کو اس بازار کی سیر سے خوش ہوتے سُن کر بہت مسرور ہوتے ہیں۔
میں نے کل امید دلائی تھی کہ حضور شہریار جہاں غالباً آج یا کل اس بازار کی سیر فرمائیں گے مگر بعض عالموں کی مخالفت کے باعث انھوں نے خیال فرمایا کہ شاید مسلمان شریف و معزز خاتونیں اپنی پردہ دری کے اندیشے سے یہاں آنے میں تامل کریں اور گو کہ حاکمان شرع کے منشا کے مطابق چہروں پر ہر قسم کی نقابیں ڈالنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مگر پھر بھی مرضی مبارک یہ ہوئی کہ آپ کی آزادی میں فرق نہ ڈالیں اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو کسی خاتون کے بھی خلاف مزاج ہو۔ میرا بھی خیال تھا کہ حضرت قدر قدرت کی آمد کے خیال سے شاید آج یہاں کم بیویاں آئیں، مگر اُس اندیشے کے خلاف آج بہت زیادہ سیر کرنے والیاں آئیں، جس سے مجھے اطمینان ہوگیا کہ ہماری بیویوں کو اپنے محافظ ناموس شہنشاہ پر پورا بھروسا ہے اور جب میں یہ حال حضرت سے بیان کروں گی تو وہ بہت خوش ہوں گے، اور اب میں عام طور پر اعلان کرتی ہوں کہ پرسوں سہ پہر کو حضرت ظل سبحانی اس مینا بازار کو اپنے ورود مسعود سے سرفراز فرمائیں گے اور بہ نفس نفیس ہر ہر دکان پر تشریف لے جا کے خریداری فرمائیں گے۔ مجھے آپ کی مستعدی اور عام دلچسپی سے امید ہے کہ اُس روز سب بیویاں ضرور آئیں گی تاکہ حضرت ہمارے اس بازار کو نہایت رونق پر دیکھ کے محظوظ و مسرور ہوں”۔
حضرت ملکۂ جہاں نے جیسے ہی اپنی تقریر ختم کی، ایک معزز وزیر کی فارسی نژاد تعلیم یافتہ خاتون نے کھڑے ہو کر سب عورتوں کی طرف سے شہنشاہ بیگم کی شفقت و مرحمت کا شکریہ ادا کیا اور کہا: “ہم سب کو شریعت کی پابندی اور اپنے ناموس کی حفاظت کا پورا خیال ہے مگر اُس کے سچے محافظ حضور شہنشاہ ہی ہیں۔ پھر ایسے نیک نفس و فرشتہ خصال حامی و محافظ پر ہم میں سے کسی کو بھلا کیسے بد گمانی ہو سکتی ہے؟ ہم سب حضرت جہاں پناہ کی لونڈیاں ہیں اور لونڈی کو آقا سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ حضرت نے اپنی شفقتوں اور عنایتوں سے اپنےآپ کو ہمارا مہربان باپ ثابت کر دیا۔ اس صورت میں بھی ہم کو ان کی بیٹیاں ہونے کا شرف حاصل ہوگیا اور ایسا ہے تو باپ بیٹی کا پردہ ہی کیا؟ بہرحال جہاں پناہ ہر طرح ہمارے بہترین محرم ہیں اور خدا نہ کرے کہ کسی کو بھی اُن کی نسبت کسی قسم کی بدنگاہی کا وہم ہو۔ علاوہ بریں جب ہمیں چہروں پر نقاب ڈال لینے کی اجازت عطا ہو گئی تو پھر کس بات کا اندیشہ رہا؟ حضرت ملکۂ عالم کی شفقتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ہم سب روز اس بازار کی سیر کو آیا کریں گے اور پرسوں چونکہ حضرت شہنشاہ بیگم دام اقبالہا کے ساتھ حضور جہاں پناہ کی رونق افروزی کا مژدہ سُن چکے ہیں، لہذا ہم سب اپنی خوش نصیبی تصور کر کے زیادہ شوق سے آئیں گے۔ سارا مینا بازار خاتونوں سے بھرا پُرا ہوگیا اور ہماری پوری کوشش یہی رہے گی کہ جہاں پناہ ہم سے خوش تشریف لے جائیں”۔
اس کے بعد ایک شریف و معزز ہندو رانی نے بھی اُٹھ کر ملکۂ عالم کو اپنی قوم والیوں کی طرف سے اطمینان دلایا اور کہا: “ہم کو تو حضرت جہاں پناہ سے رشتہ داری کا حق حاصل ہے۔ وہ ہر طرح ہمارے محرم ہیں اور ایسے عالی مرتبہ محرم جن کی وفاداری میں جل کے مرجانا اور جانیں دینا قدیم الایام سے ہمارا شعار چلا آتا ہے۔ ہم میں اتنا سخت پردہ نہیں جتنا مسلمانوں میں ہے مگر اپنے رشتہ دار خاندانوں کے ساتھ وفاداری کرنے میں ہم ان سے بڑھے ہوئے ہیں۔ جہاں پناہ یا ہمارے شفیق باپ ہیں یا محبت والے بھائی یا سعادت مند فرزند، اور یہ تینوں عزیز وہ ہیں جن کی وفاداری میں ہم ہمیشہ اپنی جانوں کو تج دیا کرتے رہے ہیں”۔
ان جوابی تقریروں کو سُن کر نواب ممتاز الزمانی تاج محل صاحبہ بہت خوش ہوئیں اور فرمایا: “میں گھر جاتے ہے سب سے پہلے آپ سب کے اس خلوص، عقیدت و جوشِ اطاعت کو حضور شہنشاہ پر ظاہر کر دوں گی”۔
اس کے بعد جتنی عورتیں جمع تھیں، دکاندارنیں ہوں یا سیر کو آنے والیاں سب کی ضیافت کا سامان کیا گیا اور اس سے فارغ ہونے کے بعد بازار میں روشنی ہونا شروع ہوئی تھی کہ ملکۂ جہاں مغرب کی نماز پڑھ کے سوار ہو گئیں اور شاہزادیاں جو ساتھ آئی تھیں، وہ بھی اپنے مکانوں کو واپس گئیں۔
آج بازار میں خاص چہل پہل تھی اور شام کو وہ چہل پہل بہت زیادہ ہو گئی جب مشہور ہوا کہ کل حضرت پناہ جہاں و شہنشاہ زماں بازار میں رونق افروز ہوں گے۔ دُکاندارنیں اس لیے خوش تھیں کہ ان کا سب مال فروخت ہو جائے گا اور اس شوق میں اسی وقت سے انھوں نے اپنی دکانوں کے سجنے کا اور خود اپنے بناؤ سنگھار کا سامان شروع کر دیا۔ سیر کو آنے والیاں اس شوق میں تھیں کہ کل اسی زنانے بازار کی سیر کے بہانے حضرت جہاں پناہ کی زیارت نصیب ہو جائے گی اور اُن کو اس میں اپنی خوش نصیبی نظر آتی تھی کہ اُن کے عزیزوں اور گھر والوں نے مینا بازار میں آنے کی اجازت دے دی۔
اس مجمع میں چند ایسی عورتیں ضرور تھیں جن کو نامحرم لوگوں کے سامنے آنا ناگوار تھا۔ دل میں کہتی تھیں کہ ہم سے غیروں کے سامنے کیسے آیا جائے گا لیکن اُن کے لیے بھی یہ بہانہ کافی تھا کہ چہرے پر نقاب ڈال لے سکتے ہیں اور چونکہ مردوں نے آنے کی اجازت دے دی اس لیے کوئی الزام دینے والا نہیں ہے۔
صبح ہی سے دکانوں، سڑکوں اور تفرج گاہ کی صفائی اعلیٰ پیمانے پر ہونے لگی۔ جھاڑ فانوس صاف کیے جانے لگے، گذر گاہوں اور سڑکوں پر مخمل و اطلس کا فرش بچھنے لگا اور دوپہر سے پہلے نواب ممتاز الزمانی بیگم معائنے کے لیے تشریف لائیں تو بازار کی کچھ شان ہی اور تھی، اور اسی کے ساتھ دُکاندارنوں کا نکھار اور سنگھار بھی بلا کا تھا۔ ہر عورت سر سے پاؤں تک مرصع زیور سے آراستہ ہو کر اور بھاری جوڑا پہن کے دلہن بنی ہوئی تھی۔
سارے بازار میں پھر کے اور ہر چیز کو معائنہ فرما کے وہ واپس چلی گئیں، اس لیے کہ اب حضرت جہاں پناہ کی تشریف آوری کا وقت قریب آ گیا تھا اور چونکہ اُن کے ہمراہ اُمرائے دربار بھی آنے والے تھے لہذا اُن سے کے سامنے نواب تاج محل کا بازار میں موجود رہنا غیر ممکن تھا۔ چنانچہ وہ اپنی شاہزادیوں اور خاندان شاہی کی تمام عورتوں کو ہمراہ لے کر مینا بازار سے سوار ہو گئیں۔
محل میں داخل ہوتے ہی اپنے صاحب تاج و سریر شوہر کے پاس گئیں اور کہا: “لے اب آپ تشریف لے جائیں، میں مینا بازار کو دیکھ آئی۔ تمام عورتوں نے ایسا سنگار کیا ہے کہ ہر ایک پرستان کی پری معلوم ہوتی ہے۔ جو رونق و شان بازار میں آج ہے نہ کل تھی نہ پرسوں۔ یہ میں نے بتا ہی دیا تھا کہ کل پرسوں کی بہ نسبت تگنی چوگنی عورتیں آئی تھیں، آج کل سے بھی بہت زیادہ ہیں۔ اور اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو اندیشہ تھا کہ بے پردگی کے خیال سے بہت کم عورتیں آئیں گی وہ بالکل غلط تھا”۔
یہ سُن کر حضرت جہاں پناہ بہت خوش ہوئے اور دریافت کرایا کہ تمام اُمرائے دولت و اعزائے شاہی جمع ہو گئے؟ فوراً اُردابیگنی نے عرض کیا کہ سب حاضر ہیں، فقط جہاں پناہ کے برآمد ہونے کی دیر ہے۔ یہ معلوم ہوتے ہی جہاں پناہ ہوا دار پر سوار محل سے باہر نکلے اور امرائے دربار بڑھ بڑھ کے آداب بجا لائے۔ جس طرح مینا بازار کے افتتاح کے دن علیا حضرت ملکۂ زماں نواب ممتاز الزمانی بیگم صاحبہ کی سواری کے لیے جلوس کا خاص اہتمام ہوا تھا، آج اس سے زیادہ حضرت شہنشاہ جہاں پناہ کی سواری کے لیے کیا گیا تھا۔ شاہی فوج کے بہت سے رسالے سب کے آگے تھے۔ اُن کے بعد بہت سی پلٹنیں تھیں، صدہا جھنڈے اور علم ہوا میں لہرا رہے تھے، بیرقیں اُڑ رہی تھیں، ماہی مراتب، نشانِ آفتاب و ہلال اپنی آب و تاب کا جلوہ دکھا رہے تھے۔ ہاتھیوں اور اُونٹوں پر نقارے تھے جن پر چوٹیں پڑتی تھیں، قرنا پھنک رہا تھا اور نقیب قدم قدم پر نعرے لگاتے جاتے تھے۔ صدہا اُمرائے دولت اپنے درجے اور رتبے کی سواریوں پر شان و شکوہ سے بیٹھے تھے۔ اس جلوس کے درمیان خسرو جہاں صاحب قران ثانی ایک سب سے بلند اور شاندار ہاتھی پر گنگا جمنی عماری میں رونق افروز تھے اور مصاحبین و اُمرائے دربار ہمراہ رکاب تھے۔
مینا بازار میں ہرکارے اور سوار دوڑ دوڑ کے خبر پہنچا رہے تھے کہ اب سواری بادبہاری فلاں مقام پر پہنچی اور اب فلاں بازار میں ہے۔ یہاں تک کہ نقارۂ شاہی کی آواز آئی اور ساری عورتوں کے جسم میں ایک جُھرجُھری سی پیدا ہو گئی۔ اکثر دہشت و رعب شاہی سے ادھر اُدھر بھاگنے لگیں اور جو دل کی مضبوط تھیں نہایت ادب سے کسی مقام پر خاموش کھڑی ہو گئیں۔ اتنے میں محل کی نقیب عورت نے “جہاں پناہ سلامت” کا نعرہ بلند کیا اور حضرت جم جاہ عماری سے اُتر کے ہوادار پر سوار ہوئے۔ تقریباً چار پانچ سو اُمرا نے ہوا دار کو گھیر لیا اور سواری مبارک اس معزز و عالی مرتبہ جلوس کے ساتھ مینا بازار میں داخل ہوئی۔ ہر طرف خوبصورت اور بانکی ترچھی پری جمالوں کا جُھرمٹ تھا اور وہ بار بار اپنی سُریلی آوازوں میں “جہاں پناہ سلامت” کے نعرے لگا رہی تھیں۔
اس شان سے سواری شاہی کوشک کے دروازے پر پہنچی۔ ہمراہی اُمرا و وزرا کوشک کے باہر ٹھہر گئے اور حضرت جہاں پناہ نے زینے پر قدم رکھا۔ کوشک میں داخل ہوئے ہی تھے کہ ایک معزز وزیر کی بیوی نے با آواز بلند کہا “اے آمدنت باعث آبادی ما” اور جب شاہ جمجاہ مسند پر رونق افروز ہوئے تو ایک عجمی امیر کی تعلیم یافتہ خاتون نے ادب سے سامنے کھڑے ہو کر ایک مدحیہ قصیدہ عجمی موسیقی کی لے اور دھن میں سنایا جو اسی وقت کے لیے نیا موزوں کیا گیا تھا۔ قصیدے کے ختم ہوتے ہی چند شوخ ادا نازنینوں نے جو ڈومنیوں میں سے منتخب کر لی گئی تھیں، اپنی زاہد فریب آواز اور گلو سوز سُروں میں نغمۂ مبارکباد گانا شروع کیا۔
بادشاہ نے اس سارے پرستان میں سے ہر ہر گل اندام نازنین کے چہرے پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالی اور اظہار خوشنودی فرمایا۔ پھر سعد اللہ خان کی محترم بیوی کی طرف متوجہ ہو کر جو سب عورتوں میں زیادہ پیش پیش تھیں اپنی مسرت ظاہر فرما کے ارشاد کیا: “ممتاز الزمانی بیگم کی تو خواہش ہے کہ تمھارا مینا بازار بازار ہی رہے جس میں بڑے چھوٹے اعلی و ادنیٰ کا امتیاز نہ نظر آئے مگر تم سب نے اس کو آخر دربار بنا دیا”۔
بیگم سعد اللہ خان: ہم سب اپنے جہاں پناہ محافظ ننگ و ناموس کی لونڈیاں ہیں اور سب کی تمنا ہے کہ اس رونق افروزی کے وقت اپنا حق عقیدت ادا کریں، مگر افسوس ہماری بدقسمتی سے حضور عالیہ منظور نہیں فرماتیں۔ ورنہ ہم میں سے ہر ایک کی دلی تمنا تو یہ ہے کہ بارگاہ خسروی میں نذریں پیش کر کے حق عبودیت ادا کر دیں۔
جہاں پناہ: میں نذروں سے زیادہ اس سے خوش ہوا کہ ممتاز محل کی خوشی پوری کرنے کے لیے تم ایسے ذوق و شوق سے یہاں جمع ہو گئیں اور اس کو گوارا کیا کہ میں مع اپنے امرائے دربار اور شاہزادوں کے اندر چلا آؤں، اور تعجب ہے کہ اگرچہ نقاب کی عام اجازت ہے مگر میں اس وقت کسی خاتون کے چہرے پر نقاب نہیں دیکھتا”۔
اس کے جواب میں ایک اور امیر زادی نے زمین بوس ہو کے عرض کیا: “ہم سب حضرت جمجاہ کی لونڈیاں ہیں اور لونڈیوں کا آقا سے پردہ ہی کیا۔ حضرت علیا حضرت ملکہ نے تو کمال شفقت و مرحمت اور رواج قدیم کی حفاظت کے لیے نقابوں کی اجازت دے دی۔ مگر ہم میں سے تمام عورتوں نے باہم عہد کر لیا ہے کہ اگر چہرے کو نقاب میں چھپانا ہوگا تو سامنے نہ آئیں گے اور آئیں گے تو بے نقاب ہو کر آئیں گے”۔
جہاں پناہ: تمھاری اس سعادت و اظہار عبودیت کو سُن کر میں بہت خوش ہوا۔ مگر کیا کچھ ایسی عورتیں بھی یہاں ہیں جو میرے سامنے آنا نا پسند کرتی ہوں اور ادھر اُدھر کونوں میں چھپ رہی ہوں؟
وہی خاتون: مینا بازار میں ایسی کوئی عورت نہیں ہے اور شاید شہر بھر میں نہ ہو۔ مگر ہم عورتوں میں یہ قرار داد طے پا گئی تھی جس کو ہم نے سب آنے والیوں اور سیر کرنے والیوں پر ظاہر کر دیا تھا۔ لیکن ہمیں کوئی ایسی عورت نہیں نظر آتی ہے جو کل یا پرسوں مینا بازار میں آئی ہو اور آج موجود نہ ہو۔
جہاں پناہ: تم سب نے اس بازار کو پسند کیا؟
کئی آوازیں: بہت زیادہ پسند کیا اور حضور عالیہ کی اس مرحمت کو زندگی بھر یاد رکھیں گے۔
جہاں پناہ: اور انھوں نے یہ بازار محض اپنا شوق پورا کرنے کے لیے نہیں بلکہ خاص تمھارے فائدے کے واسطے قائم کیا ہے۔ یہ فائدہ کہ خاتونوں کا مال اچھے داموں بک جائے گا، بالکل سامنے کا اور ظاہری بات ہے۔ اصلی فائدہ یہ ہوگا کہ گھروں کی بیٹھنے والی عورتیں دنیا کو دیکھیں گی، آپس میں میل جول بڑھائیں گی، محبت و اخلاق سے ملنا سیکھیں گی، آداب مجلس سے واقف ہوں گی اور پھر باہم مل کے اپنی صنف کے مقاصد و فوائد پر غور کریں گی۔
ایک خاتون: بے شک ہماری ترقی اور ہمارے مہذب و شائستہ بنانے کے لیے یہ بہترین مدرسہ ہے جس کو ہم علیا حضرت کی ایک پائدار برکت مانتے ہیں۔
جہاں پناہ: اور اسی خیال سے بیگم کا ارادہ ہے کہ ہر سال موسم بہار میں ایک مہینے تک یہ بازار قائم رہا کرے۔ یہی سوچ کر انھوں نے اس بازار کے لیے یہ مستقل عمارت تعمیر کرا دی جو روز بروز بہت زیادہ بارونق ہوتی جائے گی اور اسی بہانے میں ہر سال ایک دن تمھارے دیدار سے مسرت حاصل کیا کروں گا۔
بہت سی آوازیں: اس سے ہمیں فخر و وقار حاصل ہوگا۔
جہاں پناہ: بعض علما اور شاید اَور لوگوں کو بھی میرے اندر چلنے آنے پر اعتراض ہو۔ اگرچہ میں از روئے شریعت اس مسئلہ پر غور کر چکا ہوں اور اطمینان ہوگیا ہے کہ اس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم میں اپنی رعایا کے قدیم رواج کا بہت احترام کرتا ہوں اور نہیں پسند کرتا کہ کسی کے دل میں شکایت پیدا ہو۔ لیکن اس سے زیادہ خیال مجھے عورتوں کی ترقی و بہبود کا اور ان کی اصلاح و ترقی کا ہے۔
اب حضرت جہاں پناہ اُٹھ کر کوشک کے نیچے تشریف لائے اور پا پیادہ بازار کا رُخ کیا۔ کہاروں نے ہوا دار کے بڑھانے کا ارادہ کیا تو فرمایا “میں پیدل چلوں گا”۔ پھر مسکرا کے ارشاد ہوا “بیگم نے سارے راستے میں نفیس اور پُر تکلف فرش بچھوا دیا ہے، لہذا اگر میں پیدل پھر کے سیر نہ کروں تو ناشکری ہوگی اور پھر مجھے ہر دکان کو دیکھنا ہے، پیدل ہی چلوں گا”۔ فوراً نقیب عورتیں اور قلماقنیں آگے بڑھیں اور عورتوں کی بھیڑ کو ادھر اُدھر ہٹاتی ہوئی جہاں پناہ کے آگے ہو لیں۔ شاہزادے اور اُمرا و معززین دربار پیچھے تھے۔ عورتوں کے اتنے بڑے مجمع اور اُن کی رعنائی و زیبائی کو دیکھ کے خود حضرت ظل اللہ اور کل رفقائے رکاب دولت دم بخود تھے۔ چونکہ سب سے حلف لے لی گئی تھی کہ کوئی کسی پر بُری نگاہ نہ ڈالے گا، لہذا کسی کی مجال نہ تھی کہ کسی مہ جبین کو آنکھ بھر کے دیکھے۔ سب کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں اور احکام قرآنی یَغُضُّوا مِن اَبصَارِہِم وَ یَغضُضنَ مِن اَبصَارِہِنَّ کی اتنی پابندی ہندوستان میں شاید کبھی نہ ہوئی ہوگی جتنی اُس وقت ہو رہی تھی۔
اب بادشاہ جہاں پناہ نے ایک سرے سے دکانوں کو دیکھنا شروع کیا تو ہر ہر دکان میں تشریف لے جاتے، ہر چیز کو ملاحظہ فرماتے، بیچنے والی سے گفتگو کرتے، معاملۂ بیع میں لطف پیدا کرنے کے لیے دام چکاتے اور دیر تک باتیں کرتے رہتے، اور جو مال پیش کیا جاتا اُس کا زیادہ قیمتی حصہ خرید لیتے۔ اس میں شک نہیں کہ ہر عورت کے مذاق و انداز گفتگومیں فرق تھا، کوئی شوخ ادا چلبلی تھی، اُس کی یہ حالت تھی کہ جس طرح بادشاہ اُس کی باتوں سے لُطف اُٹھاتے وہ حضرت جہاں پناہ کی باتوں سے مزہ لیتی۔ کوئی ایسی طرار و بے باک تھی جو اُلٹے بادشاہ کو چھیڑنا چاہتی اور بادشاہ دل ہی دل میں اُس کی بے باکیوں سے لطف اٹھاتے اور زبان سے کچھ کہتے نہ بنتی۔ کوئی ایسی شرمیلی تھی کہ اُس سے چار آنکھیں نہ کی جاتیں اور زبان سے کوئی لفظ بھی نہ نکل سکتا، مگر اُس کی شرم و ندامت کی ادائیں دل رُبائی میں سب سے بڑھ جاتیں۔ کوئی ایسی معتدل طبیعت کی متین و ضابط نازنین بھی جس میں نہ شرم تھی نہ شوخی، وہ ہر بات کا جواب نہایت ہی ضبط و سکون سے دیتی؛ جہاں پناہ چھیڑتے بھی تو اُس کی متانت میں فرق نہ آتا۔ پھر اُن میں بھی مختلف قسموں کی شانیں تھیں۔ کسی کی کوئی ادا دلفریب تھی اور کسی کی کوئی گفتگو، کسی کی بے باکی اور طرح کی تھی اور کسی کی شوخی اور وضع کی۔ کسی کے شرمانے میں ایک انداز تھا اور دوسری میں دوسرا۔
غرض بادشاہ ہر دکان سے پُر شوق دل پر ایک نیا نقش لے کر آگے بڑھتے اور اس بازار حُسن کی سیر کرتے چلے جاتے۔ اس سیر اور خریداری میں اتنی دیر لگی کہ بازار کی چار سڑکوں میں سے ایک ہی کا معائنہ کیا تھا کہ شام ہو گئی اور روشنی ہونے لگی۔ چنانچہ تفرج گاہ کے چبوترے پر جہاں پناہ نے جا کے نماز مغرب ادا فرمائی۔ بعد مغرب دوسری سڑک پر پہنچے اور پھر سیر و خریداری میں مصروف ہو گئے۔
اب بازار میں خوب روشنی ہو گئی تھی جس نے لطف بڑھا دیا تھا اور جس طرح سڑکوں، دکانوں اور ان کی آرائش کی آب و تاب رات کی روشنی میں بڑھ گئی تھی، اُسی طرح دکاندارنوں اور اُن کے مال کی رونق و خوبی بھی ترقی پر نظر آتی تھی۔ پری جمالیں جھاڑوں، کنولوں اور مشعلوں کی روشنی میں اگر جنت کی حوریں نظر آتی تھیں تو اُن کے فروخت کے جواہرات دن سے بدرجہا زیادہ ضَو دیتے تھے۔
حضرت جہاں پناہ کے معائنہ کی اب بھی وہی شان تھی؛ ہر دکان پر گھڑیوں ٹھہرتے، ماہ پیکر دکاندارنیوں کی دلرُبا صورتیں دیکھتے، ان کی دکانوں کی آرائش اور اُن کی دکانوں کے سجنے اور مال کو قرینے سے رکھنے پر غور فرماتے، اُن سے باتیں کرتے، ان کے انداز کلام اور اُن کی اداؤں سے لطف اُٹھاتے اور جی بھر کے دیکھ سُن لیتے تو آگے بڑھتے۔
اسی سیر میں پہر رات گذر گئی اور ابھی آدھا بازار دیکھنا باقی تھا۔ آج چونکہ بادشاہ جم جاہ کو معمول سے بہت زیادہ چلنا پڑا، لہذا بہت تھک گئے اور فرمایا: “جی تو یہ چاہتا ہے کہ چاہے ساری رات اسی سیر میں صرف ہو جائے، مگر سارے بازار کی آج ہی سیر کر لوں۔ مگر اب میں بھی تھک گیا ہوں اور بازار والیاں بھی اکتا گئی ہوں گی۔ لہذا باقی ماندہ دو سڑکوں کی کل سیر کروں گا اور جس وقت آج آیا تھا اسی وقت کل بھی آؤں گا”۔ یہ فرما کے جہاں پناہ شاہی کوشک میں تشریف لائے۔ تھوڑی دیر وہاں آرام فرمایا اور فریضۂ عشا ادا کر کے اسی اگلے کر و فر اور جاہ و جلال سے محل کی طرف روانہ ہو گئے۔
ساتواں باب
ایک شوخ ادا دُکاندارن
جہاں پناہ محل میں رونق افروز ہوئے تو نواب ممتاز الزمانی بیگم انتظار ہی کر رہی تھیں۔ صاحب تاج و دیہیم شوہر کے آتے ہی دوڑتی ہوئی آئیں اور پاس بیٹھ کے کہنے لگیں: “حضرت کو بازار کی سیر میں بڑی دیر ہو گئی”۔
جہاں پناہ: اور اس دیر ہونے پر بھی آدھے بازار کی سیر کر سکا۔ وہ کوئی معمولی سیر کی جگہ نہیں ہے۔ ہر قدم پر یہ حالت تھی کہ کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا ست۔ ہر دکان اور ہر بیچنے والی میں ایسی دلربائی و دلکشی تھی کہ بڑے جبر سے قدم آگے بڑھایا جاتا تھا۔ وہ تو ایسا مقام ہے کہ جس دکان میں جائیے بس وہیں کے ہو جائیے۔
تاج محل: اور سارے گھر بار کو چھوڑ دیجیے۔
جہاں پناہ (ہنس کر): میرا منشا یہ نہ تھا۔ بلکہ یہ کہنا مقصود تھا کہ جس دکان میں جائیے، دن بھر وہیں کی خوبیاں دیکھتے رہیے اور دوسری دکان میں جانے کا نام نہ لیجیے۔ یعنی دن بھر میں انسان ایک کے سوا دوسری دُکان کی سیر نہیں کر سکتا۔
تاج محل: تو پھر کیا ہے۔ بارہ سو دکانیں ہیں اور سال میں کتنے دن ہوتے ہیں؟ ہاں تین سو ساٹھ دن۔ تو کچھ کم اڑھائی برس تک ان دکانوں کی سیر میں مصروف رہیے۔ سلطنت اور گھر بار کا خدا حافظ ہے۔
جہاں پناہ: کیوں؟ کیا رات کو بھی گھر نہ آؤں گا؟
تاج محل: تو یہ میرے حال پر مہربانی ہوئی۔ سلطنت کا انتظام کیسے چلے گا؟
جہاں پناہ: اس کام کو وزرائے سلطنت انجام دیں گے۔ میں کہتا ہوں تمھیں بات بات پر بد گمانی کیوں ہوتی ہے؟ ایک بات کہی تھی کہ تمھاری کوشش سے یہ بازار ایسا پُرلطف اور دلکش ہوگیا ہے کہ جہاں ٹھہر جائیے وہاں سے ہٹنے کو جی نہیں چاہتا۔
تاج محل: حضرت فرماتے ہیں کہ بازار پُرلطف اور دلکش ہوگیا ہے۔ پُرلطف ہونے میں مضائقہ نہیں، حضرت کے لیے ہر چیز کو پُرلطف ہونا چاہیے۔ مگر دلکش نہ کہیے۔ یہ بڑا خطرناک لفظ ہے۔
جہاں پناہ: اس لفظ کو میں نے اُن معنوں میں نہیں کہا تھا جن میں تم لیتی ہو۔ اس لیے کہ میرے خیال میں پُرلطف اور دلکش کا ایک ہی مطلب ہے۔ لیکن اگر تم کو یہ لفظ ناپسند ہے تو لو میں اسے چھوڑے دیتا ہوں۔
تاج محل: بس میرے اطمینان کے لیے یہ کافی ہے۔ خیر اب یہ بتائیے کہ آج حضرت کو اُن تمام مہ جبینوں میں سے جو وہاں جمع ہیں کون زیادہ پسند آئی؟
جہاں پناہ: یہ بڑا مشکل سوال ہے۔ فقط اتنا کہہ سکتا ہوں کہ سب ہی زیادہ پسند آئیں اور کوئی نہیں ہے جو کم پسند آئی ہو۔
تاج محل: یہ بڑے اطمینان کی بات ہے۔
جہاں پناہ: کیوں؟
تاج محل: خطرہ جب ہی ہوتا ہے کہ سب کے مقابل میں کوئی ایک پسند آئے اور جب ہزارہا عورتیں ایک ہی درجہ تک پسند آئیں اور یکساں نظر آئیں تو کوئی اندیشہ کی بات نہیں ہو سکتی۔
جہاں پناہ: تم نے بڑی معقول بات کہی اور واقعی اب میں تمھارے کہنے سے غور کرتا ہوں تو نظر آتا ہے کہ اگرچہ وہاں ایک سے ایک بڑھ کے گل رخسار و پری جمال مہ وَشیں جمع تھیں مگر میں کسی کی صورت کا نقش اپنے دل پر نہیں لایا۔ بہ ظاہر اس کی وجہ یہ بیان کی جا سکتی ہے کہ سب عورتیں ایسی خوبصورت تھیں کہ دل پر ایک کا جو اثر پڑتا اس کو دوسری حور وَش کی صورت مٹا دیتی اور کسی کا بھی خیال دل میں جم کر نہ بیٹھتا۔ مگر میں تو اس کا اصلی سبب اس کو خیال کرتا ہوں کہ تمھاری محبت اور تمھاری خوبیوں کا ایسا گہرا نقش میرے دل میں موجود ہے کہ کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ حسن و جمال بھی اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔
بادشاہ کا یہ فقرہ سُن کے ملکۂ زمانہ کے خوبصورت چہرے پر شرم و ندامت ملے فخر و ناز کے آثار نمودار ہوئے۔ پھر اُن جذبات کو دبا کے بولیں: “حضرت کی اس محبت و مرحمت پر مجھے فخر و ناز ہے اور یہی اطمینان ہے جس نے شوق دلایا کہ آپ کا شوق پورا کرنے کے لیے اس مینا بازار کو حُسن و جمال کا بہترین خزانہ بنا دوں۔ پہلے دن بازار کو سجا ہوا دیکھ کر آئی ہوں تو بعض اُمرا کی بیویوں نے مشورہ دیا کہ فلاں فلاں عورتوں کو جو حُسن و خوبی میں جواب نہیں رکھتیں، اس بازار میں نہ آنے دوں۔ اُن کا خیال تھا کہ حضرت ظل سبحانی ان کی صورت دیکھتے ہی سب کو بھول جائیں گے۔ مگر میں نے یہی کہا کہ مجھے حضرت کی پاکبازی و نیک نفسی پر اتنا اطمینان ہے کہ ایسی احتیاطوں کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اُن کے مشورے کے خلاف کوششیں کیں کہ جن جن عورتوں کی خوبصورتی کی شہرت ہے وہ سب سے پہلے بلائی جائیں اور کوئی عورت جو جمیلہ و شکیلہ سمجھی جاتی ہو اس بازار میں دکاندار بننے سے رہ نہ جائے”۔
جہاں پناہ: میں تمھارے اس ایثار نفس کا بہت ہی شکر گزار ہوں اور ہمیشہ سے جانتا ہوں کہ میرے لیے اپنے مٹا دینے میں تم کو تامل نہیں ہوتا۔
بادشاہ بیگم: دکاندارنوں کے علاوہ یقین ہے کہ غالباً سیر کو آنے والیوں کا بھی بڑا مجمع ہوگا۔ اُن کی کیا حالت تھی؟
جہاں پناہ: وہ بھی ایسی خوبی سے اور ایسے ایسے انداز سے بن سنور کے آئی تھیں کہ ہر ایک دلہن بنی ہوئی تھی۔ مگر میں اجمالی نظر ڈالنے کے سوا انھیں اچھی طرح نہیں دیکھ سکا۔ بعض ایسی خوبرو و شوخ ادا نظر آتی تھیں کہ جی چاہتا تھا اُن سے کچھ باتیں کروں، مگر خلاف مصلحت نظر آیا۔
تاج محل: افسوس اُمرائے دربار کے ساتھ ہونے کی وجہ سےمیں حضرت کے ہمراہ نہ جا سکی۔ ورنہ جہاں پناہ کے اس شوق کو بھی پورا کر دیتی۔ میں انھیں بُلا کے پاس کھڑا کر دیتی اور جب تک جی چاہتا حضرت اُن سے باتیں کرتے۔
جہاں پناہ: مگر تمھاری موجودگی میں غیر ممکن تھا کہ میں انھیں آنکھ بھر کے دیکھتا۔
تاج محل: تو یہ بہت اچھا ہوا کہ میں نہ تھی اور حضرت نے جسے دل چاہا جی بھر کے دیکھا اور خوش ہوئے۔
جہاں پناہ: تمھارے اس فقرے میں بھی طعنے کی بو آتی ہے۔
تاج محل: نہیں۔ میں نے طعن و تشنیع سے نہیں کہا بلکہ دل سے یہی چاہتی ہوں کہ حضرت مینا بازار کی سیر جی بھر کے اور نہایت آزادی سے کریں۔ خیر اب ارشاد ہو کہ بازار کا جتنا حصہ دیکھنے کو باقی رہ گیا ہے وہ کب ملاحظہ ہوگا؟
جہاں پناہ: کل ہی۔ میں نے اس کا آنے سے پہلے ہی اعلان کر دیا اور کل آنے کا اقرار کر کے آیا ہوں۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ایسی شوق و دلچسپی کی چیز کو زیادہ زمانے تک اٹھا رکھتا؟
تاج محل: میں سمجھی تھی کہ اب حضرت دو تین دن کا وقفہ دے کر تشریف لے جائیں گے۔
جہاں پناہ: نہیں، اس بازار کی سیر میں ایسا لطف آیا کہ جو حصہ دیکھنے سے رہ گیا اس کے دیکھنے کے شوق کو میں ایک دن سے زیادہ زمانے تک نہیں ٹال سکتا۔ اگرچہ میں تھک گیا تھا مگر شوق اس قدر حد سے گذرا ہوا تھا کہ اگر بازار والی نازنینوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں رات بھر بازار ہی کی سیر کرتا رہتا۔
تاج محل: اسی شوق کو دیکھ کے میں دل ہی دل میں دعا کرتی رہتی ہوں کہ خدا اس بازار اور اُس کی سیر کو خیر خوبی سے گذران دے۔
اب رات زیادہ آ چکی تھی اور حضرت جہاں پناہ تھکے ہوئے تھے، لہذا مسہری پر لیٹ کے آرام فرمایا۔
صبح کو اٹھ کر نماز سے فارغ ہوتے ہی بادشاہ نے ناشتے کے وقت تاج محل سے پھر مینا بازار کا تذکرہ چھیڑا اور فرمایا: “آج رات بھر میں اسی بازار کے خواب دیکھتا رہا۔ بار بار آنکھ کھلتی تھی اور پھر اُسی میں پہنچ جاتا تھا”۔
تاج محل: تو یوں فرمائیے کہ حضرت رات بھر اُسی مینا بازار میں رہے۔
جہاں پناہ: بے شک وہیں رہا اور خوب خوب سیریں کیں۔
تاج محل: تو اس رات کی سیر کا دلچسپ حال بھی پورا پورا ارشاد ہو۔ دن کی سیر میں تو کوئی اندیشے کی بات نہیں پیش آئی۔ بلکہ اگر کسی قدر اندیشہ تھا بھی تو حضرت کے بیان سے جاتا رہا۔ اس لیے کہ اتنی پری جمال عورتوں کے مجمع میں جانے پر بھی کسی کا خیال دل میں نہ جم سکا۔ ممکن ہے کہ رات کی سیر میں کوئی ایسی حور طلعت نظر آ گئی ہو جو بھولتی نہ ہو۔
جہاں پناہ: اب تمھیں خواب کی باتوں پر بھی بد گمانی ہے؟ فرض کیجیے کہ خواب میں کوئی ایسی دلربا نظر سے گذری بھی جس کا خیال سامنے سے نہ ہٹتا ہو تو اُس سے کس بات کا اندیشہ ہو سکتا ہے؟ نہ زندگی میں وہ کبھی اور کہیں ملے گی اور نہ تم کو اُس کی رقابت کا دھڑکا ہو سکتا ہے۔
تاج محل: کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواب میں ایک دلفریب صورت دیکھی اور صبح کو وہ کہیں نظر بھی آ گئی تو پھر بات سب سے زیادہ اندیشہ ناک ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت جہاں پناہ نے رات کے خواب میں کسی مہ جبین معشوقہ کو دل دے دیا ہو اور مینا بازار کی سیر میں آج اُس پر نظر پڑ جائے۔ ایسا ہوا تو قیامت ہی ہو جائے گی۔ اس لیے مجھے فقط اتنا بتا دیجیے کہ جس طرح دن کی سیر میں کسی کی صورت دل میں نہیں قائم ہوئی تھی، ویسا ہی رات کو بھی ہوا۔ یا خواب میں کسی ایسی پری جمال کو دیکھ لیا جس کی پیاری شکل کو آنکھیں اس وقت تک ڈھونڈھ رہی ہیں۔
جہاں پناہ: جو کچھ دیکھا سب ہی آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے۔ ایسا کچھ دیکھا کہ آنکھوں کو تمنا رہ گئی۔
تاج محل: تو کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ یہی میں بھی چاہتی ہوں کہ حضرت جو کچھ دیکھیں خواب میں ہو یا بیداری میں سب کا سب آنکھوں کے سامنے رہے۔ یہ نہ ہو کہ کوئی ایک صورت خیال میں بس جائے اور سب چیزیں بھول جائیں۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ رات کی دیکھی شکلوں میں سے کوئی ایسی نہیں ہے جسے دن کو حضور کی آنکھیں ڈھونڈتی ہوں۔
جہاں پناہ: لیکن بیگم! میری آنکھیں کسی شکل کو ڈھونڈھیں یا نہ ڈھونڈھیں، مگر تمھیں ہر وقت اس کا دھڑکا نہ لگا رہنا چاہیے۔ خصوصاً جبکہ میں عہد و پیمان کر چکا ہوں کہ کسی کو بُری نگاہ سے نہ دیکھوں گا۔
تاج محل: حضرت جو چاہیں فرمائیں، جب تک یہ بازار قائم ہے اُس وقت تک تو یہ دھڑکا میرے دل سے نہیں جا سکتا۔ خیر اس کو جانے دیجیے اور یہ ارشاد ہو کہ مینا بازار میں سواری کب جائے گی؟ دیر ہو رہی ہے اور میں نہیں چاہتی کہ حضرت کا شوق پورا ہونے میں خلل انداز ہوں۔
جہاں پناہ: تیسرے پہر کو جاؤں گا جس وقت کل گیا تھا۔ یہی وہاں کہہ بھی آیا ہوں۔
تاج محل: تو حضرت نے دل پر بڑا جبر کیا۔ شوق کا تقاضا تو یہ تھا کہ صبح ہوتے ہی روانہ ہو جاتے۔
جہاں پناہ: میں شوق کے پیچھے اپنے فرائض کو نہیں بھولتا۔ ابھی مجھے دربار کرنا ہے۔ دربار سے واپس آ کے کچھ دیر سوؤں گا، پھر اطمینان سے مینا بازار جاؤں گا۔
تاج محل: بہت مبارک۔ اچھا تو میں حضور کے تشریف لے جانے سے پہلے جا کے دیکھ آؤں گی کہ سب چیزیں قرینے سے ہیں اور کوئی ایسی بات تو نہیں جو حضرت کو ناپسند ہو۔
جہاں پناہ: ضرور جاؤ اور اس کا بھی پتہ لگانا کہ کل میرے جانے کا بازار والیوں پر کیا اثر ہوا۔ خاص کر جن کی دکانوں میں مَیں گیا تھا، اُن کو کسی قسم کی شکایت تو نہیں ہے؟
تاج محل: دراصل میں اسی غرض کے لیے جانا چاہتی تھی۔ میں ان باتوں کو بخوبی دریافت کر کے حضرت سے بیان کر دوں گی۔
اس کے بعد جہاں پناہ باہر دربار میں تشریف لے گئے اور نواب ممتاز الزمانی بیگم مع شہزادیوں اور مصاحب عورتوں کے سوار ہو کر مینا بازار میں تشریف لے گئیں۔ آج وہاں پہر دن چڑھے ہی بڑا مجمع ہوگیا تھا اور چونکہ سب کو یقین تھا کہ آج بھی جہاں پناہ تشریف لائیں گے لہذا تمام اُمرائے دربار اور معززین شہر کی خاتونیں جمع تھیں۔ جو فرش سڑکوں اور گذرگاہوں پر بچھا تھا بدلا جا رہا تھا اور کوشش ہو رہی تھی کہ بازار کی رونق آج کل سے کچھ زیادہ ہی ہو۔
ممتاز محل صاحبہ اُن سڑکوں پر جن کا حضرت جہاں پناہ کل معائنہ فرما چکے تھے تشریف لے گئیں اور ہر ہر دکان پر جا کے دکان رکھنے والیوں سے پوچھا کہ کل جہاں پناہ سے ان سے کیا کیا باتیں ہوئیں، اُن کا مال کس قدر بکا اور انھیں اپنی امید کے مطابق اس سودے میں فائدہ ہوا یا نہیں۔ سب نے خوشی اور شکرگزاری کا اظہار کیا، بادشاہ سے جو کچھ گفتگو ہوئی تھی بیان کی۔ غرض سب کو خوش و خرم پایا اور معلوم ہوا کہ جہاں پناہ کی شفقت و مرحمت نے سب کو نہال کر دیا ہے اور سب شاہی عنایت و توجہ کا کلمہ پڑھ رہی ہیں۔
پھر نواب تاج محل اُن دو سڑکوں پر تشریف لے گئیں جہاں کی حضرت ظل سبحانی آج سیر کرنے والے تھے۔ غور سے ملاحظہ کیا کہ ان دکانوں والیاں کس شکل و شمائل کی ہیں، ان کے لباس اور انداز کیسے ہیں، ان کے پاس مال کتنا اور کس قسم کا ہے۔ ان دکاندارنوں کو سمجھایا: “آج جہاں پناہ تمھاری دکان میں تشریف لائیں گے، ان کے سامنے کسی کی زبان سے کوئی بدتمیزی کا کلمہ نہ نکلے۔ اپنے ناز و انداز اور اپنی زیبائی و رعنائی دکھانے میں کوتاہی نہ کرنا۔ اس کے ساتھ تمھاری متانت اور سنجیدگی میں فرق نہ آئے۔ ممکن ہے کہ حضرت کسی کے ساتھ کوئی شوخی کریں، تم بھی اُسی کے مناسب شوخ جواب دینا۔ مگر ایسا نہ ہو کہ شوخی میں بے باکی اور بے حیائی پیدا ہو جائے”۔
سب کو مناسب نصیحتیں کر کے تھوڑی دیر اپنی کوشک میں ٹھہریں اور بارہ بجے سے پہلے محل میں داخل ہو گئیں۔ اندر قدم رکھتے ہی معلوم ہوا کہ جہاں پناہ دربار سے فارغ ہو کر محل میں تشریف لا چکے۔ فوراً پاس جا بیٹھیں اور پوچھا “حضرت خاصہ تناول فرما چکے؟”
جہاں پناہ: نہیں۔ تمھارے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ دسترخوان بچھانے کا حکم دو اور بتاؤ کہ تم مینا بازار کو دیکھ آئیں؟
تاج محل: جی ہاں دیکھ آئی۔ ہر چیز اپنی اعلیٰ بہار دکھانے کے لیے حضور کا انتظار کر رہی ہے۔
جہاں پناہ: میرے کل کے طرز عمل سے کوئی شاکی تو نہیں ہے؟
تاج محل: کوئی نہیں۔ بلکہ ہر دکان والی اور ہر سیر کرنے والی شکر گزار ہے کہ حضرت نے ان کی عزت افزائی فرمائی اور ہر عورت کی زبان پر ہے کہ رعایا کی عزت و آبرو کے نگہبان تاجدار کو ایسا ہی ہونا چاہیے جیسے کہ حضرت ظل سبحانی ہیں۔
جہاں پناہ: اور سچ بتاؤ تم نے وہاں کوئی ایسی بات تو نہیں سُنی کہ تمھارے دل میں مجھ سے شکایت پیدا ہوئی ہو؟
تاج محل: ایسی کوئی بات نہیں سُنی اور سنتی بھی تو مجھے شکایت نہ ہوتی۔
جہاں پناہ: میں تمھاری اس محبت کا شکر گزار ہوں اور تم سی ملکہ ملنے پر اکثر خدا کا شکر کیا کرتا ہوں۔ مگر یہ بتاؤ کہ میرے ساتھ جو بہت سے امرا و معزز اہل دربار اندر گئے تھے، عورتوں کو اُن کا سامنے ہونے کی شکایت تو نہیں ہے؟ یا اُن میں سے کسی نے کوئی ایسی حرکت تو نہیں کی جو کسی خاتون کو ناگوار گذری ہو؟ اگرچہ میں اُن کی وضع و حالت کو غور سے دیکھتا رہتا تھا۔ مگر اکثر یہ ہوا کہ میں دکانوں کے اندر جا کے دکان والیوں میں مشغول ہوا اور وہ سب باہر کھڑے رہے یا کسی دوسری دکان میں چلے گئے۔ میری نظر سے باہر ہونے کے بعد ممکن ہے کہ کسی سے کوئی نالائق حرکت سرزد ہو گئی ہو۔
تاج محل: اس کی بھی کسی نے شکایت نہیں کی۔ میں نے کُرید کُرید کے ایک ایک سے پوچھا اور کسی کو بھی شاکی نہیں پایا۔ جب آپ سارے ہمراہیوں کو تاکیدی حکم فرما چکے تھے کہ کوئی کسی عورت کو ناجائز شوق کی نگاہ سے نہ دیکھے تو بھلا کس کی مجال تھی کہ کسی کی طرف آنکھ اُٹھا کے بھی دیکھتا؟ بعض عورتوں کا بیان ہے کہ وہ لوگ اس طرح نظریں نیچی کیے ہوئے تھے کہ اس میں شک ہے کہ انھوں نے کسی عورت کو غور سے دیکھا بھی یا نہیں۔
جہاں پناہ: تم نے مجھے خوش کر دیا اور الحمد للہ کہ میں اس کوشش میں کامیاب ہوا۔
اب دسترخوان بچھ چکا تھا۔ حضرت صاحب قران ثانی اور ملکہ ممتاز الزمانی بیگم صاحبہ نے کھانا کھایا اور ہاتھ دھوتے ہی جہاں پناہ ہوا دار پر بیٹھ کے برآمد ہوئے۔ امرائے دربار و معززین باریاب حاضر تھے۔ فوراً جہاں پناہ عماری میں رونق افروز ہو کر اُسی کل کے کر و فر اور شان و شکوہ سے مینا بازار کی طرف روانہ ہوئے۔ اُسی شوکت اور دبدبے سے اندر داخل ہو کے چند منٹ کوشکِ شاہی میں قیام فرمایا اور پھر پاپیادہ بازار کی سیر میں مصروف ہو گئے۔
سہ پہر کے آغاز میں سیر شروع کی تھی اور دو گھڑی دن رہے تیسری سڑک کو ختم کر کے چوتھی سڑک میں قدم رکھا۔ اس سڑک کے شروع ہی پر ایک دکان نظر آئی جو سب دکانوں سے زیادہ سجی ہوئی تھی۔ جہاں پناہ نے اندر قدم رکھا تو ایک ماہ وَش، آفت روز گار، گل اندام ایسے ناز و انداز اور ادائے معشوقانہ سے جھک کےآداب بجا لائی کہ بادشاہ حیران رہ گئے۔ اُس کی وضع دیکھی تو ایسے بانکپن کی سجاوٹ کبھی نہ دیکھی تھی۔ صورت دیکھی تو ایسی ماہرو گلبدن کبھی نظر سے نہ گذری تھی۔ پھر اس کی میز کی طرف نظر دوڑائی تو اس میں بغیر کسی سامان کے ایسی بلا کی صفائی اور سادگی تھی کہ ہزار زینتیں اس پر قربان ہیں۔ یہ مہ جبین بجُز کانوں میں دو زمرد کے آویزوں اور گلے میں ایک نہایت نفیس جڑاؤ چمپا کلی کے کوئی زیور نہیں پہنے تھی۔ بلکہ معلوم ہوتا کہ اپنا سارا زیور اتار کے میز پر خوبصورتی سے آراستہ کر دیا ہے۔
جہاں پناہ نے اُس کی وضع و لباس، شکل و شمائل اور بانکی اداؤں کو بے مثال پایا تو جی چاہا کہ اُس کے انداز گفتگو کو بھی ملاحظہ فرمائیں۔ میز پر جو زیور رکھا تھا اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: “یہ زیور بجائے میز کے تمھارے جسم پر ہوتا تو اس سے زیادہ خوبصورت نظر آتا”۔
نازنین: کیا میری صورت کو اس کی ضرورت ہے؟
جہاں پناہ: ضرورت تو نہیں، مگر اس کی رونق بڑھ جاتی۔
نازنین: مجھ سے تو کہا گیا تھا کہ چہرے کی آب و تاب کے آگے اس کی جلا ماند پڑھ جائے گی اور جہاں پناہ کو پسند نہ آئے گا۔
جہاں پناہ: اس میں شک نہیں۔ مگر میں تو جب ہی اس کی قدر کروں گا جب تمھارے پنڈے پر ہو۔
نازنین: مجھے پہن کے دکھانے میں عذر نہیں، مگر اس زیور کے ساتھ لونڈی بھی پسند آ گئی تو قیامت ہو جائے گی۔
جہاں پناہ (سوچ کر): بے شک قیامت آ جائے گی، مگر صرف اس کے لیے جو تمھیں اس زیور میں دیکھے گا، تمھارے واسطے کوئی اندیشہ کی بات نہیں۔
نازنین: حضرت کی یہی مرضی ہے تو کیا عذر ہو سکتا ہے؟ اتنی اجازت ہو کہ اس زیور کو اُدھر پردے میں جا کے پہن آؤں۔
جہاں پناہ نے اجازت دے دی اور وہ سارا زیور چلمن کے اُدھر لے جا کے پہننے لگی اور جب تک وہ غائب رہی ایک دوسری خاتون جو اس کے قرابت داروں میں تھی بادشاہ کے سامنے مؤدب و دست بستہ کھڑی رہی مگر جہاں پناہ نے اس سے کوئی بات نہیں کی۔ چند ہی منٹ بادشاہ کو انتظار کرنا پڑا ہوگا کہ وہ حور وَش نازنین عروس چہاردہ سالہ کی طرح اس انداز سے چمک کر چلمن سے برآمد ہوئی کہ گویا چودھویں رات کا چاند یکایک پردۂ ابر میں سے نکل آیا۔ رخِ زیبا کے ساتھ جواہرات نے ایک ساتھ کچھ ایسی چمک دمک دکھائی کہ بادشاہ کی نظر جھلملا گئی۔ پھر اس پر سر سے پاؤں تک نظر ڈال کے فرمایا: “اب بے شک یہ زیور نہایت قیمتی ہے اور اس سے اچھا محل اس کے لیے دنیا بھر میں نہیں ہو سکتا”۔
نازنین: یہ زیور تو لونڈی کو عطا ہوگیا۔ اب میرے پاس کیا رہا ہے جو حضرت کی نذر کروں؟
جہاں پناہ: اس کو تمھارے جسم پر دیکھنے کی قیمت خود اس کی قیمت سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چیز بھی تمھارے پاس فروخت کے لیے ہے؟
نازنین: ایک الماس کا نہایت ہی قیمتی نگینہ اور ہے، بشرطیکہ کہ حضور کو پسند آئے۔
جہاں پناہ: لاؤ دکھاؤ۔ تمھاری نظر میں قیمتی ہے تو بے بہا ہوگا۔
یہ سنتے ہی نازنین بجلی کی طرح چمک کے چلمن کے پیچھے سے ایک سونے کی ڈبیا اٹھا لائی۔ اُسے کھول کے بڑی احتیاط سے ایک الماس کا سا بڑا کنول نکالا اور ہتھیلی پر رکھ کے نذر کے انداز سے حضرت شاہنشاہ عالی جاہ کے سامنے پیش کیا۔ بادشاہ نے اُس کو اُٹھا کے غور سے دیکھا، پھر دکان کے باہر آ کے روشنی میں ملاحظہ فرماما۔ اس کے بعد مسکراتے ہوئے ہوئے اندر آئے اور فرمایا: “بے شک بے مثل نگینہ ہے۔ ایسا الماس کسی نے نہ دیکھا ہوگا اور لطف یہ کہ تمھارے لبِ شیریں اور ادائے شیریں کی پوری صفتیں اس میں جمع ہو گئی ہیں۔ قیمت کیا ہے؟”
نازنین (مسکرا کر): ایک لاکھ روپیہ۔
جہاں پناہ: بہت سستا ہے، میں نے خوشی سے لیا۔
اور پلٹ کے خزانچی کو بلا کے دکھایا، پھر واپس لے کر جیب میں رکھ لیا اور حکم فرمایا کہ اسی وقت اس خاتون کو دو لاکھ روپیہ دے دو۔ پھر اُس نازنین کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد کیا: “ایک لاکھ روپیہ اس کی قیمت ہے کہ اس زیور کو تمھارے جسم پر دیکھا اور ایک لاکھ روپیہ اس نگینہ کی”۔ نازنین جھک کے آداب بجا لائی، اور بادشاہ اُس سے کچھ اور کہنے کو تھے کہ خزانچی نے بڑھ کے کان میں عرض کیا: “حضور یہ تو مصری کی ڈلی ہے جس کو کسی ہوشیار نگینہ تراش نے الماس کا کنول بنا دیا ہے”۔ سنتے ہی بادشاہ نے بے اختیار قہقہہ مار کے کہا: “تم اتنے بڑے جوہری ہو اور آج تک جواہرات کا پہچاننا نہ آیا۔ یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے جو تمھاری نظر سے کبھی نہیں گذرا۔ جاؤ ابھی روپیہ ادا کرو، نگینوں کا پہچاننا سیکھو اور پھر ایسی غلطی نہ کرنا”۔
اس کے جانے کے بعد جہاں پناہ نے اس نازنین کی طرف پھر توجہ کی۔ اس کے چہرے اور اُس کی وضع و لباس کو غور سے دیکھا اور اُس کا ہاتھ پکڑ کے فرمایا: “میری تم سے ایک درخوست ہے، اُمید ہے کہ قبول کرو گی”۔
نازنین: لونڈی کو بھلا کسی حکم کے بجا لانےمیں عذر ہو سکتا ہے؟
جہاں پناہ: تمھاری باتوں سے ابھی جی نہیں بھرا۔ چاہتا ہوں کہ پاس بیٹھ کے ذرا اطمینان سے باتیں کروں۔ اس لیے آج شب کو میرے ساتھ کھانا کھاؤ اور میری دعوت قبول کرو۔
نازنین: لونڈی کی کمال عزت افزائی ہے اور خوشی سے حاضر ہوگی۔
جہاں پناہ: میں سواری کا حکم دیے دیتا ہوں۔ میرے سوار ہونے کے دو گھڑی بعد روانہ ہو کے محل میں پہنچ جانا۔
نازنین: لونڈی ضرور حاضر ہوگی۔
اب جہاں پناہ اور دکانوں کی سیر میں مصروف ہوئے۔ مگر دل کی یہ حالت تھی کہ کسی دکان میں دل نہ لگتا۔ اس نازنین کی صورت دل میں بسی ہوئی تھی اور جس دکان میں تشریف لے جاتے، آنکھوں کے سامنے آ کے اپنی طرف متوجہ کر لیتی۔ جس طرح بنا جلد جلد دکانوں میں پھر کے اور وضعداری کے لیے سب جگہ خریداری کر کے مغرب سے پہلے ہی سوار ہو کے محل کی طرف روانہ ہو گئے۔
آٹھواں باب
بندگی بیچارگی
جہاں پناہ اس نازنین کی دکان سے نکل کے تشریف لے گئے تو اس کی عجیب حالت تھی۔ ہوش و حواس بجا نہ تھے۔ دم بخود تھی اور فکروں کے دریا میں غوطے کھا رہی تھی۔ آخر اُٹھ کے خلوت کے کمرے میں جا کے اپنی اس عزیز خاتون کو بلایا جو اس کی بچپن کی سہیلی اور ہم دم و ہم راز تھی۔ وہ جیسے ہی پاس آ کے بیٹھی، کہا: “شوکت آرا! بڑا غضب ہوا۔ جہاں پناہ چلتے وقت اپنے یہاں دعوت دے گئے ہیں۔ رعب شاہی سے میں انکار نہ کر سکی اور آنے کا اقرار کر لیا۔ اب تھوڑی ہی دیر میں مجھے لے جانے کو فنس آتی ہوگی”۔
شوکت آرا (ہنس کر): تو پھر فکر کس بات کی؟ جاؤ، مزے کرو۔ ہمیں نہ بھول جانا۔ میں پہلے ہی کہا کرتی تھی کہ تمھارا حُسن شاہی محلوں کے قابل ہے۔ خدا نے میری وہ تمنا پوری کر دی۔
نازنین: یہ بنانے اور چٹکیوں میں اُڑانے کی بات نہیں ہے۔ میں پوچھتی ہوں کہ میرا حشر کیا ہوگا؟ بادشاہ کے یہاں نہ جاؤں مجال نہیں۔ چھپنے والی بات ہے نہیں کہ گھر میں خبر نہ ہو۔ آج ہی سارے بازار میں مشہور ہو جائے گا۔ اُدھر میرے میاں اس مزاج کے آدمی ہیں کہ میرے یہاں آنے کے بھی روادار نہ تھے۔ کچھ بادشاہ کے حکم سے کچھ اپنی ماں بہنوں کے اصرار سے اس کو جبراً منظور کر لیا اور اس میں بھی یہ شرط لگا دی کہ تم میرے ساتھ رہو اور ہر وقت دیکھتی رہو کہ میں کسی سے بات اور اشارے تو نہیں کرتی۔ اب میرے محل میں جانے کا حال سنیں نے تو کیا ہوگا؟ سپاہی آدمی ہیں۔ دربار کے بڑے معزز امیروں میں شمار کیے جاتے ہیں اور عزت و ناموس کا اس قدر خیال ہے کہ میری ناک کاٹ لیں، چوٹی کاٹ لیں، مار ڈالیں جو نہ کر گذریں تعجب ہے۔
یہ نازنین دربار شاہجہانی کے پنج ہزاری منصب دار اور نامی رسالدار جمال خان کی بیوی تھی۔ اصلی نام گلرخ بیگم تھا۔ ایک معزز دولت مند گھرانے کی بیٹی تھی اور جمال خان اس کی صورت کا ایسا عاشق زار تھا کہ جس دن بیاہ کے آئی اسی روز اس کا نام “جمال آرا” قرار دے دیا۔ اس فریفتگی کے ساتھ غیرت و حسد اس درجہ بڑھا ہوا تھا کہ بیوی کو کسی امیر کے یہاں نہ جانے دیتا۔ مینا بازار کے آنے کے بھی خلاف تھا۔ مگر نواب سعد اللہ خان وزیر سلطنت نے باہر اور خود اس کی ماں نے اندر سمجھایا کہ یہ بالکل نامناسب ہے۔ بادشاہ سے پردہ ہی کیا اور پھر وہاں تو چہروں پر نقاب ڈالنے کی عام اجازت ہے۔ اس اجازت پر بھی تم نے بیوی کو مینا بازار میں نہ بھیجا تو نواب ممتاز الزمانی بیگم کو ملال ہوگا اور پھر حضرت جہاں پناہ کے دل میں بھی میل آ جائے گا”۔ وزیر سلطنت کے کہنے کا تو اُس پر کچھ اثر نہ ہوا مگر ماں کے کہنے سے مان گیا، اور بیوی کو چلتے چلاتے تاکید کر دی کہ تم بغیر نقاب کے بادشاہ کا سامنا نہ کرنا۔ مگر یہاں آنے پر تمام امیروں کی بیویوں نے جو بازار میں موجود تھیں اور خود اس کی چچیری بہن شوکت آرا نے اسے مجبور کیا کہ بادشاہ سے پردہ نہ کرنا چاہیے اور جب ساری عورتوں میں اکیلی تم ہی نقاب دار ہوگی تو بادشاہ خواہ مخواہ نقاب اُلٹوانے کا حکم دیں گے۔ رہا میاں کا حکم تو ان سے کہنے کون جائے گا۔ غرض سب کے کہنے سے غریب گلرخ بادشاہ سے بے نقاب ملی اور اب محل میں حاضر ہونے کا حکم ہوا تو حواس جاتے رہے۔
شوکت آرا اُس کی گفتگو سُن کر دیر تک کچھ جواب نہ دے سکی۔ پھر بولی: “ہے تو حقیقت میں بڑے غضب کی بات، مگر اب اس کا علاج ہی کیا ہو سکتا ہے؟ تمھیں جانا ضرور پڑے گا اور اب اتنا وقت نہیں ہے کہ نواب جمال خان کو خبر کی جائے”۔
گلرخ بیگم: پھر میں تو کہیں کی نہ رہی؟ اگر جھوٹوں بھی سُن لیا کہ میں محل میں گئی تھی تو بے جان لیے نہ رہیں گے۔
شوکت آرا: مگر اس میں تمھارا قصور ہی کیا ہے؟
گلرخ بیگم: یہ قصور نہیں ہے کہ بے نقاب بادشاہ کے سامنے ہو گئی؟ تم ہی نے مجھے خراب کیا۔
شوکت آرا: جب تک انھیں خبر ہو، تم محل میں پہنچ چکو گی۔ میرے نزدیک تو جس طرح انُ کی بغیر اجازت کے بادشاہ کا سامنا کیا، محل میں بھی چلی جاؤ اور جہاں تک بنے بہت جلد واپس چلی آنا۔ اگر نواب جمال خان کو خبر ہو گئی تو اپنی مجبوری کو ظاہر کر دینا اور نہ خبر ہوئی تو جانو کہ بلا ٹل گئی۔
یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک شاہی محل دار فنس لے کے آ گئی اور تقاضا کرنےلگی کہ جلدی سوار ہو۔ جہاں پناہ محل میں پہنچتے ہی تم کو پوچھیں گے اور موجود نہ ہوئیں تو ہم سب پر قیامت آ جائے گی۔
اب گلرخ بیگم عرف جمال آرا کے اور ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ شوکت آرا کو پشت کے کمرے میں لے جا کے کہا: “میں تو قیدیوں کی طرح جاتی ہوں۔ مگر تم اتنا کرو کہ اسی وقت گھر میں آدمی بھیج کے انھیں خبر کر دو۔ یہ چھپنے والی بات نہیں ہے، صبح تک سارے شہر میں مشہور ہو جائے گا اور انھیں دوسروں سے معلوم ہوگا تو میرے لیے عذر خواہی اور مجبوری ظاہر کرنے کی بھی گنجائش نہ رہے گی۔ میری اچھی بہن! اس میں دیر نہ لگانا۔ اگر ذرا بھی دیر ہوئی تو میں جانوں گی کہ تم بہن نہیں، میری دشمن ہو”۔ اتنا کہا اور بغیر جواب کا انتظار کیے دوڑ کے فنس میں سوار ہو گئی۔
جہاں پناہ جو محل میں پہنچے تو فوراً نواب ممتاز الزمانی بیگم کو بُلوا کے پاس بٹھایا پھر سب کو ہٹا دیا اور کہا: “آج میں نے ایک ایسی حرکت کی کہ تم سے معافی مانگنے کی ضرورت ہے”۔
تاج محل: وہ کیا؟ حضرت ارشاد تو فرمائیں اور مجھ سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جو حضرت کی مرضی اور خوشی ہو وہی میری ہے۔
جہاں پناہ: آج مینا بازار میں ایک ایسی پری جمال ماہ وَش نظر سے گذری کہ بے اختیار دل ہاتھ سے جاتا رہا۔ میں نے اپنی طبیعت کو بہت روکنا چاہا مگر دل قابو سے باہر تھا۔ حیرت و فریفتگی سے اُس کا رخ زیبا دیکھا اور باتیں کرنے لگا۔ اس کے بعد جہاں پناہ نے وہ تمام باتیں بیان کیں جو اس نازنین سے ہوئی تھیں اور جو جو واقعات پیش آئے تھے سب بلا کم و کاست ظاہر کر دیے۔ پھر آخر میں جب یہ بیان کیا کہ “میں اُسے اسی وقت رات کو اپنے ساتھ دسترخوان پر کھانا کھانے کے لیے بُلا آیا ہوں” تو نواب ممتاز محل حیران رہ گئیں اور گھبرا کے پوچھا: “اور حضرت نے یہ بھی دریافت کر لیا کہ وہ کون ہے؟ کس خاندان کی ہے؟ کسی کی جورو ہے یا بیٹی ہے؟”
جہاں پناہ: وفور شوق میں اس کے پوچھنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اُس کی دکان سے نکلا تو اُس کی خیالی تصویر اس طرح آنکھوں کے سامنے پھرتی اور اپنے کرشموں میں لبھا رہی تھی کہ راہ میں مجھے کسی اور سے بھی دریافت کرنے کا موقع نہ ملا۔
تاج محل: لیکن حضرت نے یہ بڑی بے احتیاطی کی، خدا جانے وہ کون ہے؟ اگر کسی کی جورو ہوئی تو بڑے غضب کی بات ہوگی۔ ممکن ہے کہ اس کا شوہر غیرت کے جوش میں خودکشی کر لے یا اور کوئی ایسی حرکت کر گذرے جس میں بدنامی ہو۔
جہاں پناہ: مگر میں نے اسے کسی بُرے ارادے سے نہیں بلایا ہے۔ دعوت کے بہانے فقط اتنا چاہتا ہوں کہ دو گھڑی اُس سے اطمینان کے ساتھ باتیں کروں۔ کیا کسی کی دعوت کرنا بھی گناہ ہے؟
تاج محل: کسی غیر کی جورو کو دعوت میں اپنے یہاں بلا لینا حضرت کے نزدیک چاہے معمولی بات ہو مگر اُس کے شوہر کے لیے تو ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
جہاں پناہ: تمھارے لیے کوئی بد گمانی کا محل نہیں ہے۔ تمھارے اطمینان ہی کے واسطے میں نے اس کو یہیں بلوایا ہے تاکہ پہلے تم اس سے ملو اور اپنے ساتھ میرے پاس لے آؤ۔ اس میں یہ بھی مصلحت ہے کہ جب وہ ہر وقت تمھارے پاس رہے گی اور بغیر تمھاری موجودگی کے میں اُس سے نہ ملوں گا تو جس تمھیں بد گمان ہونے کا حق نہیں ہے، اُسی طرح اُس کے شوہر کو بھی کسی طرح کی بد گمانی نہ کرنی چاہیے۔
تاج محل: مجھے تو کسی حال میں بد گمانی نہ ہوگی چاہے حضور میرے سامنے ملیں یا اکیلے میں، مگر اس کے شوہر کو اطمینان ہو یہ مشکل ہے۔ اُس کی رسوائی کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی جورو حضور کے محل میں آئی۔
جہاں پناہ: تمام وزیروں اور امیروں کی بیویاں برابر یہاں آتی اور مجھ سے ملتی ہیں۔ کسی کی بے حرمتی نہیں ہوتی۔ صرف اُسی شخص کی عزت جاتی رہے گی؟
اتنے میں محل دار نے آ کے اطلاع کی کہ جن بیوی کو حضرت نے مہمان بلایا ہے وہ آ گئیں۔ سنتے ہی جہاں پناہ نے نواب ممتاز الزمانی بیگم سے فرمایا: “تم پہلے اپنے سامنے بلا کے اس عورت سے ملو۔ اس کو بھی دریافت کر لو کہ کون ہے اور کس درجے کی ہے اور گو کہ شوق کے ہاتھوں بے تاب ہو کر اُسے محل میں بُلوا لیا، لیکن تم کو اختیار دیتا ہوں کہ چاہو مجھ سے ملاؤ یا نہ ملاؤ”۔
تاج محل: جو چیز حضرت کے شوق کی ہو اس کو پورا کرنا میرا فرض ہے۔ میں جاتی ہوں، اُس سے سب باتیں پوچھ کر لے آؤں گی اور لا کے حضرت کے پاس دسترخوان پر بٹھا دوں گی۔ جہاں پناہ نے جو وعدہ کر کے بلایا ہے اس کو ضرور پورا ہونا چاہیے۔
یہ کہہ کے نواب ممتاز الزمانی بیگم اُٹھ کے اپنے خاص دیوان خانے میں گئیں اور محل دار کو حکم دیا کہ اُسے لے آئے۔ سامنے آتے ہی جمال آرا گلرخ بیگم آداب بجا لائی اور ملکہ ٔ جہان نے بلا کے اپنے قریب بٹھا لیا اور باتیں کرنے لگیں۔ مگر دیکھا کہ وہ نہایت خوف زدہ اور سہمی ہوئی سی ہے۔ پوچھا: تم گھبراتی کیوں ہو؟ جہاں پناہ کو تمھاری باتیں اچھی معلوم ہوئیں، اس لیے بلا لیا۔ اس میں کوئی اندیشے کی بات نہیں ہے۔
گلرخ بیگم: حضرت ظل سبحانی کی عنایت و مرحمت سے مجھے کسی بات کا اندیشہ نہیں ہے۔ مگر اپنے شوہر سے ڈرتی ہوں جن کی اجازت کے بغیر یہاں چلی آئی۔
تاج محل: کیا تمھارے شوہر تمھارے یہاں آنے کو پسند نہیں کرتے؟
گلرخ بیگم: کیا جانوں کہ وہ اس کو پسند کریں گے یا نہیں؟ مگر ہیں بڑے بد گمان اور وہمی طبیعت کے آدمی۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ حضور تک رسائی ہونے اور حضرت شہنشاہ کی خدمت میں باریاب ہونے سے میری عزت ہو گئی اور سر افتخار آسمان پر پہنچ گیا۔ مگر نہیں جانتی کہ وہ کیاخیال کریں گے، خاص کر جب کہ میں نے آج تک کبھی کوئی کام بغیر اُن سے پوچھے اور اُن کی مرضی لیے نہیں کیا ہے۔
تاج محل: اُن کا نام تو بتاؤ۔ شاید میں جانتی ہوں۔
گلرخ بیگم: حضور ہی کے غلاموں میں ہیں، ملکۂ جہاں نے ضرور اُن کا نام سنا ہوگا۔ (پھر شرما کے اور آنکھیں نیچی کر کے کہا) دربار کے اعلیٰ منصب داروں میں ایک پنج ہزاری امیر ہیں جمال خان جو رسالداری کے عہدے پر بھی سرفراز ہیں۔
تاج محل: ہاں جانتی ہوں۔ تم گھبراؤ نہیں۔ میں اُن کے پاس کہلا بھیجوں گی کہ مینا بازار میں تم سے خوش ہو کر جہاں پناہ نے تمھیں دو گھڑی باتیں کرنے کے لیے محل میں بلا لیا اور اپنے ساتھ خاصے پر بٹھا کے تمھیں اور تمھاری بیوی کو سرفراز کیا۔
گلرخ بیگم: جو حضور کی مرضی ہو۔ خدا کرے اس سے اُن کا اطمینان ہو جائے اور اب تو جو ہونا ہے ہوئے ہی گا۔
تاج محل: اس کی فکر نہ کرو، جو کچھ ہوگا بہتر ہوگا اور جمال خان کی اتنی مجال نہیں کہ جہاں پناہ کے پاس آنے پر تمھیں الزام دیں۔ اگر یہ باتیں انھیں گوارا نہ تھیں تو مینا بازار میں کیوں بھیجا تھا؟ اور تمھارا نام کیا ہے؟
گلرخ بیگم: میرا گھر کا نام تو گلرخ ہے مگر سسرال میں جمال آرا کے لقب سے مشہور ہوں۔
تاج محل: معلوم ہوتا ہے تمھارے میاں کو تم سے بڑی محبت ہے۔ اس محبت ہی کی وجہ سے انھوں نے اپنا اور تمھارا نام ایک ہی کر لیا۔
گلرخ بیگم: تھا تو ایسا ہی۔ مگر اب دیکھیے کیاہوتا ہے؟
تاج محل: کچھ نہ ہوگا اور جیسی محبت تم میں آج تک رہی بعد بھی رہے گی۔ خیر اب چل کے حضرت جہاں پناہ کے پاس بیٹھو۔
یہ کہتے ہی نواب تاج محل گلرخ بیگم کو ساتھ لے کے جہاں پناہ کے پاس تشریف لے گئیں اور گلرخ بیگم کو پیش کیا، جو سامنا ہوتے ہی نقیبہ کی صدائے تادیب سُن کر بہت جھک کے آداب بجا لائی۔ اور جہاں پناہ نے فرمایا: “تم آ گئیں؟ میں منتظر تھا۔ آؤ بیٹھو” کہہ کے اپنے قریب بٹھا لیا اور نواب تاج محل نے کہا: “یہ آپ کے پنج ہزاری منصب دار اور بہادر سپہ سالار جمال خان کی بیوی گلرخ بیگم ہیں مگر ان کے میاں ان کو جمال آرا کے لقب سے یاد کرتےہیں”۔
جہاں پناہ: جمال خان کی بیوی ہیں! اُن کا اصلی نام یوسف خان تھا، میں نے جمال خان کا خطاب دیا۔
تاج محل: اور انھوں نے اپنے ساتھ ان کو جمال آرا بنا کے حضرت کی سرفرازی میں شریک کر لیا۔
جہاں پناہ: اور یہ ہر طرح اس خطاب کی اہل تھیں۔ ان کے میاں بھی بڑے خوبصورت آدمی ہیں۔ دربار کے امرا میں کوئی اتنا خوش رُو اور وجیہ نہیں ہے اور یہی دیکھ کر میں نے انھیں جمال خان کا خطاب دیا۔ مگر یہ اب معلوم ہوا کہ جیسے خوبصورت وہ ہیں ویسی ہی پری جمال بیوی بھی انھیں مل گئی۔
اب نواب ممتاز الزمانی بیگم نے یہ خیال کر کے کہ جب تک میں یہاں ہوں، جہاں پناہ اس حور وَش خاتون کے ساتھ آزادی اور بے تکلفی سے باتیں نہ کر سکیں گے، اُٹھ جانے کا ارادہ کیا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ نے روکا اور کہا: “بیگم کہاں چلیں؟ تم سے مجھ سے اقرار ہے کہ ان سے جو کچھ باتیں کروں گا تمھارے سامنے کروں گا”۔
تاج محل: ابھی آئی، ایک ضروری کام کو جاتی ہوں۔
یہ کہہ کے نواب تاج محل اٹھ کے چلی گئیں اور جہاں پناہ نے گلرخ بیگم کی طرف متوجہ ہو کر کہا: “مجھے تمھارا انتظار تھا اور تمھارے آنے سے بڑی خوشی ہوئی۔ آج مینا بازار میں تمھاری باتوں اور اداؤں نے میرے دل پر کچھ ایسا اثر کیا کہ بغیر تمھارے کھانے میں مزہ نہ آتا”۔
گلرخ بیگم: حضرت کی عنایت و شفقت کا شکریہ ادا ہونا غیر ممکن ہے اور لونڈی کی یہ بڑی خوش نصیبی ہے۔ مگر لونڈی کی قسمت اس کے قابل نہیں ہے۔
جہاں پناہ: تم تو بڑی خوش نصیب ہو۔ اس حُسن و جمال پر خدا کا شکر کرو جس کی بدولت تم سے زیادہ خوش نصیب دنیا بھر میں کوئی نہیں ہے۔
گلرخ بیگم: اور اس آستان دولت تک باریاب ہونا اس سے بھی بڑی خوش نصیبی ہوتی مگر۔۔۔۔۔
مگر کہہ کے چپ ہو گئی اور چہرے پر حسرت برسنے لگی۔ جہاں پناہ پہلے ہی دل میں کہہ رہے تھے کہ یہاں اس نازنین میں وہ شوخ ادائی نہیں ہے جو مینا بازار میں دیکھتی تھی اور اب جو اُس کا حسرت بھرا چہرہ دیکھا تو فرمایا: “شاید تمھیں اندیشہ ہے کہ جمال خان کو تمھارا یہاں چلا آنا ناگوار ہوگا۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس کی اتنی مجال نہیں کہ میرے ساتھ کھانا کھانے پر ناراض ہو۔ میں نے تم کو کسی بُری نیت سے نہیں بلایا ہے۔ فقط اتنا چاہتا ہوں کہ دو تین دن تم کو محل میں روک کے تمھاری باتوں سے لطف اٹھاؤں اور تمھاری پیاری صورت ملکۂ جہاں ممتاز الزمانی بیگم کو دکھاؤں۔ تم سمجھ سکتی ہو کہ ذرا بھی بُرائی خیال میں ہوتی تو تم کو ممتاز الزمانی بیگم سے نہ ملاتا۔
گلرخ بیگم: بے شک مجھے حضرت کی نیک نفسی و پاکبازی پر پورا بھروسا ہے۔ مگر خدا کرتا اسے بھی اطمینان ہوتا جس سے میرا سابقہ ہے۔
جہاں پناہ: اس کی اتنی مجال نہیں کہ مجھ پر یا تم پر کسی قسم کی بد گمانی کرے۔
اتنے میں نواب تاج محل نے آ کے دسترخوان بچھانے کا حکم دیا، اور اُس پر تمام الوان نعمت چنے جا چکے تھے کہ ایک محل دار دوڑتی ہوئی آئی اور عرض کیا: “حضور شاہزادی جہاں آرا بیگم کی طبیعت کچھ ناساز ہو گئی ہےا ور حضرت ملکۂ جہاں کو یاد فرماتی ہیں”۔ یہ سنتے ہی نواب تاج محل نے جہاں پناہ سے عرض کیا کہ حضور خاصہ نوش فرمائیں، میں دم بھر کو اُس سے جا کے مل آؤں۔
جہاں پناہ: تو کھانا کھا کے جانا۔
تاج محل: نہیں اس وقت میں نہ کھاؤں گی۔
جہاں پناہ: تو وہاں پہنچتے ہی خیریت کہلا بھیجنا اور جو حال ہو اُس کی خبر کر دینا۔
تاج محل: میں ابھی کہلائے بھیجتی ہوں۔ یہ کہہ کے وہ اُٹھ کے چلی گئیں۔ اصل میں شاہزادی کو کسی قسم کی شکایت نہ تھی مگر تاج محل صاحبہ خود ہی یہ بہانہ پیدا کر کے چلی گئیں تاکہ جہاں پناہ آزادی سے اپنی نئی محبوبہ گلرخ کے ساتھ باتیں کریں اور ملیں اور اُسے بھی آزادی سے باتیں کرنے کی جرأت ہو۔ بادشاہ اس کو بخوبی سمجھ گئے مگر مصلحت جان کر زبردستی نہیں روکا۔بلکہ دل ہی دل میں چلے جانے پر اُن کے شکر گزار ہوئے۔
خاصے پر آخر تک یہ حالت رہی کہ جہاں پناہ چھیڑ چھیڑ کے گلرخ بیگم سے باتیں کرتے اور اُسے بے باک و بے تکلف بنانا چاہتے مگر وہ خاموش تھی اور ہر بات کا سیدھا سادہ جواب دے دینے کے سوا اور کوئی بات نہ کرتی۔ آخر جہاں پناہ نے فرمایا: “رات کو تم نے جو الماس میرے ہاتھ بیچا تھا وہ مجھے بہت عزیز ہے۔ مگر اب تمھاری بے رُخیاں یہ غضب نہ ڈھائیں کہ کسی سے اس کے کھا لینے کے سوا کوئی تدبیر نہ بن پڑے۔
گلرخ بیگم: وہ الماس حضور کو ایسی شکر گزار و پاکدامن لونڈی کے ہاتھ سے ملا ہے کہ بجائے (خدانخواستہ) زہر کا اثر دکھانے کے نوش جان بن جائے گا۔
جہاں پناہ: اس میں اگر زہر کا اثر نہ ہو تو بھی تمھاری کج ادائیاں پیدا کر دیں گی۔
اس جواب پر گلرخ بیگم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور جہاں پناہ نے گھبرا کے کہا: “یہ کیوں؟ یہ کیوں؟ کیا میں نے کوئی ایسی بات کی جو تمھیں ناگوار گذرے؟ یا اُس سے تمھاری عزت و آبرو میں فرق آئے؟
گلرخ بیگم: حضور کی بھلا کیا شکایت ہو سکتی ہے؟ رونا فقط اپنی قسمت کا ہے۔ ایک طرف تو میں اتنی بڑی خوش نصیب ہوں کہ کوئی عورت نہ ہوگی۔ اس درگاہ تک باریابی ہوئی، حکومت و دولت اور عزت سب لونڈیوں کی طرح سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہیں اور شہر کی کوئی امیر زادی نہیں ہے جو حسد نہ کر رہی ہو۔ دوسری طرف خدا نے اس قدر نالائق و نا اہل پیدا کیا ہے کہ ان عزتوں میں سے کوئی مجھے نفع نہیں بخش سکتی۔
جہاں پناہ: کیوں نہیں نفع بخش سکتی؟
گلرخ بیگم: اس لیے کہ دوسرے کے لیے پیدا کی گئی ہوں اور دوسرے کے بس میں ہوں۔
جہاں پناہ: تو میں کب تمھیں اُس شخص کے بس سے باہر نکالنا چاہتا ہوں۔ میں نے تمھیں فقط دو گھڑی دل بہلانے اور باتیں کرنے کے لیے بلایا ہے۔
گلرخ بیگم: مگر میرے شوہر کو میرا کسی دوسرے کے پاس بیٹھنا اور باتیں کرنا بھی گوارا نہیں ہے۔ محبت والا شوہر تھا اور مجھے ہر قسم کا آرام پہنچاتا تھا۔ مگر افسوس میں اس قابل بھی نہ تھی۔ اب میرے یہاں آنے کو سُنے گا تو خدا جانے دل میں کیا کہے گا اور کیا کرے گا۔
جہاں پناہ: اگر تمھارے ساتھ اُس نے بُرا سلوک کیا تو سخت ترین سزا پائے گا۔ تمھارا میرے یہاں آنا، مجھ سے ملنا اور میرے پاس بیٹھنا نہ شرعاً گناہ ہے، نہ اخلاقی جرم ہے۔ پھر تمھیں وہ کس بات کا الزام دے سکتا ہے۔ نہیں، اس کی مطلق پروا نہ کرو اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ کے ہنسو بولو۔ اس کا میں ذمہ دار ہوں کہ وہ تم پر کوئی بد گمانی نہ کرے گا اور اگر ایسا بد گمان شخص ہے کہ میرے کہنے سے بھی اُس کا اطمینان نہ ہوگا تو بے شک وہ سخت سزا کا مستوجب ہے۔
گلرخ بیگم: اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑے غیور بلکہ اس بارے میں وہمی ہونے کے درجے تک پہنچ گئے ہیں۔ مگر مجھے یہ ہر گز نہیں گوارا ہو سکتا کہ میری وجہ سے انھیں آزار پہنچے۔
جہاں پناہ: بہر حال اب تو تم یہاں آ چکیں اور میرے کہنے سے آئیں۔ لہذا یہ بات تو کسی طرح نہیں مٹ سکتی۔ مگر کل صبح کو میں دربار میں پہلا یہ کام کروں گا کہ جمال خان کو بلا کے کہہ دوں گا کہ میرے کہنے سے لوگ تمھاری بیوی کو ملکۂ زماں نواب ممتاز الزمانی بیگم کے پاس لے آئے اور میں بھی اُن سے ملا مگر تمھاری عزت و آبرو کو اپنی آبرو تصور کر کے اُن کی عصمت و پاکدامنی کا پورا احترام کیا ہے، اور یہ کہہ کے ان سے اقرار کرا لوں گا کہ اُن کے دل میں کسی قسم کی بد گمانی نہیں رہی۔ اور تم سے میری خواہش ہے کہ آئی ہو تو تین روز تک ممتاز الزمانی بیگم کے پاس رہو اور دونوں وقت دسترخوان پر ساتھ کھانا کھایا کرو۔
گلرخ بیگم: میری عزت افزائی کے لیے یہ کافی ہے۔
جہاں پناہ: تو پھر اب شگفتگی کے ساتھ باتیں کرو۔
گلرخ بیگم: مینا بازار میں حضور سے جو دو باتیں کیں اُن کا تو یہ اثر ہوا کہ یہاں کھینچ بلائی گئی۔ زیادہ باتیں کیں تو خدا جانے حضور ظل سبحانی مجھے کیا حکم دیں گے؟
جہاں پناہ: اُن باتوں سے میرا دل بے قرار ہوگیا تھا اور اب ان باتوں سے اس کو قرار آئے گا اور تسکین ہوگی۔
گلرخ بیگم: کسی ایک ہی چیز میں ایسی دو خاصیتیں کیسے ہو سکتی ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں؟
جہاں پناہ (مسکرا کر): یہی تو تمھارےحُسن اور تمھاری اداؤں کا معجزہ ہے۔
گلرخ بیگم: اور مجھے اس کا دھڑکا ہے کہ پہلی گفتگو نے تو میرے شوہر کو بد گمان کر دیا ہوگا۔ یہ دوسری باتیں حضور ملکۂ آفاق کو بھی بد گمان نہ کر دیں کہ پھر دین و دنیا میں کہیں میرا ٹھکانہ نہ لگے۔
جہاں پناہ: اس کا مطلق اندیشہ نہیں۔ میری انیس و ہمدم ملکہ تمھارے شوہر کی طرح وہمی اور بد گمان نہیں ہیں۔
غرض خاصے کے ختم تک یہی باتیں رہیں اور اس کے بعد بھی آدھی رات تک انھیں کا سلسلہ جاری رہا۔ گلرخ بیگم جبر کر کے اپنے آپ کو شگفتہ اور بشاش بناتی تھی اور آورد کی شوخیاں کرتی تھی۔ جہاں پناہ بار بار کوئی چھیڑ کا فقرہ کہہ کے اس کی اس کوشش کو اُبھار دیتے۔ مگر باوجودیکہ وہ بہ ظاہر شوخیاں کرتی، دل خون ہو رہا تھا جس کے جذبات بعض اوقات چہرے پر بھی نمایاں ہو جاتے اور ان کی جھلک پر جہاں پناہ کی نظر پڑ جاتی۔ اب رات زیادہ آ چکی تھی۔ جہاں پناہ نے آرام فرمایا اور گلرخ بیگم فوراً نواب تاج محل کے کمرے میں پہنچا دی گئی جہاں اس کے سونے کا انتظام کر دیا گیا تھا۔تاج محل صاحبہ اس وقت تک جاگتی تھیں مگر عاقلانہ احتیاط سے کام لے کر انھوں نے گلرخ بیگم سے اشارۃً بھی اس کو نہیں پوچھا کہ جہاں پناہ سے کیا باتیں ہوئیں۔ صبح کو جہاں پناہ نے گلرخ بیگم کو ناشتہ پر بلوایا۔ نواب تاج محل خلاف معمول خود ناشتہ پر نہیں گئیں، فقط گلرخ بیگم کو خواصوں کے ساتھ بھیج دیا۔ کچھ دیر انتظار کر کے بادشاہ نے پوچھا: “بیگم نہیں آئیں؟ رات کو واپس آئیں یا جہاں آرا کے یہاں رہی تھیں؟”
ایک خواص: حضور رات ہی کو آ گئی تھیں مگر اس وقت حضرت آرام فرما چکے تھے۔ ساتھ ہی ایک خواص دوڑتی ہوئی گئی اور نواب تاج محل کو بلا لائی۔ سامنا ہوتے ہی جہاں پناہ نے پوچھا: جہاں آرا کیسی ہے؟ تاج محل نے اطمینان دلایا کہ اچھی ہے۔ رات کو طبیعت ذرا سست ہو گئی تھی، مجھے زیادہ ٹھہرنے کی ضرورت بھی نہ تھی مگر باتوں میں دیر ہو گئی۔
جہاں پناہ: خیر آؤ بیٹھو، تم نے اس وقت آنے میں کیوں دیر لگائی؟
تاج محل: دیر میں آنکھ کھلی۔
جہاں پناہ: یہ تو نہیں ہے کہ تم گلرخ بیگم کے سامنے میرے پاس آنے میں تامل کرتی ہو؟ اگر ایسا ہے تو یہ تمھاری غلطی ہے۔ میں تم سے کہے دیتا ہوں کہ میں نے گلرخ بیگم کو زیادہ تر تمھاری دلچسپی کے لیے بلایا ہے کہ ان کی وضع و صورت اور ان کی باتوں سے جو لطف میں نے مینا بازار میں اٹھایا تھا تم بھی محل کے اندر میرے سامنے اُٹھاؤ اور اسی سبب سے تم سے کہہ دیا تھا کہ جب تک یہ میرے پاس رہیں، تم بھی موجود رہا کرو۔ رات کو اتفاقاً ایسا واقعہ پیش آیا کہ تم کو مجبوراً چلا جانا پڑا، مگر اس وقت تمھارے دیر میں آنے سے مجھے شُبہ ہوتا ہے کہ شاید تم ان کی موجودگی میں میرے پاس بیٹھنے سے گریز کرتی ہو۔
تاج محل (ہنس کر): حضرت کا گمان ایک حد تک صحیح بھی ہے مگر ایسا تو اِن کے آنے کے بعد بھی اس وقت تک کبھی نہیں ہوا کہ حضرت نے یاد فرمایا ہو اور میں نہ آئی ہوں۔
جہاں پناہ: مگر میں چاہتا ہوں کہ بے بلائے اپنے معمول کے مطابق چلی آیا کرو۔ تمھارا آنا دو باتوں سے خالی نہیں ہے، یا تو تم میری نسبت بُرا گمان رکھتی ہو اور یا اِن کو تنہار چھوڑ کے ان کے شوہر جمال خان کو ان سے بد گمان کرنا چاہتی ہو۔
تاج محل: دونوں باتیں نہیں ہیں، لیکن ہاں یہ ضرور چاہتی ہوں کہ گلرخ بیگم سے باتیں کرنے میں حضرت آزاد رہیں۔ کیونکہ میرے سامنے ممکن ہے کوئی بات حضرت جہاں پناہ کے دل میں آئے اور اُس کا زبان سے نکالنا نامناسب ہو۔
جہاں پناہ: یہ تمھیں کیونکر معلوم ہوا کہ کوئی ایسی بات میرے خیال میں آئے گی؟ اسی کو میں بد گمانی کہتا ہوں۔ اگر اس قسم کے جذبات میرے دل میں ہوتے تو میں ان کو محل میں بُلا کے تم سے نہ ملاتا بلکہ کہیں اور مل لیتا۔ اصل یہ ہے کہ میں نے انھیں بلایا ہی تم سے ملانے کو ہے۔
تاج محل: جہاں پناہ کی اس مرحمت کی شکر گزار ہوں۔
اب نواب تاج محل بھی بادشاہ کے پاس بیٹھ گئیں اور باہم لطف و محبت کی باتیں ہونے لگیں۔ ممتاز الزمانی اگرچہ نہایت ہی متین اور خاموش بیوی تھیں مگر شوہر کی دلچسپی کے لیے شوخی اور مذاق کی باتیں کرتیں تاکہ گلرخ بیگم کو بھی ویسی ہی باتیں کرنی پڑیں اور جہاں پناہ اس کی باتوں سے لطف حاصل کریں۔
اس کے بعد نواب تاج محل ہر وقت بادشاہ اور گلرخ بیگم کی باتوں میں شریک رہیں۔
نواں باب
جمال آرا کا شوہر جمال خان
اس کے بعد جہاں پناہ نے برآمد ہو کے دربار کیا تو تمام اُمرائے دربار پر بار بار نظر ڈالتے کہ جمال خان بھی ہے یا نہیں مگر اُسے نہ دیکھا۔ کچھ دیر تک دل ہی دل میں اُس کی حاضری کا انتظار کیا مگر جب دیر ہو گئی اور اُس کی صورت نہ نظر آئی تو فرمایا: جمال خان رسالدار نہیں آیا؟ وزیر اعظم نے ہر طرف نظر دوڑا کے عرض کیا کہ وہ تو معلوم ہوتا ہے نہیں حاضر ہوئے۔ ساتھ ہی چوبداروں اور ہرکاروں نے دوڑ کے جمال خان کو خبر کی کہ تمھاری یاد ہوئی ہے۔
اُسے رات ہی کو اپنی بیوی کے محل میں جانے کی اطلاع ہو چکی تھی کیونکہ شوکت آرا نے گلرخ بیگم کی تاکید کے بموجب اُسی وقت گھر میں آدمی دوڑا کے اس کی اطلاع کر دی تھی۔ سُنتے ہی غیرت کی آگ میں جلنے لگا اور رات بھر پلنگ پر لوٹتے اور کروٹیں بدلتے گذری۔ کبھی دل میں آتا کہ خودکشی کر لے اور دنیا کو اپنی صورت نہ دکھائے۔ مگر پھر کہتا: نہیں اس میں جلدی نہ کرنا چاہیے، اس بے حیا عورت کو سزا دے لوں تو اپنی جان دوں۔ پھر دل ہی دل میں باتیں کرتا کہ دیکھیے اب وہ محل سے نکل کے آتی بھی ہے یا نہیں؟ ایک دل کہتا ہے کہ وہ آئے اور میں اُسے سزا دوں، دوسرا دل یہ کہتا ہے کہ اب یہی اچھا ہے کہ اُس بے عزت کی صورت نہ دیکھوں۔ انھیں خیالوں میں ساری رات کٹی۔ صبح کو نماز پڑھ کے بیٹھا ہی تھا کہ پڑوس کے ایک معزز دوست جان سپار خان آ گئے جو ترکمانی الاصل سردار فوج اور معززین دربار میں سے تھے۔ انھوں نے آ کے خیریت پوچھی اور ساتھ ہی جمال خان کے چہرے پر نظر ڈالی تو رات کی بیداری اور بے قراری کے آثار چہرے پر نمایاں نظر آئے۔ پوچھا: “خیریت تو ہے؟ مزاج کیسا ہے؟”
جمال خان: زندہ ہوں اور نہیں جانتا ہوں کہ کیوں زندہ ہوں؟
جان سپار خان: آخر کس بات کی تکلیف ہے کہ چہرے پر حسرت برس رہی ہے؟
جمال خان: اسی بات کی کہ کیوں زندہ ہوں۔
جان سپار خان: کچھ بیان تو کیجیے کہ کیوں آپ زندگی سے بیزار ہیں؟
جمال خان: کیا آپ نے نہیں سُنا؟ سارے شہر میں میری بے عزتی طشت از بام ہو گئی اور آپ کو خبر نہیں؟
جان سپار خان: بخدائے لایزال میں نے کچھ نہیں سُنا۔ آپ بیان تو فرمائیں، اگر کوئی ایسی ہی بات ہے تو ہم بھی آپ کے ساتھ جان دینے کو تیار ہیں۔
جمال خان (آبدیدہ ہو کر): میری بیوی رات کو مینا بازار سے بادشاہ کے محل میں پہنچ گئی۔
جان سپار خان یہ سُن کر کچھ دیر سرنگوں رہا پھر پوچھا: “وہ خود سے چلی گئیں یا بادشاہ نے زبردستی بلوایا؟”
جمال خان: زبردستی بلائی گئی۔
جان سپار خان: تو آپ کو غصہ بیوی پر ہے یا بادشاہ پر؟
جمال خان:کس کی مجال ہے کہ جہاں پناہ پر غصہ کرے؟ سارا غصہ اُس بے غیرت و بے عزت عورت پر ہے۔
جان سپار خان: تو پہلے اُن کا قصور ثابت کیجیے، پھر غصہ کیجیے گا۔
جمال خان: یہی قصور کافی ہے کہ اُس کی آبرو میں داغ لگ گیا۔
جان سپار خان: اس وقت آپ جوش اور طیش میں کہہ رہے ہیں۔ مگر انسان کو انصاف کبھی ہاتھ سے نہ دینا چاہیے۔ ذرا سکون و صبر سے کام لیجیے اور خوب اچھی طرح دریافت کیجیے کہ وہ وہاں کیسے گئیں؟ کس لیے بلائی گئیں؟ محل کے اندر کیسے اور کس حال میں رہیں؟ ان باتوں کے معلوم ہونے کے بعد جو مناسب جانیئے گا، کیجیے گا اور میں بخدائے لایزال جان و مال سے آپ کا شریک رہوں گا۔
جمال خان: ان باتوں کا پتہ لگانے سے حاصل؟ وہاں وہ کسی حال میں رہی ہو، میرے ہاتھ سے گئی۔ کیا اس کے بعد بھی میں اُس کے ناپاک پنڈے کو ہاتھ لگا سکتا ہوں؟
جان سپار خان: یہ آپ کی سراسر زیادتی ہے۔ اگر ان کو نواب ممتاز الزمانی بیگم نے اپنے کسی کام کے لیے یا کسی خاص ضرورت سے بلایا ہو تواس میں کیا آبرو جا سکتی ہے؟ یا بادشاہ ہی نے صرف باتیں کرنے یا کسی اور عزت و آبرو کے کام کے لیے بلا لیا ہو تو کون مضائقہ کی بات ہے؟ ہمارے یہاں تمام شریفوں کی عورتیں اپنے سرداروں اور خواتین سے مل سکتی ہیں اور بخدائے لایزال وہ سب شریف ہیں اور ہندوستان کے لوگوں سے زیادہ شرفت کی دعویدار ہیں۔
جمال خان: آپ کے یہاں ہو، ہمارے یہاں اگر عورت کسی غیر گھر میں چلی جائے تو ناک کٹ جاتی ہے۔
جان سپار خان: اگر بدنیتی کے ارادے سے جائے، ورنہ کیا عورتیں کہیں آتی جاتی نہیں ہیں؟ آپ کی آبرو کیا پیمبر زادیوں کی آبرو سے بھی بڑھ گئی؟ خدا انصاف کر تاہے اور مسلمانوں سے بھی ہر بات میں انصاف چاہتا ہے۔
یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ شاہی چوبدار نے آ کے کہا: جلدی چلیے، جہاں پناہ یاد فرماتے ہیں۔ جمال خان کے دل میں اس وقت کچھ ایسے پُر جوش خیالات بھرے ہوئے تھے کہ دربار میں جانا نہیں پسند کرتا تھا مگر مجبور تھا۔ اور اُسے کسی قدر متامل دیکھ کر جان سپار خان نے کہا: “اچھا ہوا کہ جہاں پناہ نے یاد فرمایا۔ سب باتیں اسی وقت صاف ہو جائیں گی بلکہ میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں۔ اسی بہانے سلام ہو جائے گا”۔
غرض دونوں نے درباری لباس پہنا۔ معمولی ہتھیار لگائے اور گھوڑوں پر سوارہو کے قلعۂ شاہی کی راہ لی۔ اطلاع ہوتے ہی دونوں بُلا لیے گئے۔ سامنا ہوتے ہی نقیب نے نعرہ بلند کیا: “نگاہ روشن” اور شہنشاہ جہاں پناہ کی نظر اُٹھتے ہی دونوں جھک کر آداب بجا لائے۔ بادشاہ نے سلام کے جواب میں ہاتھ اُٹھا دیا اور نواب سعد اللہ خان کی طرف متوجہ ہو کر مینا بازار کی تعریف میں کچھ باتیں کرنے لگے۔ انھیں باتوں کے سلسلے میں جمال خان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا اور قریب بلا کے فرمایا: “جمال خان! کل مینا بازار میں مَیں نے تمھاری بیوی کو دیکھا اور بہت خوش ہوا۔ تم کو اپنے تمام اہل دربار میں زیادہ وجیہ و خوش رُو دیکھ کے میں نے جمال خان کے خطاب سے سرفراز کیا تھا۔ تمھارے حُسن و جمال کی اس قدردانی کے بعد جب مجھے یہ نظر آیا کہ تمھیں انیس زندگی بھی ایسی ملی جو خوبصورتی میں بے مثال ہے تو گویا اپنے اس خطاب دینے کی بہت ہی سچی داد مل گئی اور بعد ازاں جب یہ معلوم ہوا کہ اُس کو جمال آرا بیگم کا خطاب دے کر اپنی خوش اقبالی میں شریک کر لیا تو اور لُطف آیا۔ تمھاری بیوی کو میں نے مینا بازار کی دو ہی چار باتوں میں خوبروئی کے ساتھ ایسا خوش بیان و شیرین زبان، دانا و ہوشیار اور عاقل و سلیقہ شعار پایا کہ بے اختیار جی چاہا ان کو ملکۂ زماں نواب ممتاز محل سے ملاؤں تاکہ وہ بھی اُن کی خوش گوئی و تہذیب کو دیکھ کر خوش ہوں۔ اُن کے محل میں بلائے جانے سے شاید تمھارے دل میں کوئی تشویش پیدا ہو گئی ہو، لہذا میں اطمینان دلاتا ہوں کہ اُن کی عزت و آبرو کی حفاظت مجھ پر فرض ہے اور تم جانتے ہو کہ میں نے اپنی رعایا میں سے کبھی کسی عورت کو بُری نگاہ سے نہیں دیکھا۔ جس طرح تمام اُمرائے دولت کی بیویاں نواب ممتاز محل سے ملنے کو حاضر ہوا کرتی ہیں اسی طرح تمھاری بیوی بھی اُن کی مہمان ہیں۔ وہ اُن کے حال پر نہایت ہی شفقت فرماتی ہیں اور دسترخوان پر جب میرا سامنا ہوتا ہے تو میں بھی اُن کی مہذب اور پاکیزہ باتوں سے خوش ہوا کرتا ہوں”۔
جمال خان جھک کے پھر آداب بجا لایا اور عرض کیا: “فدوی کا سر افتخار آسمان پر پہنچ گیا مگر وہ کنیز اس قابل نہ تھی کہ اس کو مشکوئے معلیٰ تک باریابی کا موقع دیا جاتا”۔
جہاں پناہ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمھیں اُس پری جمال و حور خصال عورت کی قدر نہیں۔ وہ نہایت ہی قابل اور لائق و فائق ہے اور بات ایسے سلیقے سے کہتی ہے کہ سُن کر جی خوش ہو جاتا ہے۔ اگر ابھی تک تمھیں اُس کی قدر نہ تھی تو میں کہتا ہوں کہ اب قدر کرو۔
جمال خان: آئندہ فدوی اُس کی بڑی قدر کرے گا اور اس ادب آموزی پر دل و جان سے بندگان خسروی کا شکر گزار ہے۔
جہاں پناہ: وہ تین روز تک نواب ممتاز محل کی مہمان رہے گی اور چوتھے دن ایک بے بہا امانت کی طرح تمھارے پاس پہنچا دی جائے گی۔
جمال خان نے حضرت ظل سبحانی کے اس ارشاد پر اظہار عقیدت و اطاعت کیا اور جہاں پناہ دربار برخاست فرما کے محل میں تشریف لے گئے جہاں سب سے پہلے گلرخ بیگم کو طلب کر کے فرمایا: “میں نے تمھارے شوہر کو بُلا کے کہہ دیا کہ تم نواب تاج محل کی مہمان ہو اور میں نے تم کو انھیں سے ملانے کے لیے بلایا ہے۔ ہر طرح سے انھیں اطمینان دلا دیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ چوتھے دن تمھاری امانت تمھارے گھر پہنچ جائے گی”۔
گلرخ بیگم نے زبان سے تو کچھ نہیں کہا مگر چہرے نے اظہار شکر گزاری کر دیا۔ نواب تاج محل بھی موجود تھیں، پوچھنے لگیں: “حضرت نے اُن سےکیا ارشاد فرمایا؟” جہاں پناہ نے وہ ساری گفتگو فرما دی جو جمال خان سے ہوئی تھی۔ سُن کر تاج محل نے پوچھا: “انھوں نے زبان سے اقرار کیا کہ اب انھیں ان پر کسی قسم کی بد گمانی نہیں ہے؟”
جہاں پناہ (ہنس کر): جس طرح اِنھوں نے اس وقت شکرگزاری کو ظاہر کیا، اُسی طرح جمال خان نے اپنے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
تاج محل: خیر یہ بھی کافی ہے۔
اب خاصے کا وقت آ گیا تھا۔ دسترخوان بچھا۔ ملکۂ جہاں اور گلرخ دونوں نے جہاں پناہ کے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھایا اور اب بہ ظاہر گلرخ بیگم کو گونہ اطمینان تھا۔ تین دن تک ایوانِ شہریاری میں خوش و خرم رہی، اپنی شوخ ادائیوں اور تہذیب کے ساتھ اپنی پُر معنی باتوں سے جہاں پناہ اور تاج محل دونوں کو خوش کرتی۔ نواب تاج محل کے دل میں اگر جہاں پناہ کی گرویدگی اور گلرخ بیگم کے عدیم المثال حسن و جمال کی وجہ سے کسی قسم کی رقابت کا خیال پیدا بھی ہوا تھا تو مٹ گیا اور دل ہی دل میں اپنے صاحب تاج و تخت شوہر کے زہد و اتقا اور اُن کی پارسائی و پاک نظری کی قائل اور شکر گزا ر تھیں۔
چوتھے روز صبح کو جہاں پناہ نے دربار کے لیے باہر آتے وقت گلرخ بیگم کو خلعت و انعام کے ساتھ بہت سا قیمتی زیور دے کر رخصت فرمایا اور ارشاد ہوا کہ میں تمھارے آنے سے بے حد خوش ہوا اور اگرچہ تمھاری باتوں سے ابھی سیری نہیں ہوئی مگر اپنے اقرار کے مطابق تمھیں جانے کی اجازت دیتا ہوں لیکن اب تم محل میں آ چکی ہو تو کبھی کبھی ممتاز الزمانی بیگم سے ملنے کو ضرور چلی آیا کرو۔
گلرخ بیگم: لونڈی برابر حاضر ہوا کرے گی اور اس دامن مرحمت کو بھلا اب چھوڑ سکتی ہے؟
جہاں پناہ: مجھے اس کی بھی خبر دینا کہ جمال خان کا تم سے کیسا برتاؤ رہا۔
گلرخ بیگم: اب تو حضرت کا دامن پکڑا ہے اور کس کے پاس فریاد لے کے جاؤں گی؟
اس گفتگو کے بعد جہاں پناہ باہر تشریف لے گئے اور گلرخ بیگم ملکۂ زمانہ نواب تاج محل سے رخصت ہو کر اور پھر آنے کا وعدہ کر کے شاہی سکھ پال پر سوار ہو کے اس شان کے ساتھ واپس چلی کہ دو کہاریاں ادھر اُدھر سکھ پال کا پایہ پکڑے ہوئے تھیں اور بہت سے چوبدار اور ہرکارے ہٹو بچو کرتے ہوئے آگے آگے جا رہے تھے۔
دسواں باب
طلاقِ بائن
جمال خان اور جان سپار خان دربار سے واپس گئے تو گھر پہنچتے ہی جان سپار خان نے کہا: “اب تو حضرت جہاں پناہ کے ارشاد سے آپ کو اطمینان ہوگیا ہوگا۔
جمال خان: کیا کہوں؟ مجھے تو اطمینان نہیں ہوا۔ میری بیوی کی خوبصورتی ایسی ہے کہ میں اپنے سائے تک سے بھڑکتا ہوں اور آپ ہی فرمائیے کہ جس حسینہ و جمیلہ عورت پر فرماں روائے وقت کی نظر پڑ جائے، اُس کے شوہر کی کیا حالت ہوگی؟اُس کی زندگی ہمیشہ سُولی پر رہے گی۔ جہاں پناہ کو اس کی صورت اچھی نہیں لگی تھی تو اُسے بلایا ہی کیوں؟ اور اُس کی خوبصورتی کا تو خود حضرت نے اپنی زبان سے اقرار فرمایا۔ لہذا اول تو یہی میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی حسینہ بادشاہ کو پسند آ کر محل میں جائے اور اُن کے دستِ تصرف سے بچ کر پاکدامن و عفیفہ چلی آئے، اور فرض کیا کہ وہ اپنی آبرو بچا لائی، مگر اس کا کیا علاج کہ اب میں ہر وقت جہاں پناہ کی نظر میں کھٹکوں گا۔ جس پھول کو وہ توڑنا چاہتے ہیں، میں اُس کے درمیان میں ایک کانٹا رہوں گا اور وہ ہر وقت اس کانٹے کے توڑنے کی فکر میں رہیں گے۔ کیا آپ کو جنت مکانی جہانگیر بادشاہ اور مہر النسا بیگم کا قصہ نہیں یاد ہے جس کا شوہر بنگالے میں قتل کرا دیا گیا اور وہ مہر النسا سے نور جہاں بیگم بن گئیں۔ میری جورو کے محل میں جانے اور بادشاہ کے منظور نظر بننے کے بعد میرا حشر وہی مہر النسا بیگم کے شوہر شیر افگن خان کا سا ہوگا۔ بہر حال اب وہ میرے قابل نہیں رہی یا میں اُس کے قابل نہیں رہا۔ میں بادشاہ کا رقیب اور اُن کی منظور نظر عورت کا شوہر نہیں رہ سکتا۔
جان سپار خان: مجھے یہ آپ کے اوہام ہی اوہام معلوم ہوتے ہیں۔ ان وہموں میں پڑ کے اپنی اور اپنی پاک دامن و بے گناہ بیوی کی زندگی نہ خراب کیجیے۔
جمال خان: زندگی تو خراب ہو ہی چکی۔ اس سے زیادہ کیا خراب ہوگی؟ وہ بادشاہ کے پاس گئی، اُن کے وہاں تین چار روز رہی اور دامن عفت میں دھبا لگا کے واپس آئے گی۔ تمام امیروں میں، معزز لوگوں میں، سارے شہر والوں میں مشہور ہو چکا کہ وہ بادشاہ کو پسند آ گئی۔ اب اس کے بعد آئے گی اور میں اُسے رکھوں گا تو بجز دیوثی اور بے حیائی کے مجھے کیا نصیب ہوگا؟ اب میرا اور ایسی عورت کا نباہ نہیں ہو سکتا۔
جان سپار خان: تو آپ کو نہ حضرت کے فرمانے کا اعتبار ہے اور نہ اس کا کہ آپ کی بیوی نواب تاج محل صاحبہ کی مہمان تھیں اور انھیں کے پاس رہیں۔
جمال خان: ایسے بہلانے پُھسلانے سے میرے دل کو تسکین نہیں ہو سکتی۔ میرے دل میں انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ اگر جہاں پناہ کے سوا اور کوئی ہوتا تو اس کی جان سے اپنی بے حرمتی کا انتقام لیتا۔ مگر اُن پر زور نہیں چل سکتا لہذا اب تو سارا انتقام اس بدکار عورت ہی سے لوں گا۔
جان سپار خان: اُس نیک اور پارسا بیوی کو بدکار نہ کہیے اور عقل سے کام لیجیے۔ مینا بازار میں اُسے خود آپ نے بھیجا۔ وہاں سے وہ کمال بے بسی کے ساتھ شاہی حکم سے کشاں کشاں بادشاہ وقت کے محل میں گئی۔ جہاں پناہ اطمینان دلاتے ہیں کہ محل میں وہ باعصمت و پاکدامن رہی اور اگر بدکاری کا ذرا بھی لوث ہوتا تو وہ نواب تاج محل سے نہ ملائی جاتی۔ ملکۂ زمانہ کے پاس رہنا ہی اس کی کافی دلیل ہے کہ وہاں وہ عزت آبرو سے رہی، اور اگر بادشاہ کے محل میں چلے جانے ہی میں بے حرمتی ہو گئی تو پھر دہلی کے جتنے اُمرا ہیں سب بے عزت و آبرو ہیں۔ کس کی بیویاں ایوان خسروی میں نہیں جاتیں؟
جمال خان: میں آپ کی دلیلوں کا جواب نہیں دے سکتا مگر آبرو کا معاملہ استدلال کی دنیا سے باہر ہے۔ میرا ان باتوں سے اطمینان نہیں ہو سکتا۔
جان سپار خان: اگر آبرو کا ایسا ہی خیال ہے تو پھر آپ کو دہلی میں نہ رہنا چاہیے۔ نوکری چھوڑ کے کسی گمنام مقام میں جا کے سکونت اختیار کیجیے۔
جمال خان: اس عورت سے انتقام لینے کے بعد ایسا ہی کروں گا۔ آپ زبردستی کو اُس کی حمایت کرتے ہیں۔ میں نے مانا کہ سب امیروں کی عورتیں محل میں جاتی ہیں مگر وہ اپنی غرض کے لیے خوشامد کرنے کو جاتی ہیں، اور اِس کو تو بادشاہ پسند کر کے اور سارے بازار میں سے منتخب کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ ایسی عورت بھلا وہاں سے اپنی آبرو کو سلامت لے کر آ سکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔
جان سپار خان: یہ بات آپ نے البتہ ایسی کہی جو ذرا لحاظ کے قابل ہے۔ مگر اس کے ساتھ جب اس کا خیال کیجیے کہ وہ بادشاہ بیگم ملکہ ممتاز الزمانی بیگم کی مہمان رہی تو بھلا کیسے کسی دل میں اس کا وہم بھی گذر سکتا ہے کہ وہ وہاں جا کے بے آبرو ہوئی؟ تاج محل صاحبہ اُس کی آبرو کی ہر وقت محافظ رہی ہوں گی۔
جمال خان: آپ کچھ کہیں میرے دل کو تسکین نہیں ہوتی۔
آخر جان سپار خان اپنی کوشش اور فہمائش میں عاجز آ کے اپنے گھر گئے اور جمال خان نے تنہا بیٹھ کے اپنی ضد اور جان سپار خان کی دلیلوں پر غور کرنا شروع کیا۔ اب وہ اپنے اُن دوست کی وکالت میں خود ہی اُن کی دلیلوں کو اپنے سامنے پیش کرتے مگر تسکین نہ ہوتی۔ ضدی دل قائل ہو جاتا مگر مانتا کسی طرح نہ تھا۔
دیر تک کی اندرونی بحثوں کے بعد انھوں نےآدمی بھیج کے شوکت آرا بیگم کو مینا بازار سے بُلوا بھیجا اور جیسے ہی وہ آ کے فنس سے اُتری، تنہائی میں بیٹھ کے پوچھا: “تم وہاں موجود تھیں، سچ سچ بتاؤ کہ تمھاری بہن سے بادشاہ سے کیا گفتگو ہوئی؟ اور بادشاہ نے کیا کہہ کے انھیں محل میں بُلا بھیجا؟
شوکت آرا: جہاں پناہ جیسے ہی آئے اُن کی صورت پر فریفتہ ہو گئے۔ انھوں نے اپنا زیور اُتار کے فروخت کے لیے میز پر رکھ دیا تھا۔ بادشاہ نے فرمائش کی کہ اسے پہن کے دکھاؤ۔ چنانچہ پردے کی آڑ میں جا کے انھوں نے سارا زیور پہنا اور سامنے آئیں۔ جہاں پناہ دیکھ کر خوش ہوئے اور پوچھا: تمھارے پاس بیچنے کے لیے اور کوئی چیز بھی ہے؟ انھوں نے ہیرے کی قطع کی ایک مصری کی ڈلی پیش کی اور ایک لاکھ روپیہ اُس کی قیمت بتائی۔ جہاں پناہ نے اُس کو غور سے دیکھا اور سمجھ گئے کہ مصری کی ڈلی ہے مگر دو لاکھ روپے اسی وقت دلوا دیے۔ ایک لاکھ اُس مصنوعی نگینے کی بابت اور ایک لاکھ زیور کو اُن کے جسم پر دیکھنے کی بابت۔
جمال خان: کیا جہاں پناہ کے سامنے اُن کے منہ پر نقاب نہ تھی؟
شوکت آرا: نہیں، وہ تو جانے کے دن سے عورتوں کے سامنے بھی مُنہ پر نقاب ڈالے رہیں مگر جہاں پناہ کے آنے کے دن تمام بیویوں نے جو مینا بازار میں تھیں زبردستی اُن کی نقاب چھین لی اور کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ ساری عورتیں اور بازار والیاں تو بے نقاب ملیں اور تمھارے چہرے پر نقاب ہو۔ اس میں وہ بالکل مجبور تھیں۔
جمال خان: تو کیا بازار والیوں اور سیر کرنے والیوں میں سے کسی کے منہ پر نقاب نہ تھی؟
شوکت آرا: کسی کے منہ پر نہ تھی۔
جمال خان: پھر بادشاہ نے ان کو اپنے یہاں بلایا کیا کہہ کے؟
شوکت آرا: بادشاہ نے ان کی طرف جھک کےکچھ کہا اور چلے گئے اور ان کے جاتے ہی جمال آرا بیگم نے ۔۔۔۔۔
جمال خان: اب اس نالائق و بے ناموس عورت کو جمال آرا نہ کہو۔ اس کا اصلی نام لو۔
شوکت آرا: مگر بھائی! اس میں ان کا بال برابر قصور نہیں ہے۔ یوں چاہیں آپ خفا ہو لیں، خیر میں گلرخ بیگم ہی کی کہوں گی۔ انھوں نے مجھے سے آ کے کہا: بڑا غضب ہوگیا۔ بادشاہ مجھے اپنے محل میں اپنے ساتھ خاصہ پر بلا گئے ہیں۔ دم بھر میں فنس آتی ہوگی اور گھر میں سنیں گے تو خفا ہوں گے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ نہ جاؤں۔
جمال خان: میں پوچھتا ہوں وہ بے نقاب بادشاہ کے سامنے کیوں آئی؟
شوکت آرا: اُن کے اختیار سے باہر تھا اور نقاب ان کے پاس تھی ہی نہیں، تو کیا کرتیں؟
جمال خان: جس وقت نقاب چھینی گئی تھی سوار ہو کے یہاں چلی آتی۔
شوکت آرا: اول تو اس کا خیال نہ آیا اور آتا بھی تو ممکن نہ تھا۔ جہاں پناہ کی آمد آمد کی خبر سے اندر باہر کی تمام سڑکیں اور راستے بند تھے۔
جمال خان: جو کچھ ہو یہ بے آبرو عورت میرے کام کی نہیں رہی۔
شوکت آرا: بھائی! اس میں ان کا بالکل قصور نہیں ہے۔ ان کی ایسی نیک پارسا اور پاکدامن عورت چراغ لے کر ڈھونڈھیے تو بھی نہ ملے گی۔
جمال خان: تم تو ان کی سی کہا ہی چاہو اور تمھارے لیے اندیشہ ہی کیا ہے؟ گھر کے اندر بیٹھی رہوگی اور کوئی تمھارے منہ پر کہنے سے رہا۔ آبرو گئی تو میری اور منہ دکھانے کے قابل نہ رہا تو میں۔
شوکت آرا: جی ہاں، آپ تو کہتے ہیں کہ عورت کے لیے کوئی اندیشہ نہیں۔ وہ گھر میں آرام سے بیٹھی رہتی ہے اور میں کہتی ہوں عورت سے زیادہ کمبخت کوئی نہیں۔ انصاف اس کے لیے ہئی نہیں۔ کسی نے اسے دیکھ لیا اور وہ ناک کاٹنے کے قابل، کسی کو اس نے دیکھ لیا اور اس کی آنکھیں پھوڑ دالی جائیں۔ کسی سے ایک بات کر لی اور زبان کاٹ لی جائے۔ انھیں بہن گلرخ بیگم کے بارے میں مَیں پوچھتی ہوں کہ آخر وہ کیا کرتیں؟ نہ جاتیں تو بادشاہ ناراض ہو جاتے اور آپ کی اور ان کی زندگی عذاب میں پڑ جاتی، چلی گئیں تو اب چاہے وہ وہاں کیسی ہی آبرو سے رہی ہوں، آپ کے نزدیک بے آبرو ہو گئیں۔
جمال خان نے اس کا کچھ جواب دینے کی جگہ شوکت آرا کو جھڑک دیا اور منہ لپیٹ کے پڑ رہے مگر شوکت آرا سمجھانے اور قائل کرنے سے باز نہ آتی۔ اور تین دن تک یہ حالت رہی کہ اندر وہ اور باہر جان سپار خان بار بار آ کے انھیں سمجھاتے اور عاجز کر دیتے۔
تیسرے دن جان سپار خان سے اسی مسئلہ میں بحث ہو رہی تھی کہ گلرخ بیگم کی سواری پہنچی۔ کہار پہلے مینا بازار میں لے گئے تھے مگر وہاں ٹھہرنے کی جگہ وہ سیدھی گھر میں آ کے اُتریں۔ ان کی آمد سنتے ہی جمال خان ایک طیش اور غیظ و غضب کے ساتھ اندر جانے کو اُٹھے تو جان سپار خان نے روک کے کہا: “دیکھیے کوئی بے عقلی کا کام نہ کیجیے گا۔ آپ کے چہرے سے غصے کے آثار نمودار ہیں۔ اس وقت اگر آپ کے قدم کو ذرا بھی لغزش ہو گئی تو غضب ہو جائے گا۔ کوئی کارروائی بغیر مجھ سے پوچھے نہ کیجیے گا۔ اس کا بھی خیال رہے کہ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ گھر میں دب جائے۔ جہاں پناہ کو خبر ہو گئی تو سخت ناراض ہوں گے اور گھر میں بھی آپ کی زندگی خراب ہو جائے گی۔
جمال خان: اچھا میں وعدہ کرتا ہوں کہ کوئی نامناسب کارروائی نہ کروں گا۔
جان سپار خان: نامناسب! خدا جانے آپ کس بات کو مناسب جانتے ہیں اور کس بات کو نامناسب؟
جمال خان: اچھا کوئی ایسی بات نہ ہوگی جو آپ کو خلاف گذرے۔
جان سپار خان: اجی میرے خلاف ہوئی تو کیا اور نہ ہوئی تو کیا؟ خود آپ کے خلاف نہ ہو۔ میں بخدائے لایزال دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ کی بیوی بالکل بے قصور ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی آپ نے کی تو خلق اللہ میں ذلیل، بادشاہ کی نظر میں مجرم اور خدا کے یہاں گنہگار ہوں گے۔
یہ کہہ کے جان سپار خان اُٹھ کے چلے گئے اور جمال خان سُست و متفکر گھر میں داخل ہوئے۔ مگر بیوی کی صورت دیکھتے ہی ایک طعن آمیز کرخت لہجے میں کہا: “ہو آئیں؟”
گلرخ بیگم (آنکھیں نیچی کر کے): ہاں ہو آئی۔
جمال خان: خوب سیریں کیں! خوب مزے اڑائے!
گلرخ بیگم: جیسے مزے اڑائے اور سیریں کیں، خدا ہی خوب جانتا ہے۔
جمال خان: خدا تو جانتا ہی ہے، شاید تھوڑی ہی دیر میں حکم آتا ہوگا کہ میں تمھیں طلاق دے کے جلا وطن ہو جاؤں۔
گلرخ بیگم: طلاق دینے سے اچھا ہے کہ مجھے مار ڈالو تاکہ تمھارے دل کی بھڑاس تو نکل جائے۔
جمال خان: کرتا تو یہی، مگر آہ بے بس ہوں۔
گلرخ بیگم: کوئی تمھارا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے اور میں تمھارے بس میں ہوں۔ جو چاہو شوق سے کرو۔
جمال خان: ہاتھ پکڑنے والے وہ ہیں جن کے پاس تین دن رہ کے آئی ہو، جن کے آگے کسی کا زور نہیں چل سکتا۔
گلرخ بیگم: میں وہاں کیسی اور کس حال میں رہی، اس کے گواہ خود جہاں پناہ ہیں اور ان کی ملکہ نواب ممتاز الزمانی بیگم ہیں۔
جمال خان: اچھا بتاؤ کہ تم وہاں کس حال میں رہیں؟ اور تین دن تک کیا کرتی رہیں؟
گلرخ بیگم: میرے کہنے کا تمھیں یقین آئے گا؟
جمال خان: مجھے یقین آئے یا نہ آئے تم تو اپنی سرگذشت بیان کرو، (غضب آلود ہنسی کے ساتھ) اور کچھ نہیں تو حُسن و عشق کی ایک داستان ہی سُن لوں گا۔
گلرخ بیگم: ہاں یہ داستان ہی ہے اور بہت درد بھری داستان۔ سنو! مینا بازار میں چلتے وقت جہاں پناہ نے چپکے سے کہا آج رات کا کھانا میرے ساتھ کھانا اور چلے گئے۔ میں دم بخود تھی اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں۔ شوکت آرا سے اپنی مصیبت بیان کی اور تاکید کر رہی تھی کہ تمھیں فوراً خبر کریں کہ شاہی کہار فنس لے کر آ گئے اور سوار ہونے کا تقاضا کرنے لگے۔ بے بس تھی اور کچھ زور نہ تھا، سوار ہو گئی۔ وہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے مجھے سے ملکہ جہاں ممتاز الزمانی بیگم ملیں۔ اپنے دیوان خانے میں لے جا کر میرے تمام حالات پوچھے اور جہاں پناہ کے سامنے لے جا کے مجھے پیش کر دیا اور بیان کیا کہ میں کون ہوں۔ جہاں پناہ نے اپنے قریب بٹھا لیا اور ظاہر فرمایا کہ تمھاری باتیں مجھے اچھی معلوم ہوئیں، اس لیے تم کو بلا لیا کہ اطمینان سے باتیں کروں اور اپنی ملکہ سے ملاؤں۔ میں نے شکر گزاری کے ساتھ کہا کہ لونڈی اس قابل نہیں کہ حضور کی نظر اس پر پڑے۔ اس پر حضرت نے اطمینان دلایا اور کہا: میں نے کسی بُرے ارادے سے نہیں بلایا، کل تمھارے شوہر کو بھی بلا کے اُس کو اطمینان دلا دوں گا اور تم جب تک یہاں ہو نواب تاج محل کی مہمان ہو۔ مگر میرے دل کی بے قراری نہ جاتی تھی اور یہ تین دن اس حال میں گذرے کہ میں زندگی سے بیزار تھی اور بادشاہ و بادشاہ بیگم بار بار تسلی دیتے تھے۔ بس جو کچھ وہاں ہوا صرف یہ ہے کہ میں نے کھانا جہاں پناہ اور ملکہ کے ساتھ دسترخوان پر کھایا۔
جمال خان: اور وہ تو تم نے بیان ہی نہیں کیا جب زیور پہن کے بادشاہ کو اپنی چھب دکھائی تھی!
گلرخ بیگم: جب جہاں پناہ نے حکم دیا تو کیا کرتی؟ میری مجال تھی کہ ان کے حکم کے خلاف کرتی؟
جمال خان: مگر میرے حکم کے خلاف تم بادشاہ کے سامنے بے نقاب کیوں آئیں؟
گلرخ بیگم: اتنا میرا قصور بے شک ہے مگر اس میں بھی مجبور تھی۔ ساری بازار والیوں اور امرائے دربار کی بیویوں نے ضد کی کہ نقاب اتار ڈالو اور جب انھوں نے دیکھا کہ میں نہیں مانتی تو میری نقاب چھین کے غائب کر دی۔
جمال خان: جب نقاب چھن گئی تو تم سوار ہو کے گھر میں کیوں نہ چلی آئیں؟
گلرخ بیگم: اول تو گھبراہٹ میں مجھے اس کا خیال نہ آیا اور آتا بھی تو بیکار تھا۔ کیونکہ جہاں پناہ کی آمد آمد تھی، راستے رُکے ہوئے تھے۔ نہ کوئی مینا بازار میں آ سکتا تھا اور نہ کوئی باہر جا سکتا تھا۔
جمال خان: بہرحال تم نے اپنا منہ کالا کیا اور میری آبرو ڈبو دی۔
گلرخ بیگم: اگر اتنے وہاں چلے جانے میں منہ کالا ہوتا ہے اور آبرو ڈوب جاتی ہے تو اس کا الزام بادشاہ پر ہے اور یا تم پر، میرا کوئی قصور نہیں۔ مگر ہاں میں بھول گئی عورت چاہے کچھ کرے یا نہ کرے ہر طرح قصور وار ہے۔ وہ جو سُنا ہو کہ کر تو کر نہیں خدا کے غضب سے ڈر۔
جمال خان (بر افروختہ ہو کر): میں کیسے قصور وار ہوں؟
گلرخ بیگم: اس طرح کہ تمھیں نے مجھے مینا بازار میں بھیجا، میں اپنے شوق سے نہیں گئی۔
جمال خان: اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ بادشاہ کے محل میں چلی جاؤ؟
گلرخ بیگم: نہ تم نے کہا تھا اور نہ میں نے کسی کی خوشامد کی تھی کہ مجھے بادشاہ کے محل میں لے چلو۔ اگر تمھیں آبرو کا پاس تھا تو باہر مردانے میں موجود رہتے اور جب کہار فنس اٹھا کر لے چلے ہیں، مجھے ان سے چھین کے گھر لے آتے۔ مجھ میں اتنی طاقت کہاں تھی کہ بادشاہ کے حکم کے خلاف کرتی؟ اور جولوگ لیے جاتے تھے ان سے لڑتی؟
جمال خان: وہ چاہے میرا قصور ہو یا تمھارا، مگر تمھارے ہاتھوں مَیں دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔
گلرخ بیگم: تو پھر تمھارے نزدیک اس کی جو سزا ہو کیوں نہیں دیتے؟
جمال خان: افسوس یہی تو امکان سے باہر ہے۔ مگر سنو بی صاحب! اب اس واقعے کے بعد سے میرا تمھارا نباہ نہیں ہو سکتا، نہ تم میری بیوی ہو اور نہ میں تمھارا میاں۔ اب میرے گھر میں تمھارا ٹھکانا نہیں ہے۔ اپنے میکے میں رہو، کسی دوست کے پاس رہو یا بادشاہ کے محل میں رہو، مجھ سے غرض نہیں۔ میں نے تمھیں طلاق دی اور تم سی بے آبرو عورت کو نجس کُوڑے کی طرح گھر سے نکال کے باہر پھینک دوں گا۔
گلرخ بیگم (آنسو بہا کے): میں تمھارے آگے التجا کرتی ہوں کہ طلاق دے کے مجھے رسوا نہ کرو۔ اس سے اچھا ہے کہ مجھے مار ڈالو۔
جمال خان: بادشاہ کی منظور نظر کو میں قتل نہیں کر سکتا۔ اس پر ہاتھ اٹھاؤں تو خود اپنی جان دوں۔ مگر تمھاری بدنامی دور کرنے کے لیے آئندہ میرا تمھار برتاؤ دوستانہ محبت اور باہمی لطف کا رہے گا اور ہم تم ایک دوسرے کو بہن بھائی جانیں گے۔
گلرخ بیگم: میں پھر ہاتھ جوڑ کے کہتی ہوں کہ مجھے طلاق نہ دو۔ طلاق کی بے عزتی مجھے کسی طور گوارا نہیں ہو سکتی۔
جمال خان: جو ہونا تھا ہو چکا، کہنا سننا بیکار ہے۔ میں نے تم کو طلاق دی، میں نے تم کو طلاق دی، میں نے تم کو طلاق دی۔ اب طلاق بائن ہو گئی جس کے بعد پھر میرا تمھار نکاح بھی نہیں ہو سکتا۔ اس وقت سے ہم تم بھائی بہن ہیں۔
گلرخ بیگم نے زار و قطار رونا شروع کیا، زیور اتار کے پھینک دیا، منہ پیٹا، بال نوچے اور جمال خان کے قدموں میں گر پڑی، مگر جمال خان نے ٹھوکر مار کے الگ کر دیا اور چلا کے کہا: “عورت نکل میرے گھر سے۔ مجھے تجھ سے کچھ سروکار نہیں۔ اب مجھ سے پردہ کر اور اس ناپاک صورت کو میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹا”۔
شوکت آرا یہ تماشا دیکھ رہی تھی اور جمال خان کی بے رحمی و سنگدلی دیکھ کے حیران تھی۔ جب یہاں تک نوبت پہنچی تو گلرخ بیگم کو اٹھا کر ایک کونے میں ہٹا لے گئی۔ پھر اسی وقت کہار بلوا کے کہا: “بہن! اب اس سنگدل مرد کی منت خوشامد کرنا بیکار ہے کیونکہ اس کے اختیار ہی میں نہیں رہا کہ تمھارے حال پر مہربان ہو۔ اس وقت صبر کرو اور میرے گھر چلی چلو، وہاں چل کے ہم سوچیں گے کہ کیا کریں”۔
گلرخ کے لیے چارہ کار ہی کیا تھا۔ کہاروں کے آتے ہی سوار ہو کر شوکت آرا کے ساتھ اس کے گھر میں چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد جمال خان نے اس کا زیور اور جو انعام وغیرہ بادشاہ کی مرحمت سے اپنے ساتھ لائی تھی، سب گلرخ بیگم کے پاس بھجوا دیا اور کہلا بھیجا کہ “لو یہ حرام کاری کا انعام و معاوضہ بھی اپنے ہی پاس رکھو اور جو دو لاکھ کی رقم تم نے مینا بازار میں کمائی تھی وہ بھی بھیجے دیتا ہوں۔ یہ نہ کہنا کہ تمھاری بے شرمی کی دولت میں سے کچھ بھی میرے پاس ہے”۔
گیارھواں باب
بادشاہ کو خبر
شوکت آرا کے یہاں ڈولی سے اترتے ہی گلرخ بیگم نے کہا: “بہن! دیکھا تم نے مردوں کی محبت کا حال؟ یہ ان میاں کا حال ہے جو محبت کا دم بھرتے تھے، صورت کے عاشق تھے اور ہر وقت جان فدا کرنے کو تیار رہتے تھے؛ اور جن بیچاریوں کے شوہروں کو ان سے زیادہ محبت نہیں ہے، ان کی مظلومی کی تو کوئی انتہا ہی نہ ہوگی”۔
شوکت آرا : ہاں بہن دیکھا اور سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی عقل کو کیا ہوگیا؟ ان کے یہاں جیسے انصاف ہئی نہیں ہے۔
گلرخ بیگم: اور جہاں پناہ کہتے تھے کہ انھوں نے ان کو بلا کے خوب سمجھا دیا اور ان کے دل کے شک مٹا دیے۔ انھیں بادشاہ کے کہنے کا بھی اعتبار نہ ہوا تو اور کسی کا کیا اعتبار ہوگا؟
شوکت آرا: اب تم اپنا دل نہ کُڑھاؤ اور آرام سے بیٹھو۔ وہ انصا ف نہ کریں، خدا تو دیکھتا ہے۔ ان کو زیادہ شک تھا عالموں سے فتوی لے لیتے، دوستوں سے مشورہ کرتے مگر وہ مجنون سے معلوم ہوتے ہیں اور جب بعد کو غور کریں گے تو اپنے کیے پر بہت پچھتائیں گے۔
گلرخ بیگم: اب پچھتانے سے کیا ہو سکتا ہے؟ میری قسمت میں جو لکھا تھا، پورا ہوا اور منہ کو جو کالک لگنا تھی لگ گئی۔
شوکت آرا: تم تو بے گناہ ہو۔ سچ پوچھتی ہو تو کالک انھیں کے منہ کو لگی اور وہی ذلیل ہوئے۔
ان باتوں کے بعد گلرخ بیگم پلنگ پر منہ لپیٹ کے پڑ رہی۔ اپنی مصیبت و حالت کو یاد کرتی تھی اور زار و قطار روتی تھی۔ دل میں آتا تھا کہ اپنے میکے میں چلی جائے مگر پھر کہتی کہ وہاں کیا منہ لے کے جاؤں؟ اور کیسے منہ دکھاؤں؟پھر خیال آتا کہ نواب تاج محل کے پاس جا کے اپنی مصیبت بیان کرے اور بادشاہ کے آگے فریادی ہو۔ مگر دل اس کو بھی نہ گوارا کرتا اور کہتی بادشاہ سنیں گے تو انھیں سخت سزا دیں گے اور وہ میرے ساتھ جو چاہیں کریں میں اُن کا نقصان نہیں چاہتی، اور ان کو سزا ملنے سے مجھے کیا مل جائے گا؟ میری قسمت میں جو ذلت اور تباہی ہے نہیں دور ہو سکتی۔
انھیں خیالات میں تیسرا پہر ہوگیا اور شوکت آرا نے آ کے کہا: “لے چل کے کھانا تو کھا لو”۔ گلرخ بیگم نے ہزار کہا کہ مجھے بالکل بھوک نہیں ہے مگر شوکت آرا نے نہ سُنا اور زبردستی لے جا کے کھانا کھلایا۔ کھانے کے بعد دونوں بہنیں تنہا بیٹھیں تو شوکت آرا نے پوچھا: “بہن! تم نے کچھ غور کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟”
گلرخ بیگم: کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔
شوکت آرا: کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی! اے کل ہی جا کے بادشاہ کے سامنے فریاد کرو۔
گلرخ بیگم: فریاد کرنے سے فائدہ؟ کوئی لڑائی ہوتی تو وہ سمجھا بجھا کے ملا دیتے۔ طلاق کا وہ کیا علاج کر سکتے ہیں؟ میرے درد کا علاج دنیا بھر میں کسی کے پاس نہیں۔ بڑے مہربان ہوئے تو کسی امیر کے ساتھ میرا دوسرا نکاح کرا دیں گے او ریہ مجھے منظور نہیں ہے۔ طلاق میں کون سی ذلت اُٹھ رہی ہے کہ اب دوسرے مرد کی صورت دیکھوں؟ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مجھے اب مردوں کی صورت سے نفرت ہو گئی، ان میں نہ رحم ہے نہ انصاف، نہ خدا کا خوف ہے اور نہ رسول سے شرم۔ ایک ہی نے کیا کم نہال کر دیا کہ دوسرے کی صورت دیکھوں؟
شوکت آرا: تم دوسرا نکاح نہ کرنا مگر بادشاہ اور ملکہ سے اپنا درد دل بیان تو کرنا چاہیے اور نہیں تو تمھارے بسر ہی کی کوئی صورت پیدا ہو جائے گی۔
گلرخ بیگم: انھیں چار پانچ روز میں جتنی دولت مجھے جہاں پناہ کی مہربانی سے مل گئی وہ میری زندگی بسر ہونے کے لیے بہت ہے۔ اب میرے وہاں جا کے فریاد کرنے کا اس کے سوا کوئی انجام نہیں ہے کہ بادشاہ خفا ہو کے انھیں سخت سزر دیں۔ اس سے مجھے کیا مل جائے گا؟ اور میں چاہتی بھی نہیں کہ میری وجہ سے انھیں کچھ آزار پہنچے۔ وہ جانتے ہیں کہ میں اگر بادشاہ کے سامنے روؤں گی تو ان سے سخت باز پُرس کریں گے لیکن انھوں نے چاہے کیسا ہی سلوک کیا ہو، میں ایسا کوئی کام نہ کروں گی جس سے ان کو نقصان پہنچے۔ زندگی بھر یاد کریں گے کہ انھوں نے میرے ساتھ کیا کیا اور میں نے ان کے ساتھ کیا کیا۔
شوکت آرا: آخر کیا کرو گی؟
گلرخ بیگم: کچھ نہیں۔ ان کے وہاں سے نکال ہی دی گئی۔ میکے میں بھی جا کے اپنی منحوس صورت نہ دکھاؤں گی۔ اگرچہ تمھارا گھر بھی میکے ہی میں شامل ہے مگر اتفاق سے یہاں آ گئی۔ اگر تم نے پڑا رہنے دیا تو اس گھر سے قدم نہ نکالوں گی، یہیں رہوں گی اور یہیں مروں گی۔ اور اگر تمھیں میرا یہاں رہنا منظور نہ ہو تو اپنے میاں سے کہہ کے مجھے کوئی مکان خرید دو جو کسی سنسان مقام اور خاموش محلے میں ہو۔ اتنے دنوں بندوں کی اطاعت و خدمت کر لی، اب مرتے دم تک خدا کی عبادت کروں گی۔
شوکت آرا: ایسی باتیں نہ کرو۔ نہ تمھارا یہاں رہنا کسی کو گراں گذر سکتا ہے اور نہ تمھاری آزادیوں میں کوئی فرق ڈال سکتا ہے۔ مگر میں کہتی ہوں کہ نہ تم اس طرح اکیلی اور خاموش بیٹھ سکتی ہو اور نہ بیٹھنے پاؤ گی۔
گلرخ بیگم: کیوں؟ اب کون ہے جو میری آزادی میں فرق ڈالے یا میرے معاملات میں دخل دے گا؟
یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک ماما نے آ کے کہا: “نواب جان سپار خان دروازے پر کھڑے ہیں اور پردے کی آڑ میں آپ سے دو باتیں کرنا چاہتے ہیں”۔
شوکت آرا: کس سے؟ اُن سے یہاں کسی سے تعلق؟
ماما (گلرخ بیگم کی طرف اشارہ کر کے): آپ سے۔
گلرخ بیگم: ہاں وہ ان کے بڑے دوست ہیں اور روز انھیں کے پاس بیٹھے رہا کرتے ہیں۔ ایک آدھ دفعہ مجھ سے بھی دو ایک باتیں ہو چکی ہیں۔ مگر میرے پاس ان کے آنے کی وجہ؟ (ماما سے) جا کے کہہ دو کہ آپ کے دوست نے مجھے طلاق دے کے گھر سے نکال دیا اور میں نے ان کے ساتھ ان کے دوستوں کو بھی چھوڑا۔ جب تک میں جورو تھی ان کے دوستوں سے ملنا اور ان کی خدمت کرنا اپنا فرض جانتی تھی۔ اب مجھ سے آپ سے کوئی تعلق نہیں رہا۔
ماما گئی اور تھوڑی دیر کے بعد جواب لائی کہ وہ کہتے ہیں: “آپ کے بارے میں مجھ سے ان سے تین دن برابر بحث ہوتی رہی، میں آپ کی بے قصوری ثابت کر کے انھیں قائل و معقول کرتا رہا مگر ان کی سمجھ ایسی الٹی ہے کہ قائل ہو گئے مگر قبول نہ کیا۔ آج بھی میں صبح کو آپ کے آنے کے وقت تک سمجھاتا رہا اور تاکید کر دی کہ بغیر میرے مشورے کے کوئی ایسی کارروائی نہ کریں جو سخت ہو۔ مگر اس وقت گیا تو وہ باہر نہ آئے مگر آپ کے گھر کی لونڈی سے سُنا کہ انھوں نے بے سوچے سمجھے کمال حماقت سے طلاق دی دے، اس گھڑی سے میں نے ان کی دوستی چھوڑ دی اور آپ کا دوست ہوں اور ہر قسم کی خدمت بجا لانے کو تیار ہوں”۔
گلرخ بیگم: جاؤ کہہ دو۔ نامحرم مرد اور عورت کی دوستی ہی کیا؟ اس لفظ کو پھر زبان سے نہ نکالیے گا۔ کیا آپ مجھے اس گھر میں بھی آرام سے نہ بیٹھنے دیں گے! میرے حال پر آپ جو مہربان ہوئے، اس کی شکر گزار ہوں مگر میرا کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ آپ کو تکلیف دوں۔
اس کا جواب ماما یہ لائی کہ میں نے دوست کا لفظ کسی بُرے معنوں میں نہیں کہا تھا۔ لیکن آپ کو نہیں پسند ہے تو پھر کبھی میری زبان سے نہ سنیے گا۔ تاہم بعض ایسی باتیں ہیں جو آپ ہی سے کہنے کی ہیں۔ میں کل صبح حضرت جہاں پناہ کے دربار میں جاؤں گا، اس سے آپ کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ میں کس قسم کی خدمت بجا لا سکتا ہوں۔
گلرخ بیگم نے یہ سُن کے کہلا بھیجا: “بادشاہ کے محل میں میں بھی جا سکتی ہوں مگر میں ان کے سامنے شکایت نہیں کرنا چاہتی۔ میں نے کچھ بھی کہا تو حضرت جہاں پناہ اور ملکۂ عالم دونوں ان سے خفا ہو جائیں گے اور خدا جانے غصے میں کیا حکم دے دیں۔ مگر اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟ پھر ان سے مل نہیں سکتی اور کسی اور مرد کی صورت دیکھنے کی مجھے آرزو نہیں۔ لہذا شکایت سے کیا حاصل؟ انھوں نے میرے ساتھ جو چاہے کیا ہو، میں ان کی برائی نہیں چاہتی۔ اتنے دنوں مجھے آرام سے رکھا، اس کی زندگی بھر احسان مند رہوں گی”۔
اس کا جواب جان سپار خان سے یہ ملا کہ آپ کے نیک بیوی ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور یہ ان پر آپ کا بڑا احسان ہے کہ باوجود قدرت ہونے کے ان سے انتقام لینا نہیں چاہتیں۔ مگر کیا یہ معاملہ حضرت جہاں پناہ سے چھپا رہے گا؟ آج ہی خبر ہو گئی ہو تو تعجب نہیں۔ شاہی مخبر ایسی خبروں کا پتہ لگاتے پھرتے ہیں۔
گلرخ بیگم نے کہلا بھیجا: “جہاں پناہ تک یہ بات پہنچ گئی تو جو مناسب جانیں گے کریں گے۔ میں محل کے اندر فریادی بن کے نہ جاؤں گی۔ لہذا آپ اب تشریف لے جائیں اور اپنے دوست کو میری طرف سے اطمینان دلا دیں کہ میں دنیا ترک کیے دیتی ہوں۔ نہ محل میں جاؤں گی اور نہ کسی اور کو صورت دکھاؤں گی۔ لہذا میری طرف سے انھیں مطلق تکلیف نہ پہنچے گی۔
اس جواب پر جان سپار خان چلے گئے مگر کہتے گئے کہ میں اب ان کا دوست نہیں۔ جس گھڑی انھوں نے آپ پر ظلم کیا، اُسی گھڑی سے میں نے ان کی دوستی کو خیر باد کہہ دی اور اسی خیال سے میں کیا کہوں کہ کیسی دلچسپ امیدیں دل میں لے کے یہاں آیا تھا۔ لیکن اتنا عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ جب ترک دنیا کے خیال سے باز آئیں تو اپنے اس خادم کو نہ بھولیں۔ میں آپ کا خادم ہوں اور آپ کی نظر مرحمت کا امیدوار۔
اس آخری پیام نے گلرخ بیگم کو چونکا دیا اور طیش کے ساتھ بولیں: “خوب۔ ابھی ایک آفت سے پوری طرح چھٹکارا نہیں ہوا تھا کہ دوسری بلا میں پھنسنے کے پیام آنے لگے۔ میں چاہے مر جاؤں کسی مرد کی صورت نہ دیکھوں گی”۔
جان سپار خان آخری پیام پہنچا کے واپس چلے تو دل میں کہتے جاتے تھے کہ واہ کیسی نیک اور پارسا بیوی ہے۔ حُسن و جمال کا یہ عالم کہ چار آنکھیں ہوتے ہی بادشاہ جمجاہ کا دل ہاتھ سے جاتا رہا۔ محبت و الفت، خوش سلیقگی اور وفا شعاری کی یہ حالت ہے کہ ایک طرف جہاں پناہ مداح ہیں ، دوسری طرف مینا بازار کے واقعے سے پیشتر تک جمال خان بھی اس کا دم بھرا کرتا تھا اور گھنٹوں میرے سامنے اس کی تعریفیں کیا کرتا تھا۔ حقیقت میں جمال خان بڑا بدنصیب ہے کہ ایسی بے نظیر جورو خود ہی اپنے ہاتھ سے کھو دی۔ کاش یہ مجھے مل جاتی تو زندگی کیسے مزے اور عیش و آرام میں کٹتی۔ اگرچہ میری ایک بیوی موجود ہے، مگر میں دونوں سے نباہ لیتا اور گلرخ بیگم ایسی نیک اور عقلمند عورت ہے کہ میری پہلی بیوی کو خود ہی راضی کر لیتی اور ہمیشہ خوش رکھتی۔ افسوس اُس نے شریفانہ بے رخی کی جس کی مجھے شکایت نہیں۔ وہ دنیا کے ترک کرنے پر آمادہ ہے۔ مگر بھلا دنیا اُسے کیوں چھوڑنے لگی؟ جس عالی مرتبہ امیر کو خبر ہوگئی شادی کرنے پر آمادہ ہو جائے گا اور یہ باتیں اُسے مجبور کر کے ترک دنیا کے خلوت کدے سے نکالیں گی۔ اس وقت غصہ ہے اور دنیا سے نفرت ۔ دو چار روز میں غصہ اُترے گا تو خود ہی سمجھ جائے گی کہ میری سی حسین و پری جمال عورت جس کا عین شباب کا زمانہ ہو تارک الدنیا نہیں ہو سکتی۔
پھر کچھ دیر غور و فکر میں رہنے کے بعد بولا: “اس کے قابو میں لانے کی سب سے اچھی تدبیر یہ ہے کہ میں جہاں پناہ کے دربار میں جا کے بیان کر دوں کہ جمال خان نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ چونکہ یہ محل میں آنے کی وجہ سے ہوا، لہذا وہ سخت برہم ہو کے جمال خان کو مناسب سزا دیں گے اور گلرخ بیگم کے ساتھ ہمدردی کرنے کو تیار ہو جائیں گے۔ میں مشورہ دوں گا کہ کسی معزز سردار کے ساتھ اس کی شادی کر دی جائے اور جیسے ہی جہاں پناہ اس تجویز کو قبول فرمائیں گے، میں اپنے کو پیش کر دوں گا اور اقرار کروں گا کہ زندگی بھر اسی کا عاشق رہوں گا اور نہایت ہی عزت و حرمت سے رکھوں گا۔ یقیناً بادشاہ راضی ہو جائیں گے اور ان کے حکم پر اسے بھی انکار کرتے نہ بنے گی۔ پھر دربار میں اس سے بڑے کام نکلیں گے”۔
یہ تدبیر جان سپار خان کو بہت ہی اچھی بلکہ تیر بہ ہدف نظر آئی اور دوسرے ہی دن یہ منصوبہ کر کے دربار میں پہنچا۔ جب تک بادشاہ ادھر اُدھر کی باتوں میں مصروف رہے، دست بستہ خاموش کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ دربار کے برخاست ہونے کا وقت آ گیا۔ یہ دیکھ کر کہ اب جہاں پناہ اٹھنے ہی کو ہیں جان سپار خان دو قدم آگے بڑھا اور ہاتھ جوڑ کے عرض کیا: “اقبال شہر یارِ جہاں بلند۔ جمال خان نے کل اپنی جورو گلرخ بیگم کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا”۔
جہاں پناہ (ہمہ تن متوجہ ہو کر): کیا؟
جان سپار خان: جیسے ہی اس نیک بیوی نے گھر میں قدم رکھا، بہت بگڑا، سخت برآفروختہ ہوا، غریب کو بدکار فاحشہ کہا اور طلاق دے دی۔
جہاں پناہ: طلاق دے دی! بڑا غضب کیا۔ میرے سمجھانے اور اطمینان دلانے کا بھی اس پر کچھ اثر نہ ہوا! اس پاکدامن اور نیک عورت کو تہمت لگائی تو گویا مجھ کو تہمت لگائی اور پھر اس نے نہ مابدولت و اقبال کا اعتبار کیا اور نہ ملکۂ جہاں کا۔
یہ فرما کے جہاں پناہ کچھ دیر خاموش ہو کر غور فرماتے رہے اور بعد سر اٹھا کے نواب سعد اللہ خان کو حکم فرمایا: “اس کو اسی وقت جا کے پکڑ لاؤ اور اپنی حراست میں رکھو۔ کل دربار میں سب سے پہلے اس کے معاملے کو میرے سامنے پیش کرنا”۔
جمال خان کی گرفتاری کا حکم دیتے ہی جہاں پناہ محل میں تشریف لے گئے اور اسی وقت نواب تاج محل کو بلا کے فرمایا: “تم نے کچھ اور سُنا۔ جمال خان کی بیوی گلرخ کو میں نے بلا کے تین دن تمھارے پاس رکھا تو اس پر اسے اس قدر طیش آیا کہ بیوی کو گالیاں دیں، زانیہ و حرام کار کہا اور طلاق دے دی۔ میں نے خود بلا کے سمجھایا تھا اور ہرح اطمینان دلا دیا تھا۔ مگر اس نابکار نے اس کا بھی خیال نہ کیا”۔
تاج محل: واقعی اس نے بڑا غضب کیا اور گلرخ بیگم پر سخت ظلم ہوگیا۔
جہاں پناہ: جمال خان نے اُس غریب پر زنا کی تہمت لگائی تو اس کے ساتھ ہی مجھ پر بھی لگائی۔ گلرخ کو نہیں مجھے زانی و بدکار کہا اور جب یہ معلوم تھا کہ وہ تمھاری مہمان اور تمھاری حفاظت میں تھی تو تم کو بھی یہ تہمت لگائی کہ تمھاری حفاظت میں جو عورتیں رہیں، ان کی عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔
تاج محل: بے شک بڑی گستاخی کی اور سخت سزا کا کام کیا۔
جہاں پناہ: تم چوبداروں اور اپنی محل دار کو بھیج کے گلرخ بیگم کو اسی وقت بلاؤ۔ میں اس سے پوچھ کے بخوبی تحقیقی کر لوں تو مناسب انتظام کروں اور جب تک اس کا پورا تدارک نہ کر لوں گا مجھے چین نہ آئے گا۔ تم سمجھ سکتی ہو کہ اس ایک واقعہ سے کتنی خرابیاں پیدا ہو گئیں۔ گلرخ بیگم کی بے حرمتی ہوئی، اس پر زنا کی تہمت لگائی گئی، رعایا میں میری بدنامی و بے اعتباری ہوئی، تم پر الزام آیا کہ خوبصورت عورتوں کو مہمان رکھ کے بدکاری کے لیے میرے سامنے پیش کر دیتی ہو۔اس مینا بازار کی بدنامی ہو گئی جس کو تم نے کھولا ہے اور وہاں عورتوں کی عصمت کی حفاظت کا اطمینان دلانے کے لیے جو کچھ تدبیریں تم نے کیں سب کو خاک میں ملا دیا۔ جب تک پوری تحقیقات کر کے اس کو سخت ترین سزا نہ دی جائے، میں نہ دربار میں اُمرا کے سامنے چار آنکھیں کر سکتا ہوں اور نہ رعایا میں میرا اعتبار قائم رہ سکتا ہے۔
تاج محل: میں گل رخ بیگم کو ابھی بلواتی ہوں مگر حضرت جمال خان پر اتنے برہم نہ ہوں۔ بے شک اس نے قصور کیا ہے مگر حکم سے سرتابی و بغاوت نہیں کی۔
جہاں پناہ: اس کو میں بغاوت و نافرمانی ہی سمجھتا ہوں کہ میں نے سمجھایا اور اُسے میرا اعتبار نہ آیا۔ تاہم کوئی سزا مفتیانِ شرع سے فتوی لیے بغیر نہ دوں گا۔
تاج محل: یہ کارروائی سب کے اطمینان کے لیے کافی ہوگی اور اب میں جاتی ہوں، گلرخ بیگم کو بلواؤں۔
یہ کہتے ہی وہ اپنے دیوان خانے میں آ کے بیٹھیں اور محل دار کو بلوا کے حکم دیا کہ اسی وقت جا کے گلرخ بیگم کو لے آؤ۔ گھر پر ہوں تو وہاں سے لانا اور وہاں نہ ہوں تو جہاں پتہ لگے وہاں جا کر تلاش کرنا اور جس طرح بنے اسی وقت سوار کرا کے لے آنا۔
محل دار فوراً چوبداروں اور بہت سے آدمیوں کو ساتھ لے کے جمال خان کے مکان پر پہنچی اور خود اندر جا کے جمال خان سے پوچھا: گلرخ بیگم صاحب کہاں ہیں؟ حضور ملکۂ عالم نے یاد فرمایا ہے اور مجھے حکم ہوا ہے کہ اسی وقت سوار کرا کے لے آؤں۔
جمال خان: وہ میرے یہاں نہیں ہیں۔
محل دار: آپ کے یہاں نہیں تو کہاں ہیں؟ آپ کی بیوی ہیں اور آپ کو خبر نہیں؟
جمال خان: اب وہ میری بیوی نہیں۔ مجھ سے ان سے کچھ سروکار نہیں رہا۔
محل دار: آخر یہ تو بتائیے کہ کہاں گئیں؟
جمال خان: اپنی ایک چچیری بہن شوکت آرا کے ساتھ گئی ہیں۔ غالباً ان کے مکان پر ہوں گی یا ان کو معلوم ہوگا کہ کہاں ہیں۔
یہ کہہ کے جمال خان نے شوکت آرا کے مکان کا پتہ بتا دیا۔ اتفاق سے شاہی چوبداروں کا ہجوم دیکھ کر جان سپار خان اپنے گھر سے نکل آئے اور پوچھا “کیا ہے؟”
چوبدار: بادشاہ محل صاحبہ نے جمال خان کی بیوی کو یاد فرمایا ہے، انھیں کے لینے کو آئے ہیں۔ محل دار اندر گئی ہیں۔
جان سپار خان: وہ یہاں نہیں ہیں۔ ان کا پتہ چلو میں بتا دوں۔
اتنے میں محل دار یہ کہتی ہوئی اندر سے نکلی کہ بیگم صاحب تو یہاں نہیں ہیں۔ ان کے میاں نے جہاں کا پتہ بتایا ہے چلو۔ میں نے پتہ تو پوچھ لیا ہے مگر دیکھوں وہاں تک پہنچتی ہوں یا نہیں۔
جان سپار خان: کہاں کا پتہ بتایا ہے؟
محل دار: کوئی ان کی بہن شوکت آرا بیگم ہیں، ان کے گھر کا پتہ بتایا ہے۔ مگر اچھی طرح میری سمجھ میں نہیں آیا۔
جان سپار خان: ہاں وہیں ہیں۔ چلو میں ان کے دروازے پر پہنچا دوں۔
یہ کہہ کے اپنے سائیس کو بلا کے گھوڑا لانے کا حکم دیا۔
سب گھوڑے کا انتظار کر رہے تھے کہ کوتوال اپنے سپاہیوں کے بڑے بھاری گروہ کے ساتھ آ گیا اور مکان کو ہر طرف سے گھیر کے جمال خان کو باہر بلوایا۔ ان کے قدم باہر نکالتے ہی سبھوں نے نرغہ کر کے گرفتار کر لیا اور کہا: “محکمۂ وزارت سے آپ کی گرفتاری کا حکم ہے۔نواب سعد اللہ خان کے پاس چلیے”۔
جمال خان: میں کپڑے تو پہن آؤں۔
کوتوال: نہیں، جس حال میں ہیں، اسی حال میں چلیے۔
جمال خان: آخر میرا کچھ قصور تو معلوم ہو۔
جواب ملا یہ وزیر صاحب سے پوچھیے گا۔
اس کے بعد کوتوال جمال خان کو نواب سعدا للہ خان کے وہاں لے گئے اور نواب ممتاز محل کی ڈیوڑھی کے لوگوں نے جان سپار خان کے ہمراہ شوکت آرا بیگم کے مکان کی راہ لی۔ جان سپار خان دروازے تک پہنچا کے واپس چلے آئے اور محل دار اندر گئی تو سامنے ہی گلرخ بیگم اور شوکت آرا بیگم بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ سامنا ہوتے ہی محل دار جھک کے گلرخ بیگم کو آداب بجا لائی اور ادب سے ہاتھ جوڑ کے عرض کیا کہ جلدی چلیے بادشاہ بیگم صاحب یاد فرما رہی ہیں۔
گلرخ بیگم: کیوں؟ خیریت تو ہے؟ اے میں ابھی کل ہی تو آئی ہوں۔
محل دار: کوئی کام ہوگا۔ مجھ سے یہ نہیں ارشاد فرمایا کہ کس لیے بلاتی ہیں۔
گلرخ بیگم: اچھا تو تم چلو، میں آتی ہوں۔
محل دار: مجھے تاکیدی حکم ہے کہ اپنے ساتھ سوار کرا کے لے آؤں۔ سُکھ پال ساتھ آئی ہے۔
یہ سُن کے شوکت آرا بیگم نے چپکے سے کہا معلوم ہوتا ہے وہاں خبر ہو گئی۔ اس کے جواب میں گلرخ بیگم بولیں بے شک خبر ہو گئی، خدا جانے کس نے وہاں جا کے لگا دیا۔ تم سچ کہتی تھیں کہ میں کمبخت کونے میں بھی نہ بیٹھنے پاؤں گی۔ (محل دار سے) اس وقت تم میری طرف سے جا کے کچھ عذر کر دیتیں تو بڑا احسان ہوتا۔
محل دار: بیوی! لونڈی کی اتنی مجال نہیں ہے، حضور جلدی سوار ہوں ملکۂ عالم راہ دیکھ رہی ہوں گی۔
شوکت آرا (گلرخ بیگم سے): اب بسم اللہ کر کے سوار ہو۔ کسی کی مجال ہے کہ حضرت بادشاہ بیگم کا حکم بجا لانے میں ایک پل کی بھی دیر لگائے؟
گلرخ بیگم: جانا ہی پڑے گا مگر میرا جی نہیں چاہتا۔ اول تو اس بدقسمتی اور رو سیاہی کے بعد انھیں کیا منہ دکھاؤں؟ دوسرے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہاں مجھے سچ سچ حال بیان کر دینا پڑے گا، اس میں ان کو نقصان پہنچ جائے گا اور میں خدا جانتا ہے کہ انھیں آزار پہنچانا نہیں چاہتی۔ مگر جو قسمت میں لکھا ہے، بے پورا ہوئے نہیں رہتا۔
محل دار: بیوی! خدا کے لیے جلدی سوار ہوجیے، ورنہ میرا سر مُنڈ جائے گا۔
آخرمجبور ہو کر گلرخ بیگم سُکھ پال میں سوار ہوئیں اور کہار اور چوبدار ہٹو بچو کرتے ہوئے ایوان خسروی کی طرف لے چلے۔ قصر شاہی میں قدم رکھتے ہی گلرخ بیگم کو محل دار ملکۂ جہاں کے سامنے لے گئی۔ وہ ادب سے جھک کر آداب بجا لائی اور ملکہ نے مسکرا کے کہا: “تم سے جلدی پھر ملاقات ہوئی۔ بغیر تمھارے میرا دل بھی نہ لگتا تھا اور شاید خدا ایسا کرے کہ میں تمھیں اپنی مصاحب عورتوں میں رکھ سکوں”۔
گلرخ بیگم: لونڈی کی اس سے بڑی عزت کیا ہو سکتی ہے۔
اب نواب تاج محل نے بلا کے پاس بٹھا لیا اور سب کو ہٹا کے پوچھا: “سچ سچ بتاؤ کہ کل یہاں سے گھر جا کے تمھیں کیا واقعات پیش آئے؟”
گلرخ بیگم (ہاتھ جوڑ کے): حضور اُن باتوں کو نہ پوچھیں، جن میں میری بے عزتی ہے اور حضور کو سُن کر ملال ہوگا۔
تاج محل: تم سے مجھے اتنی محبت ہو گئی ہے کہ تمھارے کسی راز کو مجھ سے پوشیدہ نہ رہنا چاہیے، اسی خیال سے میں نے سب کو یہاں سے ہٹا دیا۔ رہا ملال تو اگر تمھیں ملال نہیں ہوا تو مجھے بھی نہ ہوگا۔
گلرخ بیگم: حضور جہاں پناہ سے بیان کر دیں گی اور میں انھیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گی۔
تاج محل: جہاں پناہ سے بے شک میں کسی بات کو نہیں چھپا سکتی۔ مگر چھپانے سے فائدہ ہی کیا، جب انھیں اور مجھے سارا حال پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے۔
گلرخ بیگم: تو حضور یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ میرے گھر کی خبروں کو یہاں تک کس نے پہنچایا؟
تاج محل: یہ میں نہیں جانتی۔ مگر جہاں پناہ نے مجھ سے بیان کیا کہ تم جیسے ہی اپنے گھر پہنچیں، جمال خان نے تمھیں گالیاں دیں، بدکار و حرام کار کہا اور طلاق دے دی۔
گلرخ بیگم: حضرت نے جو کچھ سنا بالکل سچ ہے۔ میرے شوہر نے میری کوئی ذلت اور بے آبروئی اٹھا نہیں رکھی۔ میں نے کہا طلاق دینے سے اچھا ہے کہ مجھے مار ڈالو، اس کا اُن سے یہ جواب ملا کہ جن کے پاس تین دن رہ کے آئی ہو، ان کے آگے بے بس ہوں ورنہ یہی کرتا۔ میں نے سوا خوشامد اور عاجزی کے کچھ نہیں کہا مگر وہ اپنے آپے سے باہر تھے۔ یہاں تک کہ تین طلاقیں دیں اور گھر سے نکال دیا۔
تاج محل: تو اب جہاں پناہ کے پاس چلو اور جو کچھ وہ پوچھیں صاف صاف کہہ دو۔ اس وقت تم انھیں کی بُلائی ہوئی آئی ہو اور تمھارا انتظار کر رہے ہوں گے۔
گلرخ بیگم: میں چاہتی تھی کہ یہ باتیں ان تک نہ پہنچتیں۔ میں اپنے میاں سے کسی قسم کا بدلہ لینا نہیں چاہتی۔ میں ارادہ کر چکی ہوں کہ دنیا کی لذتوں کو چھوڑ کے ایک کونے میں بیٹھ رہوں اور باقی ماندہ زندگی خدا کی یاد میں صرف کر دوں۔
تاج محل: اور بسر کیسے کرو گی؟ اچھا اگر تمھیں اس کا شوق ہے تو میں کافی مقدرا میں ایک وظیفہ تمھارے نام جاری کر دوں گی مگر میں زیادہ خوش ہوتی اگر تم میرے پاس رہتیں۔
گلرخ بیگم (شکر گزار ہو کر): حضور کا جب حکم ہوگا، دو چار روز کے لیے حاضر ہو جایا کروں گی۔ رہا وظیفہ تو اس کی مجھے ضرورت نہیں۔ جہاں پناہ نے جو کچھ مجھے مینا بازار میں دیا تھا اور جو کچھ اس کے بعد یہاں رخصت کرتے وقت عطا فرمایا اس ساری رقم کو میرے میاں نے میرے پاس یہ کہہ کے بھجوا دیا کہ لو اپنی یہ تین دن کی بدکاری کا انعام۔ اس شرمناک اُجرت کا ایک حبہ بھی میں اپنے پاس نہ رکھوں گا۔ وہ اتنی بھاری رقم ہے کہ میری زندگی بھر کے لیے کفایت کرے گی۔
تاج محل: جمال خان بڑا نالائق اور شریر آدمی معلوم ہوتا ہے۔ اس کا تو صاف مطلب ہوا کہ وہ جہاں پناہ کو تہمت لگاتا ہے۔ خیر اب اپنے بادشاہ کے پاس چلو، وہ جو مناسب جانیں گے حکم دیں گے۔
یہ کہہ کر نواب ممتاز الزمانی بیگم گلرخ بیگم کو لے کر جہاں پناہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ گلرخ بیگم آداب بجا لائی اور تاج محل نے کہا: “حضرت کو جو خبر پہنچی، بالکل صحیح ہے۔ میں نے ان سے پوچھا اور انھوں نے بتا دیا۔ مگر یہ اس کو ظاہر کرنا اور حضرت تک پہنچانا نہ چاہتی تھیں اور حیران ہیں کہ حضرت کو خبر کیسے ہو گئی”۔
جہاں پناہ: کل مجھ سے دربار کے آخر وقت جان سپار خان نے بیان کیا۔
گلرخ بیگم: بے شک انھوں نے کہا ہوگا۔ پڑوس میں رہتے ہیں اور میرے شوہر کے دوست ہیں۔ انھیں بہت سمجھاتے اور روکتے رہے اور کل جب ان کو یہ حال معلوم ہوا تو پتہ لگا کے میرے پاس پہنچے اور کہا اس وقت سے میں تمھارے شوہر کا نہیں، بلکہ تمھارا دوست ہوں۔ یہ سب باتیں جہاں پناہ کی خدمت میں حاضر ہو کے عرض کر دوں گا۔ میں نے منع کر دیا تھا مگر انھوں نے نہ مانا اور عرض کر ہی دیا۔
جہاں پناہ: یہ نہ چھپنے والی بات تھی اور نہ چھپانے کی ضرورت ہے۔ مگر جمال خان بڑا نالائق شخص ہے اور نہایت سخت سزا کا سزاوار ہے۔
گلرخ بیگم (جہاں پناہ کے قدموں پر گر کے): جہاں پناہ! میرے ساتھ انھوں نے جو کچھ کیا اس کا حق رکھتے تھے۔ انھیں اختیار تھا کہ مجھے چاہیں گھر میں رکھیں اور چاہیں نکال دیں اور اگر اس میں ان سے بے رحمی اور بے انصافی ہوئی بھی تو میں نے اس کو معاف کیا۔ وہ میرے شوہر رہ چکے ہیں۔ مجھے نہایت ہی عزت و محبت سے مدت تک رکھا ہے، اب اگر ان سے کوئی بدسلوکی ہوئی بھی تو میں نے معاف کیا۔ میں نہیں چاہتی کہ ان کو میرے ہاتھ سے کسی قسم کا نقصان پہنچے۔ اگرچہ وہ اب مجھے اپنی بیوی نہیں جانتے، مگر میں مرتے دن تک انھیں کو اپنا شوہر اور اپنی عزت و آبرو سمجھوں گی، انھیں کے نام پر جیوں گی اور انھیں کی جورو کہلاؤں گی۔
جہاں پناہ (کچھ دیر متامل رہ کر): تمھاری شرافت و عصمت میں شک نہیں۔ تم ایسی نیک بیوی ہو کہ ساری خوبیاں تمھاری ذات میں جمع ہو گئی ہیں۔ یہ بھی تمھارا کمال شرافت ہے کہ ایسے بے رحم، وہمی اور ناقدر شوہر کا سارا قصور معاف کر دیا۔ مگر جمال خان اکیلا تمھارا گنہگار نہیں ہے، اس نے تم سے بدسلوکی کرنے کے ساتھ مجھ پر تہمت لگائی، اپنی ملکہ کو بدنام کیا اور ہمارے اس مینا بازار کی رسوائی کی۔ اس نے ہمارا معاشرتی نظام درہم و برہم کر دیا اور ساری رعایا میں یہ خیال پھیلا دیا کہ میرا اور بادشاہ بیگم کا اعتبار نہ کیا جائے۔ تمھارے معاف کر دینے سے یہ سب الزام اس کے سر سے نہیں اٹھ سکتے، نہ میں معاف کروں گا اور نہ بادشاہ بیگم معاف کریں گی۔ اور بالفرض ہم بھی معاف کر دیں تو ہمارے معاشرتی نظام کو جو اس نے بگاڑا ہے، اس کا تدارک بغیر اس کو سزا دیے نہیں ہو سکتا۔
گلرخ بیگم (ہاتھ جوڑ کر): اگر حضرت چاہیں تو ان کے سب قصور معاف ہو سکتے ہیں اور لونڈی کے دل میں امید ہے کہ میری التجا کا لحاظ فرمائیں گے۔
جہاں پناہ: اور سب گناہ معاف ہو سکتے ہیں، مگر سیاسی امور میں کسی کا کہنا نہیں مانا جا سکتا۔ یہ غیر ممکن ہے کہ ایک مجرم شرع کو میں معاف کر دوں۔ مَیں اِس میں کبھی کسی کا پاس ولحاظ نہیں کرتا۔
گلرخ بیگم شوہر کی سفارش میں کچھ اور کہنا چاہتی تھی مگر ممتاز الزمانی بیگم بادشاہ کے حضور سے اس کو ہٹا لائیں اور اپنے کمرے میں لا کے سمجھانے لگیں کہ اب اس امر میں کچھ کہنا سننا بیکار ہے اور زیادہ اصرار سے جہاں پناہ کے ناراض ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ ایسے ملکی معاملوں میں وہ کسی کی نہیں سنتے۔ میری بھی مجال نہیں ہوتی کہ لب ہلا سکوں۔ اب یہ معاملہ عالموں کے ہاتھ ہے۔ ان کا جو فتویٰ ہوگا، اس پر عمل فرمائیں گے۔
گلرخ بیگم (یاس کے لہجے میں): تو خدا جانے ان کو کیا سزا ملے گی۔
تاج محل: یہ خود حضرت کے اختیار میں ہے۔ علما سے فتوی ملنے کے بعد جو حکم مناسب جانیں گے ، دیں گے۔
گلرخ بیگم مجبوراً خاموش ہو رہی اور پھر رات کو اگرچہ شاہی دسترخوان پر کھانا کھایا، مگر اس بارے میں کوئی لفظ زبان سے نہ نکالا۔
بارھواں باب
سزائے موت
دوسرے روز ناشتے کے بعد جیسے ہی حضور جہاں پناہ دربار میں برآمد ہوئے، نواب سعد اللہ خان نے دست بستہ عرض کیا: “حسب الحکم شاہی جمال خان کل گرفتار کر لیا گیا اور میری حراست میں ہے۔ مرضی مبارک ہو تو پیش کیا جائے”۔
بادشاہ اس پر کچھ دیر غور فرماتے رہے، پھر فرمایا: “اس کو میرے سامنے لانے کی ضرورت نہیں۔ تم ہوشیاری کے ساتھ اپنی ہی حراست میں رکھو، اس کی صورت دیکھ کے مجھے تکلیف ہوگی اور اس کی باتیں سن کے مجھے غصہ آئے گا؛ مصلحت اسی میں ہے کہ وہ میرے سامنے نہ آئے”۔ اس کے بعد علامی افضل خان کی طرف جو حاضرِ دربار تھے، متوجہ ہو کے ارشاد ہوا: “میں بتاتا ہوں تم لکھتے جاؤ”۔ انھوں نے فوراً قلمدان منگوایا اور قلم و کاغذ ہاتھ میں لے کر عرض کیا “ارشاد”۔
جہاں پناہ: لکھو، کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ زید کی جورو ہندہ کو خلیفۂ وقت نے چند امور دریافت کرنے اور چند باتیں معلوم کرنے کے لیے اپنے محل میں طلب کیا اور اپنی بیوی کی حفاظت میں تین دن مہمان رکھا۔ اس پر برہم و بد گمان ہو کر زید نے ہندہ کو طلاق بائن دے دی اور اسے زانیہ و حرام کار کہا، جس کے معنی یہ ہوئے کہ اپنی جورو کو زنا کی تہمت لگائی، خلیفہ کو زانی سمجھا اور ملکۂ وقت کو معین زنا قرار دیا۔ ایسی حالت میں از روئے شرع شریف زید کس سزا کا مستوجب ہے؟ بَــیِّنوا وتوجَرُوا۔ پھر فرمایا اس کو درست کر کے صاف کرو اور علما کے پاس بھیج دو کہ آج ہی جواب لکھ کر واپس کر دیں تاکہ کل ان کے فتوے کے بموجب حکم جاری کیا جائے۔
اس کے بعد بادشاہ سعد اللہ خان کی طرف متوجہ ہو کر دیر تک جمال خان کی نسبت اظہار ناراضی کرتے رہے۔ فرمایا: “وہ شکی اور وہمی مزاج ہی کا نہیں، بلکہ بے وقوف بھی ہے۔ اپنی ان نالائقیوں کے نتیجے میں میری اطاعت و وفا داری سے بھی باہر ہوگیا۔ میں اس کے اس جُرم کو بغاوت میں داخل تصور کرتا ہوں اور مجھے نہایت افسوس اس کی بیوی پر آتا ہے جسے صرف میری اطاعت کرنے کے باعث آزار پہنچ گیا”۔
اس کے بعد انھیں خیالات کو دل میں لیے ہوئے محل میں گئے اور اندر جاتے ہی گلرخ بیگم کو سامنے بُلوا کے فرمایا: “میں نے جمال خان کو گرفتار کرا لیا اور حراست میں ہے۔ عالموں کے پاس استفتا گیا ہے۔ اُن کا فتوی آتے ہی مناسب تدارک ہو جائے گا مگر مجھے اس کا بہت بڑا صدمہ ہے کہ میری وجہ سے تمھیں صدمہ پہنچ گیا۔ بے شک تم نہایت ملول ہوگی لیکن پریشان نہ ہو۔ خدا نے چاہا تو تم پہلے سے اچھی رہوگی، زیادہ اطمینان و فارغ البالی سے زندگی بسر کرو گی اور جمال خان سے اچھے شخص کے ساتھ تمھاری شادی ہو جائے گی جو تمھارے حُسن و جمال اور تمھاری خوبیوں کا بہت بڑا قدردان ہوگا۔
گلرخ بیگم: جہاں پناہ کی نظر عنایت میں میری سب سے بڑی عزت ہے۔ میرے لیے حضرت ملال نہ کریں۔ باقی رہا دوسری شادی کا معاملہ تو میں ارادہ کر چکی ہوں کہ اب دنیا ترک کر کے کونے میں بیٹھ رہوں اور باقی زندگی بندے کی خدمت کے عوض خدا کی خدمت و اطاعت میں صرف کر دوں۔ بسر ہونے کے لیے میرے پاس حضرت کا دیا ہوا اتنا موجود ہے کہ مجھ سی بہت سی لونڈیاں آرام و اطمینان سے زندگی بسر کر دیں۔
جہاں پناہ: جمال خان نے تمھیں کھڑے کھڑے نکال دیا تو تمھارے پاس کیا رہا ہوگا؟
گلرخ بیگم: حضرت نے لونڈی کو جو خلعت و انعام رخصت کرتے وقت عطا فرمایا تھا اور جو دو لاکھ روپیہ مینا بازار میں عنایت ہوئے تھے، اُس ساری دولت کو گھر سے نکالنے کے تھوڑی دیر بعد انھوں نے میرے پاس یہ کہہ کر بھجوا دیا کہ اپنی یہ حرام کی کمائی اپنے ہی پاس رکھو، میں اس میں سے ایک پیسہ بھی اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا۔
جہاں پناہ (نہایت ہی غیظ و غضب سے): حرام کی کمائی! میں جو کسی کو انعام دیتا ہوں وہ حرام ہے! تم پاکدامن ہو، تم کو بھی اپنی عصمت و بے گناہی کا یقین ہے۔ میری ملکہ اور سارے محل والے تمھاری عفت کا یقین رکھتے ہیں اور خداوند تعالیٰ آگاہ ہے کہ تم باعصمت و عفیفہ ہو۔ اس کے تہمت لگانے سے کیا ہوتا ہے۔ وہ تہمت لگانے کی سزا پائے گا۔ تم دنیا میں اور زیادہ نیک نام ہوگی اور تمھاری عزت برابر بڑھتی جائے گی۔
گلرخ بیگم: مگر لونڈی کی اتنی تمنا تھی کہ میرا شوہر شاہی عتاب سے بچ جاتا۔
جہاں پناہ: اب وہ تمھارا شوہر نہیں ہے۔
گلرخ بیگم: حضور! اگرچہ میں اس کی جورو نہیں رہی، مگر وہ میرا شوہر ہے اور زندگی بھر رہے گا۔ کیونکہ مرتے دم تک اسی کے نام پر جیوں گی۔
جہاں پناہ: یہ نہیں ہو سکتا۔ بیوہ اور مطلقہ کا نکاح کر دینا شرعاً واجب ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ کسی جوان عورت کو بے شوہر کے نہ رہنے دیں۔ رہا تمھارے اس مجرم طلاق دینے والے کا سزا سے بچنا تو یہ میرے اختیار سے باہر ہے۔ میں اور تم دونوں مدعی ہیں۔۔۔۔۔
گلرخ بیگم (بات کاٹ کے): میرا اُن پر کوئی دعوی نہیں ہے۔
جہاں پناہ: مانا کہ تم مدعی نہیں ہو، مگر میں تو ہوں، میری ملکہ تو ہیں اور حاکم شرع شریف ہے۔ لہذا اس کے متعلق کسی کی سفارش نہیں سنی جا سکتی اور اس کے ساتھ یہ بھی سن لو کہ ممکن نہیں کہ تارک الدنیا جوگن بن کے تم بیٹھنے پاؤ۔
گلرخ بیگم: پھر کیا ہوگا؟
جہاں پناہ: تمھاری شادی ہوگی۔
گلرخ بیگم: میں عہد کر چکی ہوں کہ اس پھندے سے چھوٹنے کے بعد پھر دوسرے پھندے میں نہ پھنسوں گی۔
جہاں پناہ: یہ عہد خلاف شرع ہے۔ مگر اس معاملے میں جمال خان کے مقدمہ کا فیصلہ ہو جانے کے بعد غور کیا جائے گا۔
اب جہاں پناہ نے نواب تاج محل اور گلرخ بیگم کے ساتھ خاصہ تناول فرمانے کے بعد کچھ دیر آرام فرمایا اور سہ پہر کو اپنی بعض زیر تعمیر عمارتوں کے معائنے کے واسطے سوار ہو گئے۔
دوسرے ہی روز دربار میں علامی افضل خان نے علما کا دستخطی فتوی ملاحظے میں پیش کر دیا جس پر درج تھا کہ تہمتِ زنا لگانے والے کو اسی کوڑے مارے جائیں اور جہاں پناہ کو تہمت لگانا اور حضرت ملکۂ زمانہ کو بغیر کسی بنیاد کے ملزم ٹھہرانا خلیفہ و حاکم شرع کی گونہ بغاوت ہے۔ لہذا اس جرم کا مرتکب سزائے قتل کا مستوجب ہو سکتا ہے۔ اس پر کئی عالموں کی مہریں تھیں۔ اصل یہ ہے کہ عالموں سے بہ اصرار کہا گیا کہ حضرت جہاں پناہ کا منشا یہ ہے کہ اس مجرم کو قتل کی سزا دی جائے، اگر آپ نے ان کے منشا کے مطابق فتوی دیا تو خلعت و انعام عطا ہوگا اور اگر آپ نے دستخط نہ فرمائے تو جہاں پناہ کی ناراضی کا مستوجب ہوگا۔ یہ سُن کر بعض عالموں نے یہ حکم لکھ دیا اور جن لوگوں نے یہ فتوی دینے سے انکار کیا اُن سے دستخط ہی نہیں لیے گئے۔
اس فتوے کو پڑھ کے جہاں پناہ نے تین بار فرمایا: “مستوجب قتل”، پھر کہا: “میرا بھی یہی خیال تھا کہ ایسے شخص کو قتل کیا جانا چاہیے، میری مرضی بھی یہی تھی۔ مستوجب قتل کے بارے میں ہمارے فردوس نشین آبا و اجداد کا معمول رہا ہے کہ جس طرح چاہتے قتل کراتے، کچھ ضرورت نہیں کہ واجب القتل مجرم تلوار ہی سے قتل ہو۔ لہذا میں حکم دیتا ہوں کہ جمال خان ہاتھی کے پاؤں سے کچلوا کے مارا جائے تاکہ اپنے کیفر کردار کو پہنچے اور دوسروں کو عبرت ہو”۔
یہ سُن کے تمام اہل دربار کانپ گئے اور جن سے ضبط نہ ہو سکا جہاں پناہ کی نظر سے اوجھل ہو کر رومال نکال کے آنسو پوچھنے لگے۔ سب کو اس کا ملال تھا کہ وہی شخص جو کل تک نہایت معزز تھا اور دربار شاہی میں ہمارے برابر کھڑا ہوا کرتا تھا، آج ہاتھی کے پاؤں سے کچلا جائے گا۔
ذرا تامل کے بعد جہاں پناہ نے کوتوال شہر کو بلوا کے حکم دیا کہ جمال خان کو سعد اللہ خان کی حراست سے اپنی حراست میں لو اور لے جا کے ہاتھی کے پاؤں سے پامال کراؤ۔ آج سہ پہر کے بعداور مغرب سے پیشتر اس حکم کی تعمیل ہو جائے۔
یہ حکم دیتے ہی جہاں پناہ دربار برخاست کر کے محل میں آئے۔ مگر یہ قہر و غضب کا حکم نافذ کرنے کی وجہ سے مزاج برہم تھا۔ نواب تاج محل نے پوچھا: “مزاج کیسا ہے؟”
جہاں پناہ: اچھا ہوں۔ مجرموں کو سزا دینے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے مگر شریر اپنی حرکتوں سے نہیں باز آتے۔ ابھی ابھی جمال خان کے لیے سزا دینے کا حکم جاری کر کے آیا ہوں۔
تاج محل: حضرت نے اسے کیا سزا دی؟
جہاں پناہ: عالموں نے اسے واجب القتل بتایا اور میں نے حکم دیا کہ ہاتھی کے پاؤں سے پامال کرایا جائے۔
سنتے ہی تاج محل تھرا گئیں، بے اختیار ان کی زبان سے نکلا “قتل” اور ساتھ ہی گلرخ بیگم نے جو ان کے پیچھے کھڑی تھی، بے تحاشا ایک چیخ ماری اور دھم سے بے ہوش زمین پر گر پڑی۔ خواصوں نے دوڑ کے اٹھایا اور لے جا کے اس کے بچھونے پر ڈال دیا۔
اب تاج محل نے کہا: “جہاں پناہ! یہ تو بڑی سخت سزا ہے۔ گلرخ بیگم اگر اس کے سننے کی تاب نہ لائی تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے”۔
جہاں پناہ: مگر مجھے اس کے غش آنے پر حیرت ہے۔ اس کو تو اپنے ظالم شوہر کے قتل ہونے پر خوش ہونا چاہیے تھا، نہ کہ اتنا بڑا صدمہ ہو۔
تاج محل: اسے اپنے شوہر کے ساتھ بڑی محبت تھی اور اگرچہ اس نے بڑی بے رحمی و ظلم سے چھوڑ دیا مگر یہ اب بھی نہیں چاہتی کہ اس کا بال بیکا ہو۔
جہاں پناہ: واقعی عورت بھی عجب چیز ہے، محبت کا سرچشمہ ہے اور الفت و مروت اس کی گھٹی میں پڑی ہے۔ اگرچہ بعض آوارہ عورتیں بھی بڑی سنگدل ہو جاتی ہیں مگر شریف و پاکدامن عورت شوہر کے ظلم اٹھاتی ہے، اس کے ہاتھ کی مار کھاتی ہے، بے عزت و بے آبرو ہوتی ہے مگر اس کی محبت نہیں چھوڑتی۔ خیر اب تم جلدی اس کے ہوش میں لانے کی تدبیر کرو۔ ضرورت ہو تو حکیم مسیح الزمان کو بلوا لو۔ خدا کرے جلدی ہوش آ جائے اور ناتوانی دور ہو۔ رات کو اس بارے میں پھر گفتگو ہوگی۔
نواب ممتاز الزمانی بیگم نے جا کے دیکھا تو اب تک گلرخ بیگم بے ہوش تھی۔ فوراً حکیم مسیح الزمان بُلائے گے اور ان کے علاج سے گھنٹہ بھر میں ہوش آ گیا۔ آنکھ کھلتے ہی نواب تاج محل کو پاس دیکھا اور پوچھا: “ہائے کیا میرے شوہر مار ڈالے گئے؟” بادشاہ بیگم نے کہا: “گھبراؤ نہیں، ابھی تو شرع کا حکم جاری ہوا ہے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی مجرم نے عاجزی کی اور معافی مانگی تو جہاں پناہ معاف کر دیتے ہیں۔ بعض لوگ قتل گاہ میں جا کے زندہ بچ آتے ہیں”۔
گلرخ بیگم: مگر جہاں پناہ انھیں تو معاف ہی نہیں کرتے۔
تاج محل: ممکن ہے کہ تم پھر کہو اور میں بھی سفارش کروں تو حضرت قبول فرما لیں اور فرض کرو کہ نہ قبول کریں تو تمھیں ملال کس بات کا؟ اب تم سے ان سے کوئی تعلق نہیں، بالکل غیر ہیں اور سیکڑوں غیر لوگ قتل ہو جاتے ہیں کوئی ان کا افسوس نہیں کیا کرتا۔
گلرخ بیگم: مگر وہ تو میرے میاں ہیں۔ ان کے مرتے ہی میں بیوہ ہو جاؤں گی۔
تاج محل (ہنس کر): کچھ سڑن ہوئی ہو۔ میاں جب تھے تھے، اب تو وہ تمھاری صورت بھی نہیں دیکھ سکتے۔
گلرخ بیگم: مگر میں مرتے دم تک انھیں اپنا میاں ہی سمجھوں گی۔ ہائے کوئی انھیں بچا دیتا۔
تاج محل: اچھا آج رات کو جہاں پناہ سے عرض کرنا۔ میں بھی کہوں گی۔
گلرخ بیگم: بچنے کی کوئی صورت ہے؟
تاج محل: ہاں ہے۔ سنتی ہوں لوگ جمال خان کو قتل کرنے کے لیے لے کر چلے تو اس نے درخواست کی کہ میں مرنے سے پہلے بادشاہ سے بالمشافہ دو باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں پناہ نے اس کو قبول فرمایا اور حکم ہوا کہ کل دربار کے آخر وقت وہ حاضر کیا جائے۔ ممکن ہے کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کر دے یا ایسے لہجے اور الفاظ میں رحم کی التجا کرے کہ بادشاہ کو اس پر ترس آ جائے۔
ان باتوں سے اطمینان تو کیا ہوتا، مگر گلرخ بیگم کے دل کو ذرا یونہی سی ڈھارس بندھ گئی۔ خاموش ہو رہی اور نواب تاج محل یہ کہہ کر کہ “اب تم ذرا دیر کو سو رہو”، اسے تنہا چھوڑ کے بادشاہ کے پاس چلی گئیں۔ ان کی صورت دیکھتے ہی حضرت ظل سبحانی نے پوچھا: “گلرخ بیگم کیسی ہیں؟”
تاج محل: اب اچھی ہیں۔ حکیم صاحب کی دوا نے فوراً فائدہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد آنکھیں کھول دیں اور باتیں کرنے لگیں۔ پھر بتایا کہ آنکھ کھلتے ہی انھوں نے کیا پوچھا اور ساری گفتگو بادشاہ کے سامنے دوہرا دی۔
جہاں پناہ: بڑا تعجب ہے کہ اس عورت کو ایسے ظالم شوہر کے ساتھ اس درجہ محبت ہے۔
تاج محل: وہ تو اس وقت تک جمال خان کو اپنا شوہر بتاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ مرتے دم تک انھیں کو اپنا شوہر سمجھوں گی۔
جہاں پناہ: صرف زنانہ جہالت ہے۔ ورنہ اب ان کو جمال خان سے کیا علاقہ رہا؟
یہ کہہ کے بادشاہ نے کچھ رازداری کی باتوں کے لیے سب عورتوں اور خواصوں کو ہٹا دیا۔ نواب ممتاز الزمانی بیگم کو بالکل اپنے پاس بٹھایا اور کچھ ایسی باتیں ہونے لگیں جن سے پہلے تاج محل کچھ کبیدہ خاطر و ناراض ہوئیں، پھر تدریجاً راضی ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ جہاں پناہ نے اپنی لجاجت و استمالت سے خوش کر دیا۔ پھر دسترخوان بچھا، دونوں نے ساتھ خاصہ تناول کیا اور جہاں پناہ مسہری پر لیٹ کے آرام فرمانے لگے۔
تیرھواں باب
لائے اس بُت کو التجا کر کے
رات کو نواب تاج محل گلرخ بیگم کو اپنے ہمراہ جہاں پناہ کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے دسترخوان پر لائیں تو زیادہ عزت و خاطرداشت کے ساتھ لائیں۔ وہ خموشی کے ساتھ ایک کونے پر بیٹھ گئی۔ ملول و مضمحل دیکھ کر جہاں پناہ نے پوچھا: “کہو، اب مزاج کیسا ہے؟” اس کے جواب میں بعوض گلرخ بیگم کے نواب تاج محل نے یہ دیا کہ “مزاج تو اچھا ہے۔ مگر اپنے برائے نام شوہر کے لیے نہایت ملول ہیں”۔
جہاں پناہ: میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انھیں اُس نالائق کے ساتھ ہمدردی کیوں ہے؟ اوراب تو وہ برائے نام بھی ان کا شوہر نہیں ہو سکتا۔
گلرخ بیگم: جہاں پناہ! چاہے ہو سکے یا نہ ہو سکے مگر میں زندگی بھر اسی کے نام پر جیوں گی۔
جہاں پناہ: آخر کیوں؟ وہ تمھارا شوہر ہونے کے قابل نہ تھا۔ تمھارے لیے اس سے اچھا شوہر چاہیے۔
گلرخ بیگم: حضرت! مجھ سے تو ایک مرد کے بعد دوسرے کو صورت نہ دکھائی جائے گی۔
جہاں پناہ: یہ بالکل خلاف شرع ہے اور حاکم شرع کا فرض ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو کسی دوسرے شوہر کے ساتھ تمھارا عقد کر دے۔ اور (مسکرا کے) دوسرے کو صورت نہ دکھانے کو جو کہتی ہو تو تم مجھی کو اپنی صورت دکھا چکیں۔
گلرخ بیگم (بے باکی سے): مگر جہاں پناہ معاف فرمائیں تو عرض کروں اسی کا وبال بھگت رہی ہوں۔
جہاں پناہ (ہنس کر) :تم اگر چاہو تو یہ وبال دم بھر میں دور ہو جائے۔
گلرخ بیگم: حضرت ہی ارشاد فرمائیں کہ میں اس وبال سے کس طرح بچ سکتی ہوں؟
جہاں پناہ: اس طرح کہ جس دوسرے کو منہ دکھایا ہے اُسی کی ہو جاؤ۔
بادشاہ کے اس فقرے نے گلرخ بیگم پر عجب اثر کیا۔ وہ حیران تھی اور گھبرا گھبرا کے کبھی جہاں پناہ کی صورت دیکھتی جس پر مسکراہٹ نمایاں تھی اور کبھی نواب ممتاز الزمانی بیگم کی جس پر قیامت کی متانت برس رہی تھی، اور آخر ایک ٹھنڈی سانس لے کے بولی: “لونڈی کی ایسی قسمت کہاں؟”
جہاں پناہ: یہ تم بخوبی جانتی ہو کہ جمال خان سے تم سے دوبارہ واسطہ نہیں ہو سکتا۔ وہ زندہ رہا بھی تو تمھارا نہیں ہو سکتا اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا سزائے موت سے بچنا فقط تمھارے اختیار میں ہے۔
گلرخ بیگم (حیرت سے): میرے اختیار میں! کیا میں شرع کے حکم کو ٹال سکتی ہوں؟
جہاں پناہ: شرع کے فیصلے کو تو نہیں بدل سکتیں مگر میرے حکم کو بدل سکتی ہو۔ مجھے معاف کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ میرا حق تمھارے اختیار میں ہے۔
یہ سن کر گلرخ بیگم خاموش ہو گئی اور دیر تک تکلیف دہ گومگو کے عالم میں رہ کر بولی: “اس کا جواب حضرت ظل سبحانی کو شاید ملکۂ عالم کی زبان سے زیادہ اچھا ملے گا”۔
جہاں پناہ: تو جواب کی کچھ جلدی بھی نہیں ہے۔ ملکۂ زمانہ سے تم اطمینان کے ساتھ مشورہ کر لو۔ ان سے دریافت کر کے اور خوب اچھی طرح فیصلہ کر کے کل ناشتے پر مجھے جواب دینا۔ جمال خان مجھ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ کل کے دربار میں اس کا فیصلہ ہوگا اور وہ کیا ہوگا، یہ تمھارے جواب پر موقوف ہے۔
گلرخ بیگم بجز خاموشی اور سر جھکا لینے کے اس کا کچھ جواب نہ دے سکی اور جہاں پناہ بھی خاموش ہو رہے۔ کھانے کے بعد جب گلرخ بیگم اٹھ کر بادشاہ بیگم کے دیوان خانے میں آئی تو نواب تاج محل بھی اس کے ساتھ تھیں۔ یہاں تنہائی میں موقع پا کر گلرخ بیگم نے کہا: “ملکۂ عالم! آپ اس وقت کچھ نہ بولیں۔ میں سمجھتی تھی کہ میری کچھ مدد کریں گی”۔
تاج محل: مجھ سے بادشاہ سے اس بارے میں گفتگو ہو چکی ہے۔ وہ تم کو اپنی بیوی بنانا چاہتے ہیں اور مجھ سے مُصِر ہیں کہ تمھیں اس پر راضی کروں۔ میری غیرت اس کو کسی طرح گوارا نہیں کر سکتی، اسی سبب سے تم نے دیکھا کہ میں خاموش تھی اور شاید جہاں پناہ کو دل میں اس کا ملال بھی ہوا ہو مگر تم خوب جانتی ہو کہ میں مجبور ہوں۔ کوئی عورت اس کو گوارا نہ کرے گی کہ اس کا شوہر دوسرا نکاح کرے لیکن جہاں پناہ ہم سب کے مالک ہیں۔ جو چاہیں کریں، کوئی دم نہیں مار سکتا۔ میری زندگی ہمیشہ اس میں کٹی کہ حضرت کی جو خوشی ہو اس کو پورا کروں۔ یہ بھی جانتی اور دیکھتی ہوں کہ شرع نے انھیں چار بیویاں اور بہت سی حرمیں رکھنے کی اجازت دی ہے جس سے ظاہر ہے کہ خدا نے بھی عورت کی خوشی اور خواہش کے خلاف فیصلہ کر دیا ہے۔ اسی بات کو سوچ کر مجھے ایسے معاملات میں بادشاہ سے انکار کرنے کا حق نہیں ہے۔ پھر جہاں پناہ کو ہمیشہ دیکھتی رہی کہ اپنے ان افعال میں کبھی میری دل آزاری نہیں کرتے اور میرے ملکۂ عالم اور خاص بیوی ہونے کے حقوق کی پوری نگہداشت فرماتے ہیں بلکہ ایسے امور میں ہمیشہ مجھ سے اجازت لے لیا کرتے ہیں۔ اور میں بھی یہ دیکھ کر کہ انھیں ایسا حق حاصل ہے، بجائے مزاحمت کے ان کی رضامندی کی جویا رہتی ہوں۔ لہذا میرا خوشی سے مشورہ ہے کہ تم اس کو ضرور قبول کر لو۔ مجھے کسی اور عورت کے مقابل تم پر زیادہ اطمینان ہے کہ میری خوشیوں کا لحاظ رکھو گی اور میری دوست بنی رہوگی۔ دوسرے محلوں کی طرح میں تمھیں کسی محل سرا میں نہ بھیجوں گی بلکہ اپنے پاس اور خاص اپنےمحل میں رکھوں گی۔ اسی قدر نہیں، تم دیکھتی ہو کہ میرا سن زیادہ آ چکا لہذا مجھے ہر وقت بادشاہ کے پاس رہنے کی ہوس بھی نہیں رہی اور تم سے امید ہے کہ ہمیشہ میری طرفدار اور خیرخواہ رہوگی۔
گلرخ بیگم: جہاں پناہ کی طرح حضور نے بھی میرا درجہ بہت بڑھا دیا مگر میرے دل کو تسلی دینے کی تو کوئی تدبیر کیجیے۔ نہ میرے دل سے اس ذلت کا بار اٹھے گا کہ جس کے نکاح میں تھی اس نے طلاق دے دی اور ذلیل کر کے گھر سےنکال دیا اور نہ کبھی لونڈی بننے کے بعد جہاں پناہ کے سامنے آنکھیں اٹھائی جائیں گی اس خیال سے کہ جیسی اچھوتی معشوقہ کو بادشاہ کے پہلو میں ہونا چاہیے ویسی میں نہیں ہوں۔
تاج محل: اس سے اچھی تدبیر تمھاری تسلی کی کیا ہو سکتی ہے کہ حضرت ظل سبحانی کی محبوبہ بنو گی اور پھر اس کے ساتھ میری دوست۔ رہی تمھاری ندامت تو یہ بالکل بے اصل ہے۔ شرع میں جو کنواری بیوی کا درجہ اور حق ہے وہی مطلقہ یا کسی کی چھوڑی ہوئی بیوی کا۔ اور مردوں کو تو ان باتوں کا خیال ہی نہیں ہوتا، وہ تو فقط صورت شکل اور سلیقے اور تہذیب کو دیکھتے ہیں۔ میری پھوپھی نور جہاں بیگم ہی کو دیکھو، دوسرے کی جورو تھیں بادشاہ بیگم بن گئیں اور بادشاہ کو ایسی عزیز تھیں کہ کوئی نہ ہوگی۔
گلرخ بیگم: ایسی قسمت میں کہاں سے لاؤں گی؟ مجھے تو یہ نظر آتا ہے کہ جہاں پناہ کو اس وقت میری صورت پسند آ گئی ہے، چار روز کے بعد جب میری صحبت سے جی بھرےگا نفرت کرنے لگیں گے اور ایسا ہوا تو مجھے اس کا طلاق سے بھی زیادہ صدمہ ہوگا۔
تاج محل: جہاں پناہ اس طبیعت کے آدمی نہیں ہیں۔ ان سے کبھی کسی کو صدمہ نہیں پہنچا اور میں وعدہ کرتی ہوں کہ ہمیشہ تمھاری دلداری و دلدہی کرتی رہوں گی۔ اس کے بعد یہ بھی خیال کر لو کہ اگر تم نے بادشاہ کی خوشی کر دی تو وہ بھی شاید تمھارے نالائق و مجرم شوہر کا قصور معاف کر دیں اور نہ قبول کیا تو انھیں جمال خان پر اور زیادہ غصہ آئے گا۔
گلرخ بیگم: اور میں نے منظور کر لیا تو یہ کتنی بڑی قیامت کی بات ہوگی کہ میں عیش و آرام سے ہوں گی اور وہ دل ہی دل میں کُڑھا کریں گے۔
تاج محل: یہی تو ہونا چاہیے کہ تم اپنے صبر کا پھل پاؤ اور وہ اپنے ظلم کا بدلہ پائیں۔
گلرخ بیگم: مگر خدا جانتا ہے کہ ان پر ظلم ہونا مجھے نہیں گوارا ہے۔ اگر میں نے اس کو قبول کر بھی لیا تو وہ فقط ان کی جان بچانے کے لیے ہوگا۔
تاج محل: کسی غرض سے ہو مگر حضرت جہاں پناہ کی خوشی ضرور پوری ہونی چاہیے۔
اب گویا گلرخ بیگم نے بادشاہ کی منکوحہ بننا دل میں گوارا کر لیا تھا مگر رات بھر اسی اُدھیڑ بُن میں رہی۔ کسی طرح نیند نہ پڑتی، آنکھ لگتی اور فوراً چونک پڑتی۔ دل میں کہتی یہ بڑا نازک معاملہ ہے۔ بادشاہوں کی بیوی بننے کے لیے خاص لیاقت اور بڑا سلیقہ ہونا چاہیے۔ ہر وقت سولی پر جان رہے گی۔ کوئی بدتمیزی کی حرکت ہوئی اور ہمیشہ کے لیے گئی گذری ہوئی۔ کوئی خلاف تہذیب بات زبان سے نکلی اور جان کے لالے پڑ گئے۔ پھر اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر بادشاہ خوش رہے تو دولت و حکومت لونڈیاں ہیں۔ میرا دل کسی طرح اس پر نہیں جمتا۔ خیال کرنے سے بھی دل دھڑکنے لگتا ہے۔ مگر میں نے نہ مانا تو میرے بے وفا شوہر کی جان نہ بچے گی۔ افسوس اپنی ناسمجھی سے انھوں نے میرے اور اپنے لیے کیسی مصیبت پیدا کر دی؟ اور ان کے مارے جانے کے بعد بھی یہ مشکل ہے کہ میں بادشاہ کے محل میں داخل ہونے سے بچ جاؤں۔
صبح ہوتے ہی نوابـ تاج محل نے اسے سمجھایا کہ اب جہاں پناہ کے سامنے چل کے بلا تامل قبول کر لو۔ یہ تمھاری مہلت کی آخری گھڑی ہے۔ تم نے انکار کیا اور جانو کہ جمال خان ہاتھی کے پاؤں کے نیچے کچلوا ڈالا گیا۔ اس کی زندگی چاہتی ہو تو قبول کرو۔
گلرخ بیگم: حضور تو فرماتی تھیں کہ خود جمال خان نے بادشاہ کے سامنے کچھ عرض معروض کرنے کی درخواست کی ہے اور انھیں اس کی اجازت دی گئی۔ اگر انھوں نے اپنی بے گناہی ثابت کر دی تو پھر کیا چھوڑ نہ دیے جائیں گے؟
تاج محل: کتنی بیوقوف ہو! معاف کرنا یا نہ کرنا تو جہاں پناہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ تم سے اشارے اشارے میں نہیں بلکہ صاف کہہ چکے کہ تم چاہو تو وہ بچ سکتا ہے۔ اس کا مطلب سوا اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ اگر تم نکاح کرنا قبول کر لو تو اسے معاف کر دیں گے۔
آخر گلرخ بیگم سست اور خاموش متردد و متفکر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی جہاں پناہ کے سامنے پہنچ کر آداب بجا لائی۔ بادشاہ نے بیٹھنے کی اجازت دی اور وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔ نواب تاج محل بھی آ کے بیٹھیں اور ناشتے کا دسترخوان بچھا۔ اسے خاموش دیکھ کر حضرت ظل سبحانی نے فرمایا: “گلرخ بیگم چپ کیوں ہو؟ بولو باتیں کرو”۔
تاج محل: انھیں اپنے بے وفا میاں کے مارے جانے کا بڑا صدمہ ہے۔
جہاں پناہ: صدمے کی کوئی بات نہیں۔ میں نے تو کہہ دیا کہ اس کا مارا جانا یا بچنا ان کے ہاتھ ہے۔
گلرخ بیگم: لونڈی کی مجال نہیں کہ بادشاہ کے کسی حکم کے بجا لانے میں ذرا بھی تامل کرے، مگر سنتی ہوں جمال خان نے حضرت کے روبرو کچھ عرض معروض کرنے کی درخواست کی ہے۔
جہاں پناہ: ہاں کی ہے۔ مگر کیا کہے گا؟ خالی معافی مانگنے سے کچھ ہو نہیں سکتا اور یہ غیر ممکن ہے کہ اپنے کو بے گناہ ثابت کر دے۔
گلرخ بیگم: تو لونڈی کی بھی تمنا ہے کہ حضرت سے تنہائی میں کچھ عرض کرے۔
جہاں پناہ (ہنس کر): خوب۔ اس میں بھی اس کا ساتھ! خیر جو کچھ کہنا ہو اسی وقت میرے دربار میں جانے سے پہلے کہہ دو۔ دربار کے بعد شاید موقع نکل جائے۔ کیونکہ میں جمال خان کے مقدمہ کا قطعی فیصلہ کر کے اندر آؤں گا۔
گلرخ بیگم: حضور جس وقت موقع دیں گے عرض کر دوں گی۔
چنانچہ ناشتے سے فراغت ہوتے ہی سب لوگ ہٹا دیے گے اور نواب ممتاز الزمانی بیگم بھی اٹھنے کو تھیں کہ گلرخ بیگم نے روکا اور کہا: “حضور کے تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں ہے”، مگر انھوں نے نہ مانا اور ایک ضروری کام کا بہانہ کر کے چلی گئیں۔
گلرخ بیگم: حضور! لونڈی اپنی اتنی حیثیت نہیں جانتی کہ جہاں پناہ کے حرموں میں شامل ہو، لیکن حضرت کا یہی حکم ہے تو عذر کی مجال نہیں۔ مگر دو باتیں قیامت ہیں، پہلی یہ کہ حضور بادشاہ بیگم صاحبہ کی جیسی نظر عنایت اس گھڑی ہے پھر نہ رہے گی، وہ ہزار زبان سے قبول فرمائیں مگر دل سے اس کو پسند نہیں کر سکتیں کہ ان کی ایک ادنی لونڈی انھیں کی رقیب بن جائے۔
جہاں پناہ: اور وہ دوسری بات کیا ہے؟
گلرخ بیگم: دوسری یہ کہ اپنے شوہر کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہیں بن پڑتی۔ نہ یہ گوارا ہے کہ وہ مار ڈالے جائیں اور زندہ رہے تو میرے دل سے کسی وقت یہ خیال نہ دور ہوگا کہ جو عورت ان کی جورو رہ چکی، بادشاہ کے پہلو میں لیٹنے کے قابل نہیں ہو سکتی۔ مجھے اپنی صورت سے بیزاری بڑھتی جائے گی۔ پھر چند روز بعد جب مجھ سے حضرت کا دل بھی بھر جائے گا تو میں کہیں کی نہ رہوں گی اور ذلت پر ذلت نصیب ہوگی۔
جہاں پناہ: تمھاری دونوں باتوں پر میں نے غور کیا اور نظر آیا کہ دونوں فقط وہم ہی وہم ہیں۔ نواب ممتاز الزمانی بیگم کی یہ حالت ہے کہ میری خوشی کے لیے ہر قسم کی بُری بھلی باتوں کو جان و دل سے قبول کر لیتی ہیں۔ اس کا ذرا بھی خیال نہ کرو کہ وہ تم سے کبھی بد گمان یا تمھاری بدخواہ ہوں گی۔ وہ تمھاری جتنی خاطر داشت اس وقت کرتی ہیں، ہمارے تمھارے نکاح کے بعد اس سے زیادہ کریں گی۔ میں ان سے اس کا اقرار لے چکا ہوں اور ان کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد تم سے عقد کرنے پر آمادہ ہوا ہوں، لہذا اس وہم کو دل سے نکال ڈالو۔ رہی دوسری بات تو جمال خان اس وقت تمھارے ہاتھ میں ہے۔ چاہو اُسے قتل کرو، چاہے جان بخشی کرو۔ اس کے زندہ موجود ہونےمیں جو تمھیں اندیشہ ہے کہ اس کے خیال سے تم کو اپنی عصمت و شرافت میں دھبہ نظر آئے گا، اس کا محض وہم ہونا درکنار واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ تم نے کوئی گناہ نہیں کیا، تمھاری آبرو میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جس حیثیت سے غور کرو، سارا قصور جمال خان کا ہے۔ جوں جوں زمانہ گذرتا جائے گا، دنیا بھر میں تمھاری بے گناہی اور اُس کی بدمعاشی برابر عالم آشکارا ہوتی جائیں گی۔ ساری دنیا اس پر تُھڑی تُھڑی کرے گی اور اپنے گناہ اور ظلم خود اس کے دل پر نقش ہوتے جائیں گے۔ اُس وقت اس کو نظر آئے گا کہ وہ اپنی نالائقی کے وبال میں کس قدر ذلیل ہوا اور تم اپنی نیکو کاری کے باعث کس اعلیٰ درجے کو پہنچ گئیں۔ رہے تمھارے آخری الفاظ کہ میرا دل تم سے سیر ہو جائے گا اور خدانخواستہ مجھ سے بے التفاقی ظاہر ہوگی تو میں تمھارے سامنے قسم کھا کے اقرار کرتا ہوں کہ میرے دل کو تمھارے ساتھ جو لگاؤ آج ہے زندگی بھر قائم رہے گا اور کبھی ادنیٰ بے التفاتی بھی نہ ظاہر ہوگی، اور کہو تو تمھارے اطمینان کے لیے اپنی ملکہ سے اس کی ضمانت دلوا کے ان کو بھی ذمہ دار بنا دوں۔
گلرخ بیگم: مجھے کسی کی ضمانت کی ضرورت نہیں، حضرت کا اپنی زبان سے اقرار فرمانا کافی ہے مگر خدا جانتا ہے کہ یہ خوش قسمتی میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی اور میں اپنے لیے ترک دنیا کا قطعی فیصلہ کر چکی تھی۔ تاہم حضور کے سامنے لونڈی ایک شرط اور پیش کرے گی۔ وہ یہ کہ جمال خان کی جان بخشی ہو اور اس کے عہدے، منصب اور وقار میں بھی کوئی فرق نہ آئے۔
جہاں پناہ (ذرا غور کر کے): خیر مجھے یہ بھی منظور ہے، مگر اس وقت صرف جان بخشی ہوگی اور اپنے عہدے اور تمام عزتوں سے وہ محروم کر دیا جائے گا۔ چار مہینے بعد جب تمھاری عدت کا زمانہ گذر جائے گا اور میں شان و شکوہ کے ساتھ تم سے نکاح کروں گا تو اس کا عام طور پر بڑا جشن منایا جائے گا اور اس کے بعد تمھارے ہاتھ سے اس کو یہ سب عزتیں دوبارہ عطا کی جائیں گی۔
گلرخ بیگم (ہنس کر): یہ تو شاید ان کے لیے مارے جانے سے زیادہ اذیت رساں ہوگا۔
جہاں پناہ: یہی نہیں، اُسے ایسی ہی بہت سی ذلتیں نصیب ہوں گی۔ اُسے بتا دیا جائے گا کہ یہ سارا اعزاز و اکرام تم کو نواب جمال آرا گلرخ بیگم کے لطف و کرم سے عطا ہوا ہے۔ اس کے بعد اکثر موقعوں پر تم ہاتھی پر عماری میں سوار ہوگی اور وہ خادموں کی طرح تمھارے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا۔
گلرخ بیگم: میں خدا کی قسم انھیں ذلیل کرنا نہیں چاہتی، مگر اب تو جو قسمت میں ہے سامنے آئے گا۔
اب جہاں پناہ بے حد مسرور و شادکام تھے۔ جوش مسرت میں گلرخ بیگم کو کھینچ کے گلے لگایا اور کہا: “گو نکاح بعد ہوگا، مگر تم آج ہی سے میری بیوی ہو”۔
گلرخ بیگم (متحیر و مضطرب): یہ کیسے؟
جہاں پناہ: اس طرح کہ تمھارا اعزاز و اکرام بادشاہِ وقت کی محبوبۂ خاص کا سا ہوگا، اگرچہ وہ تم سے الگ رہے گا۔
گلرخ بیگم: مگر حضرت نے تو اس وقت اس کے خلاف عمل کیا۔
جہاں پناہ: یہ بے تابی تھی اور ایک بے تابانہ حرکت کو امید ہے کہ تم معاف کر دو گی۔
چودھواں باب
انجامِ نیک
اب ہوا دار پر سوار ہو کر جہاں پناہ دربار میں برآمد ہوئے۔ نقیب نے نعرۂ تادیب بلند کیا اور تمام اُمرا و اہل دربار جھک جھک کے آداب بجا لائے۔ لوگ اس خیال میں تھے کہ چونکہ جمال خان کا معاملہ پیش ہونے والا ہے، لہذا حضور نہایت ہی برہم ہوں گے۔ مگر خلاف امید حضرت ظل سبحانی کا مسرور و بشاش چہرہ دیکھ کر سب کو تعجب ہوا۔ خصوصاً جان سپار خان کو نہایت ہی حیرت تھی جو اب گلرخ بیگم کے شوق میں جمال خان کے مارے جانے کا آرزو مند تھا۔
تخت پر اطمینان سے بیٹھ لینے کے بعد جہاں پناہ نے کوتوال کی طرف جو دست بستہ کھڑا تھا، نظر اٹھا کے فرمایا: “کل تم نے اطلاع کرائی تھی کہ جمال خان مجھے سے کچھ کہنا چاہتا ہے اور مابدولت و اقبال نے قتل کے حکم کو ملتوی کر کے ہدایت کی تھی کہ کل دربار میں حاضر کیا جائے۔ اس حکم کے مطابق وہ حاضر ہے؟”
کوتوال (ہاتھ جوڑ کے): حاضر ہے، سامنے بلوایا جائے؟
جہاں پناہ: بلواؤ۔ حکم کے ساتھ ہی کوتوالی کے سپاہی جمال خان کو اس حیثیت سے سامنے لائے کہ نہ سر پر دستار تھی، نہ بدن پر درباری قبا۔ معمولی کُرتا پائجامہ پہنے تھا اور سر سے پاؤں تک طوق و سلاسل میں جکڑا ہوا تھا۔ آتے ہی جھک کے آداب بجا لایا اور اُسے اس حال میں دیکھ کر تمام اہل دربار کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
جہاں پناہ: بتاؤ تم مجھے سے کیا کہنا چاہتے ہو؟
جمال خان: غلام کو جو کچھ عرض کرنا ہے اس کو تنہائی میں عرض کرے گا۔
جہاں پناہ: شاید تم اپنی برات ثابت کرنا چاہتے ہوگے مگر یہ بیکار ہے۔ علما نے فتویٰ دے دیا۔ رہی مجھ سے رحم و جان بخشی کی خواہش تو جس شخص کو اپنے بادشاہ کے کہنے کا اعتبار نہ ہو وہ ایسی درخواست نہیں کر سکتا۔
جمال خان: فدوی سے تو ایسی نالائقی نہیں ہوئی کہ حضرت ظل اللہ کے فرمانے کا اعتبار نہ کرے۔
یہ سُن کر جہاں پناہ نے اپنی نظر تمام حاضرین کے چہروں پر سے گذران کے جان سپار خان کی صورت پر جما دی اور فرمایا: “تمھیں خبر لائے تھے کہ جمال خان نے اپنی بیوی کو گالیاں دیں، زانیہ و بدکار بنایا اور طلاق بائن دے دی”۔
جان سپار خان (ہاتھ جوڑ کر): بے شک۔ اِنھوں نے میرے سامنے اُس پاکدامن بیوی کو بدکار بتایا۔ صاف لفظوں میں کہا کہ حضرت جہاں پناہ اگرچہ اس کی برأت فرماتے ہیں مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جس خوبصورت عورت کو بادشاہ شہر کی ساری عورتوں میں سے چھانٹ کے محل میں لے جائیں، تین روز اپنے یہاں رکھیں اور وہ ان کےہاتھ سے بچ کے پاکدامن چلی آئے۔
جہاں پناہ (جمال خان سے): اس سے صاف ثابت ہوا کہ تم نے اپنی بیوی کو زنا کی تہمت لگائی، مجھے زانی بتایا اور چونکہ میں نے کہہ دیا تھا کہ میں اور ملکۂ جہاں دونوں اس کی آبرو کے محافظ ہیں، لہذا تم نے ہم دونوں کی بے اعتباری کی۔
جمال خان: اس کا جواب تنہائی میں عرض کروں گا۔
جہاں پناہ: خیر تم جواب دینا اور میں سنوں گا۔ (جان سپار خان سے) مگر تم بتاؤ ان پر حد شرع جاری ہونا چاہیے؟
جان سپار خان: ضرور جاری ہو بلکہ یہ اس سے بھی سخت سزا کے قابل ہیں۔
جہاں پناہ: تمھارے نزدیک ان کی کیا سزا ہے؟
جان سپار خان: وہی جس کا حہاں پناہ حکم فرما چکے ہیں۔
جہاں پناہ: اور ان کی بیوی کو اپنی پاکدامنی و نیک نفسی کا کیا معاوضہ ملنا چاہیے؟
جان سپار خان: یہ کہ حضرت کسی ذی مرتبہ امیر کے ساتھ اُ ن کا عقد کرا دیں۔
جہاں پناہ: کون ذی مرتبہ امیر گلرخ بیگم کو اپنی جورو بنانے کا آرزو مند ہے؟
جان سپار خان: یہ آرزو سب سے زیادہ اس فدوی کے دل میں ہے اور فدوی وعدہ کرتا ہے کہ اُس نازنین کو نہایت ہی محبوب معشوقہ کی طرح عیش و آرام سے رکھے گا۔
جہاں پناہ: کیا تم اس عورت پر عاشق ہو؟
جان سپار خان: جب سے اُس کی شادی جمال خان کے ساتھ ہوئی اُسی وقت سے، پھر میں نے جمال خان ہی کی زبان سے اس کے حسن و جمال اور اس کی خوبیوں کی تعریف سُنی اور اُسی کی تعریفیں سننے کے لیے ان سے ملاقات بڑھائی۔
جہاں پناہ: تو معلوم ہوتا ہے کہ تم نے جو سب سے پہلے آ کر مجھے سے جمال خان کی شکایت کی تو یہ اسی دُھن میں تھا۔
جا ن سپار خان: جہاں پناہ کا فرمانا بجا ہے۔ اصلی بات یہ تھی کہ گلرخ بیگم کے ساتھ انھوں نے جو سلوک اور اس غریب پر جیسا ظلم کیا اس سے مجھے سخت تکلیف ہوئی اور چاہا کہ اُس بے گناہ خاتون کا انتقام اِن سے لے لوں۔
جہاں پناہ: گویا اسی وقت کا انتظار کر رہے تھے؟
یہ سوال جہاں پناہ نے کچھ ایسے لہجے میں کیا کہ جان سپار خان کے دل میں ایک قسم کا خوف سا پیدا ہوگیا اور عرض کیا: “مگر اس واقعے سے پہلے مجھے جمال خان سے مخالفت نہ تھی۔ میں ان کا سچا دوست اور خیر خواہ تھا۔ چنانچہ جب انھوں نے اپنی بیوی کے ایوان خسروی میں آنے پر ناراضی ظاہر کی تو میں نے انھیں ہر طرح ان کی بیوی کی عصمت و عفت کا یقین دلایا اور طلاق اور ہر قسم کی بدسلوکی سے برابر روکتا رہا۔
جہاں پناہ: تمھارے بیان سے معلوم ہوا کہ تم جمال خان کے دوست صرف اس کی بیوی کے خیال سے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی کرے۔ پھر جب اس نے بدسلوکی کی تو فوراً یہاں دوڑے آئے کہ جمال خان کو معتوب کرا کے اس کی بیوی پر قبضہ کرو۔ ہے نا؟
جان سپار خان (جس کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا تھا): بجا ارشاد ہوا۔
جہاں پناہ: تو ایسے بدنیت دوستوں کی سزا کیا ہے؟
جان سپار خان: جو مرضیِ مبارک ہو۔ غلام ہر طرح خطاوار ہے۔
جہاں پناہ: میں تمھیں فقط اتنی سزا دوں گا کہ اپنی یہ خطا ہمیشہ یاد رکھو۔
یہ کہہ کے تمام حاضرین دربار پر نظر دوڑا کے نور خان گُرز بردار سے جو شانے پر گُرز رکھے اور کمر میں خنجر لگائے کھڑا تھا، غصے کے ساتھ کہا: “جان سپار خان کو لے جا کے اس کا داہنا کان کاٹ لو اور کل حاضر کرنا کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں کہ ایک کان غائب ہے”۔
اس کے بعد تمام اہل دربار ہٹا دیے گئے اور جب جہاں پناہ نے دیکھا کہ جمال خان کے علاوہ جو طوق و سلاسل پہنے تھا، اور کوئی نہیں باقی ہے تو اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: “کہو کیا کہتے ہو؟”
جمال خان: مجھے کس جرم کی پاداش میں سزائے قتل دی گئی ہے؟
جہاں پناہ: تمھیں اپنا جرم ابھی تک نہیں معلوم ہوا؟ تم نے اپنی پاکدامن بیوی کو زنا کی تہمت لگائی۔ اسی کو نہیں مجھے بھی زنا کاری سے متہم کیا اور ملکۂ جہاں نواب ممتاز الزمانی بیگم پر یہ الزام عائد کیا کہ جن عورتوں کو وہ اپنی حفاظت میں رکھیں یا اپنا مہمان بنائیں ان کی عصمت محفوظ نہیں ہے۔ تمھارے یہی جرم ہیں جن پر علمائے شرع نے تم کو واجب القتل قرار دیا اور میرے نزدیک بھی یہی سزا ہونی چاہیے، کیونکہ تم نے عام رعایا کے دلوں سے بادشاہ وقت اور ان کی ملکہ کا اعتبار اٹھا دیا اور اس مینا بازار کو بدنام کر دیا جس کو بادشاہ بیگم صاحبہ نے بڑی شوق اور بڑی احتیاط کے ساتھ عورتوں کی نفع رسانی کے لیے کھولا ہے۔
جمال خان: ان سب جرموں کا کوئی ثبوت بھی ہے یا محض افواہی باتوں پر غلام کو سزا دی جاتی ہے؟
جہاں پناہ: جان سپار خان گواہی دیتا ہے۔ خود تمھاری بیوی کا بھی یہی بیان ہے۔
جمال خان: ان دونوں نے بہ حلف شہادت دی کہ میں نے اپنی بیوی کو یا ظل اللہ کو زانی بتایا یا ملکۂ زمانی کے بارے میں بد گمانی کی؟
جہاں پناہ: اُن سے حلف تو نہیں لی گئی مگر کیا تمھیں ان باتوں سے انکار ہے؟
جمال خان: قطعاً۔ اتنا صحیح ہے کہ اپنی بیوی کے تین دن محل میں رہنے سے میرے دل میں بد گمانیاں پیدا ہوئیں اور اسی بنا پر میں نے اسے طلاق دے دی جس کا شرعاً مجھ کو حق حاصل تھا۔
جہاں پناہ: تم نے اپنی بیوی سے ایسے فقرے کہے جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تمھیں اس کے زانیہ ہونے کا یقین ہے۔
جمال خان: شک کے جملے بے شک کہے مگر میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ مجھے اس کی بدکاری کا یقین ہے۔
جہاں پناہ: اگر یقین نہ تھا تو تم نے اسے طلاق کیوں دی؟
جمال خان: طلاق دینے کے لیے معمولی بد گمانی یا کوئی اور مصلحت بھی کافی ہو سکتی ہے۔
جہاں پناہ: اس میں اور کون سی مصلحت ہو سکتی ہے؟
جمال خان: اصلی مصلحت اور طلاق دینے کی وجہ یہ تھی کہ جس عورت پر حضرت ظل السبحانی کی نظر پڑی اور حضرت نے اسے خوبصورت و صاحب جمال تصور فرمایا، اس پر کسی اور کا خصوصاً اس کا جو ایک ادنیٰ غلام کی حیثیت رکھتا ہو، نظر ڈالنا اور اپنے تصرف میں لانا میرے عقیدے میں حرام ہے۔ میں نے اس عورت کے مرتبے کو حضرت کی نگاہ میں پسندیدہ ہونے کے بعد اپنے رتبے سے زیادہ جانا اور اس کو کمال گستاخی تصور کیا کہ بیوی کی طرح گھر میں رکھوں۔ اب میں اس کا ادب و احترام کرتا ہوں، اسے اپنی آقا اور اپنا سرتاج جانتا ہوں۔
جہاں پناہ: تو تمھیں اقرار ہے کہ تم نے اس کو زنا کی تہمت نہیں لگائی؟
جمال خان: بے شک۔ بلکہ میں نے جو اسے طلاق دی صرف اس خیال سے کہ اب اس کا مرتبہ اپنے سے زیادہ جانتا تھا۔
جہاں پناہ: مگر تم نے ایسے الفاظ ضرور کہے جن سے مجھ پر بد گمانی کا شائبہ ہوتا ہے، جس کی سزا ضرور ہونی چاہیے۔
جمال خان: تو کیا دل میں کوئی بُرا خیال پیدا ہونے کی سزا قتل ہے؟
جہاں پناہ: نہیں۔ تمھاری جان بخشی ہوگی مگر اتنی سزا ضرور ہونی چاہیے کہ آئندہ کے لیے تم اپنے عہدے، منصب اور تمام اعزاوں اور خطابوں سے معزول و محروم کیے گئے۔
جمال خان: یہ سزا جس سے حضرت کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے غلام کے لیے موت سے بدتر ہے۔
جہاں پناہ: اس سزا سے تم نہیں بچ سکتے۔ اب ایسی صورت پیدا ہونے والی ہے کہ آئندہ تمھاری آقا اور تمھارے حال پر مہربان ہونے والی گلرخ بیگم ہوں گی۔ انھیں راضی و خوش کرو گے تو ممکن ہے کہ پھر وہی عزت و عہدہ حاصل ہو جائے۔ تم اصلی مجرم انھیں کے ہو اور وہی تمھارا قصور معاف کر سکتی ہیں۔
اس کے بعد جہاں پناہ نے تمام اہل دربار کو سامنے بلا کے اعلان کر دیا کہ جمال خان کی جان بخشی کی گئی مگر اپنے عہدے اور اعزازوں سے برطرف کیا گیا۔ جمال خان فوراً شکر گزاری میں زمین بوس ہو کر آداب بجا لایا۔
اب جہاں پناہ دربار برخاست کر کے محل میں تشریف لائے اور اسی وقت گلرخ بیگم کو بلا کے ارشاد فرمایا: “تمھاری خاطر سے جمال خان کا قصور معاف کیا گیا اور اسے بتا دیا گیا کہ تمھاری کھوئی ہوئی عزت کا پھر حاصل ہونا اس خاتون کی نظر عنایت پر موقوف ہے جس کے دل کو تم نے آزار پہنچایا”۔
عدت کا زمانہ گذرتے ہی جہاں پناہ نے گلرخ بیگم سے نکاح کر کے اسے اپنی محبوبہ بیوی بنا لیا اور جب تک نواب ممتاز الزمانی بیگم زندہ رہیں، وہ انھیں کے پاس ان کی ایک ادنیٰ خادمہ کی حیثیت سے رہی اور اس کوشش میں مصروف رہی کہ بادشاہ بیگم کا اثر جہاں پناہ پر روز بروز بڑھتا رہے، مگر جب ممتاز الزمانی بیگم نے انتقال کیا تو وہی بادشاہ کی سب سے بڑی محبوبہ اور اندر باہر کی مالک تھی۔
جمال خان نے شوکت آرا کی خوشامد اور اس سے سفارش کرا کے گلرخ بیگم سے اپنا قصور معاف کرایا۔ پھر چند ہی روز میں پہلے سے زیادہ عزت و شوکت حاصل کر لی اور اکثر اس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کرتا کہ میں نے جو گلرخ بیگم کو طلاق دی یہ اچھا ہوا یا بُرا؟ اور آخر یہی فیصلہ کرنا پڑتا کہ اگرچہ گلرخ بیگم کی قدر نہیں جانی، مگر ان کا چھوڑنا ہی میرے حق میں بہتر ہوا۔