چند گھنٹے جبرالٹر میں
مسلمانوں کی گذشتہ شان و شوکت کی یادگاروں اور خیر القرون کے قابل قدر تبرکات میں سے ایک یہ مقام بھی ہے جو بحیرۂ روم کے پھاٹک پر آج بھی کھڑا پہرے دے رہا ہے، اور چونکہ یہ عربی الفاظ جبل الطارق سے بگڑ کے جبرالٹر بنا ہے، اس لیے ممکن نہیں کہ یہ الفاظ گوش زد ہوں اور مسلمانوں کے خیالات کسی اگلی دنیا اور اگلے زمانہ کی سیر نہ کرنے لگیں۔
مجھے بھی انگلستان سے واپس آتے وقت جب یہ خیال آیا کہ چند ساعت کے لیے ہمارا جہاز جبرالٹر پر ٹھہرے گاتو شوق نے ایک بے چینی کے انتظار کی صورت پیدا کر لی۔ خلیج بسکے کی موجیں جہاز کو زیر و زبر کر رہی تھیں، ہمارا اسٹیمر ایک ایسے بیمار کی طرح جسے انتہا سے زیادہ کرب ہو کروٹوں پر کروٹیں بدل رہا تھا، اکثر ساتھی بلکہ قریب قریب تمام ہم سفر سمندر کی بیماری میں مبتلا اپنے اپنے کیبن (کمرے) میں پڑے ابکائیاں لے رہے تھے۔
مگر میری یہ حالت تھی کہ ہجومِ شوق میں کسی قسم کی بدمزگی بھی نہیں محسوس ہوئی۔ بار بار اٹھ کے ڈِک پر جاتا تھا اور دوربین لگا لگا کے مشرق کی طرف نگاہ دوڑاتا تھاکہ شاید کہیں پہ جزیرہ نمائے اسپین کے سواحل نظر آجائیں تاکہ اسی مرکز پر خیالات کو ٹِکا کے دل ہی دل میں اس سرزمین کی سیر کرلوں، جسے صدہا سال تک مسلمانوں اور عربوں سے تعلق رہا تھا۔ آخر کئی دن کے انتظار کے بعد ایک طرف تو خلیج بسکے کاتلاطم موقوف ہوا، بحر ایٹلینٹک (بحر اعظم مغرب) نے ہمیں اپنی متانت کی آغوش میں لیا اور دوسری طرف سواحل اندلس نظر کے سامنے تھے، اسپین کے طیور ہمارے استقبال کو دوڑے اور جہاز کے گرد منڈلانے لگے اور وہاں کے پہاڑوں نے سر اٹھا کے ہم سے نظر بازیاں شروع کیں، بمصداق:
وعدۂ وصل چوں شود نزدیک | آتش شوق تیز تر گردد |
اس وقت میں اپنی بے تابی اور بے صبری میں اور زیادہ اضطراب پاتا تھا کہ ہائے قریب ہیں اور نہیں جاسکتے۔ اگرچہ یہ تمام حصہ جو اس وقت میری نظر کے سامنے تھا، اگلے دنوں دولت ہسپانیہ میں شامل تھا مگر آج کل کی تقسیم جغرافیہ کے لحاظ سے یہ اسپین نہیں پورچگل یعنی پرتگیز وں کا ملک ہے۔ اگرچہ سوا ایک دھندلی سواد اور تیرگی کے دامن سےسر نکالنے والی پہاڑیوں کے کچھ نہیں نظر آتا تھا، مگر میں اپنی یادداشت کی مدد سے پتہ لگا کے خیال کی آنکھوں سے ہر چیز کو دیکھتا چلا جاتا تھا۔ یہ الفاظ ہیں جو اُس محویت کے عالم میں میری زبان پر جاری تھے کہ “اب ہم القُباسہ کے سامنے ہیں” اور “اب ہم راس رقاعہ پر سے گزر رہے ہیں” اور “دیکھو اب وہ سامنے دریائے ٹیگس سمندر میں گر رہا ہے”۔ دریائے ٹیگس کا یاد آنا تھا کہ اسی نہر کے ذریعہ سے میں نے اپنے خیال کی کشتی پر بیٹھ کےایک سیر کی اورطلیطلہ اور اسپین کے بہت سے نامور شہروں کی سیر کر آیا۔ اپنی اس روحانی معراج سے چونکا ہی تھا کہ معلوم ہوا ہم جزیرہ نمائے اسپین کے اس صوبے کے برابر ہیں جو الغرب کہلاتا ہے اور فی الحال پورچگل میں شامل ہے، میں دل میں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ “اب پورچگل ختم ہونے کو ہے اور ہم خاص ارض اندلوسیہ میں داخل ہونے کو ہیں” کہ ناگہاں خشکی بہت قریب ہو گئی اور زمین کا ایک سرا اس طرح پاس آگیا کہ گویا جزیرہ نمائے اسپین نے ہم سے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ زمین کے اس کونے پر ایک پرانی عمارت نظر آئی، کیپٹن نے پاس آ کے بتایا کہ یہ ایک قدیم کانونٹ (ننوں کی خانقاہ ہے) جو سینٹ ویسنٹ کے نام سے مشہور ہے اور اسی وجہ سے زمین کا یہ کونا راس سینٹ ویسنٹ کہلاتا ہے۔ فی الحال یہ خانقاہ غیر آباد پڑی ہے، مگر کسی زمانہ میں نہایت ہی مقدس جگہ خیال کی جاتی تھی۔ اتنا سنتے ہی ہم سب نے اپنی دور بینیں اٹھائیں اور اس عمارت کی محرابوں اور دیوار و در؛ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہرہر اینٹ کا مطالعہ شروع کیا۔ فی الحال اس خانقاہ سے ایک لائٹ ہوس کا کام لیا جاتا ہے، محرابیں اور اوپر کی کھڑکیاں بالکل گاتھک وضع کی ہیں، مگر اس کا اجاڑ پن اوربے کسی و کس مپرسی کی وجہ سے ایک سنسان حالت میں پڑا رہنا یاد دلا رہا ہےکہ یہاں مسلمانوں کی قدیم عمارتوں پر بھی یہی حسرت ناک خموشی طاری ہوگی۔
جب تک نظر نے کام دیا مَیں اس عمارت کو دیکھتا رہا ؛ یہاں تک کہ شام ہو گئی اور رات کی تاریکی نے جس طرح کوئی دو بچھڑ کے ملنے والوں کو جدا کرے، ہمیں اس عمارت سے جدا کردیا؛ تاہم ان سواحل کے دیکھنے کا شوق فرو ہونا کیسا ساعت بہ ساعت بڑھتا جاتا تھا۔ رات کو کئی مرتبہ میں اس وقت اپنے کمرہ سے نکلا جبکہ سمندر نے تمام ہم سفروں کو کیبن کے جھولوں میں ڈال کے اورنرم و خوش گوار جھونکے دے دے کے سلا دیا تھا، ڈِک پر جا کے سواحل اسپین کو شوق کی نگاہوں سے دیکھا۔ چاندنی ایسی نکھری ہوئی تھی جس کے دیکھنے کو ایک سال سے کچھ زیادہ زمانہ تک انگلستان میں ترستے رہے تھے، سمندر کی بے قرار موجیں چاند کے عکس کو سطح آب کے آئینہ پر ایک لمحہ کے لیے بھی کسی پہلو پر قرار نہ لینے دیتی تھیں اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا آسمان ہر طرف پانی پر نور کی افشاں چھڑک رہا ہے۔ اس دلفریب منظر کے کنارہ پر مٹے مٹے سواحل اسپین بھی نظر آ رہے تھے، مگر رات کی تیرگی آتش شوق کو نہ بجھنے دیتی تھی۔ پچھلی رات کو ہم وادی الکبیر کے دہانہ پر سے ہوتے ہوئے شہر قادس کے قریب سے گزرے اور صبح ہوتے ہوتے دیکھا کہ داہنے بائیں دونوں طرف افریقہ و یورپ کے سواحل ساعت بہ ساعت ہم سے قریب ہوتے جاتے ہیں، ہمارے داہنے ہاتھ کی طرف افریقہ ہے اور بائیں ہاتھ کی طرف یورپ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے دونوں طرف کی پہاڑیاں ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے کے لیے بڑھتی چلی آتی ہیں۔ سب کے پہلے جنوب کی طرف ہم نے اس پہاڑ کی چوٹی کو بہت گھور گھور کے دیکھا جس کے نیچے شہر ٹنجیریا اگلے دنوں کا شہر طنجہ آباد ہے۔ آنکھوں پر بہت کچھ زور ڈالنے سے بھی شہر کی کوئی چیز نظر نہ آئی، مگر تاریخ نے بتا دیا کہ اسی جگہ ہمارے قدیم بہادر مشنری اور نامور جنرل عقبہ بن نافع نے سمندر میں گھوڑا ڈال کے آسمان کی طرف دیکھا تھا اور یہ الفاظ زبان سے نکالے تھے کہ “خداوندا ! اگر یہ سمندر میرا راستہ نہ روکتا تو میں برابر یوں ہی مغرب کی طرف رخ کیے جہاں تک زمین ملتی تیرے مقدس نام اور تیری توحید کی منادی کرتا چلا جاتا” اور پھر یہ یاد آیا کہ آٹھویں صدی ہجری کا مشہور سیاح ابن بطوطہ انھیں پہاڑوں سے نکل کے ساری دنیا کی سیر کر آیا تھا، جس کا سفرنامہ آج کل کے متجسسوں کے ہاتھ میں گویا اس زمانے کی حالت دکھانے کا ایک روشن چراغ ہے۔
آگے بڑھے، طنجہ کا کوہسار ہماری نظر سے غائب ہوا تو بائیں طرف یورپین ساحل پر ہمیں شہر طریفہ کی سفید سفید عمارتیں نظر آئیں، اس چھوٹے ساحلی شہر کی صورت دیکھ کے میں نہیں کہہ سکتا کہ میرےدل کی کیا حالت ہوئی۔ اپنا پرانا مکان غیر کے قبضے میں دیکھ کر یا اپنے کسی نامورا و رمشہور عزیز یا بزرگ کی قبر دیکھ کے جو خیالات کسی انسان کے دل میں گزر سکتے ہیں، وہ خیالات اس شہر طریفہ کو دیکھ کے میرے دل میں گزرے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سب کے پہلے طریف نام ایک عربی نژاد بہادر صرف دوسو بہادروں کے ساتھ پورے ملک ہسپانیہ کے فتح کرنے کے ارادہ سے اترا تھا اور چونکہ یہ شہر اسی کی یادگار میں آباد کیا گیا تھا لہذا طریفہ نام پڑ گیا اور آج تک اسی نام سے مشہور ہے۔ شہر طریفہ کے عین محاذات میں ساحل افریقہ پر ایک قدیم اسلامی شہر القصر کے کھنڈر پڑے ہوئے ہیں جن کو ایک چھوٹی سی راس جو “راس القصر”کہلاتی ہے، ذرا آگے بڑھ کے اشارے سے بتا رہی ہے۔
اب ہم آبنائے جبرالٹر میں تھے اور دل میں اس سمندر کو ادب اور عبرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، دل گواہی دے رہا تھا کہ ہمارا جہاز ان خطوط کو ضرور قطع کرے گا جن پر سے کبھی قرون اولیٰ کے مجاہدین کے وہ گروہ جن میں دو ایک صحابی اور دربار رسالت کے یادگار بھی ضرور ہوں گے، گزر رہے تھے۔ چلتے چلتے ہمارا اسٹیمر ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں یورپ کی طرف سمندر دو تین میل تک زمین کے اندر بڑھ گیا ہے اور اس حصہ کو خلیج جبرالٹر کہتے ہیں۔ اس خلیج کے مشرقی کونے پر شہر جبرالٹر واقع ہے اور مغربی کونے پر کوہسار کبریتہ، خلیج جبرالٹر کے دہانہ پر دونوں جانب یہ دو یورپین پہاڑ جبرالٹر اور کبریتہ سر اٹھائے کھڑے ہیں، جن میں سے پہلے یعنی جبرالٹر پر انگریزوں کا قبضہ ہے اور دوسرا حکومت اسپین کے تابع ہے۔ اس خلیج کے مغربی سواحل پر کوہ کبریتہ سے تھوڑی دور آگے بڑھ کے قدیم شہر الجزیرہ ہے جس کو مسلمان مورخین جزیرۃ الخضراء کہتے ہیں۔ دولت امویہ کے عہد میں یہ شہر نہایت رونق پر تھا، اگلے امرا اس کی نزہت و شادابی کے نہایت ہی مداح ہیں اور یہاں اکثر امرائے اسپین و مراکو کا مجمع رہا کرتا تھا۔ آج بھی الجزیرہ کے سفید سفید پختہ عمارتیں پہاڑوں اور سمندر کے درمیان میں ایک مسطح اور ڈھالو تختۂ زمین پر نہایت ہی خوبصورتی سے بکھری اور پھیلی نظر آتی ہیں، جن کے قریب ایک معمولی حیثیت کا قلعہ بنا ہوا ہے اور ریل کی سڑک اس قلعہ کے نیچے سے گزر کے اندرونی بلاد اسپین کو گئی ہے۔ قلعہ سے تھوڑی دور شمال کی طرف ہٹ کے شہر المرندہ ہے جو آج ایک نہایت ہی معمولی قصبہ کی حیثیت سے بےرونق پڑا ہے اور سمندر سے کسی قدر ہٹ کے بلندی پر واقع ہے۔ المرندہ سے شمال کی طرف ہٹ کے دریائے وادی الرنگ سمندر میں گرا ہے۔ اس خلیج کے مشرقی سواحل پر اور کوئی آبادی نہیں اور وجہ یہ کہ اس طرف ایک پتلا سا حصۂ زمین خلیج کی حد بندی کرتا ہوا بہت آگے کو بڑھتا چلا آیا ہے، جس کے عین سِرے پر بلند قلۂ کوہ ہے جس پر طارق اپنی فوج لے کے اترا تھا اور جہاں پر کہ آج شہر جبرالٹر آباد ہے۔ جبرالٹر سے شمال کی طرف فاصلہ پر اور وادی الرنگ کے پہاڑوں کے نزدیک ایک قدیم شہر مجورقہ بھی پڑا ہوا ہے، مگر اس کے مکانات نہیں نظر آتے۔
اس خلیج کے مقابل افریقہ کے ساحل پر راس المنع نام ایک حصۂ زمین پانی کے اندر تک برابر بڑھ آیا ہے اور اسی راس کی پشت پر وہ مشہور شہر سبتہ واقع ہے جہاں کے فرماں روا جولین نے اپنی بیٹی کی بےعزتی پر برہم ہو کے مسلمانوں کو فتح اسپین پر آمادہ کیا تھا۔([1]) موجودہ سبتہ نو آباد مقام ہے اور قدیم سبتہ کے کھنڈر وہاں سے دو میل مغرب کی طرف ہٹ کے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ کوہسار جو سبتہ سے شروع ہو کے آبنائے، جبرالٹر کے آخری حصے یعنی مغربی کونے تک سواحل افریقہ پر چلا گیا ہے، وہ آج تک موسی بن نصیر کے نام سے نامزد ہے اور جبل موسی کہلاتا ہے۔ الغرض یہ وہ مقام ہے جس میں غور سے دیکھیے تو ہر چیز قدیم اسلامی تاریخ اور گذشتہ ناموران اسلام کے کارنامے یاد دلاتی ہے۔
ہمارا اسٹیمر جبرالٹر کے قریب پہنچ کے ٹھہر گیا۔ شہر جبرالٹرکے دو حصے ہیں اور دونوں عظیم الشان اور سر بفلک پہاڑ کے دامن پر واقع ہیں، ایک حصہ میں تو خاص وہیں کے باشندے رہتے ہیں اور ایک حصے میں انگریز بھی آباد ہیں اور وہاں کے لوگ بھی۔ پہاڑ کی بلندی پر سمندر سے کھڑے ہو کے دیکھیے تو سوا برہنہ اور سیاہ چٹانوں کے کچھ نہیں دکھائی دیتا، لیکن اصل میں یہ پورا پہاڑ ایک زبردست انگریزی قلعہ ہے۔ جہاز کے ٹھہرنے کے تھوڑی ہی دیرکے بعد ایک دخانی کشتی پر سوار ہو کے میں شہر میں گیا، ہم جیسے ہی بندرگاہ پر پہنچے تو ہم نے تعجب سے دیکھا کہ ساحل پر رہنے والوں کے لیے ایک چھوٹا سا مارکٹ بنا ہے، اس میں ملک مراکش کے عرب کُرتے اور شرعی پائجامہ پہنے اورسر پر ترکی ٹوپیاں رکھے سودا بیچ رہے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس جا کے میں نے عربی میں کچھ باتیں کرنا چاہیں، مگر سوا دو ایک لفظوں کے نہ وہ میری سمجھ سکے نہ میں ان کی سمجھ سکا اور وجہ یہ ہے کہ مراکو کی عربی، مصر و شام اور خاص عرب کی زبان سے اس قدر جدا ہو گئی ہے کہ بغیر اس ملک میں چند روز رہے شام و مصر والے بھی ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے، بھلا میں کیا سمجھ سکتا؛ مگر اتنا ضرور معلوم ہوا کہ دیگر بلاد اسپین میں تو مسلمان نام کو بھی نہیں، مگر خاص جبرالٹر میں انگریزی حکومت کی وجہ سے مرا کو کے تاجروں کو خرید و فروخت کے لیے آنے اور رہنے کی آزادی ہے اور مرا کو کے محنت مزدوری کرنے والے بھی یہاں آکے بسر کرتے ہیں، لہذا کہنا چاہیے کہ بہت دنوں کی جلاوطنی کے بعد مسلمانوں کو جبرالٹر میں پھر قدم ٹکانے کا موقع مل گیا۔
تھوڑی دیر یہاں ٹھہر کے میں ایک پھاٹک میں سے ہو کے شہر کے اندر داخل ہوا۔ دیگر بلاد یورپ کی سی صفائی تو کہاں، مگر پھر بھی نہایت با رونق شہر ہے۔ عمارتیں دامن کوہ پر بلند ہوتی چلی گئی ہیں اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے سڑکیں بھی ایسی وسیع نہیں جیسی کہ آج کل ضروری خیال کی جاتی ہیں۔ اسپین کا حسن تمام یورپ میں مشہور ہے، جبرالٹر اگرچہ اس امر کی آزمائش کے لیے ایک نہایت ہی بگڑا نمونہ ہے، مگر تاہم اسپین کے چہروں کی عام بناوٹ اورصنفی خط و خال کا پورا نمونہ نظر آسکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جن آنکھوں میں شمالی یورپ کے حد سے زیادہ گورے چہرے کُھپے ہوئے ہوں، ان کو حسینانِ اسپین کے چہرے پر پہلے پہل ایک تیر گی نظر آئے گی۔ وہاں کا گورا پن ویسا ہی ہے جس کو مصر و ایران والے، یا ہندوستان میں کشمیرو افغانستان کے لوگ گورا کہیں گے، مگر انگلستان کے مذاق میں اس رنگ کو ڈارک یاسانولا کہتے ہیں۔ اسپین کی عورتوں کے چہرے عموماًچوڑے اور نہایت ہی خوبصورت ہوتے ہیں، آنکھیں کالی اور بال سیاہ ہیں۔ غرض وہ تمام باتیں موجود ہیں جن کے اعتبار سے ایک مشرقی ممالک کا رہنے والا ان کے حسن کو یورپ کے حسن پر ترجیح دے گا، مگر یہ بات تعجب کی ہے کہ ہم ہی نہیں یورپ کے تمام لوگ بھی اسپین کے حسن کے قائل ہیں۔ بول چال، عادات و اطوار اور تراش خراش، تمام باتوں میں وہ لوگ انگریزوں سے جدا نظر آتے ہیں اور مجھے یہ دیکھ کے حیرت ہوگئی کہ جبرالٹر کے یورپ میں ہونے سے وہاں والوں کو کوئی معتد بہ فائدہ نہیں ہوا؛ اس لیے کہ جس طرح کے نیٹو ہم ہندوستان میں سمجھے جاتے ہیں، ویسے ہی نیٹو وہ لوگ جبرالٹر میں ہیں۔
میں نے ایک گاڑی کرایہ پر کی اور شہر کی خوب سیر کرکے قلعہ کی راہ لی۔ یہاں کا قلعہ دولت برطانیہ میں سب سے زبردست اور اول درجہ کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ سوا انگریزی رعایا کے اور لوگوں کو قلعہ کے اندر جانے کی ممانعت ہے۔ بیرونی پھاٹک پر میں نے ایک رجسٹر میں اپنا نام لکھ دیا اور دو یورپین سپاہیوں کے ساتھ اندر روانہ ہوا۔ پہاڑ کے اندر کاٹ کے راستہ بنایا گیا ہے جو ایک سرنگ کی طرح پہاڑ کے گرد چکر کھاتا ہوا اوپر چڑھتا چلاگیا ہے۔ اس سرنگ کے منہ پر ایک بڑا پھاٹک لگا ہے اور اس میں ہمیشہ ایک زبردست قفل پڑا رہتا ہے۔ اس مصنوعی راستے میں جوں جوں اوپر چڑھتے جائیے زیادہ جھانکیاں بنی ہوئی ہیں اور ان میں بہت بڑی بڑی توپیں لگی ہوئی ہیں، ہر توپ کے پاس بہت سے گولے رکھے ہیں۔ جھانکیوں کی قطع باہر سے ایسی رکھی گئی ہے کہ صرف کوہستانی غار کی صورت میں نظر آتی ہیں اور یہ خیال بھی نہیں ہو سکتا کہ ان کے اندر توپیں ہیں۔ یہ ایک ہی سرنگ نہیں، ایسی ایسی بہت سی سرنگیں ہیں اور اتنا بڑا قلعہ ہے کہ دوچار دن میں بھی انسان بہ مشکل دیکھ سکتا ہے۔ علاوہ بریں جو خاص راز کے اور پوشیدہ مقامات رکھے گئے ہیں، وہ کسی کو دکھائے بھی نہیں جاتے۔
قلعہ کے باہر پہاڑ کے وسط میں ایک پرانی مسلمانوں کی بنائی ہوئی عمارت کھڑی ہے جو اولڈ مورش کیسل (یعنی موراکو والوں کا قدیم قلعہ) کہلاتی ہے۔ میں نے اس عمارت کو ہر چیز کی بہ نسبت زیادہ توجہ سے دیکھا، اب یہ عمارت ایک نہایت ہی بوسیدہ کھنڈر کی شان سے کھڑی ہے اور اسلامی تاریخ کا ایک کرم خوردہ ورق ہے۔ اسپین کی اسلامی سلطنت نے عمارت میں جو ترمیم کی تھی اور اس میں جس قسم کی خوبصورتی پیدا کی تھی، اس کا پتہ اس عمارت سے نہیں لگتا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطنت اسلامی کے بہت ابتدائی زمانہ میں اس کی تعمیر ہوئی تھی۔ ہزارہا سال کی برساتوں، بجلیوں، زلزلوں اور طوفانوں، غرض ہر طرح کی ارضی و سماوی آفتوں کی مار پڑی اور صدہا پولیٹیکل انقلاب ہوئے، مگر یہ محل آج تک کھڑا زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ اتنی آفتوں پر بھی اس نے اپنے بانیوں کے ساتھ بے وفائی نہیں کی اور اِس وقت تک ہر گزرنے والے کو اُن کا نام بتا رہا ہے۔
یہ سب چیزیں دیکھ کے ہم پھر شہر میں واپس آئے۔ یہاں کے لوگوں میں نہ دیگر بلاد یورپ کی سی صفائی ہے اور نہ وہاں کی سی دولت مندی۔ غربا بوجھ کو پیٹھ پر لادنے اور پھٹے پرانے، میلے کچیلے کپڑے پہنے سڑکوں پر ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ غریب مسافر اُسی طرح کی میلی اور ذلیل گٹھریاں سر پر اٹھائے بندرگاہ میں دکھائے دیتے ہیں، جیسے کہ آپ ہندوستان کے اسٹیشنوں پر دیکھا کرتے ہیں۔ بعض لوگ ایسی خراب اور ذلیل و پست حالت میں نظر آتے ہیں کہ دیکھنے والے کو بے انتہا ترس آتا ہے۔
چونکہ عموماً لوگ رومن کیتھولک مذہب کے پابند ہیں، لہذاننوں اور تارک الدنیا پادریوں کا زور ہے ، مگر یہاں کی ننین بھی خراب حالت میں نظر آتی ہیں، وہ ایسی خوش حال نہیں ہیں جیسے کہ ہندوستان کے پادری جو دین کا نام لےکے لاکھوں روپیہ اپنی تنخواہوں میں صرف کردیا کرتے ہیں۔ مجھے یہاں زیادہ تر اس بات کے دریافت کرنے کی فکر تھی کہ خاص یہاں کے لوگوں میں بھی کوئی مسلمان ہے، اس بارہ میں مجھے گاڑی والے نے مدد دی اور اسی کے بتانے سے معلوم ہوا کہ ہاں ہیں، مگر افسوس یہ نہ پوچھیے کہ کیسے اور کس حال میں ہیں، اس بارۂ خاص میں جو صدمہ مَیں وہاں سے اپنے دل پر لے کے آیا ہوں شاید زندگی بھر نہ مٹے گا۔ جتنے سڑک صاف کرنے والے حلال خور اور اسی قسم کے اور ادنی پیشہ والے ہیں، اکثر مسلمان ہیں۔ تمام گلی کوچوں میں جو شخص سب سے زیادہ ذلیل نظر آئے، جان لیجیے کہ مسلمان ہے اور اس قدر ذلیل کہ راہ چلتے لوگ مار دیتے ہیں، گاڑی ہنکانے والے کوڑے پھٹکارتے ہیں اور وہ دانت نکال کے اور خوشامد کرکے رہ جاتے ہیں۔ خود میں جس گاڑی پر سوار تھا، اس کے ہنکانے والے نے بھی ایک سڑک صاف کرنے والے مسلمان پر زور سے کوڑا مارا اور در اصل اس کی چوٹ مجھے لگی۔ میں نے دل میں کہا کہ افسوس یہی لوگ کبھی یہاں کے حکمران تھے اور یہی لوگ آج اس حال میں ہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ ان لوگوں کی یہاں کوئی مسجد بھی ہے۔ معلوم ہوا، نہیں۔ مسجد ہونا کیسا، یہ بھی نہیں جانتے کہ نماز کیونکر پڑھی جاتی ہے اور اصول اسلامیہ کیا ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون! مسلمانو! سچ یہ ہے ان لوگوں کی تصویر صاف بتا رہی ہے کہ غیر قوم کی ماتحتی میں اپنے قومی غرور اور تعصب پر قائم رہنے کا کیا نتیجہ ہے۔ الغرض ان لوگوں کی حالت پر روتا اور دل ہی دل میں افسوس کرتا ہوا چھ گھنٹہ کے بعد میں جہاز پر واپس آیا، چند ساعت میں جہاز روانہ ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں ہم بحیرۂ روم کے خوش رنگ نیلے پانی کا سماں دیکھتے دیکھتے دونوں طرف کے سواحل سے جدا ہوگئے۔
اٹلی کی مختصر سیر
کریٹ کے سواحل جب ہماری نظر سے غائب ہو گئےاور چند چھوٹے چھوٹے جزائر یونان نےقدیم دیوبانی کی کہانیاں زبان حال سے سنا کے اپنے سر بُعد کے دُھندلکے میں چھپا لیے تو تھوڑی دیر کے لیے ہمارا جہاز ایک ناپیدا کنار حصۂ بحر میں آگیا۔ ہماری نگاہیں خشکی کی جستجو میں ابھی اچھی طرح تھکنے بھی نہیں پائی تھیں کہ سامنے اور داہنے ہاتھ کی طرف پھیلے ہوئے ہمیں سواحل ایطالیہ نظر آئے جن کو شوق کی کشش ساعت بساعت قریب کرتی جاتی تھی۔ تقریباً ایک گھنٹے کے اندر ہم سواحل کے قریب ہی تھے، مگر ابھی وہ مقام دور تھا جہاں جہاز لنگر انداز ہونے کو ہے۔
جس طرح یونان کے بعد دولت روما نے ترقی کا جھنڈا بلند کیا تھا، اسی طرح یونانی سواحل کے بعد اب ہم ایطالیۂ عظمی (روم) کے سواحل کی اجمالی سیر دور ہی دور سے کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس قدیم صفحہ پر جدید ترقی نے رنگ چڑھا دیا ہے اور نئی وضع کے مکانات اور گاؤں نظر کے سامنے آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ آبادی اپنے ایشیا کے سواحل کی بہ نسبت ہمیں یہاں زیادہ نظر آتی ہے۔ یہاں پہاڑیوں کا سلسلہ اس طرح ملا ہوا نہیں ہے جس طرح ہمیں بمبئی اور عرب کے سواحل پر دکھائی دیتا تھا، پہاڑیوں کے درمیان میں اکثر جگہ کھلے مسطح اور سرسبز و شاداب میدان بھی نظر کے سامنے ہو جاتے ہیں۔
چار بجے معلوم ہوا کہ برنڈزی کا خلیج سامنے نظر آتا ہے۔ دور بینیں آنکھوں پر لگ گئیں اور ہر شخص عید کے چاند کی طرح اٹلی کے اس بندرگاہ کی عمارتوں کو دیکھنے لگا۔ سمندر کے اندر ایک خوشنما برج سامنے نظر آیا، جو دراصل لائٹ ہوس (روشنی کا مینار) تھا۔ اس برج کے قریب پہنچے تو ایک دوسرا برج دکھائی دیا، ان دونوں برجوں کے درمیان میں ایک خلیج سی واقع ہے جو خلیج برنڈزی کہلاتی ہے اور اس کے دہانے پر دونوں جانب یہ دو برج یا لائٹ ہوس پھاٹک کا کام دے رہے ہیں۔
جہاز اس دریائی پھاٹک میں داخل ہوا اور چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ ٹھیک سوا چار بجے ساحل سے لگا کھڑا تھا۔ ہمارے ورود کا تماشہ دیکھنے کے لیے ادھر ادھر سے بہت لوگ آکے جمع ہو گئے تھے، ان میں ہمیں بہت سےبانکے ترچھے نوجوان نظر آئے جو دور بینیں لگائے اپنی نگاہوں سے رسم خیر مقدم ادا کر رہے تھے، جہاز کے ٹھہرتے ہی ایک بڑا اور لمبا تختہ زمین کی طرف سے پھیر کے جہاز کے کنارے پر رکھ دیا گیا اور ایک پل سا بن گیا جس پر سے مزدور اور دیگر قسم کے لوگ جہاز میں آنے لگے۔ تھوڑی دیر میں جہاز پر ہنگامہ بپا ہو گیا، مزدور چلا چلا کے اٹیلین زبان میں باتیں کرتے ہوئے آتے تھے اور ایک ایک کا اسباب اٹھانے کی کوشش کرتے۔ بہت سے لوگوں کے جانے کے بعد ہمارے اترنے کی بھی باری آئی، ہم اپنا اسباب لے کے سیدھے کسٹم ہوس میں گئے، سب صندوق کھولے گئے اور سارا اسباب خوب اچھی طرح الٹ پلٹ کے دیکھ لیا جا چکا تو ایک بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کے ہم نے اسٹیشن کی راہ لی۔ اسٹیشن دور پر ہے اور قریب قریب سارے شہر میں گزر کے وہاں تک پہنچتے ہیں۔
برنڈزی ایک چھوٹا سا شہر ہے اور نہایت میلا کچیلا مقام ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے ایک بہت چھوٹا سا گاؤں تھا، جب سے جہازوں کی آمد و رفت شروع ہوئی یکایک ترقی کر گیا، مگر صرف محنت مزدوری کرنے والے اور عام قسم کے لوگ آکے آباد ہو گئے ہیں۔ راستے ہی میں ہمیں ایک میدان یا احاطہ سا نظر آیا، جہاں صدہا مزدور اور عوام الناس جمع تھے۔ یہ لوگ شرابیں پی رہے تھے، جرٹ کا دھواں ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ یہ سب مزدور اگرچہ میلے اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے تھے مگر آزادی ہی نہیں، خوفناک خود سری کا نشہ سب کے دماغ میں نظر آتا تھا۔ ہم اور ہمارے ہم سفر انگریز سب کا شمار یہاں آفاقی سیاحوں میں تھا۔ ان مزدوروں نے ہمیں عجیب عجیب قسم کی مختلف نگاہوں سے دیکھا اور ہمیں دیکھ کے بھیانک چہرے بنا لیے اور بعضوں نے منہ چڑھا دیا۔
ہمارے ہم وطن تمام عیسائیوں کو انگریزوں ہی پر قیاس کرتے ہیں۔ بعض مسلمان خیال کرتے ہیں اور کبھی کبھی اہل ہند کو دھوکا دینے کے لیے مشنری پادری بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ جیسی ضعیف الاعتقادیاں مسلمانوں میں ہیں اور جس قسم کی قبر پرستی اور تبرکات پرستی کا رواج جہلائے اہل اسلام میں ہے، عیسائیوں میں نہیں، مگر برنڈزی میں پہنچ کے ہمیں معلوم ہوا کہ عیسائیوں کے مہذب لوگ بھی اس بارۂ خاص میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ ہمارے جہلا سے کہیں زیادہ تجاوز کر گئے ہیں۔ اس شہر میں اور تمام اٹلی میں عموما ضعیف الاعتقادی انتہا سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے، جگہ جگہ پر ایسے مقامات ملتے ہیں جن کی نسبت کبھی تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں کسی نے مریم صدیقہ یا کسی اور سینٹ کو خواب میں دیکھا تھا، کہیں بتایا جاتا ہے کہ یہاں کسی ولی کا کوئی معجزہ نظر آگیا تھا۔ قدم قدم پر ایسی زیارت گاہیں اور ضعیف الاعتقادی کی یادگاریں نظر آتی ہیں اور آج تک بتا رہی ہیں کہ جناب سرورکائنات بستر مرگ پر لیٹنے کی حالت میں بھی کیوں باربار یہ ارشاد فرماتے تھے کہ “لعن اللہ الیھود والنصاری، اتخذوا قبور أنبیائھم مساجد”۔ ہمارے ہندوستان کے مسلمانوں نے دراصل اصلی اور حقیقی عیسائیوں کو آج تک دیکھا ہی نہیں اور جن عیسائیوں کو دیکھا ہے وہ سینٹ پال کے اصلی معتقد نہیں بلکہ لوتھر کے مرید اور نیچری عیسائی ہیں۔
اس مقام پر میں بد اخلاقوں کی بدتمیزیوں کا تذکرہ چھوڑے دیتا ہوں جو انسان کو عیسائی دنیا کے ہر نامی شہر میں نظر آیا کرتی ہیں، مگر اتنا بتا دینا چاہیے کہ برنڈزی بمقابلہ دیگر بلاد کے نہایت ہی مفلس شہر معلوم ہوتا ہے، دولت مندوں اور خوش پوشاک لوگوں کی بہت کم صورتیں نظر آتی ہیں، عموماً وہی لوگ ہوتے ہیں جو محنت و مزدوری پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہیں پہنچ کے ہمیں پہلے پہل یہ معلوم ہوا کہ چرٹ اور سگریٹ کس قدر قیمتی چیزیں ہیں اور یہی پہلا شہر تھا جو ہمیں فقیروں اور بھیک مانگنے والوں سے خالی نظر آیا، اس لیے کہ دریوزہ گری اور ہرکس وناکس کے آگے ہاتھ پھیلانے کی یہاں ممانعت ہے۔ اکثر غریبوں اور چھوٹے چھوٹے مفلس لوگوں نے گداگری کا یہ طریقہ اختیار کرلیا ہے کہ دیا سلائی کی ڈبیاں ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور بیچنے کے نام سے مانگتے ہیں، لیکن میں اتنا کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ روپیہ پیسہ مانگنے والے چاہے نہ نظر آئیں مگر سگریٹ اور چُرٹ مانگنے والے قدم قدم پر ملتے ہیں، آپ کو راستہ میں اور اسٹیشنوں پر ہر جگہ ایسے صدہا آدمی ملیں گے جو آپ کو چُرٹ جیب سے نکالتے دیکھ کے پاس آ کھڑے ہوتے ہیں یا ایک دیا سلائی روشن کرکے دوڑتے ہیں کہ لیجیے چُرٹ سلگائیے۔ ان سب لوگوں کو آپ سمجھ لیجیے کہ تمباکو کے فقیرہیں اور اگر آپ ان کی اس ابتدائی حالت کو دیکھ کے نہ سمجھے تو یہ تھوڑی دیرمیں خود ہاتھ پھیلا کے بتادیں گے۔ اسٹیشن پر پہنچتے پہنچتے ہمیں ایسے چار آدمیوں سے سابقہ پڑا اور ہمیں افسوس ہے کہ ہم سب کی خواہش نہیں پوری کر سکے۔
مغرب کے وقت ٹکٹ لے کے ہم سونے کی گاڑیوں میں سوار ہوئے اور ٹرین روانہ ہوئی۔ یہ ٹرین سیدھی پیرس ہوتی ہوئی فرانس کی بندرگاہ کیلے کو جاتی ہے اور دو دن میں لندن پہنچا دیتی ہے، مگر ہم اس پر صرف رات بھر کے لیے سوار ہوئے ہیں؛ اس لیے کہ ہمیں سوئیٹزرلینڈ ہوتے ہوئے اور کوہستان آلپس کی سیر کرنے جانا ہے۔ شام کو ٦ بجے ٹرین روانہ ہوئی اور ہمیں اٹلی کے سواد دیکھنے کا ایسا شوق کہ گوآج دن کو تھک گئے ہیں مگر لیٹنے کو جی نہیں چاہتا۔ کھڑکی کے پاس بیٹھے سیر دیکھ رہے ہیں، خوش قسمتی سے چاندنی رات ہے اور نہایت ہی نکھری اور اجلی چاندنی ہے۔ سفید سفید اٹلی کی عمارات جوزیادہ تر ہمارے مذاق کی ہیں، اس وقت پر فضا میدانوں کی گود میں نہایت ہی خوشنما معلوم ہوتی ہیں۔ سردی زیادہ بڑھ گئی اور بڑھتی جاتی ہے، آخر ہوا میں زیادہ خنکی پیدا ہو گئی اور ہم گاڑی کی کھڑکی بند کرکے بچھونے پر لیٹ رہے۔
صبح کو نہا دھو کے اور ناشتہ کرکے جب ہم پھر کھڑکی کے پاس آکے بیٹھے ہیں، اس وقت ہمیں زیادہ اطمینان سے اٹلی کے سوادکے اندازہ کرنے اور کھیتوں وغیرہ کے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ شہروں کے باہر اور دیہات اور کھیتوں کی خوبصورتی و آراستگی کے اعتبار سے اٹلی کا ملک ساری دنیا سے زیادہ خوش قسمت اور تمام دنیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انگلستان اورفرانس کے کھیتوں کو بھی اٹلی کے کھیتوں سے وہی نسبت ہے جو جنگل کو باغ سے ہوتی ہے۔ تمام کھیت مربع قطعات میں تقسیم ہیں اور حدود پر مینڈوں کی جگہ سایہ دار درختوں کی قطاریں چلی گئی ہیں اور درختوں میں انگور کی بیلیں جھالر کی طرح ہر طرف جہاں تک نظر جاتی ہے ہرے ہرے ہلال بناتی چلی گئی ہیں۔ سارے ملک اور تمام کھیتوں کی قریب قریب یہی حالت ہے اور جس طرف نظر اٹھا کے دیکھیے یہی مربع قطعات اور ان کے گرد درختوں کی متوازی صفیں اور ان میں انگور کی جھالریں دکھائی دیتی ہیں۔ کھیتوں اور صحراؤں میں تر و تازگی اور نزہت تو فرانس و انگلینڈ میں بھی اچھی طرح پیدا کرلی گئی ہے، مگر یہ خوشنما ئی اور لطف کہیں نہیں۔
اٹلی کو صرف اسی بات میں ترجیح نہیں، یہاں کا حسن وجمال بھی یورپ کے دیگر مقامات سے بڑھا ہوا ہے۔ مردوں کا لباس تو قریب قریب سارے یورپ میں ایک ہو گیا ہے، مگر عورتوں کی وضع میں کسی قدر فرق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اٹلی کی عورتوں کا لباس انگلستان سے زیادہ بانکا اور دلفریب ہے، وہاں کی ہر چیز میں ایک مشرقیت کی بوہے، وہ حسن و جمال اور وہ ناز و ادا جسے مشرقی آنکھیں ڈھونڈتی ہیں، ان کا پتہ اٹلی میں ہرجگہ اور ہر چیز سے لگ سکتا ہے۔ عورتیں اپنے گورےچہروں پر بالوں کو لٹکا کے جس خوبصورتی سے موڑتی ہیں، وہ بات انگلستان میں نہیں۔ ان کے چہروں کا گورا پن بھی بے مزہ نہیں اور نقشے بالکل ہندوستانی وضع و مذاق کے ہیں۔
صبح کو آٹھ بجے گاڑی بولونیا میں پہنچی، یہ اٹلی کا ایک مشہور جنکشن اور بڑا شہر ہے۔ ہم نے یہاں گاڑی چھوڑ دی اور دوسری ٹرین کے انتظار میں تین گھنٹہ تک اسٹیشن پر ٹھہرے رہے۔ گاڑی بدلنے کی یہ ضرورت تھی کہ جس ٹرین پر ہم برنڈزی سے روانہ ہوئے،وہ انگلستان جانے والوں کو سیدھے راستہ لے جاتی ہے اور ہمیں سوئیٹزرلینڈ کی سیر کی غرض سے آلپس کی گھاٹیوں میں دن کو گزارنا تھا۔ بولونیا کے اسٹیشن پر ہمارے تین گھنٹہ عجب لطف سے گزرے، برابر لوگ آتے تھے اور ہمارے قریب ہی ویٹنگ روم میں بیٹھ کے ٹرینوں پر سوار ہوتے تھے، مگر افسوس یہ کہ انگریزی بولنے والا کوئی بھی نہ ملا۔ اٹلی والے اپنی زبان کے علاوہ عموماً فرنچ زبان بھی بولتے ہیں، مگر افسوس کہ ہم اور ہمارے ساتھی دونوں زبانوں سے نابلد تھے۔ میرا خیال ہے کہ جب تک انسان خود فرنچ زبان نہ جانتا ہو یا کم سے کم اپنے مذاق کا کوئی فرنچ دا ں ہمراہ نہ ہو، اس وقت تک کسی کو یورپ کی سیر میں کوئی لطف نہیں آسکتا۔
آخر انتظار کا زمانہ گزر گیا، ٹرین آئی اور ہم نے سوار ہوکے شہر ملان کی راہ لی اور اُسی قسم کی سینریاں اور لطف دیکھتے ہوئے ۳ بجے ملان پہنچ گئے۔ ملان میں ہمارا ارادہ ایک شب قیام کرنے کا تھا تاکہ صبح کو سوار ہوکے ایسے وقت سوئٹزرلینڈ کے پہاڑوں میں پہنچیں جبکہ دن ہو اور اچھی طرح سیر ہو سکے۔ ملان کے اسٹیشن کے قریب ہی “ہوٹل ڈی نورڈ” تھا، جس میں جا کے ہم نے اپنا اسباب رکھا اور گاڑی پر سوار ہوکے شہر کی سیر کو روانہ ہوئے۔
ملان اٹلی ہی نہیں، سارے یورپ کے اعلی اور خوش سواد شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں نے اسے شہر وینس سے عجیب طرح نسبت دی ہے، کہتے ہیں کہ جس طرح وینس اندر اور باہر ہر جگہ سمندر اور پانی سے گھرا ہوا ہے، اسی طرح یہ شہر ہر طرف عمدہ سبزہ زاروں اور جاں فزا مرغزاروں کے جھرمٹ میں ہے۔ اٹلی میں قدامت کی یادگاریں اور تنزل کے نمونہ نمایاں نظر آتے ہیں اور ملان میں موجودہ ترقی کے آثار اور خوش حالی و دولت مندی کے اسباب ہویدا ہیں؛ اور بے شک اس کا ثبوت ہمیں اس دو گھڑی کی سیر میں بھی ہر جگہ اور ہر در و دیوار سے ملتا تھا۔ لوگ خوش حال اور خوش پوشاک ہیں، بیکار اور کاہل آدمیوں کا نام و نشان نہیں۔ زن و مرد کے چہروں سے فارغ البالی اور مشقت پسندی کی بشاشت ایک نور کی طرح چمکتی ہے۔ سڑکیں نہایت صاف ہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ یہاں لندن کی سڑکوں سے بھی زیادہ صفائی کا انتظام ہے۔ گیس کی لالٹینوں کے اوپر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر برقی لیمپ چودھویں رات کے چاند کی طرح نور افشانی کر رہے ہیں۔ سڑکوں پر ہر وقت معمولی گھوڑے کی گاڑیوں کے علاوہ ٹریموے کی گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں اور ٹریموے بھی دونوں قسم کی، وہ بھی جن کو گھوڑے کھینچتے ہیں اور وہ بھی جو برقی قوت سےچلتی ہیں۔ ان تمام چیزوں کا مجموعی اثر ایک نئے جانے والے کے دل پر یہ پڑتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے جیسے یہ شہر جادو کا بنا ہوا ہے اور کوئی مافوق العادت چیز سارے کاروبار کو چلا رہی ہے۔
اٹلی کا یہ نامی اور مشہور شہر قریب ایک مدور وضع میں آباد ہے جس کو پہلے ایک دس میل کی ناتمام فصیل اپنے غیر مکمل دائرہ میں لیے ہوئےہے۔ اس فصیل کے برابر ہی برابر درختوں کا ایک حلقہ بھی چاروں طرف پھیلا ہوا ہے، پھر اس فصیل کے اندر ایک دوسرا حلقہ ایک نہر سے بن گیا ہے، جو فصیل کے دائرہ اور مرکز کے عین درمیان میں ہے اور جس نے پانچ میل کے دور میں شہر کو گھیر لینا چاہا ہے۔ شہر کی گنجان اور خاص آبادی نہر کے حلقہ کے اندر ہے اور نہر کے باہر اور فصیل کے اندر بھی مکانات اور آبادی ہے، مگر اس حصے میں زیادہ تر نزہت افزا اور فرحت بخش باغ اور چمن ہیں جو یہاں کے عشرت پسند امرا اورجفاکش اہل شہر کے لیے بہت کچھ سامان لطف پیش کرتے ہیں۔
ہم گاڑی پر سوار ہو کے شہر کی آبادی، مصفا سڑکوں اور خوبصورت دکانوں کو دیکھتے ہوئے یہاں کے کیتھڈرل یعنی بڑے کنیسہ میں پہنچے جو خاص شہر روما کے بڑے گرجے کے بعد سارے یورپ کے گرجوں سے اول درجہ کا خیال کیا جاتا ہے، مگر افسوس کہ شام ہو جانے کی وجہ سے اندر جا کے اچھی طرح نہ دیکھ سکے۔ یہ گاتھک وضع کی عالیشان اور بے مثل عمارت اپنی قدامت کی شان سے شہر کے عین مرکز پر ایک مربع وضع میں کھڑی ہوئی ہے اور پوری سنگ مرمر سے بنی ہے۔ تقریباً پانچ سو سال پیشتر 1385ء میں جان گلیاز و پہلے ڈیوک ملان نے اس کو تعمیر کرانا شروع کیا تھا، مگر بنیاد اتنے بڑے اندازہ پر ڈالی گئی تھی کہ جان گلیازو کی زندگی کا وفا کرنا در کنار آج تک تکمیل نہ ہوسکی، نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف عہدوں، مختلف مذاق کے کاریگروں کا ہاتھ لگا، جس کی وجہ سے یہ عمارت آج ہر قسم اور ہر مذاق کی عمارتوں کا مجموعہ نظر آتی ہے اور یہ بات پیدا ہوگئی ہے کہ گاتھک دروازہ اور ردکار میں یونانی وضع کی کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں۔ پوری عمارت ایک لاطینی صلیب کی وضع میں نظر آتی ہے جس کا طول 493 فٹ، عرض 177فٹ، اور بلندی ٢83 فٹ ہے۔ اس گرجے میں ٥٢ محراب دار ستون، 98 برج اورکلس ہیں اور اندر باہر سب ملا کے 4400 پتھر کی ترشی ہوئی مورتیں نصب ہیں۔ ابھرے ہوئے کام کھدائی اور خوشنما سنگین مورتوں کے اعتبار سے یہ گرجا دنیا کے تمام گرجوں سے بڑھا ہوا ہے ؛ حتی کہ خود روما کے گرجے سینٹ پیٹرس کی بھی کوئی ہستی نہیں جو بہ لحاظ عمارت کے اس سے عمدہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے اندر بنا ہوا دو ہرا راستہ، اس کے ستونوں کی مجموعی خوشنمائی، اس کی بلند محرابیں، اس کی سفید دیواروں کی چمک اور آب و تاب اور چاروں طرف کے بے شمار طاق جن پر ہزارہا سنگ مرمر کی ترشی ہوئی مورتیں رکھی ہیں، دیکھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا سماں پیدا کر دیتے ہیں کہ انسان تمام عمارتوں کو بھول جاتا ہے اور اسی قسم کا سماں دکھانے کی اس کی تعمیر میں بھی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے کہ ستون اگرچہ 90 فٹ اونچی چھت کو اٹھائے ہوئے ہیں مگر 8 فٹ کے دور سے زیادہ موٹے نہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام ستون کسی چیز کے دیکھنے میں بہت کم حاجب ہوتے ہیں اور اندر کی پوری فضا ہر طرف سے صاف اور کھلی نظر آتی ہے۔ چھت پر گنبد کے عین درمیان میں جناب مریم کی مورت نصب ہے اور ان ہی کے نام پر یہ گرجا نذر کر دیا گیا ہے۔ پیچھے تہ خانے میں ایک زیارت گاہ ہے جس میں سینٹ چارلس بورومیو دفن ہے۔چارلس بورومیو سولھویں صدی میں ملان کا آرچ بشپ یعنی بڑا پادری تھا، مرنے کے بعد ولیوں میں شمار کیا گیا اور آج تک اس کی قبر کی پرستش ہوتی ہے،اس سے منت مرادیں مانگی جاتی ہیں اور دور دور سے لوگ زیارت کو آتے ہیں۔
بہت لوگوں کا خیال ہے کہ اس کنیسہ میں مورتیں ضرورت سے زیادہ ہیں اور اتنی ہیں کہ اگر ہزار دو ہزار نکال ڈالی جائیں تو رونق گھٹنے کی جگہ اور بڑھ جائے گی، مگر کیتھولک تصویر پرستی ایسا خوش نصیب دن نہیں آنے دیتی کہ اس گرجا کو یہ سادگی کا زیور نصیب ہو اور وجہ یہ کہ بڑے بڑے بتوں کے علاوہ جن کا شمار ہزار کے اوپر بتایا گیا ہے، در و دیوار اور طاقوں پر ہزارہا بےشمار مورتیں رکھی ہوئی ہیں، جنھوں نے زیبائش میں بہت کچھ بھدا پن پیدا کر دیا ہے۔
سوئٹزرلینڈ
یورپ میں سوئٹزرلینڈ کو قریب قریب وہی حیثیت حاصل ہے جو ایشیا میں ہمالیہ اور کاکیزس ماؤنٹین (کوہ قاف) کی وادیوں کو، بلکہ بعض انگریزی سیاح تو دعویٰ کرتے ہیں کہ سوئٹزرلینڈ کی نزہت و شادابی اور وہاں کی سینریوں کی خوش نمائی ونظر فریبی دنیا بھر کے ممالک سے بڑھی ہوئی ہے۔ خیر اس کو تو ہم اسی خود پسندی کے اصول پر مبنی سمجھتے ہیں جس بنا پر کہ بعض وطن دوست انگریز لندن کے گرجے سینٹ پال کو روم کے سینٹ پیٹرس اور ملا ن کے بڑے کنیسہ پر ترجیح دینے لگے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ سوئٹزرلینڈ کے سواد میں خدا نے بہت کچھ دلفریبیاں ودیعت کر رکھی ہیں۔ کوہسار آلپس کا سلسلہ ملک کو ایک طرف سے دوسری طرف تک قطع کرتا چلا گیا ہے اور اسی کوہستان کے دامنوں اور اونچے اونچے سر بفلک قلوں کی گھاٹیوں میں یہ چھوٹا سا ملک آباد ہے اور جس طرف نگاہ اٹھا کے دیکھیے ایک ایسا دلفریب اور دلچسپ عالم نظر آتا ہے کہ ہر جگہ ؏
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست
تاہم کوہ قاف کی گھاٹیوں اور سرکیشیا کی سرزمین کی طرح یہاں یہ بات کہاں کہ نباتی پھولوں اور سبز پوشان چمن کی طرح انسانی چہرے بھی ہر طرف دلفریبیاں کر رہے ہوں، وہ پری جمال اور دلربا چہرے جو صدہا سال سے ایران اور روم کی حرم سراؤں کی رونق رہا کیے ہیں اور وہ نازک اندام اور آفت زمانہ لڑکیاں جو کوہ البرز وغیرہ کی گھاٹیوں کے لطیف آبشاروں میں ہاتھ منہ دھوتی اور مویشیوں کے گلے چراتی نظر آتی ہیں، ان کا سوئٹزر لینڈ کی بھدی مگر توانا و تندرست عورتوں میں کہیں پتہ نہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آلپس کی گھاٹیوں میں چاہے وہ دل فریب حسن و جمال نہ ہو مگر ایسے ایسے نظر فریب منظر اور اس طرح کی جاں بخش سینریاں آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں کہ ہر مقام پر یہی جی چاہتا ہے کہ دین و دنیا چھوڑ کے یہیں بیٹھ رہئے۔
الغرض یہ اور ایسا روح افزا اور فرحت بخش ملک ہے جہاں ہم ملان سے ریل پر سوار ہوکے اور اٹلی کی سرحد سے نکل کے پہنچے۔ ملان سے ٤ بجے کے قریب تیسرے پہر کو سوار ہوئے تھے۔ رات ہونے تک بلکہ اس وقت تک جب کہ ہم نے لیٹ کے سونے کا تہیہ کیا، وہی اٹلی کے خوشنما، تر و تازہ اور انگور کی بیلوں سے گھرے ہوئے کھیت نظر کے سامنے تھے، جن کے دیکھنے سے آنکھیں سیر ہو گئی تھیں اور جن میں اب کوئی جدت نہیں نظر آتی تھی۔ صبح کو تڑ کے ہی اٹھائے گئے،اس لیے کہ ٹرین چیاسو میں کھڑی ہوئی تھی جو جنوب کی طرف سوئٹزرلینڈ کا سرحدی اسٹیشن ہے اور جہاں مسافروں کے اسباب کی تلاشی لی جاتی ہے۔ ہم سب اپنا اسباب لے لے کے گاڑی سے اترے اور قیدیوں کی طرح ایک بڑے کمرے میں بند کر دیے گئے۔چنگی وصول کرنے والوں نے صندوقوں کو کھول کھول کے دیکھا اور پاس کیا۔ اس سخت امتحان سے نجات حاصل کرتے ہی ہم ایک دوسرے دروازے سے پھر پلیٹ فارم پر آئے اور گاڑی میں اسباب رکھا۔ موسمی صحت بخشی اور یہاں کی زندگی بخش آب و ہوا نے اتنا اثر یہیں ظاہر کر دیا کہ صبح کو ہم خلاف معمول بہت بھوکے اٹھے، کھانا ملنے میں ابھی دیر تھی اور انتظار کی طاقت نہ تھی۔ اسٹیشن پر نہایت عمدہ تر و تازہ اور شاداب انگور بکنے کو آئے جو بہت سستے تھے، ہم نے لے کے خوب سیرہو کے کھائے اور گاڑی آگے کو روانہ ہوئی۔
تھوڑی دیر تک تو وہی اٹلی کی سواد نظر آتی رہی، مگر دو چار گھنٹے کے بعد ہمیں کوہستان آلپس کے سلسلے کی چوٹیاں نظر آنے لگیں اور زیادہ انتظار نہیں کرنے پائے تھے کہ انھیں پہاڑیوں کے اندر ہماری ٹرین گھسنے لگی اور وہ قدرتی مناظر ہماری نظر کے سامنے تھے، جن میں انسانی کاریگری کا ہاتھ بالکل نہیں لگاتھا۔ ریل سرسبز اور تر و تازہ پہاڑیوں کے اندر چلی جاتی ہے، کبھی بلندی پر چڑھتی ہے اور کبھی نشیب میں اترتی ہے اور پھر اسی نشیب و فراز کے درمیان میں ایسے خوش سواد اور دل میں ولولہ پیدا کرنے والے مرغزار اور قدرت کے لگائے ہوئے چمن نظر کے سامنے آتے ہیں اور کچھ ایسی کشش سے اپنی طرف بلاتے ہیں کہ ہمارے ایک ہمسفر انگلش دوست بار بار چلا کے کہہ اٹھتے ہیں: “مجھے نہ پکڑنا، میں یہیں کودا پڑتا ہوں”۔ جا بجا بڑے بڑے آبشار پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہتے اوراور لہراتے ہوئے نیچے آتے ہیں اور ان سبزہ زاروں میں پانی پہنچا رہے ہیں۔ اکثر جگہ جہاں کہیں کوئی مسطح تختہ ہے، وہاں ایک چھوٹا شہر آباد ہے جس کی سفید سفید اور برف میں دھوئی ہوئی پختہ عمارتیں کچھ ایسی دل فریبی کرتی ہیں کہ ان پر سرور بخش اور جاں افزا وادیوں اور مرغزاروں سے بھی زیادہ بہار نظر آتی ہے۔ ہر چہار طرف سر بفلک پہاڑ جو قوی ہیکل دیوؤں کی طرح سر اٹھائے کھڑے ہیں، انھوں نے بھی انسان کے مانوس بنانے کے لیے برف کے سفید اور اجلے کپڑے پہن کے بہت کچھ مہذب صورت بنالی ہے۔ سردی اب بہت شدت پر ہے اور ہلکی ہلکی نسیم جو ان برف پوش قلہ ہائے کوہ سے آتی ہے، اس قدر ٹھنڈی ہے کہ کپڑوں کے اندر کیا معنی جسم میں اتری جاتی ہے۔ یہ گرمیوں کا موسم ہے جبکہ ہم دھوپ اور لُوہ سے بچنے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں کرتے ہیں،مگر یہاں ہم ایسی سردی کھا رہے ہیں جس کا سامنا کبھی یہاں جاڑوں کے موسم میں بھی نہیں ہوا تھا۔
اب ٹرین زیادہ گھنے پہاڑوں اور زیادہ دشوار گھاٹیوں میں ہے۔ کبھی ہم اتنی نشیبی گھاٹیوں میں ہوتے ہیں کہ دونوں طرف معلوم ہوتا ہے سنگین دیواریں آسمان تک چلی گئی ہیں اور کبھی اس بلندی پر ہوتے ہیں کہ سارا عالم ہمیں اپنے نیچے نظر آتا ہے:
گہے بر طارُم اعلیٰ نشینم | گہے بر پشتِ پائے خود نہ بینم |
وہ نیچی پہاڑیاں گزر گئیں جن کو قدرت نے کم حثییت دیکھ کر برف کا سفید خلعت نہیں مرحمت کیا اور اب ہم ان عالیشان پہاڑوں کی گود میں ہیں جو بارھوں مہینہ برف کی ٹوپیاں پہنے رہتے ہیں۔ ہم اپنے دونوں طرف دیکھ رہے ہیں کہ برف گھل گھل کے آتی ہے اور ان چشموں اور آبشاروں کی صورت پیدا کرتی ہے جو آگے بڑھ کے بڑے بڑے دریا بن گئے ہوں گے۔ میں نے ہندوستان کی وہ ریلوے لائنیں متواتر دیکھی ہیں جن میں پہاڑو ں کو کاٹ کے راستہ نکالنا پڑا ہے۔ کھنڈالہ جہاں مغربی گھاٹ کے سلسلے کو کاٹ کےگریٹ انڈین پنشولا ریلوے کی جنوبی شاخ نکالی گئی ہے اور ہوشنگ آباد بھوپال کے درمیان میں جہاں کو ہ وندھیاچل کو کاٹنا پڑا ہے، دونوں جگہ میں بارہا گزرا ہوں لیکن ان میں سے کسی کو اس اعلیٰ کمال انجینئری سے کوئی نسبت نہیں جو اس لائن یعنی سینٹ گوتھارڈ لائن کے جاری کر نے اور کوہستان آلپس کے کاٹنے میں سوئٹزرلینڈ میں دکھلایا گیا ہے۔
اگلی دنیا کو یہ راستہ ہی نہ معلوم ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ مسیح سے چھ سو برس پہلے گال یعنی فرانس کے وحشیوں نے اسی راستہ سے آکے دولت روم پر حملہ کیا تھا، مگر یہ صرف قیاس ہی قیاس ہے۔ اصل میں یہ راستہ تیرھویں صدی عیسوی سے کھلا اور لوگوں کو معلوم ہوا۔ اس وقت پا پیادہ چلنے والوں کے لیے ایک لیکھ بنی تھی اور اس قدر دشوار گزار کہ لوگ بہت مشکل و مجبوری سے ادھر گزرنا پسند کرتے تھے۔ اسی صدی کے اختتام کے وقت سے یہ راستہ اتنا وسیع ہو گیا کہ باربرداری کےجانور گزر سکیں جس کے ساتھ ہی تاجرانہ کاروانیں گزرنے لگیں۔ باوجود اس کے سڑک نے اس قدر آہستگی سے ترقی کی کہ 1775ء سے پہلے کسی گاڑی کا ادھر سے گزر نا نہیں ثابت ہوتا۔ موجودہ صدی عیسوی کی ابتدا میں اس سڑک کی ترقی دلانے کے لیے بہت کچھ کوششیں کی گئیں۔1820ء میں ایک ایسی سڑک تعمیر کی گئی جس پر سے ہو کے ایک گھوڑے کی عمدہ ڈاک گزر سکے، جس کے پچاس سال بعد یہ ریلوے تعمیر جاری ہو گئی جو پہاڑو ں کو قطع کرتی، نہروں اور آبشاروں پر سے گزرتی، بلندیوں پر چڑھتی اور گھاٹیوں سے نکلتی ہوئی جنوب سے شمال کو نکل جاتی ہے اور فی الحال دنیا میں علم انجینئری کا سب سے اعلیٰ نمونہ خیال کی جاتی ہے۔ کبھی کسی کے خیال میں بھی نہ گزرا ہوگا کہ ایسے برفستانی بلند پہاڑوں کے اندرسے یوں ریل کا راستہ جاری ہو جائے گا؛ مگر مکنیکل ترقیاں آج ایسے بہت سے معجزے دکھا رہی ہیں جو اگلوں کے نزدیک خلاف فطرت اوراورانسانی قوت سے بہت بالا تصور کیے جاتے تھے۔
اس لائن کی تعمیر 1872ء میں شروع ہوئی اور دس سال بعد 1882ء میں جاری ہوگئی۔ یہ مختصر حالات شاید ناظرین کے کسی قدر ذہن نشیں کر سکیں کہ یہ ریلوے لائن کس قدر اہم چیز اور اس عہد کی معجز نمائیوں کا کتنا بڑا مکمل نمونہ ہے۔ اس میں کل 56 ٹنل یعنی سرنگیں ہیں، جن میں سےٹرین کو گز رنا پڑتا ہے اور جن کی مجموعی مسافت یکجا کی جائے تو تقریباً25 میل تک گاڑی پہاڑوں کے اندر ہی جاتی ہے۔ سب سے بڑی سرنگ جومقام گوشنن سے اٹرولو تک گئی ہےاور سینٹ گو تھارڈ کی سرنگ کہلاتی ہے، بجائےخود ایک ایسی چیز ہےکہ انسانی کارستانی کو دیکھ کے قدرت خدا یاد آتی ہے۔ یہ پورے نومیل لمبی ہے جس میں تقریباً آدھ گھنٹے تک ریل گزرتی رہتی ہے۔ اس بڑی سرنگ کے کا ٹنے میں ایک سو ستر جانیں تلف ہوئیں اور مشہور انجینئر لوئیس فادر جس نے اس کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا تھا خود اس سرنگ کی نذر ہوا۔ ان 56 سرنگوں کے علاوہ اس راستہ میں 969اور عمارتیں قائم کرنا پڑیں جن میں 223پل ہیں، جو ٹیڑھے سیدھے مختلف آبشاروں اور چشموں پر یا کسی جگہ کی نشیبی گھاٹیوں پر قائم کیے گئے ہیں۔ اور یہ تمام جھگڑا، اتنی سرنگیں اور اتنے پل اور عمارتیں صرف106میل کی تھوڑی سی مسافت کے اندر محدود ہیں، جس میں 1880ء میں10757 آدمی اس لائن کی تیاری و تعمیر میں مصروف تھے اور ساری لائن کی تیاری میں تئیس کروڑ اسی لاکھ فرینک یعنی تقریباً 23کروڑ روپیہ خرچ ہوا اور پھر اس کے بعد بھی آج تک بہت زیادہ مصارف برداشت کیے جاتے ہیں، اس لیے کہ ہر سرنگ کی ہر وقت نگرانی رہتی ہے، ہر پل پر پہرہ مقرر رہتا ہے، ہر نشیب و فراز کی خبر گیری کرنے والے ہر وقت مستعدی سے کھڑے رہتے ہیں، اس لیے کہ یہاں ایک ادنیٰ سی غفلت میں بھی کسی نقصان عظیم کا اندیشہ ہے اور اسی خیال سے بالکل فوجی طریقہ کا انتظام رکھنا پڑتا ہے تاکہ ادنیٰ ادنیٰ واقعات کی خبر دیگر مقامات پر وقت پر پہنچ سکےاور ہر خطرہ نقصان پہنچنے سے پہلے معلوم ہو جائے۔
اس لائن کی دشواریاں صرف اس ایک طولانی اور ساری دنیا سے بڑی سرنگ پر ہی منحصر نہیں ہیں بلکہ اس 106 میل کی مسافت میں کون کون دشواریاں ہیں جو نہیں، دیگر سرنگیں اس بڑی سرنگ سے زیادہ قابل حیرت ہیں؛ اس لیے کہ قُلہ سینٹ گوتھارڈ کی سرنگ بخط مستقیم سیدھی چلی گئی ہے اور دیگر سرنگیں چکر کھاتی ہوئی گئی ہیں۔ اکثر سرنگیں ایسی ہیں جن سے مقصود پہاڑ کو کاٹ کر سیدھا راستہ نکالنا نہیں بلکہ بلندی پر چڑھنامقصود ہے، جس کے لیے کسی بڑے قلہ کے اندر ہی اندر ریل چکر کھاتی ہو ئی جاتی ہے۔ جس مقام سے اندر داخل ہو تی ہے اسی جگہ باہر نکلتی ہے، مگر بہت بلندی پر۔ سرنگ سے باہر نکل کر ہم بخط مستقیم کئی سو فٹ نیچے وہ مقام اور دراز ہ دیکھتے ہیں جس میں سے ہوکے ہم داخل ہوئے تھے اور معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ کے اندر ہی اندر ہم کتنے بلند ہو گئے۔ اسی طرح کے پانچ چکر پڑتے ہیں جو نہایت ہی گھنے پہاڑوں اور برفستانی وادیوں کے اندر واقع ہیں، چار چکر ہم کو بڑی سرنگ سے پہلے اور ایک بعد ملا۔
انھیں گھاٹیوں کے اندر جہاں جہاں مسطح تختہ نکل آئے ہیں ان پر نہایت ہی خوش سواد اور خوبصورت شہر اور قصبہ آباد ہو گئے ہیں جو ریل کی سڑک سے کہیں نیچے اور کہیں بلندی پر اس خوشنمائی سے اپنی دل فریب تصویر دکھاتے ہیں کہ بے اختیار جی چاہتا ہے کہ یہیں اتر پڑیے اور کارکنانِ قدرت کی صناعیوں کا تماشا دیکھیے۔ مجھے زیادہ جس چیز نے یہاں حیرت میں ڈالا اور جس سے یورپ کی اصلی ترقی کا پتہ لگتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایسے گھنے اور تہ در تہ پہاڑ، ایسے ناپیداکنار جنگل اور ایسی پیچیدہ اور بھول بھلیوں کا لطف دکھانے والی گھاٹیاں شاید دنیا کے اور ممالک میں بھی ہوں گی اور یقیناً ہیں، مگر سنسان پڑی ہیں سِوا ان آزاد مشرب طیور یا وحشی درندوں کے جو ہمارے پاک نفس اور صحرا نشین جوگیوں کی طرح خلوت و تنہائی کے مقامات ڈھونڈتے پھرتے ہیں یا قدیم دیوبانی کی دلفریب و دلربا دیویوں کے جو ان مقامات سے بھاگتی پھرتی ہیں جنھیں انسان کے قدم نے ناپاک کردیا ہے، کسی انسان کا شاید کبھی گزر نہ ہوا ہوگا، مگر ان گھاٹیوں اور برفستانی وادیوں میں کوئی قطعہ ایسا نہیں نظر آتا، جہاں انسان نے پورا لطف نہ اٹھایا ہو۔ چپہ چپہ زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ تم ہی پہلے شخص نہیں آئے ہو بلکہ ؏
حریفان بادہ ہا خوردند و رفتند
بلندیوں پر چڑھنے اور گھاٹیوں میں اترنے کے لیے ہر جگہ ایسی خوبصورتی سے راستے نکالے گئے ہیں کہ انسان بآسانی چڑھ اتر سکے اور قدرتی کیفیت اور خود رو ہونے کی سادگی میں فرق نہ آنے پائے۔ انگلستان، فرانس اور دیگر ممالک یورپ اور امریکا و آسٹریلیا سے ہر سال ہزارہا آدمی آتے ہیں اور محض اس غرض کے لیے کہ اس قدرت کے لگائے ہوئے باغ میں پھر کے تر و تازگی اور نئی زندگی حاصل کریں؛ جن کی مہمانداری کے لیے جا بجا ہوٹل اور ریستوران قائم ہو گئے ہیں، جن کی عمارتوں میں داخل ہو کے غریب الوطنی میں امارت کے ٹھاٹھ نظر آتے ہیں اور جنگل میں منگل معلوم ہوتا ہے۔
ہمارا سفر پالن پور
ایک مدت سے ہمیں اپنے مکرم دوست سید گلاب حسین میاں صاحب مصنف “تاریخ پالن پور” سے ملنے کا شوق تھا، اکثر قصد کیا مگر نوبت نہ آئی۔ اب کی ماہ ذیحجہ کے اوائل میں انھوں نے کچھ ایسے ذوق و شوق کی تحریر اور تاکیدی الفاظ سے ہمیں بلایا کہ انکار کرتے نہ بنی اور جانا ہی پڑا۔
سب سے زیادہ شوق ہمیں اُس چھوٹے اسلامی دربار کے دیکھنے کا تھا جسے ہمارے مکرم گلاب میاں صاحب نے اپنی تاریخ میں بتایا ہے کہ 586 برس سے مارواڑ اور گجرات کےدرمیانی حدود پر واقع ہے اور اپنی تاریخی قدامت میں تمام موجودہ ریاستوں سے پرانااور ہندوستان میں مغل امپائر سے بھی پہلی فتوحات اسلام کی یادگار ہے۔
غرض اسی ذوق و شوق کا اثر تھا کہ ہم جو لکھنؤ کے ایک محلے سے دوسرے محلے میں بمشکل جاتے ہیں، 4؍ اکتوبر 1916ء(۵؍ذیحجہ ۱۳۳۳ھ) کو برخوردار محمد صدیق حسن سلمہ کو اپنے ساتھ لے کے چل کھڑے ہوئے اور 7 ذیحجہ کی صبح کو پالن پور کے اسٹیشن پر تھے۔ گلاب میاں صاحب اور ان کے رشتے کے ایک عزیز بھائی شبیر میاں صاحب اسٹیشن پر موجود تھے، وہ محبت بھری صورتیں دیکھیں جن کے لطف سے تو مدت سے بہرہ یاب ہوتے رہے تھے، مگر ان کا دیدار آج نصیب ہوا۔ اپنے کرم فرما کی عنایت سے ہمیں ریاست کی مہمانی کی عزت دی گئی اور باغ دلکشا کے چھوٹے بنگلے میں ٹھہرائے گئے جس کی پشت پر شہر پناہ ہے، تین طرف ایک نزہت بخش باغ ہے اور بائیں جانب چند قدم پر ایک باؤلی پر رہٹ چلتا رہتا ہے، جو ہر وقت اپنی گردش سے انقلاب عالم کا اور باغ کی آبیاری سے والی تک کی دریا دلی و رعایا پروری کا ثبوت دیتا رہتا ہے۔
گلاب میاں صاحب پہلے تو میر منشی ریاست تھے، مگر فی الحال میر عمارت ہیں اور چونکہ رئیس دولت ہزہائینس دیوان شیر محمد خاں بہادر جی۔ سی۔ آئی۔ ای کے سب سےبڑےمعتمد علیہ ہیں، اس لیے انھیں بہت ہی کم فرصت رہتی ہے۔ تاہم دو تین گھنٹے ہمارے پاس ٹھہرے اور پھر معذرت خواہ ہو کے شبیر میاں صاحب کو ہمارے پاس چھوڑ کے چلے گئے، جنھوں نے پورے زمانۂ قیام میں بڑے لطف و محبت کے ساتھ ہماری رفاقت کی۔
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ریاست کے مختصر حالات ہم اپنے ناظرین کی خدمت میں بیان کردیں تاکہ انھیں معلوم ہو سکے کہ یہ ریاست ہندوستان کی تاریخ اسلام کا کتناپرانا، اہم اور قابل قدر ورق ہے۔ اس قدیم اسلامی دربار کی بنیاد سلطان محمد تغلق کی وفات کے سال یعنی 795ھ میں پڑی، جبکہ پٹھانوں کے ایک سرغنہ ملک خرم نےاس علاقہ کو ہندو راجپوتوں سے فتح کرکے اپنے قبضے میں کرلیا اور دو سال بعد دولت تغلقیۂ دہلی کے صوبہ دار گجرات سے مسند نشینی کی سند بھی حاصل کر لی۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد مسلمان ملوک گجرات کا دور شروع ہوا اور یہ دربار جس کا دار الریاست اُن دنوں شہر جالور تھا،اسی سے وابستہ ہوگیا۔
اس خاندان کے پانچویں مسند نشین دیوان عثمان خاں کے عہد میں سید محمد صاحب جونپوری نے دعوائے مہدیت کیا،جن کی طرف وسط ہند اور دکن کا فرقۂ مہدویہ منسوب ہے۔ سید صاحب ممدوح اپنی سیر میں اس ریاست کی قلمرو میں بھی تشریف لائے اور دیوان عثمان خاں نے غالباً 888ھ میں ان کو مہدی موعود تسلیم کرکے ان کی پیروی اختیار کرلی۔ اس وقت سے آج تک اس ریاست کے مسند نشینوں کا مذہب “مہدوی” ہے جو سِوا دو ایک باتوں کے جملہ امور میں میں فقہ حنفیہ پر عمل کرتے ہیں۔ سید محمد جونپوری کو مہدی موعود ماننا جزوایمان جانتے ہیں اور زیادہ تر ان کا رجحان تصوف اور روحانی ترقیوں اور باطنی تعلیموں کی طرف ہے۔
نویں مسند نشینِ ریاست ملک سکندر خاں کےعہد یعنی 938 ھ میں وزیر ریاست کے فرزند ملک خاں بن ہیتم خاں نے بزور شمشیر مسند ریاست پر قبضہ کرلیا۔ ملک خاں بھی اسی گروہ افاغنہ میں سے تھے اگرچہ ملک خرم خاں کی نسل سے نہ تھے۔ لہذا اس عہد سے حکمرانوں کی قوم تو وہی رہی مگر خاندان امارت بدل گیا۔ ملک خاں کے عہد میں گجرات کا فرماں روا سلطان بہادر شاہ تھا۔ گجرات کی اسلامی سلطنت سے یہ ریاست پونے دو برس تک وابستہ رہی تھی کہ اُس دولت کا خاتمہ ہوگیا۔ 998ھ میں شہنشاہ اکبر نے جو پورے گجرات کا مالک ہو گیا تھا ، اس خاندان کے مسند نشین غزنی خاں کو اپنی طرف سے خلعت عطا کرکے رئیس ریاست تسلیم کر لیا، جو اس ریاست کے بارھویں مسلمان رئیس تھے۔
اب اس ریاست اور دربار مغلیہ میں بہت اچھے تعلقات تھے اور یہاں کے رئیس دولت چغتائیہ کے بڑے بڑے اہم خدمات بجا لائے۔ چودھویں مسند نشین فیروز خاں اول عرف کمال خاں نے جالور کو چھوڑ کے موجودہ شہر پالن پور کو اپنا دار الریاست قرار دیا اور اسی وقت سے پالن پور کا زمانہ شروع ہوا، یہ 1045ھ کا واقعہ ہے۔
چھبیسویں مسند نشینِ ریاست فتح محمد خاں کے زمانے میں باہمی جھگڑے پیدا ہوئے، جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کوبغرض رفع شر دخل دینا پڑا اور کمپنی کی جانب سے کیپٹن مائلس نے بڑی خوں ریز یوں کے بعد فتح محمد خاں کو مدد دی اور انھیں مستقل فرماں رواں بنایا اور وہی پہلے انگریزی پولٹیکل سپرنٹنڈنٹ پالن پور مقرر ہوئے۔ 1270ھ میں فتح محمد خاں نے انتقال کیا تو دیوان زورآور خاں مسند نشین ہوئے۔ 18؍ شعبان 1294ھ کو انھوں نے بھی سفرآخرت اختیار کیا اور ان کے جانشین موجودہ رئیس زبدۃ الملک دیوان نواب سر شیر محمد خاں بہادر جی۔ سی۔ آئی۔ ای ہوئے۔
نواب صاحب ممدوح 1٢69ھ میں پیدا ہوئے تھے۔ 26 سال کی عمر میں عنان ریاست ہاتھ میں لی، اِس وقت سِن شریف 66 سال کا ہے اور اس قدیم اسلامی ریاست کے اٹھائیسویں فرماں روا ہیں۔
اس ریاست کی یہ خصائص تاریخی حیثیت سے نہایت ہی قابل قدر ہیں کہ اس نے ہندوستان کے چار مختلف دوروں کو نہایت ہی خوش اسلوبی سے اپنے موافق بنا لیا۔ پہلے دہلی کے خاندان تغلق و لودھی کو، پھر احمد آباد کی اسلامی دولت گجرات کو، اس کے بعد دولت مغلیہ دہلی کو اور سب کے آخر میں دولت برطانیہ انگریزی کو، اور اس سے بھی زیادہ قابل حیرت و قدر یہ ہے کہ مرہٹوں سے اس قدر قریب ہونے پر بھی یہ ریاست ان پہاڑی لٹیروں کی دست برد سے ہمیشہ محفوظ رہی۔
اس خاندان کی فرماں روائی کی تاریخ سے ایک اور بہت ہی نئی بات کا انکشاف ہوتا ہے جو مورخین ہند کے لیے انتہا سے زیادہ قابل غور و لحاظ ہے۔ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ ہندو مسلمانوں کو ملا کے ایک قوم بنا دینے اور یکساں کر دینے کے لیے ان دونوں قوموں میں باہمی شادی بیاہ کے رواج دینے کا سہرا شہنشاہ اکبر کے سر ہے، مگررؤسائے پالن پور کی تاریخ بتا رہی ہے کہ دولت مغلیہ سے پہلے ہی یہاں کے رئیسوں نے ایسے نکاحوں کی بنیاد ڈال دی تھی؛ کیونکہ دولت مغلیہ سے پہلے ہی معزز ہندو خاندانوں کی لڑکیاں اس ریاست کی رانیاں ہوا کرتی تھیں۔ چنانچہ ملک خاں نے جو 961ھ میں مسند نشین ہوئے تھے، ارجن سنگھ بھیجاوت کی بیٹی امران بائی سے شادی کی جس کے بطن سے ولی عہد ریاست ملک غزنی پیدا ہوئے، اکبر کی تخت نشینی اس کے تین سال بعد 964ھ میں ہوئی،جس کے مدت دراز بعد اس نے ہندو رانیاں اپنے محل کے لیے حاصل کیں اور لطف یہ کہ سلطنت مغلیہ میں یہ طریقہ آخر تک نہ نبھ سکا تھا، مگر رؤسائے پالن پور کے محل میں آج تک جاری ہے اور موجودہ رئیس کی والدۂ محترمہ بھی ایک شریف گھرانے کی ہندو راج کنواری تھیں اور چاہے ہندو لوگ اس طریقے کو چھوڑ دیں، مگر ریاست پالن پور اور اس کے تمام معزز امرا آج تک اس اتفاق و یک جہتی کی رسم کے زندہ رکھنے کو موجود ہیں اور شاید ہندو مسلمانوں میں یہاں اس قدرمیل جول ہونے کا بھی یہ سبب ہے کہ رؤسائے پالن پور کے یہاں بمقابل دیگرمقامات کےمسلمان رئیسوں کے ہندو رسموں اور ہندو معاشرت کا اثر زیادہ نظر آتا ہے۔
جس سرزمین میں یہ ریاست واقع ہوئی ہےبہت پرلطف ہے، مناظر قدرت کا اچھا نظارہ ہوتا ہے۔ مغرب جانب شہر سے دس بارہ میل ہٹ کے کوہسار آراولی کا سلسلہ گزرا ہے، چوٹیاں ابر و باد کے زمانے میں اکثر بدلیوں کا ہار پہنے نظر آتی ہیں۔ اسی سلسلے کی بلندی پر آبو کی آبادی نظر آتی ہے اور آبو کے جس جنوبی و مشرقی پہلو سے پالن پور نظر آتا ہے،وہ پالن پور پوائنٹ کہلاتا ہے۔
اب ہم اپنے قیام پالن پور کا تذکرہ شروع کرتے ہیں۔ ہزہائینس کی منظوری اور گلاب میاں صاحب کی تجویز سے یہ پروگرام مقرر ہوا تھا کہ ہم دوسرے دن ہزہائینس اور ان کے بلند اقبال فرزندوں سے ملیں گے، مگر ہماری بدقسمتی سے اسی شب کو محل میں ایک غمی کا سانحہ ہوگیا، وہ یہ کہ ولی عہد بہادر کے سالے کی انیسۂ زندگی بیوی جو ایک مدت سے دق میں مبتلا تھیں سفرآخرت کر گئیں، خاندان ریاست میں سوگ ایک معتد بہ زمانہ تک مانا جاتا ہے،لیکن اس موقع پر عید الاضحی کی تقریب سر پر آچکی تھی اور سب سے زیادہ دشواری یہ کہ مرشد علی پیر اور قاضی انور میاں کے عرس درپیش تھے، جن بزرگوں سے ہزہائینس اور تمام اہل پالن پور کو بڑی عقیدت ہے اور ان کے عرس کو ہزہائینس کی توجہ سے نوابزادہ طالع محمد خاں صاحب ولی عہد ریاست خاص اہتمام سے انصرام فرماتے ہیں ؛ چنانچہ یہ عرس اب ایک نہایت ہی بارونق نمائش گاہ بنا دیا گیا ہے، جو ہر سال دسہرے کے موقع پر ہوتا ہے اور دسہرا جس قمری مہینے میں پڑے اس کی ٧؍ تاریخ سے شروع ہو کے 17؍ تک یعنی دس روز تک قائم رہتا ہے۔ اس میلے کا اہتمام گلاب میاں کے سپرد ہے ؛ چنانچہ ان کی کوشش سے احمد آباد گجرات اور دیگر بلاد دور دراز کے تاجر اور دو کاندار آئے ہوئے تھے اور شہر پناہ کے باہر درگاہ کے آس پاس نہایت صفائی، خوشنمائی اور قرینے سے ایک ایسا ستھرا اور بارونق بازار قائم ہو گیا تھا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ بہرحال بقرعید اور اس میلے اور عرس کی وجہ سے سوگ صرف محل کے زنانے حصے تک محدود رکھا گیا اور دربار کی بیرونی شان میں کوئی فرق نہیں آیا، لیکن جنازے کے ساتھ خود حضور اور صاحبزادے اور اراکین دولت قبرستان تک تشریف لے گئے ؛ چنانچہ دن بھر ان عبرتناک مشاغل میں مصروف رہنے کی وجہ سے ہزہائینس کو کسی اور کام کے لیے فرصت نہ ملی اور گلاب میاں صاحب کو جو ہجوم کار سے پہلے ہی خستہ ہو رہے تھے حرارت آگئی۔
یہ خاص دسہرے کا روز تھا،جس دن ہر سال حضور کی سواری پورے اہتمام اور شان و شوکت سے نکلا کرتی ہے۔ ہندو رعایا کی دل دہی کے لیے اور دونوں گروہوں میں اتحاد و ارتباط کے قائم رہنے کے لیے قدیم سے معمول چلا آتا ہے کہ جس طرح عیدین کو ہزہائینس سوار ہو کے عیدگاہ تشریف لے جاتے ہیں، اسی طرح دسہرے کو بھی پورے جلوس سے شہر میں برآمد ہو کے ہندو رعایا کی مسرت دوبالا فرماتے ہیں، مگر افسوس کہ اس سال اس سانحے کی وجہ سے یہ جلوس نہ نکل سکا اور ہندوؤں کی تمنا نہ برآئی۔
عام رعایا کے ساتھ رئیس کا اخلاق اور برتاؤ ایسا اچھا ہے کہ ہر شخص جان نثار کرنے کو تیار رہا کرتا ہے،ہزہائینس ہر ادنی شخص کی طرف بھی بہ نفس نفیس متوجہ ہو کے اس کی فریاد سنتے اور جہاں تک امکان میں ہوتا ہے چارہ جوئی فرماتے ہیں۔ اپنے سفر کے باقی حالات ہم آئندہ نمبر میں عرض کریں گے۔
٩ذیحجہ 1333ھ کی صبح کو ہمیں حضور نواب صاحب کی خدمت میں باریاب ہونے کا موقع ملا، گلاب میاں صاحب باوجود ناسازی طبع کے تشریف لائےاور مجھے اور صدیق سلمہ کو اپنے ہمراہ ایوان ریاست میں لے گئے۔ دربار کا ہال نہایت ہی پرتکلف سامان زینت سے آراستہ تھا، صدر میں مسند یا کرسی کے عوض ایک پر تکلف اطلس کا کوچ تھا جو ہنڈو لے کی وضع سے دو چوبی ستونوں میں لٹکا ہوا تھا اور جھولے کی طرح جھلایا جا سکتا تھا۔ ا س ہنڈولے کے دونوں جانب دو طلاکار کرسیاں رکھی ہوئی تھیں، اس کے سامنے بیش قیمت ترکی قالینوں پر داہنی بائیں جانب چھ چھ کرسیوں کی آڑی آڑی دو صفیں تھیں۔ بائیں صف کی کرسیوں پر گلاب میاں صاحب اور دو تین اور معززین دربار بیٹھ گئے اور داہنی جانب کی کرسیوں پر ہم دونوں امیدواران باریابی بٹھائے گئے۔ تھوڑی ہی دیر بیٹھے تھے کہ نواب صاحب مع دونوں صاحبزادوں کے برآمد ہوئے، ہم سب کا سلام لیا اور خود حضور اس جھولنے والے کوچ پر اور دونوں صاحبزادے اس کے پہلو کی دونوں کرسیوں پر رونق افروز ہو گئے۔ نواب زادہ طالع محمد خاں بہادر ولی عہد ریاست چونکہ اپنے مسند نشین والد بزرگوار کی داہنی جانب تھے، اس لیے ہم سے زیادہ قریب تھے۔
ہم نے حصول باریابی کی خوشی میں بڑھ کے نذر دکھائیاور اپنی چند کتابیں جن کو ساتھ لیتے گئے تھے پہلے حضورنواب صاحب کے ملاحظے میں پھر ولی عہد بہادر کی خدمت میں پیش کیں جو شگفتگی و مسرت کے ساتھ قبول کی گئیں۔ نواب صاحب نہایت ہی معمر و سن رسیدہ اور ہر طرح واجب الاحترام ہیں اور ان خوبیوں کے ساتھ اس قدر خلیق و متواضع کہ ان کی شفقت و مرحمت کا اثر ہر ملنے والا اپنے دل میں ایک جذبۂ مسرت و ناز کی شان سے لے جاتا ہے اور کبھی نہیں بھولتا۔ حضور کے اخلاق پیرانہ سالی کے ضعف پر غالب آ کے ہر شخص محتشم الیہ کو گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ اور بڑی خوشی کی یہ بات ہے کہ ولی عہد بہادر کو بھی یہ تمام اخلاق اپنے والد محترم کے ورثے میں ملے ہیں۔ انھوں نے حسب مذاق زمانہ انگریزی تعلیم پرائیوٹ اساتذہ سے پائی ہے، حد سے زیادہ خلیق و متواضع اور ملنسار ہونے کے ساتھ ہر شخص کے حال پر نہایت ہی شفیق و مہربان ہیں، انگریزی اور اردو دونوں زبانیں بہت ہی اچھی اور صاف بولتے ہیں اور کاروبار ریاست میں اس قدر دلچسپی لیتے ہیں کہ ان پر بھروسا کرکے کل کاروبار ریاست انھیں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے اور وہ نہایت ہی محنت و خوش اسلوبی سے کل محکموں کے کاموں کو انجام دے رہے ہیں۔ اس امر پر حضور نواب صاحب کے سامنے میں نے اپنی مسرت ظاہر کی کہ اکثر ریاستوں میں ولی عہدوں اور رئیسوں کے فی مابین صفائی نہیں، جس کا باعث کہیں تو ولی عہدوں کی آزادانہ خود سری و بے پروائی ہوتی ہے اور کہیں ان کے مصاحبوں کی در اندازی و فتنہ انگیزی۔ الحمد للہ کہ حضور کے فرزند جوان صالح اعلی اخلاق سے متصف اور ایسے ہوشیار ہیں کہ حضور کو ان پر پورا بھروسا اور اعتبار ہے اور یہاں ایسے فتنہ جو مصاحب بھی نہیں جو خلل انداز ہو سکیں۔ پھر میں نے عرض کیا کہ ایسے ہونہار اور نیک فرزند حضور کی اعلی ترین خوش اقبالی ہیں، اس پر نواب صاحب نے بہت مسرت ظاہر کی اور فرمایا کہ مجھے اپنے بیٹوں سے کوئی شکایت نہیں، میں انھیں ہر طرح سعادت مند پاتا ہوں اور ان کی خوبیوں پر مجھے اس قدر بھروسا ہے کہ میں نے انھیں پر سب کام چھوڑ دیے ہیں اور کمال اطمینان کے ساتھ اپنی ضعیفی و فارغ البالی کی زندگی بسر کرتا ہوں۔
اس دوران میں صاحبزادے صاحب سے بھی مختلف امور کا تذکرہ رہا اور انھیں حسب ضرورت زمانہ قابلیت اور واقفیت میں نہایت ہی مکمل پایا۔ چھوٹے صاحب زادے ذرا خاموش ہیں مگر جہاں تک مجھے معلوم ہو سکا وہ بھی بہت قابل اور ہونہار ہیں۔
تقریباً ایک گھنٹہ بھر صحبت رہی، جس کے بعد ہم حضور سے رخصت ہو کے اپنی فرودگاہ میں واپس آئے اور حضور کے حکم سے جس کا وعدہ ہم نے اسی ملاقات میں کرلیا تھا شام کو عرس میں میں گئے، جہاں گلاب میاں صاحب نے اپنی جانب سے ٹی پارٹی دی تھی۔ حضور نواب صاحب مع دونوں فرزندوں کے مجھ سے پہلے ہی رونق افروز ہو چکے تھے، مجھے بھی میز پر حضور کے مقابل عزت دی گئی۔ اس موقع پر بھی نواب صاحب نہایت ہی محبت و اخلاص کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ یہاں مسٹر دہلوی بیرسٹر ایٹ لا سے شرف نیاز حاصل ہوا جو ہندوستان کے منتخب سیاسیین اسلام میں سے ہیں۔ ان کا خاندان تو دہلی کا ہے مگر فی الحال اطراف بمبئی میں وطن ہے اور کئی سال سے ریاست پالن پور کے جوڈیشیل سکریٹری ہیں۔ اعلی ترین عدالتی اقتدارات انہیں کے ہاتھ میں ہیں۔
چائے وغیرہ سے فارغ ہو کے حضور نواب صاحب اٹھ کے اس وسیع مسجد میں تشریف لے گئے جو مرشد علی پیر اور قاضی انور میاں قدس اللہ اسرارہما کے مزاروں کے پاس ہے، دونوں صاحبزادے اور تمام ارکان دولت ہمراہ رکاب تھے جن کے زمرے میں میں بھی تھا۔ حضور کے مسجد میں پہنچتے ہی بعض واعظین نے فضائل محمدی کا بیان شروع کیا۔ اس سلسلے میں مولود شریف ہوا جس کے ختم ہوتے ہی سرکار نواب صاحب نے مجھے واپس آنے کی اجازت عطا فرمائی اور میں اپنی فرودگاہ میں چلا گیا۔
دوسرے دن گلاب میاں صاحب کی طبیعت پھر ناساز ہوگئی، انھیں بخار آگیا اور مجھے ان کے بیمار پڑ جانے سے بڑا تردد ہوا، مگر صاحبزادہ ولی عہد بہادر نے سہ پہر کو اپنی موٹر بھیج کے مجھےبلا بھیجا اور اپنے ساتھ لے جا کے شہر اور اس کے بیرونی حصے کی سیر کرائی جو اسٹیشن اور آبادی کے درمیان میں واقع ہے۔ یہاں صاحبزادے صاحب کی اولوالعزمی نے بہت سی جدید عمارتوں کی بنیاد ڈالی ہے، ایک عالیشان کوٹھی معزز یورپین حکام کے ٹھہرانے کے لیے بن کے نصف کے قریب تیار ہوگئی ہے، جو بعد تکمیل نہایت عالی شان عمارت ہوگی اور اس کے کوٹھے پر سے چاروں طرف نہایت ہی اعلی درجے کا منظر نظر آتا ہے۔ کوہ اراولی کا سلسلہ اپنی پوری شان سے دکھائی دیتا ہے اور اس کی بلندی پر کوہ آبو کی بعض عمارتیں اس جگہ سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی عمارت کے قریب ایک شاہی محل تیار ہونے والا ہے، اسی سلسلے میں عالی جناب سرشیر محمد خاں صاحب کے عہد کی ایک یادگار بننے والی ہے جو رعایا میں نہایت ہی ہردلعزیز ہیں۔ خاص اسی غرض کے لیے ہندوستان کی مشہور عمارتوں کے نقشے اور پلین جمع کر لیے گئے ہیں جن میں سے لکھنؤ کے میڈیکل کالج کی عمارتوں کو بہت پسند فرمایا ہے اور یہی وضع جو قدیم یونانی و شاہجہانی عمارتوں کا معجون مرکب ہے، پسند آئی ہے۔
ان تمام عمارتوں کے مقام اور پلینوں کا معائنہ کرا کے صاحبزادے صاحب ہمیں اپنے کلب میں لے آئے، جس کی عمارت ابھی حال میں گلاب میاں صاحب کے اہتمام سے بن کے تیار ہوئی ہے۔ ایک چھوٹی سی نہایت ہی خوبصورت اور شاندار عمارت ہے، اس کلب کو کھلے تھوڑا ہی زمانہ ہوا ہے مگر ہر قسم کے تفریح و ورزش کے سامان اس میں جمع کر دیے گئے ہیں۔ بلیرڈ اور ٹینس اور دوسری قسم کے انڈور سامان تفریح کے علاوہ ہندوستان و یورپ کے اخبارات اور رسالے بھی آتے ہیں۔ دونوں صاحبزادے صاحبان، مسٹر دہلوی اور صاحب پولٹیکل ایجنٹ اور ان کی میم صاحب پابندی کے ساتھ آتے ہیں، جن کی موجودگی سے کلب میں سہ پہر کو ایک بہت اچھی مہذب و شائستہ صحبت قائم ہوجاتی ہے، جو باہمی تبادلہ خیالات اور ترقی اخلاص و محبت کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اس کلب میں اس کے بعد بھی میں کئی بار گیا اور نوابزادے صاحب کی عنایت و مرحمت سے بے حد لطف اٹھایا۔
مغرب کے وقت میں اپنی فرودگاہ میں واپس آیا اور آٹھ بجے پھر محل میں ولی عہد بہادر کے قصر میں گیا، اس لیے کہ ممدوح الشان نے مجھے اپنے ساتھ کھانا کھلانے کی عزت دی تھی۔ یہ ڈِنر بہت ہی شاندار اور اپنی قسم کا بالکل نیا تھا۔ ڈنر پر دونوں صاحبزادے، مسٹر دہلوی، برخوردار صدیق حسن اور دیگر معززین دربار ملا کے کل آٹھ آدمی تھے، گلاب میاں صاحب کے نہ شریک ہو سکنے کا سب کو افسوس تھا۔ کھانا لذیذ تھا، مگر بجائے اس کے کہ ہر ہرغذایکے بعد دیگرے لا کے پیش کردی جائے ہر شخص کے سامنے ایک نہایت ہی براق اور صاف پیتل کی تھالی تھیاور اسی میں چھوٹے برنجی ظروف میں انواع و اقسام کے الوان نعمت تھے، مگر کھانوں کی اس قدر کثرت تھی کہ یہ تھالیاں ان کے لیے کافی نہ ہو سکیں اور کئی غذائیں ان کے باہر لگا دی گئیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ طریقہ ہندو معاشرت کا نمونہ ہے، مگر میرے خیال میں ہندو معاشرت کے اندر اسلامی اور مغربی خوبیاں جس طرح اس ڈنر میں جمع کردی گئی تھیں شاید اور کسی ہندو دربار میں نہ نظر آ سکتی ہوں گی۔ بہرحال یہ ڈنر اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت دلچسپ تھا، کھانے کے بعد بھی کچھ دیر تک صحبت رہی اور اس کے بعد ہم دلکشا کے بنگلے میں واپس آئے۔
زمانہ قیام پالن پور میں وہاں کے اکثر معززین اور صاحب علم حضرات مجھ سے ملنے کو تشریف لائے اور میں ان سے مل کے بہت ہی خوش ہوا۔ بعض علمائے مہدویہ سے بھی گفتگو ہوئی اور میں نے ان کے عقائد اور نظام دینی کے متعلق بہت سی باتیں دریافت کیں۔ مہدوی حضرات حیدرآباد دکن میں بھی کثرت سے ہیں اور ان کے بعض اہل علم احباب سے وہاں مجھے اکثر ملنے اور لطف اٹھانے کا موقع ملا تھا، مگر حیدرآباد دکن میں مولوی محمد زمان صاحب کے واقعۂ شہادت نے عام اہل سنت اور مہدویوں میں تعصب بڑھا دیا ہے، جس کی بنیاد یہ ہوئی کہ نظام مرحوم میر محبوب علی خاں کے استاد مولوی مسیح الزمان خاں صاحب کے بھائی مولوی محمد زمان خاں صاحب نے مہدویوں کی تردید میں ایک کتاب لکھی تھی جس میں سید محمد جونپوری پر جا بجا سخت حملے تھے، مہدوی لوگ چونکہ علی العموم پٹھان اور سپاہی منش ہیں، انھیں نا گوار گزرا اور ایک مہدوی طالب علم نے طیش میں آکے انھیں مار ڈالا، جس پر سخت برہمی ہوئی اور گورنمنٹ نظام کو وہ ہنگامہ بڑی مشکلوں سے فرو کرنا پڑا اور قاتل پر حکم قصاص بڑی مشکل سے جاری ہو سکا۔ اس وقت سے وہاں سنیوں اور مہدویوں میں سخت اختلاف ہو گیا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو وحشت و مغائرت کی پرخطر نظر سے دیکھتے ہیں۔ مہدویوں نے بھی وہاں اپنے مذہبی تعلقات بالکل جدا کر لیے ہیں، مسجدیں جدا ہیں، امام و پیشوا جدا ہیں اور مہدویوں کے معابد وہاں عجیب عجیب نامعلوم اسرار سے مملو خیال کیے جاتے ہیں۔
پالن پور میں اس منافرت کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ مہدوی لوگ حنفیوں سے کسی فقہی مسئلے میں مخالف نہیں ہیں، فقہ حنفیہ پر پورا پورا عمل درآمد ہوتا ہے،سوا دو ایک جزئی مسئلوں کے، جیسے کہ امام کے پیچھےسورۂ فاتحہ پڑھنا، جس میں وہ محدثین سلف اور گروہ اہل حدیث کے موافق ہیں، جو کچھ زیادتی ہے وہ یہ ہے کہ سید محمد جونپوری کے ولی کامل اور سچے مہدی موعود ہونے کے قائل ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام میں جن “مہدی مِن آل محمد” کے آنے کی پیشین گوئی کی گئی ہے وہ پوری ہو چکی، حضرت سید محمد صاحب وہی مہدی موعود تھے جو ظاہر ہوکے اپنا کام پورا کر چکے اور اب کسی مہدی کا انتظار کرنا بے سود ہے۔ مہدویوں کا صرف ایک مسئلہ ہمیں اچھا نہیں معلوم ہوا، وہ یہ کہ ان کا اعتقاد ہے کہ جو شخص حضرت سید محمد صاحب کی مہدیت پر ایمان نہ رکھتا ہواس کے پیچھے فرض نمازیں نہیں ہو سکتیں،ہاں وہ نمازیں جو مسنون ہیں ادا ہو جاتی ہیں۔ پالن پور کے مہدوی جمعہ اور عیدین کی نمازوں کو سنت مانتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ دونوں نمازیں بلاتکلف حنفی امام کے پیچھے پڑھ لیتے ہیں، مگر پنج وقتہ مفروض نمازیں اس کے پیچھے نہیں پڑھ سکتے۔ ہمارے نزدیک علمائے مہدویہ اگر کوشش فرماکے اس تفریق کو دور کردیں اور پانچوں مفروض نمازیں بھی ایک دوسرے کے پیچھے ادا کرنے لگیں تو وہ چیز جو جماعت اسلام میں تفرقہ ڈالنے والی ہے دور ہو جائے اور حنفیوں اور مہدویوں میں ویسا ہی اتحاد ہوجائے جیسا کہ حنفیوں، شافعیوں یا مقلدوں اور غیر مقلدوں میں ہے۔
اسی سلسلے میں مولوی اشرف علی صاحب کی کتاب بہشتی زیور کا بھی ذکر آیا، جس کی نسبت ان دنوں اخبارات میں چرچا تھا کہ ریاست پالن پور نے اپنی قلمرو میں اس کی تعلیم جبراً رکوا دی ہے۔ بہشتی زیور کو میں خود بھی ناپسند کرتا ہوں اور اس قابل نہیں سمجھتا کہ تعلیم درکنار، وہ عورتوں کے ہاتھ میں بھی دی جائے مگر اس آزادی کے دور میں ایک ریاست کی طرف سے اس قسم کے احکام کو میں بھی قطعاً جائز نہیں رکھ سکتا تھا۔یہاں دریافت کرنے سے صورت واقعہ یہ معلوم ہوئی کہ پالن پور میں مہدویوں سے کچھ زائد تعداد حنفیوں کی ہے، جو کمال بے تعصبی کے ساتھ رہتے اور باہم خلوص و محبت سے ملتے جلتے ہیں۔ فی الحال ایک مولوی صاحب دیوبند سے تعلیم پاکے پالن پور میں تشریف لائے اور انھوں نے پالن پور کے حنفیوں میں اُس سچی اور بے داغ حنفیت کی تعلیم شروع کی جس کا مرکز دیوبند ہے۔ پرانے حنفیوں میں جو قبر پرستی اور شرک و بدعات کے دلدادہ ہیں، مخالفت کا جوش بڑھا اور حنفیوں کےدو گروہ ہوگئے، جن میں اختلاف اور رد و قدح یہاں تک بڑھا کہ فساد اور بلوے کا اندیشہ ہوااور بنائے مخاصمت زیادہ تر یہ جھگڑا قرار پا گیا کہ ان نئے مولوی صاحب کو بہشتی زیور کی تعلیم پر اصرار تھا اور مخالف حنفیوں کو اس سے قطعاً انکار۔ ایک ایسے مقام پر جہاں قانونِ اسلحہ نہیں ہے اور لوگ ہتھیار رکھ سکتے ہیں، اس جھگڑے کے نتیجے میں خوں ریزی کا اندیشہ تھا، یہ حالت دیکھ کے ریاست نے مصلحتاً یہ حکم دے دیا کہ چند روز کے لیے فی الحال بہشتی زیور کی تعلیم موقوف رکھی جائے۔
اگر غور سے دیکھیے تو ریاست ایسا حکم دینے پر مجبور تھی، مگر بہشتی زیور کے طرفداروں نے اپنی ناراضی صفحات اخبار میں شائع کرکے ریاست کو بد نام کرنا شروع کردیا اور اکثر ایڈیٹران اخبار جو اصل واقعات سے بے خبر تھے ان کے مؤید ہوگئے۔ رئیس پالن پور اور ان کے ارکان دولت عموماً مہدوی ہیں اور مہدویوں کو اس جھگڑے سے کوئی ذاتی تعلق نہیں، یہ دراصل حنفیوں کا اندرونی جھگڑا ہے، جس کو واعظین بڑھا کے اکثر جگہ عام مسلمانوں کے امن و امان میں خلل ڈال دیا کرتے ہیں۔ فرنگی محل کے علما نے بھی بہشتی زیور کے خلاف فتوے دیے ہیں، اگرچہ ان کا یہ فعل بھی ہمیں پسند نہ آیا اور ہم اسے نہایت ہی مشتبہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں، مگر اس سے پالن پور کی گورنمنٹ کو اپنی قدیم حنفی رعایا کی خواہش کے مطابق اس کے روکنے کے جواز کا فتویٰ بھی مل گیا۔
مہدویوں میں فقہ حنفیہ کے ساتھ تصوف کی تعلیم اور قبر پرستی کا بہت رواج ہے اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہماری تعلیم خالص روحانی تعلیم ہے، ہم کلامی استدلال سے نہیں بلکہ روحانی اثر سے مسلمانوں کو عقائد اسلامیہ کی حقیت باور کراتے ہیں۔ ان میں مذہبی تبلیغ و تلقین کے لیے جابجا متعدد “دائرے” قائم ہیں اور وہی ان کی مذہبی تعلیم کے مرکز ہیں۔ میں نے موجودہ حالات میں جہاں تک غور کیا ان دائروں کو بہت کمزور حالت میں پایا، اگرچہ بعض دائروں کے معلم و مرشد نہایت ہی نیک نفس اور پاک باطن بزرگ ہیں،مگر دائرے کاسسٹم جن اصول پر قائم کیا گیا تھا ان میں تبلیغ و تلقین کے ساتھ انتظامی کانسٹی ٹیوشن کی بھی ضرورت ہے جو بالکل مفقود ہے۔ اگر ان دائروں کی حالت درست ہو جائے اور جو نظام ان کے ذریعہ سے جاری کرنا مقصود تھا وہ زندہ کر دیا جائے تو مہدویت روحانیت اور تعلیم باطن کا سب سے اعلی آلہ بن جائے۔
مجھےعید الاضحیٰ پالن پور میں ہوئی۔ اگرچہ یہاں کے مسلمانوں میں دینی سرگرمی کم ہے مگر عید بہت ہی اچھی اور شاندار ہوتی ہے اور قومی وقار کا ایک اچھا نمونہ نظر آجاتا ہے۔ میں نےجن اسلامی شہروں کو دیکھا ان سب سے یہاں کی عید مجھے زیادہ با رونق نظر آئی۔ ولی عہد بہادر نے براہ کرم موٹر بھیج دی تھی، جس پر بیٹھ کے میں عید گاہ میں گیا، ایوان ریاست راستے میں تھا جہاں سے گزرتے وقت میں نے حضور نواب صاحب کو محل کے کوٹھے پر نمودار دیکھا، آداب بجا لایا اور جلوس کو جو جمع ہو رہا تھا دیکھتا ہوا عید گاہ پہنچا۔ وہاں شہر کے تمام مہدوی اور حنفی جمع تھےاور اچھا مجمع تھا، تھوڑی دیر کے بعد طبل و قرنا کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ حضور نواب صاحب کی سواری آ گئی۔ عَلَم ریاست لاکے منبر کے دونوں جانب کھڑے کردیے گئے، یہ اُس سنت قدیم کی پیروی تھی جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں رواج تھا، یعنی شہر کے باہر میدان میں جا کے نیزہ گاڑ دیا جاتا۔ خود نواب صاحب اور محتشم الیہ کے دونوں جوان بخت فرزنداندر آئے اور حضور نے بکمال مرحمت مجھے بھی آگے بڑھا کے اپنے قریب کر لیا۔
جب نواب صاحب کو معلوم ہو گیا کہ جلوس کے تمام مسلمان ہمراہی عیدگاہ میں آ کے بیٹھ گئے تو شہر کی جامع مسجد کے حنفی امام نے نماز پڑھائی اور بعد فراغ نماز امام صاحب منبر پر کھڑے ہوکے اور جریب ہاتھ میں لے کے خطبہ پڑھنے لگے۔ اس وقت ریاست کےدو چوبدار ان کے داہنے بائیں جانب کھڑے ہوگئے اور خطبہ کے درمیان ہی ایک چوبدار نے ان کے سر پر پگڑی باندھی، جو ہر سال ریاست کی جانب سےعطا ہوا کرتی ہے۔ بعد نماز سب لوگ حسب معمول ملنے لگے، میں فوراً اٹھ کے باہر آیا اور موٹر پر سوار ہو کے واپس روانہ ہوا، مگر راستے میں ایک جگہ ٹھہر کے ارادہ کیا کہ حضور کی سواری اور جلوس کی پوری شان دیکھ لوں تو باغ دل کشا کی راہ لوں۔
اب اس وقت سلامی کی تو پیں چل رہی تھیں اور باجا بج رہا تھا، تھوڑی دیر میں جلوس آپہنچا، اونٹوں پر نقارے اور علم وغیرہ تھے، ان کے بعد باجے اور ریاست کی مختصر فوج تھی، اس کے بعد خود حضور مع صاحب زادوں اور دہلوی صاحب کے فٹن پر سوار تھے۔ ہمیشہ حضور گھوڑے پر سوار ہوا کرتے تھے، مگر اب کی ناتوانی و ضعف کی مجبوری سے گاڑی پر سوار ہو کے عیدگاہ تشریف لے گئے۔ جیسے ہی حضور کی گاڑی میرے قریب سے گزری، میں جھک کے آداب بجا لایا اور نواب صاحب نےہنس کے فرمایا: آپ یہاں کہاں؟ عرض کیا حضور کا جلوس دیکھنے کے لیے کھڑا ہو رہا۔ اس جواب پر خوش ہوئے اور سواری آگے بڑھ گئی۔
حضور کے پیچھے منصب داروں اور نظم جمعیت والوں کا ایک بڑا گروہ تھا، وہ سب گھوڑوں پر تھے، ان کے گزر جانے کے بعد میں روانہ ہوکے اپنی فرودگاہ میں آیا اور عید کے منظر کی دلچسپیوں سے دل ہی دل میں لطف اٹھاتا رہا۔ ان پرانی وضعوں کے نباہنے والے رئیسوں سے ہندوستان خالی ہوتا جاتا ہے، عید کے دن پر عظمت جلوس اور شان و شکوہ سے نکلنا مسلمان رعایا کے لیے ایک بہت ہی دلچسپ نظارہ ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اس سے قدامت کی پر لطف یاد تازہ ہوجاتی ہے، بڑا فائدہ یہ ہے کہ دلوں میں حاکم کی قدربڑھتی ہے اور قومی بندشیں مضبوط ہوتی رہتی ہیں؛ مگر عہد جدید کے ہندوستانی رئیسوں کو اس کی مطلق پروا نہیں۔ میرے نزدیک رئیس پالن پور کے رعایا میں ہر دل عزیز ہونے کی زیادہ وجہ یہ ہے کہ ان قدیم رسمو ں کا وہ بہت لحاظ کرتے ہیں اور ایسے شاندار جلوس کے ساتھ برآمد ہوتے وقت راستے میں ہر طبقے کے لوگوں سے بخندہ پیشانی ملتے اور مختلف حیثیتوں کے لوگوں سے ان کے رتبے اور درجے کے مطابق صاحب سلامت اور مزاج پرسی فرماتے ہیں، جس سے لوگوں کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔
اس کے بعد اور دو روز کے لیے میں حضور کے اصرار سے ٹھہر گیا اور صاحبزادے صاحبوں خصوصاً ولی عہد بہادر کی عنایت و توجہ سے بہت لطف اٹھایا۔ انھوں نے صاحب پولٹیکل ایجنٹ سے ملایا، جو خلیق اور ملنسار آدمی ہیں۔ کلب میں اتفاق سے اسی زمانہ میں ٹورنامنٹ تھا اور بڑی ہی مستعدی سے ٹینس وغیرہ کے کھیل ہو رہے تھے، جن کو میں نے گھنٹوں بیٹھ کے دیکھا۔ حضور ولی عہد بہادر بڑے روشن خیال رئیس ہیں اور یہ امر غور کے قابل ہے کہ انھوں نے اگرچہ اپنے گھر میں بالکل پرائیوٹ تعلیم پائی ہے، مگر بیدار مغزی اور اخلاقی خوبیوں میں ان تمام رئیسوں اور رئیس زادوں سے بدرجہا زیادہ بڑھے ہوئے ہیں جنھوں نے اجمیر کے چیفس کالج میں تعلیم پائی ہے۔
میری آخری رخصتی ملاقات حضور نواب صاحب بہادر سے بہت ہی دلچسپ تھی۔ حضور نے نہایت ہی شگفتگی کے ساتھ رخصت کیا، کھڑے ہوگئے، اپنے کوچ سے دو قدم آگے بڑھ آئے، ہاتھ ملایا اور کچھ ایسے محبت بھرے الفاظ ارشاد فرمائےکہ میں دل میں ان کی محبت و مرحمت کا نہایت ہی گہرا اثر لے کے آیا ہوں اور زندگی بھر شکر گزار اور رہین منت رہوں گا اور حضور سے زیادہ امید فلاح و بہبودی مجھے نواب زادہ طالع محمد خاں صاحب سے ہے جواپنی قابلیت اور بیدار مغزی سے پالن پور کے لیے آئندہ ایک بڑی برکت اور نعمت الٰہی ثابت ہونے والے ہیں۔
جہاں تک مجھے پتہ لگا ہے، ان کے عادات و اطوار نہایت اچھے اور پاکیزہ ہیں۔ مے کشی، عیاشی، کاہلی اور بے پروائی جن آفتوں میں اکثر دولت مند ان وطن مبتلا نظر آتے ہیں، ان سے خدا نے انھیں بالکل الگ اور آج تک ان کے دامن کو پاک و صاف رکھا ہے۔ انھیں ریاست کے انتظامی مشاغل سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ ان اخلاق کُش باتوں میں مبتلا ہوں اور عمر اتنی پختگی کو پہنچ گئی ہے کہ آئندہ بھی ان کے چال چلن پر کسی مضر اثر کے پڑنے کا بہت ہی کم اندیشہ ہو سکتا ہے۔
پالن پور کے موجودہ عہدہ داروں میں مسٹر دہلوی بہت ہی خلیق اور غیر معمولی قابلیت کےبزرگ ہیں۔ وہ ایک مدت تک سندھ میں رہے ہیں، جس ملک کے حالات میں وہاں کی تاریخ لکھنے کے باعث مجھے بہت لطف آتا ہے۔ مسٹردہلوی سے مجھے انگریزی میں حالات سندھ کے متعلق چند ایسی سرکاری رپورٹیں مل گئیں جن سے اُس سرزمین کے تمام حالات آئینہ ہو جاتے ہیں، جس کی بابت میں ان کا نہایت ہی شکر گزار ہوں۔
اور اسی طرح بندۂ احسان شبیر میاں صاحب کا ہوں جنھوں نے میرے زمانۂ قیام پالن پور کو ایک نہایت مسرت بخش خواب بنا دیا جو ہمیشہ یاد آئے گا اور مزہ دے گا۔ شبیر میاں صاحب کی یادگار میرے پاس ایک تاریخ گجرات بھی ہے جس سے مجھے علمی ضرورتوں میں وقتاً فوقتاً مدد ملتی رہے گی اور ہمیشہ ان کا شکر گزار رہوں گا، مگر سب سے زیادہ برکت یہ گلاب میاں صاحب کی قدیم محبت و مرحمت کی ہے، جس کی کشش مجھے اراولی کے دامن میں کھینچ لے گئی، ورنہ کہاں میں اور کہاں وہ مینو سواد سرزمین؟
[1]۔ جن دنوں موسیٰ بن نصیر، ولید بن عبدالملک کی خلافت کے زمانے میں یہاں پہنچے ہیں، ان دنوں شہر سبتہ پر جولین نام ایک شخص شاہ اسپین رزریق کی طرف سے حکومت کرتا تھا اور چونکہ ان دنوں معمول تھا کہ دربار داری کے آئین و قوانین سکھانے کے لیے اکثر امرا و عہدہ داراپنی بیٹیوں کو خاص بادشاہ کے حرم (گذشتہ سے پیوستہ) میں بھیج دیا کرتے تھے، لہذا جولین کی بیٹی بھی دار السلطنت طلیطلہ (ٹالڈو) میں خاص رزریق کے محل میں رہتی تھی۔ بادشاہ کو چاہیے تھا کہ حسب اصول مروجہ جولین کی بیٹی پر شفقت پدرانہ ظاہر کرتا، مگر اس نے الٹے لڑکی کی آبروریزی کی اور بہ جبر بے عصمت کر ڈالا۔ لڑکی اس ذلت کے بعد بھاگ کے اپنے باپ کے پاس آئی اور جولین نے غضب آلود ہوکے موسی بن نصیر سے اتفاق کیا اور مسلمانوں کے جنرلوں کو ساتھ لے کے چڑھ دوڑا۔